جدید سائنسی و فکری دنیا کی فلسفیانہ بنیادیں اور قرآنی نقطہ نظر

تاریخِ انسانیت کا فکری سفر ہمیشہ سوالات سے عبارت رہا ہے۔ یہ سوالات کائنات کی حقیقت، انسان کی حیثیت، علم کی بنیاد، اور اخلاق کے سرچشمے جیسے موضوعات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب قرونِ وسطیٰ میں مذہبی اقتدار اور روایت نے عقل کو محدود کر دیا، تو یورپ میں ایک فکری بغاوت نے جنم لیا جسے ہم جدید دور یا عہدِ روشن خیالی (Enlightenment) کا آغاز کہتے ہیں۔ اسی تحریک نے جدید سائنسی اور فکری دنیا کی بنیاد رکھی، جو محض ایک سائنسی انقلاب نہ تھا، بلکہ ایک گہرا فلسفیانہ انقلاب بھی تھا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اس جدید دنیا کی فکری عمارت کن بنیادی فلسفیانہ اصولوں پر قائم ہوئی۔

1. عقلیت (Rationalism): "میں سوچتا ہوں، پس میں ہوں"

جدید فکر کا پہلا ستون عقل کی خودمختاری ہے۔
رینے دکارٹ نے "میں سوچتا ہوں، پس میں ہوں" (Cogito ergo sum) کہہ کر یہ اعلان کیا کہ انسان کی ذات کا پہلا ناقابلِ انکار سچ اس کی شعوری عقل ہے۔
اس سے قبل علم کا ماخذ مذہب یا روایت تھی، اب عقل کو نہ صرف جوازِ علم بلکہ جوازِ وجود کے طور پر بھی مانا جانے لگا۔

2. تجربیت (Empiricism): علم کا سرچشمہ تجربہ ہے

جب عقل کا دروازہ کھلا، تو تجربہ اس کے دائیں ہاتھ کی مانند بن گیا۔
فرانسس بیکن، جان لاک اور ڈیوڈ ہیوم نے علم کو صرف وہی مانا جو مشاہدہ، حواس، اور تجربے سے حاصل ہو۔
یہیں سے سائنس کی تجرباتی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد دنیا کو جانچنے، ناپنے اور ثابت کرنے کے قابل بنانا تھا۔

3. علت و معلول کا اصول (Causality): ہر چیز کی ایک وجہ ہے

نیوٹن کے سائنسی نظریات نے "کائنات ایک مشین ہے" کا تصور دیا — ایک ایسی مشین جو قوانینِ فطرت کے تحت چلتی ہے۔
یہاں علت و معلول کا اصول اہمیت اختیار کرتا ہے، جس کے مطابق ہر مظہر کے پیچھے کوئی قابلِ دریافت سبب ہوتا ہے۔
یہی اصول جدید سائنسی تحقیق کی بنیاد بن گیا۔

4. انسانی مرکزیت (Humanism): انسان بطور مرکز

رینیسانس اور جدید فلسفہ نے انسان کو کائناتی مرکز میں رکھ دیا۔
اب انسان ایک بااختیار، خودمختار، اور باشعور مخلوق تھا، جو نہ صرف حقیقت کو سمجھتا ہے بلکہ اس کو معنی بھی دیتا ہے۔
یہی تصور جدید انسانی حقوق، جمہوریت، اور اخلاقیات کی بنیاد بنا۔

5. میکانیکی کائنات (Mechanical Universe): فطرت ایک قابلِ فہم نظام

نیوٹن کے قوانین نے دنیا کو ایک مربوط، منطقی، اور ریاضیاتی اصولوں پر قائم کائنات کے طور پر پیش کیا۔
یہ تصور تقدیر، معجزات، یا غیبی مداخلت کی جگہ تحقیق، پیمائش اور پیش گوئی کو دیتا ہے۔
جدید سائنس اسی نظریے پر کھڑی ہے۔

6. مذہب سے تنقیدی فاصلہ (Secular Critique): ایمان کی ذاتی حدود

کانٹ، مارکس، فیورباخ اور نطشے جیسے مفکرین نے مذہب کو عقلی تنقید کے دائرے میں لایا۔
اب مذہب ایک ذاتی شعور، نفسیاتی کیفیت یا سماجی تشکیل کے طور پر زیرِ بحث آیا۔
سائنس نے مذہبی بیانیوں کی جگہ تجرباتی سچائیوں کو معیار بنایا۔

7. علم کا ادارہ جاتی نظم: سائنس بطور ادارہ

اوگست کومٹ کے مثبتیت (Positivism) کے تحت علم کو صرف وہی مانا گیا جو تجرباتی اور قابلِ پیمائش ہو۔
اس سے یونیورسٹیز، تحقیقی ادارے، لیبارٹریز اور دیگر سائنسی ادارے وجود میں آئے، جنہوں نے علم کو ایک منظم اور سائنسی ڈھانچے میں ڈھالا۔

8. تغیر اور ارتقاء کا نظریہ: تبدیلی ایک قانون ہے

چارلس ڈارون نے حیاتیاتی دنیا میں ارتقاء کا نظریہ پیش کیا، اور مارکس نے سماجی ارتقاء کا۔
اسی طرح ہیگل اور نطشے نے دنیا کو ایک مسلسل تغیر پذیر عمل سمجھا۔
یہ تصور آج بھی سماجی، سائنسی اور سیاسی افکار کا جزوِ لاینفک ہے۔

جدید فکر کی روح

جدید سائنسی و فکری دنیا کا ہر گوشہ — خواہ وہ طبیعیات ہو، عمرانیات ہو، اخلاقیات یا سیاست — ایک عقلی، تجربی، اور انسانی مرکزیت پر مبنی فکری نظام پر قائم ہے۔
یہ دنیا ماضی کی روایتوں سے ناتا توڑ کر آگے بڑھی، مگر یہ نیا راستہ خود بھی ایک نئے ماورائی وژن کا متقاضی ہے — جہاں انسان عقل کے ساتھ معنویت کا بھی متلاشی ہو۔

لیکن!

یہ جاننا اہم ہے کہ جدید دنیا نے جو کچھ پایا وہ قدیم دنیا کے سوالات، تضادات اور جستجو کا تسلسل تھا۔
یونانی عقل، اسلامی دانش، اور یورپی بیداری — سب اس فکری سفر کا حصہ ہیں، جو انسانی شعور کی تلاشِ حقیقت کا سفر ہے۔


قرآنی نقطہ نظر 

جدید مغربی فلسفہ نے جب عقل کو رہنما اور انسان کو مرکز قرار دیا، تو اس نے ایک فکری انقلاب برپا کیا۔ انسان کو تقدیر، روایت اور مذہبی اختیار سے آزاد کر کے، خودمختاری (Autonomy) کا تاج پہنایا گیا۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے:
کیا انسان واقعی مطلق آزاد ہے؟ کیا وہ خود قانون ساز ہے؟ یا پھر وہ بھی ایک ایسی مخلوق ہے، جسے فطرت نے نہیں، بلکہ خالقِ مطلق نے ایک حکمت کے تحت تخلیق کیا؟

یہیں سے وہ فکری خط شروع ہوتا ہے جہاں قرآنی تصورِ انسان اور جدید فلسفہ ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہیں — اور کہیں ہم آہنگ، اور کہیں متقابل نظر آتے ہیں۔

1. انسان کی مرکزیت: مغرب اور قرآن میں

جدید فلسفہ کہتا ہے:

"انسان کائنات کا مرکز ہے۔ تمام علم، قدر اور سچائی کی کسوٹی انسان ہے۔"

قرآن بھی انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتا ہے:

"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ"
(بنی آدم کو ہم نے عزت دی - سورۃ الإسراء:70)

اور فرمایا:

"وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا"
(اللہ نے آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام سکھائے - سورۃ البقرۃ:31)

یہ وہ مقام ہے جہاں علم، عقل، اور شعور کے باعث انسان کو فرشتوں پر فوقیت دی گئی۔
گویا قرآن بھی انسانی شعور، عقل اور عزت کو مرکزیت دیتا ہے — مگر ساتھ ہی ایک بنیادی شرط عائد کرتا ہے:

2. تسخیرِ کائنات اور تسلیمِ رب: فکری توازن

قرآن کہتا ہے:

"وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ"
(آسمان و زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کی گئیں - سورۃ الجاثیہ:13)

مگر ساتھ ہی انسان سے کہا:

"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"
(میں نے جن و انس کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا - سورۃ الذاریات:56)

یہاں باریک مگر فیصلہ کن فرق سامنے آتا ہے:

🔸 مغربی فلسفہ: "انسان خالقِ معنویت ہے"
🔸 قرآن: "انسان عبدِ خالق ہے"

یعنی قرآن کے مطابق انسان کو علم و شعور ضرور دیا گیا، مگر اس شعور کا مقصد عبودیت ہے، الوہیت نہیں۔
انسان کائنات پر غالب آ سکتا ہے، مگر اپنے نفس پر فتح کے بغیر، وہ آزاد نہیں بلکہ غلامِ خواہشات ہے۔

3. خودمختاری یا جوابدہی؟

جدید فلسفہ انسان کو خودمختار (Autonomous) مانتا ہے — یعنی وہ اپنی زندگی کے تمام فیصلے کسی ماورائی اصول کے بغیر خود کرے۔
جبکہ قرآن کہتا ہے:

"أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا"
(کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا؟ - سورۃ المؤمنون:115)

یہی وہ لمحہ ہے جہاں قرآن خودمختاری کو ذمہ داری سے مشروط کرتا ہے۔
انسان کو عقل دی گئی، مگر وہ امانت ہے؛
اختیار دیا گیا، مگر وہ امتحان ہے؛
مرکزیت دی گئی، مگر وہ عبودیت کے دائرے میں ہے۔

4. اگر جدید فلسفہ عبودیت کو تسلیم کر لے…

اگر جدید فلسفہ یہ مان لے کہ:

"انسان کائنات کا مرکز تو ہے، مگر وہ خود مرکزِ حقیقت نہیں، بلکہ ایک عبد ہے — جسے خالق نے شعور، آزادی اور ذمہ داری کے ساتھ پیدا کیا ہے۔"

تو یوں قرآنی تصورِ انسان اور عقلیت و تجربیت پر مبنی جدید فکر میں حیرت انگیز ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے۔
ایسا انسان جو سائنسی تجربہ ومشاہدہ بھی کرتا ہے، تحقیق بھی، ایجاد بھی، مگر ساتھ ہی اپنے رب کے سامنے جھکنے والا بھی ہے۔

5. عبودیت، مرکزیت سے متصادم نہیں — بلکہ مکمل ہے

قرآن انسان کو نہ کمتر بناتا ہے، نہ مقدس دیوتا۔
بلکہ وہ کہتا ہے:

"انسان نہ صرف فاعلِ علم ہے، بلکہ عبدِ حکیم بھی ہے۔"

یہی فکری توازن وہ نکتہ ہے جس کی روشنی میں ہمیں جدید فلسفہ کا تنقیدی مطالعہ کرنا چاہیے۔

حاصل کلام 

مغربی فلسفہ نے اگر انسان کو خدا سے آزاد کر کے عقل کا تاج پہنا دیا،
تو قرآن نے انسان کو عبد بنا کر علم، شرف اور مقام عطا کیا۔
یہی وہ فرق ہے جہاں جدید فکر اور قرآن ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں —
اور اگر یہ مکالمہ تکبر کے بجائے حکمت اور تدبر پر ہو،
تو یہ نہ صرف فکری ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے،
بلکہ انسان کو اپنے اصل مقام سے روشناس بھی کرا سکتا ہے۔