مسئلہ فلسطین محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ ایک کثیرالجہتی، پیچیدہ اور تاریخی سانحہ ہے جو گزشتہ ایک صدی سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا محور بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کی کئی جہتیں (ڈائنامکس) ہیں ان کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے تاریخی پس منظر، زمینی حقائق، عالمی سیاست، اور حالیہ پیش رفتوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ آج جب دنیا ایک نئی عالمی صف بندی کی طرف بڑھ رہی ہے، مسئلہ فلسطین کے ڈائنامکس بھی نئے رخ اختیار کر رہے ہیں۔
تاریخی تناظر: نوآبادیاتی سازش کا تسلسل
مسئلہ فلسطین کی بنیاد 1917ء کے اعلانِ بالفور اور پھر 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ رکھی گئی۔ برطانوی سامراج کی سرپرستی میں یہودی آبادکاری کے لیے فلسطینی سرزمین پر ظلم کی ایک منظم داستان رقم کی گئی۔ فلسطینیوں کی زمینیں، گھر، ثقافت اور وجود ایک منظم منصوبے کے تحت چھینے گئے۔ اس عمل نے صرف ایک ریاست کو جنم نہیں دیا، بلکہ مشرق وسطیٰ میں دائمی کشمکش کا بیج بویا۔
جغرافیائی اور اسٹریٹیجک ڈائنامکس
فلسطین محض ایک قوم یا زمین کا نام نہیں، بلکہ یہ خطہ بحیرہ روم، مصر، اردن، لبنان اور شام جیسے اہم ممالک کے سنگم پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیے ہوئے ہے۔
غزہ اور مغربی کنارے کی تقسیم، یہودی بستیوں کی مسلسل توسیع، القدس کی حیثیت کو بدلنے کی کوششیں — یہ سب جغرافیائی اور سیاسی ڈائنامکس کا حصہ ہیں جو زمین پر قبضے اور حقِ خود ارادیت کے درمیان جنگ کو مسلسل بڑھا رہے ہیں۔
عالمی سیاست اور طاقت کا توازن
مسئلہ فلسطین کے عالمی ڈائنامکس میں سب سے اہم کردار امریکہ کا ہے، جو اسرائیل کا سب سے بڑا حامی اور سرپرست ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی نظام انصاف سے زیادہ مفادات کے تابع ہے۔
دوسری طرف، یورپی ممالک کی مجرمانہ خاموشی، اور بعض عرب ریاستوں کی اسرائیل سے بڑھتی ہوئی قربت نے فلسطینی موقف کو عالمی سطح پر مزید تنہا کر دیا ہے۔ "ابراہام معاہدے" جیسے اقدامات خطے کی سیاسی ڈائنامکس کو یکسر بدل رہے ہیں۔
مسلم دنیا کا کردار: بے بسی یا بے حسی؟
عرب لیگ ہو یا او آئی سی، مسلم دنیا کی سیاسی قیادتیں طویل عرصے سے صرف قراردادوں اور بیانات تک محدود رہی ہیں۔ چند ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، کچھ خاموش رہے، اور کچھ صرف دعاؤں پر اکتفا کرتے رہے۔ مسئلہ فلسطین اب مسلم اُمہ کے ضمیر کا آئینہ بن چکا ہے — جہاں کہیں ہلچل ہوتی ہے، وہاں ایک نئی حقیقت بے نقاب ہوتی ہے: امت کی فکری، سیاسی اور عملی کمزوری۔
موجودہ صورتحال: تحریکِ مزاحمت کی نئی شکل
اکتوبر 2023ء میں حماس کی جوابی کارروائی اور اسرائیلی حملے نے فلسطینی تحریک مزاحمت کے نئے چہرے کو دنیا کے سامنے رکھا۔ اس جنگ نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا، اور مغرب کے دوہرے معیار کو بے نقاب کیا۔ دنیا بھر میں مظاہرے، سوشل میڈیا پر عوامی بیداری، اور انسانی حقوق کے اداروں کے جزوی بیانات — یہ سب بتا رہے ہیں کہ بیانیے کی جنگ میں اب فلسطین اکیلا نہیں رہا۔
میڈیا، سوشل نیٹ ورکس اور بیانیے کی جنگ
مسئلہ فلسطین کے حالیہ ڈائنامکس میں سوشل میڈیا اور غیر روایتی ذرائع ابلاغ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ڈیجیٹل جہاد نے ان مظالم کو دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا ہے جو ماضی میں چھپائے جاتے تھے۔ فلسطینی صحافیوں، نوجوانوں اور عام شہریوں کی ویڈیوز، لائیو اپڈیٹس، اور شہادتوں کے مناظر نے ایک عالمی ضمیر کو بیدار کیا ہے — جسے روایتی میڈیا چھپاتا رہا۔