مسلم دنیا کی سیاسی و مذہبی قیادت کا فکری تضاد اور اس کا حل

مسلم دنیا اس وقت فکری، سیاسی اور تہذیبی بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب و تعلیم سے متاثر حکمران طبقہ ہے، جو اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہے، اور دوسری طرف عوام میں اثر و رسوخ رکھنے والے علما ہیں، جن کا دینی علم تو مضبوط ہے مگر وہ عصر حاضر کی ریاستی و عالمی سیاست کے تقاضوں سے اکثر ناآشنا ہیں۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ایک فکری خلیج حائل ہے، جس نے مسلم معاشروں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ نتیجتاً، نہ تو اسلامی نظامِ حیات نافذ ہو سکا، اور نہ ہی مغربی ماڈل سے کوئی پائیدار ترقی حاصل ہوئی۔

نوآبادیاتی دور کے بعد مسلم دنیا میں جو قیادت ابھری، وہ مغربی تعلیمی اداروں سے تربیت یافتہ تھی۔ ان کے نزدیک ترقی کا پیمانہ صرف صنعتی ترقی، مغربی جمہوریت، سیکولر قانون، اور مغربی طرزِ معیشت تھا۔ انہوں نے اسلامی تاریخ، تمدن، اور فقہ کو دقیانوسیت سمجھا اور مذہب کو نجی زندگی تک محدود کر دیا۔ انہوں نے ریاستی ڈھانچے، عدلیہ، تعلیم، معیشت اور میڈیا کو مغرب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی، جس سے مسلم معاشروں کی تہذیبی شناخت مجروح ہوئی۔

دوسری جانب علمائے کرام کا طبقہ ہے، جو اگرچہ اسلامی علوم میں مہارت رکھتا ہے، مگر اکثر جدید ریاستی نظام، گلوبل پالیٹکس، معیشت، ٹیکنالوجی اور سائنس سے ناآشنا ہے۔ ان کی اکثریت نے صرف روایتی مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کی، جس سے وہ ایک محدود دائرے میں مؤثر ضرور ہیں، مگر ریاستی سطح پر وہ فیصلہ سازی میں شامل نہیں۔ ان کی اپروچ ماضی پرست اور اجتہادی فکر سے خالی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے جدید نسل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

یہ فکری خلیج مسلم معاشرے کو دو انتہاؤں میں بانٹ چکی ہے: ایک طرف مذہب سے بیزار، مغرب زدہ اشرافیہ؛ اور دوسری طرف روایت زدہ، جدیدیت سے ناآشنا دینی طبقہ۔ اس تقسیم نے امت کی اجتماعی قوت کو زائل کر دیا ہے۔ ریاستیں ظاہری ترقی کے باوجود کرپشن، ظلم، بدامنی اور غربت کا شکار ہیں۔ نہ اسلامی عدل میسر ہے، نہ مغربی خوشحالی۔

حل:
اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ دونوں طبقات کے مابین مکالمہ، فکری اشتراک اور علمی امتزاج پیدا کیا جائے:

  1. علمائے کرام کا اجتہادی ارتقا:
    علما کو عصرِ حاضر کے تقاضے، ریاستی ساخت، بین الاقوامی تعلقات، جدید معیشت اور سوشل سائنسز کو سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق جدید مسائل کا حل پیش کر سکیں۔

  2. جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا اسلامی شعور:
    مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں کو قرآن، سنت، اسلامی فلسفہ، تہذیب اور سیرتِ نبوی سے گہرا تعلق قائم کرنا ہوگا، تاکہ وہ محض مغربی نقّال نہ بنیں بلکہ اسلام کی روشنی میں ایک بااصول اور باوقار ترقی کا ماڈل تخلیق کریں۔

  3. علم و قیادت کا ادغام:
    ہمیں ایسی قیادت پیدا کرنی ہے جو علم دین اور دنیا دونوں سے بہرہ ور ہو۔ جو نہ صرف اسلام کے مزاج کو جانتی ہو بلکہ دنیا کے میدان میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ خلافتِ راشدہ کے دور کا ماڈل اسی امتزاج کی بہترین مثال ہے۔

  4. اسلامی یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینکس:
    ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں اسلامی اور جدید علوم کو یکجا کر کے نوجوانوں کی تربیت کی جائے تاکہ وہ فکری اور عملی قیادت فراہم کر سکیں۔

آج مسلم دنیا کے سامنے سب سے بڑا چیلنج فکری یکجہتی اور قیادت کا بحران ہے۔ جب تک دین و دنیا کی تفریق کو ختم کر کے ایسی قیادت پیدا نہیں کی جاتی جو مغرب کو سمجھتی ہو مگر اس سے مرعوب نہ ہو، اور اسلام کو جانتی ہو مگر جمود کا شکار نہ ہو، تب تک ہم نہ ترقی حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی اسلام کے عالمی پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں گے۔
یہی ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔

 اس فکری کشمکش کی کئی نمایاں مثالیں آج کے مسلم ممالک سے پیش کی جا سکتی ہیں، جو واضح کرتی ہیں کہ کس طرح مغرب زدہ اشرافیہ اور دینی طبقہ کے درمیان فاصلہ ریاستی و تہذیبی مسائل کو جنم دے رہا ہے:

1. مصر: فوجی اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ اسلام پسند گروہ

  • مصر میں 2011 کے بعد جب اخوان المسلمون کی حکومت برسر اقتدار آئی، تو انہوں نے اسلامی شعور کے ساتھ جمہوری طریقے سے اقتدار سنبھالا۔

  • مگر ریاستی اسٹیبلشمنٹ، جس کی تربیت مغربی ماڈل اور سیکولر قوم پرستی پر ہوئی تھی، نے اخوان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا، اور صدر مرسی کی حکومت کو ختم کر دیا۔

  • اس سے واضح ہوا کہ اقتدار پر قابض طبقہ اسلامی تحریکات کو برداشت نہیں کرتا، چاہے وہ جمہوری ہوں۔

2. ترکی: سیکولر فوج اور دینی رجحان رکھنے والی حکومت

  • ترکی طویل عرصے تک ایک سخت سیکولر ریاست رہا، جہاں فوج نے مذہبی مظاہر کو طاقت سے دبایا۔

  • مگر رجب طیب اردوان کی حکومت نے مذہب اور سیاست کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔

  • اگرچہ انہوں نے ترکی کو ترقی دی، مگر فوج اور مغرب نواز اشرافیہ کی مخالفت مسلسل رہی۔

  • 2016 کی ناکام بغاوت اسی فکری تصادم کا مظہر تھی۔

3. پاکستان: دینی مدارس بمقابلہ مغربی طرزِ حکمرانی

  • پاکستان میں سیاسی قیادت، عدلیہ، اور بیوروکریسی کی اکثریت مغربی تعلیم یافتہ ہے، جو اکثر دینی حلقوں کو رجعت پسند سمجھتی ہے۔

  • دوسری طرف علما کی بڑی تعداد ریاستی معاملات سے کٹی ہوئی ہے۔

  • اس فاصلہ کی وجہ سے پاکستان میں نہ مکمل اسلامی نظام نافذ ہو سکا، نہ ہی مغربی جمہوریت مستحکم ہو سکی۔

4. سعودی عرب: جدید کاری بمقابلہ روایتی مذہبی اثر

  • سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے تحت سماجی و ثقافتی تبدیلیوں کا آغاز کیا، جیسے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت، موسیقی و تفریح کی آزادی، اور مذہبی پولیس کا کردار محدود کرنا۔

  • ان اقدامات کو عالمی سطح پر "ترقی" کہا گیا، مگر مقامی دینی حلقوں نے اسے مغربی اقدار کی تقلید سمجھا۔

  • اس کشمکش نے سعودی معاشرے کو فکری طور پر تقسیم کر دیا۔

5. ایران: مذہبی قیادت اور عوامی ناراضگی

  • ایران میں اگرچہ مذہبی قیادت حکمران ہے، مگر نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد مغربی طرزِ زندگی اور آزادیوں کی طرف مائل ہے۔

  • حالیہ احتجاجات، حجاب قوانین پر تنقید، اور معاشی بدحالی نے یہ واضح کیا کہ صرف مذہبی حکومت کافی نہیں، جب تک وہ جدید تقاضوں اور عوامی شعور سے ہم آہنگ نہ ہو۔

یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ مسلم دنیا میں قیادت کی دو انتہائیں موجود ہیں:

  1. وہ جو اسلام کو صرف ماضی کا اثاثہ سمجھتے ہیں۔

  2. اور وہ جو جدید دنیا کو صرف فتنہ خیال کرتے ہیں۔
    حل تب ہی ممکن ہے جب یہ دونوں طبقات مکالمے سے ایک مشترکہ راہ نکالیں۔