سید علی حسینی خامنہ ای، 19 اپریل 1939 کو ایران کے مقدس شہر مشہد میں ایک مذہبی اور علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق شیعہ اثنا عشری مکتب فکر سے ہے، اور آپ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے سب سے بااثر اور بااختیار رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ وہ 1989 سے اب تک ایران کے "رہبرِ معظم" یا "سپریم لیڈر" کے منصب پر فائز ہیں۔ اس عہدے پر ان کی طویل اور طاقتور موجودگی انہیں مشرقِ وسطیٰ کے چند مستقل اور اہم ترین شخصیات میں شمار کرتی ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
خامنہ ای کا بچپن ایک مذہبی ماحول میں گزرا۔ ان کے والد، آیت اللہ سید جواد خامنہ ای، مشہد کے معتبر علما میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم قرآن سے ہوئی، اور بعد میں مشہد کے مدارس میں دینی علوم حاصل کیے۔ بعد ازاں وہ کچھ عرصہ کے لیے نجف گئے مگر والد کی خواہش پر مشہد واپس آگئے۔ 1958 میں وہ قم منتقل ہوئے جہاں انہوں نے سید حسین بروجردی اور آیت اللہ روح اللہ خمینی جیسے جید علما سے استفادہ کیا۔
انقلابی سرگرمیاں اور گرفتاریاں
شاہ ایران کے دور حکومت میں خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے وہ چھ مرتبہ گرفتار ہوئے اور تین سال جلاوطنی کاٹی۔ 1979 کے انقلاب کے بعد وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے اولین معماروں میں شامل ہوئے۔
قاتلانہ حملہ اور جسمانی معذوری
جون 1981 میں، ایک قاتلانہ حملے میں خامنہ ای شدید زخمی ہوئے۔ ایک بم، جو ایک ٹیپ ریکارڈر میں چھپایا گیا تھا، ان کی تقریر کے دوران پھٹ گیا۔ اس حملے نے ان کے دائیں بازو کو مستقل طور پر مفلوج کر دیا، اور وہ آج تک اپنے بائیں ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں۔
صدارتی دور اور ایران-عراق جنگ
1981 میں، وہ ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ایران عراق جنگ سے گزر رہا تھا۔ خامنہ ای نے بطور صدر جنگی پالیسیوں، بجٹ اور انتظامی امور میں فعال کردار ادا کیا اور پاسداران انقلاب سے قریبی روابط قائم کیے۔
سپریم لیڈر بننے کا مرحلہ
1989 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے انتقال کے بعد، ایک خاص نشست میں ماہرین کی مجلس نے خامنہ ای کو سپریم لیڈر منتخب کیا، حالانکہ اس وقت وہ مرجع تقلید کے درجے پر فائز نہ تھے۔ اس کے لیے ایران کے آئین میں تبدیلی کی گئی۔
اختیارات اور اثر و رسوخ
بطور رہبرِ معظم، خامنہ ای کو ایران کا سب سے اعلیٰ اختیارات حاصل ہیں۔ وہ مسلح افواج کے کمانڈر انچیف ہیں، عدلیہ، میڈیا، خارجہ پالیسی، قومی سلامتی اور حتیٰ کہ اقتصادی پالیسیاں بھی ان کے زیر اثر ہیں۔ گارڈین کونسل، ماہرین کی اسمبلی، اور دیگر کلیدی ادارے ان کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں۔
مذہبی موقف اور فتاویٰ
سید علی خامنہ ای نے بعض روایتی شیعہ اعمال جیسے قمہ زنی کو حرام قرار دیا کیونکہ ان کے خیال میں یہ مذہب کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اتحاد بین المسلمین کے لیے امہات المومنین اور صحابہ کرام کی توہین کو بھی حرام قرار دیا۔ ان کے ان فتاویٰ کو کئی حلقوں میں اصلاحی اور وحدت امت کی کوشش کے طور پر سراہا گیا۔
ادبی ذوق اور فنون لطیفہ سے دلچسپی
خامنہ ای ادب، شاعری اور عالمی ناولوں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ انھوں نے "لیس میزرابلز" کو تاریخ کا بہترین ناول قرار دیا۔ وہ فارسی، عربی اور آذری زبانوں میں روانی رکھتے ہیں، اور کئی عربی کتابوں کا ترجمہ کر چکے ہیں۔ نوجوانی میں وہ ژاں پال سارتر اور برٹرینڈ رسل جیسے مغربی مفکرین سے بھی متاثر رہے۔
زندگی کا سادہ انداز
ان کے قریبی حلقوں کے مطابق، خامنہ ای سادہ طرزِ زندگی رکھتے ہیں، معمولی خوراک کھاتے ہیں، اور خود کو زاہد ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن بعض مغربی ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے پاس گھوڑوں کے اصطبل، قیمتی چھڑیاں، اور پرتعیش اقامت گاہیں ہیں۔ تاہم ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ۔
انسانی حقوق پر تنقید
ان کے دور میں ایران میں کئی بار عوامی مظاہرے ہوئے، جن پر سختی سے قابو پایا گیا۔ مخالفین، صحافیوں اور بلاگرز پر الزامات لگے، قید و بند، کوڑے، اور بعض اوقات زیر حراست اموات کی خبریں سامنے آئیں۔ ان واقعات پر ایران کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا رہا، لیکن خامنہ ای ان سب کو "اسلام دشمن مغربی مہم" قرار دیتے ہیں۔
موجودہ حیثیت اور عالمی سفارت کاری
آیت اللہ خامنہ ای اب بھی ایران کے سب سے طاقتور رہنما ہیں۔ 2024 میں انہوں نے امریکی طلبہ کے نام ایک خط لکھا جس میں فلسطینیوں کی حمایت اور قرآن سے رہنمائی لینے کی دعوت دی گئی۔ ان کا یہ پیغام واضح کرتا ہے کہ وہ اسلامی دنیا میں ایران کو "مزاحمت کا مرکز" اور ایک نظریاتی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
سید علی خامنہ ای ایک جامع شخصیت ہیں۔ وہ بیک وقت ایک دینی عالم، سیاسی مدبر، ادیب، اور اسٹریٹجک رہنما ہیں۔ ان کی قیادت میں ایران نے داخلی سطح پر استحکام، مگر بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا بھی سامنا کیا ہے۔ ان کا کردار تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے – ایک ایسے رہنما کا، جس نے مذہب، سیاست اور طاقت کو ایک ہی دائرے میں جمع کر کے ایک منفرد حکمرانی کا ماڈل قائم کیا۔