قرآن کی تعبیر: ایک خواب جو حقیقت بن گیا

مجھے یاد ہے، وہ ایک خاموش رات تھی۔ ستارے جیسے کسی نئی امید کے گواہ بنے آسمان پر چھائے تھے۔ میں نے ایک دعا کی تھی — "یا رب! مجھے وہ دنیا دکھا جو قرآن کی تعبیر ہو، جو تیرے وعدے کی حقیقت ہو۔"

پھر جیسے وقت ٹھہر گیا۔ میں نہ سو رہا تھا، نہ جاگ رہا تھا۔ میں بس… دیکھ رہا تھا۔

آنکھ کھلی تو میں ایک نئے شہر میں تھا — نہ وہ مشرق تھا، نہ مغرب۔ وہ ایک نیا افق تھا، جہاں اذان کی صدا ہواؤں میں گھلی ہوئی تھی، اور قرآن کی آیات دیواروں پہ نہیں، دلوں پر کندہ تھیں۔

میں نے پہلا منظر دیکھا:
ایک چھوٹا بچہ، جو بظاہر سات سال کا تھا، رُوٹی توڑتے ہوئے اپنے ہم جماعت کو کہہ رہا تھا:
"تم جانتے ہو؟ آج کی کلاس میں ہم نے سیکھا کہ قرآن صرف عبادات کا نہیں، معیشت، سائنس، سماج، اور محبت کا بھی دستور ہے۔"

پھر میں نے دیکھا — سرحدیں مٹ چکی تھیں۔
قازقستان سے قاہرہ، استنبول سے انڈونیشیا، بغداد سے نائیجیریا — ہر چہرہ ایک ہی شناخت کا آئینہ تھا: "امت واحدہ"

مسلمانوں کی ایک مرکزی کرنسی "درھم" دنیا کی سب سے طاقتور کرنسی تھی۔
"مجلس الامم الاسلامیہ" اقوامِ متحدہ سے بھی زیادہ مؤثر ادارہ بن چکی تھی، جو نہ صرف مسلم دنیا میں امن قائم رکھتی بلکہ افریقہ، لاطینی امریکہ، اور یورپ میں بھی انسانی بحرانوں کو سنبھالنے کے لیے پیش پیش تھی۔

میں نے شہرِ قرطبہ دیکھا — وہی اندلس کا شہر، جو پھر سے زندہ ہو چکا تھا۔
جامعہ قرطبہ میں پروفیسر ایک ایسا موضوع پڑھا رہے تھے جس کا عنوان تھا:
"قرآن اور کوانٹم: کُن فیکون کی سائنسی تعبیر"

دمشق، قاہرہ، لاہور، انقرہ، اور کوالالمپور — سب تحقیق، طب، انجنئیرنگ، فلکیات، اور روحانی سائنسز کے مراکز بن چکے تھے۔
مسلم نوجوان، جو کبھی یوٹیوب پر الجھتے تھے، اب آسمانوں میں سیارے بھیجنے کے مشن چلاتے تھے۔

پھر میں نے وہ منظر دیکھا…
لندن، پیرس، نیویارک، دہلی — وہاں کے مسلمان اب ہجرت کر رہے تھے۔
لیکن یہ ہجرت کسی مظلومیت کی نہیں تھی، بلکہ وہ "نور کی طرف سفر" تھا۔

وِیانا کی لائبریری میں ایک پروفیسر نے کہا:

"میری بیٹی دمشق جانا چاہتی ہے۔ اسے وہی یونیورسٹی چاہیے جہاں قرآن، اخلاق، اور سائنس اکٹھے سکھائے جاتے ہیں۔"

امریکہ سے ایک سابق امام جو کبھی اقلیت میں تھے، اب مدینہ کی مشاورتی کونسل میں شامل تھے۔
وہ کہتے:

"ہم وہ قافلہ ہیں جس نے تاریخ کے گرداب سے نکل کر روشنی کی راہ پا لی۔"

میرے دل میں ایک صدا ابھری…
کیا یہی وہ دنیا ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا تھا:

"وَعَدَ  اللّٰہُ  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ  الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ  اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا  یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ  کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ  الۡفٰسِقُوۡنَ "

اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح خلافت دے گا جیسے اس نے ان لوگوں کو خلافت دی تھی جو ان سے پہلے تھے، اور وہ ان کے لیے ان کے دین کو غالب کرے گا جسے وہ پسند کرتا ہے، اور ان کے خوف کے بعد امن کا بدلہ دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرا سکیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی کفر کرے گا تو وہی فاسق ہوں گے۔ (النور: 55)

اور یہ بھی فرمایا تھا:

"وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ ٱلْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ ٱلصَّٰلِحُونَ" 

اور ہم نے نصیحت  کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ (الأنبياء: 105 

یہ وعدے اب کاغذ پر نہیں رہے۔ یہ سچائی بن چکے تھے۔

اچانک ایک آواز آئی:

"اے دیکھنے والے! یہ خواب تھا، مگر حقیقت بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ امت جاگ جائے…"

میری آنکھ کھلی۔ مگر میں جانتا تھا، میں صرف خواب سے جاگا ہوں، اس تعبیر سے نہیں —
یہ خواب "قرآن کی تعبیر" ہے — اور یہ حقیقت بننے کے قریب ہے… اگر ہم چاہیں۔