دنیا کے نقشہ پر پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، مگر اپنی تشکیل کے بعد سے مسلسل دو فکری دھاروں کے درمیان جھولتا رہا: ایک وہ طبقہ جو جدید، مغربی تعلیم یافتہ، بیوروکریسی و اشرافیہ پر مشتمل ہے؛ اور دوسرا وہ طبقہ جو دینی مدارس، علما، صوفیا، اور مذہبی تحریکات کا نمائندہ ہے۔
یہ کشمکش محض مذہبی و سیکولر تقسیم نہیں، بلکہ اقتدار، فکری ترجیحات، تہذیبی شناخت اور ریاستی نظام کی بنیادوں سے متعلق ایک مسلسل تصادم ہے۔
قائداعظم ؒ نے پاکستان کو "اسلامی ریاست" کہا، مگر اس کی مکمل تعبیر واضح نہیں کی۔ آزادی کے بعد مغربی تعلیم یافتہ افسر شاہی نے ریاست کے ڈھانچے پر قبضہ جما لیا، جبکہ دینی طبقات آئینی حیثیت کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔
قرار دادِ مقاصد (1949) اگرچہ اسلامی سمت کا اعلان تھی، مگر عمل درآمد کی نیت کمزور رہی۔
1956، 1962 اور 1973 کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں، مگر عملی نظام مغربی طرز کا ہی رہا۔ علما نے حدود آرڈیننس، سود کے خلاف فیصلے، اور اسلامی تعلیمی نصاب کے لیے تحریکات چلائیں، مگر ریاستی مشینری نے انہیں زیادہ تر غیر مؤثر بنایا۔
جنرل ضیاء الحق ؒ نے دین کو ریاستی پالیسی کا جزو بنانے کی کوشش کی، مگر نیت اقتدار کی مضبوطی تھی۔ مدارس کو سرکاری سرپرستی ملی، مگر سیاسی استعمال کے لیے۔ یہیں سے دینی قوتوں کا ریاستی نظام سے "مشروط تعلق" قائم ہوا، جو بعد میں خود تضاد کا باعث بنا۔
پرویز مشرف کا دور "روشن خیال اعتدال پسندی" کا نعرہ لے کر آیا۔ مغربی ممالک سے قربت اور اسلام پسندوں سے دوری اختیار کی گئی۔ دینی قوتوں کو "انتہا پسند" اور رکاوٹ بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں علما اور مذہبی طبقات میں ردعمل کی لہر اٹھی، اور معاشرے میں تقسیم مزید گہری ہو گئی۔
-
بیوروکریسی، عدلیہ، یونیورسٹیاں، میڈیا اور پالیسی ساز ادارے زیادہ تر مغرب زدہ سوچ کے حامل ہیں۔
-
دوسری طرف مذہبی جماعتیں، دینی مدارس، اور علما عوام میں مقبول اور اثرورسوخ رکھتے ہیں، مگر پالیسی سازی سے باہر ہیں۔
-
نتیجتا ایک ایسا نظام جس میں ریاست سیکولر طرز پر چلتی ہے، مگر عوام مذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس خلا نے مذہبی انتہاپسندی اور فکری انتشار کو جنم دیا ہے۔
-
میڈیا کا بڑا حصہ دینی تعبیرات کو دقیانوسی، روایت پسندی اور غیراہم دکھاتا ہے، جبکہ مغربی اقدار کو ترقی کا معیار۔
-
تعلیمی اداروں میں اسلامی فکر کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کمزور ہے، جس سے طلبہ دو انتہاؤں میں بٹ گئے ہیں: یا تو وہ دین سے بیزار ہو جاتے ہیں، یا جدید علوم کو کفر قرار دیتے ہیں۔
حل اور راہِ عمل:
-
مکالمہ کی روایت:
ریاست کو چاہیے کہ وہ دینی طبقے کو "سیکیورٹی تھریٹ" کے بجائے "قومی فکری اثاثہ" سمجھے، اور مکالمے کے دروازے کھولے۔
-
نصاب میں ہم آہنگی:
جدید اور دینی تعلیم کے درمیان خلیج ختم کی جائے۔ ایک ایسا نظام تعلیم ہو جو قرآن، سنت، فلسفہ، سائنس اور جدید دنیا کو یکجا کرے۔
-
علما کی تربیت اور ریاستی شمولیت:
دینی قیادت کو سیاست، معیشت، اور عالمی امورکے بارے آگاہی وفہم دیا جائے تاکہ وہ ریاستی مشینری میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔
-
اشرافیہ کی فکری تطہیر:
سول سروس، عدلیہ، اور پارلیمان میں اسلام کی تعبیرات، مقاصدِ شریعت، اور اسلامی تاریخ کی گہری تربیت دی جائے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو فکری وحدت کے بغیر زیادہ دیر ترقی نہیں کر سکتا۔ جب تک مغرب زدہ اشرافیہ اور دینی قیادت ایک دوسرے کو حریف سمجھتے رہیں گے، تب تک پاکستان کا فکری، سیاسی، اور تہذیبی مستقبل مخدوش رہے گا۔
اصل حل یہی ہے کہ دین اور دنیا کو دو الگ دنیائیں سمجھنے کے بجائے ایک متوازن اسلامی شعور کے ساتھ آگے بڑھا جائے، تاکہ پاکستان واقعی "اسلامی جمہوریہ" بن سکے — صرف آئینی طور پر نہیں، بلکہ عملی طور پر۔