تاریخِ انسانیت کا فکری سفر ہمیشہ سوالات سے عبارت رہا ہے۔ یہ سوالات کائنات کی حقیقت، انسان کی حیثیت، علم کی بنیاد، اور اخلاق کے سرچشمے جیسے موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب قرونِ وسطیٰ میں مذہبی اقتدار اور روایت نے عقل کو محدود کر دیا، تو یورپ میں ایک فکری بغاوت نے جنم لیا جسے ہم جدید دور یا عہدِ روشن خیالی (Enlightenment) کا آغاز کہتے ہیں۔ اسی تحریک نے جدید سائنسی اور فکری دنیا کی بنیاد رکھی، جو محض ایک سائنسی انقلاب نہ تھا، بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ انقلاب بھی تھا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس جدید دنیا کی فکری عمارت کن بنیادی فلسفیانہ اصولوں پر قائم ہوئی۔
1. عقلیت (Rationalism): "میں سوچتا ہوں، پس میں ہوں"
2. تجربیت (Empiricism): علم کا سرچشمہ تجربہ ہے
3. علت و معلول کا اصول (Causality): ہر چیز کی ایک وجہ ہے
4. انسانی مرکزیت (Humanism): انسان بطور مرکز
5. میکانیکی کائنات (Mechanical Universe): فطرت ایک قابلِ فہم نظام
6. مذہب سے تنقیدی فاصلہ (Secular Critique): ایمان کی ذاتی حدود
7. علم کا ادارہ جاتی نظم: سائنس بطور ادارہ
8. تغیر اور ارتقاء کا نظریہ: تبدیلی ایک قانون ہے
جدید فکر کی روح
لیکن!
قرآنی نقطہ نظر
جدید مغربی فلسفہ نے جب عقل کو رہنما اور انسان کو مرکز قرار دیا، تو اس نے ایک فکری انقلاب برپا کیا۔ انسان کو تقدیر، روایت اور مذہبی اختیار سے آزاد کر کے، خودمختاری (Autonomy) کا تاج پہنایا گیا۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے:
کیا انسان واقعی مطلق آزاد ہے؟ کیا وہ خود قانون ساز ہے؟ یا پھر وہ بھی ایک ایسی مخلوق ہے، جسے فطرت نے نہیں، بلکہ خالقِ مطلق نے ایک حکمت کے تحت تخلیق کیا؟
یہیں سے وہ فکری خط شروع ہوتا ہے جہاں قرآنی تصورِ انسان اور جدید فلسفہ ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہیں — اور کہیں ہم آہنگ، اور کہیں متقابل نظر آتے ہیں۔
1. انسان کی مرکزیت: مغرب اور قرآن میں
جدید فلسفہ کہتا ہے:
"انسان کائنات کا مرکز ہے۔ تمام علم، قدر اور سچائی کی کسوٹی انسان ہے۔"
قرآن بھی انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتا ہے:
"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ"
(بنی آدم کو ہم نے عزت دی - سورۃ الإسراء:70)
اور فرمایا:
"وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا"
(اللہ نے آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام سکھائے - سورۃ البقرۃ:31)
یہ وہ مقام ہے جہاں علم، عقل، اور شعور کے باعث انسان کو فرشتوں پر فوقیت دی گئی۔
گویا قرآن بھی انسانی شعور، عقل اور عزت کو مرکزیت دیتا ہے — مگر ساتھ ہی ایک بنیادی شرط عائد کرتا ہے:
2. تسخیرِ کائنات اور تسلیمِ رب: فکری توازن
قرآن کہتا ہے:
"وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ"
(آسمان و زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کی گئیں - سورۃ الجاثیہ:13)
مگر ساتھ ہی انسان سے کہا:
"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"
(میں نے جن و انس کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا - سورۃ الذاریات:56)
یہاں باریک مگر فیصلہ کن فرق سامنے آتا ہے:
🔸 مغربی فلسفہ: "انسان خالقِ معنویت ہے"
🔸 قرآن: "انسان عبدِ خالق ہے"
یعنی قرآن کے مطابق انسان کو علم و شعور ضرور دیا گیا، مگر اس شعور کا مقصد عبودیت ہے، الوہیت نہیں۔
انسان کائنات پر غالب آ سکتا ہے، مگر اپنے نفس پر فتح کے بغیر، وہ آزاد نہیں بلکہ غلامِ خواہشات ہے۔
3. خودمختاری یا جوابدہی؟
جدید فلسفہ انسان کو خودمختار (Autonomous) مانتا ہے — یعنی وہ اپنی زندگی کے تمام فیصلے کسی ماورائی اصول کے بغیر خود کرے۔
جبکہ قرآن کہتا ہے:
"أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا"
(کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا؟ - سورۃ المؤمنون:115)
یہی وہ لمحہ ہے جہاں قرآن خودمختاری کو ذمہ داری سے مشروط کرتا ہے۔
انسان کو عقل دی گئی، مگر وہ امانت ہے؛
اختیار دیا گیا، مگر وہ امتحان ہے؛
مرکزیت دی گئی، مگر وہ عبودیت کے دائرے میں ہے۔
4. اگر جدید فلسفہ عبودیت کو تسلیم کر لے…
اگر جدید فلسفہ یہ مان لے کہ:
"انسان کائنات کا مرکز تو ہے، مگر وہ خود مرکزِ حقیقت نہیں، بلکہ ایک عبد ہے — جسے خالق نے شعور، آزادی اور ذمہ داری کے ساتھ پیدا کیا ہے۔"
تو یوں قرآنی تصورِ انسان اور عقلیت و تجربیت پر مبنی جدید فکر میں حیرت انگیز ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔
ایسا انسان جو سائنسی تجربہ ومشاہدہ بھی کرتا ہے، تحقیق بھی، ایجاد بھی، مگر ساتھ ہی اپنے رب کے سامنے جھکنے والا بھی ہے۔
5. عبودیت، مرکزیت سے متصادم نہیں — بلکہ مکمل ہے
قرآن انسان کو نہ کمتر بناتا ہے، نہ مقدس دیوتا۔
بلکہ وہ کہتا ہے:
"انسان نہ صرف فاعلِ علم ہے، بلکہ عبدِ حکیم بھی ہے۔"
یہی فکری توازن وہ نکتہ ہے جس کی روشنی میں ہمیں جدید فلسفہ کا تنقیدی مطالعہ کرنا چاہیے۔
حاصل کلام
مغربی فلسفہ نے اگر انسان کو خدا سے آزاد کر کے عقل کا تاج پہنا دیا،
تو قرآن نے انسان کو عبد بنا کر علم، شرف اور مقام عطا کیا۔
یہی وہ فرق ہے جہاں جدید فکر اور قرآن ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں —
اور اگر یہ مکالمہ تکبر کے بجائے حکمت اور تدبر پر ہو،
تو یہ نہ صرف فکری ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے،
بلکہ انسان کو اپنے اصل مقام سے روشناس بھی کرا سکتا ہے۔