امام زین العابدینؒ (38ھ -- 95ھ) ان کا اصل نام علی بن حسین تھا، یہ اہل بیتِ کے اس روشن چراغ کا نام ہے جو کربلا کی خاک سے چمکا اور امت کے دلوں میں تقویٰ، عبادت، صبر اور اخلاق کا نور بن کر جگمگایا۔ اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 برس تھی، اس موقع پر یہ بیمار اور صاحب فراش تھے، اس طرح وہ زندہ رہیں۔ آپ کا لقب "زین العابدین" (عبادت گزاروں کی زینت) اور "سجاد" (کثرتِ سے سجدہ کرنے والا) ہے، یہ لقب آپ کی روحانی رفعت اور اللہ سے گہری وابستگی کا مظہر ہے۔
کربلا کے بعد کا دور، جہاں امت اضطراب اور ظلم کی تاریکیوں میں گھری ہوئی تھی، وہاں امام زین العابدینؑ نے خاموشی، دعا، اور باطنی تربیت کے ذریعے دین کی روح کو زندہ رکھا۔ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ "صحیفۂ سجادیہ" آج بھی اہل تشیع کے لیے مناجات، خشوع وخضوع اور اہل بیت سے اظہار محبت کا خزینہ ہے۔ آپ نہ صرف اہل بیت کی عظمت کا تسلسل تھے، بلکہ انسانیت کے لیے صبر، حلم، عبادت اور حکمت کا اعلیٰ نمونہ بھی تھے۔
ایک مرتبہ حج کے موقع پر پیش آنے والا وہ واقعہ تاریخ کا ایک درخشندہ لمحہ ہے جب اموی ولی عہد ہشام بن عبد الملک، خانہ کعبہ کے پاس حاجیوں کے ہجوم میں حجرِ اسود کو بوسہ دینے سے عاجز آ کر ایک طرف بیٹھا ہوا تھا۔ اسی دوران امام زین العابدینؒ طواف مکمل کر کے حجرِ اسود کی طرف بڑھے، تو حاجیوں نے از خود راستہ چھوڑ دیا، اور امام بلا مزاحمت حجرِ اسود تک پہنچے۔ یہ منظر دیکھ کر شام کے ایک درباری نے ہشام سے پوچھا: ’’یہ کون ہیں؟‘‘ ہشام نے حسد اور سیاسی مصلحت کے تحت تجاہلِ عارفانہ سے جواب دیا: ’’میں نہیں جانتا۔‘‘ اس پر عرب کے عظیم شاعر فرزدق جو وہیں موجود تھا، کھڑا ہو گیا اور کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ یہ کون ہیں‘‘— اور پھر اس نے امام کی عظمت اور نسب کا وہ عظیم الشان قصیدہ پڑھا جو ’’قصیدہ البطحاء‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ قصیدہ نہ صرف امام زین العابدینؑ کا تعارف تھا، بلکہ اہل بیت کی حقانیت اور اموی جبر کے مقابلے میں ایک شعری صدائے حق بھی تھا، جو رہتی دنیا تک گونجتی رہے گی۔
فرزدق (ہمّام بن غالب بن صعصعہ التمیمی الدارمی) (20ھ - 110ھ /641ء - 728ء)، ابو فراس کے لقب سے مشہورہے ، ابتدائی دورِ اسلام کے معروف شعرا میں شمار ہوتے ہیں اور بصرہ کے بڑے اشراف و نبلاء میں سے تھے۔ وہ اسلامی دور کے اوّل درجے کے شعرا میں سے ہیں اور اکثر زہیر بن ابی سلمی (جو کہ جاہلی دور کے حکیمانہ شاعر تھے) کے ساتھ ان کا موازنہ کیا جاتا ہے، کیونکہ ان دونوں میں حکمت اور شعری صناعت کی مہارت مشترک ہے۔
ان کے لسانی اثر کے بارے میں کہا گیا:
’’اگر فرزدق کا کلام نہ ہوتا تو عربی زبان کا ایک تہائی ضائع ہو جاتا، اور اگر ان کا شعر نہ ہوتا تو لوگوں کی آدھی خبریں (روایات، ثقافت، رسم و رواج) مٹ جاتیں۔‘‘
وہ زبان اور عرب عادات کے حوالے سے معتبر حوالہ سمجھے جاتے تھے۔ ان کی شہرت ہجو و مناقضہ میں خاص طور پر جرير اور اخطل کے ساتھ ادبی معرکوں کی بنا پر بہت زیادہ ہے، اور ان کی "نقائض" (یعنی ایک دوسرے کے خلاف شعری چیلنجز) عربی ادب میں ادبی مناظرے اور فخر و ہجو کا بلند پایہ سرمایہ ہیں۔
فرزدق ایک معزز اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے دادا اور والد بنی تمیم کے سرداروں میں سے تھے، اور ان کے خاندان کا امتیاز یہ تھا کہ پناہ مانگنے والوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا تھا، حتیٰ کہ ان کے والد کی قبر پر بھی۔ وہ اپنی قوم میں بہت عزت و وقار والے مقام پر فائز تھے۔ یہ ان کی شخصی عظمت کا اظہار ہے کہ وہ خلفاء کے دربار میں بیٹھ کر اپنا کلام سنایا کرتے تھے۔
انہیں فرزدق کا لقب دیا گیا، جو ان کے چہرے کے سخت نقوش اور جلالت کی طرف اشارہ ہے۔ ان کی کنیت ابو مکیہ تھی، جو ان کی بیٹی مکیہ کی نسبت سے تھی۔
اگرچہ وہ مدح اور ہجو کے بڑے شاعر تھے، لیکن ان کے ہاں عشق و غزل کے اشعار نہیں ملتے۔ ان کا انتقال بصرہ کے صحرائی علاقے میں قریباً سو برس کی عمر میں ہوا۔ ان کے بعد ایک وسیع دیوان چھوڑا، اور ان کے کلام کا ایک اہم مجموعہ "نقائض جریر والفرزدق" تین جلدوں پر مشتمل ہے۔
ان کی زندگی اور شاعری پر متعدد اہم کتابیں لکھی گئی ہیں، جن میں قابلِ ذکر ہیں:
*الفرزدق از خلیل مردم بک
*الفرزدق از حنا نمر
*الفرزدق از فؤاد افرام البستانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قصیدہ البطحاء :
ہم یہاں پر فرزدق کے سب سے مشہور اور جاندار قصیدے کا ذکر کرتے ہیں جو "قصیدہ بطحاء" کے نام سے معروف ہے۔ یہ قصیدہ امام زین العابدین ؒ کی مدح میں کہا گیا اور اپنی ادبی عظمت، فکری گہرائی اور عقیدت آمیز لہجے کی بنا پر عربی شعری ورثے میں ایک بلند مقام رکھتا ہے۔ اس قصیدے کی اہمیت صرف اس کے الفاظ کی خوبصورتی یا شعری صنعتوں کی چمک میں نہیں، بلکہ اس پیغام میں ہے جو فرزدق نے اموی دربار کے روبرو پیش کیا۔
فرزدق کا یہ قصیدہ امام زین العابدینؑ کی مدح میں نہ صرف عربی ادب کا شاہکار ہے بلکہ اہل بیت کی عظمت و تقدیس کا ایک زندہ استعارہ بھی ہے۔ یہ قصیدہ ایک سیاسی و سماجی تناظر میں اموی خلافت کے مقابل اہل بیت کی اخلاقی و روحانی برتری کا اعلان ہے، جو زبانِ شاعر سے خود تاریخ میں محفوظ ہو گیا۔ اس میں نہ صرف امام زین العابدینؑ کے حسب و نسب، حلم و کرم، تقویٰ و علم، اور بلند اخلاق کی تصویر کشی ہے بلکہ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ان کی شخصیت ایسی ہے جسے خانۂ کعبہ بھی پہچانتا ہے اور جس کی ہیبت سے خلقت ادب کرتی ہے۔ یہ قصیدہ صرف ایک مدحیہ نظم نہیں بلکہ اہل بیت کے حق، ان کی مرکزی حیثیت، اور امت کے دینی و اخلاقی سرمایہ پر ان کے فیض کی گواہی ہے۔ الفرزدق کے یہ اشعار تاریخ کے ہر دور میں اہل حق کی پہچان، اہل باطل کی رسوائی، اور ایمان والوں کے دلوں کا سکون ہیں۔
یہ قصیدہ فرزدق نے امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی شان میں اس وقت کہا جب ہشام بن عبدالملک (اموی خلیفہ) نے امام کی عظمت کو چھپانے کی کوشش کی۔ درج ذیل میں قصیدہ کے ہر شعر کا اردو ترجمہ اور تشریح دی گئی ہے:
شعر 1
هذا الّذي تَعرِفُ البطحاءُ وَطْأتَهُ، والبيتُ يعْرِفُهُ والحِلُّ والحَرَمُ
ترجمہ:
یہ وہ شخصیت ہے جس کے قدموں کو بطحاء (یعنی مکہ کی زمین) پہچانتی ہے، خانہ کعبہ اسے جانتا ہے، اور حل (حرم سے باہر کی جگہ) و حرم (حرم کی حدود) دونوں اس کے مقام و منزلت سے واقف ہیں۔
شعر 2
هذا ابنُ خَيرِ عِبادِ الله كُلّهِمُ، هذا التّقيّ النّقيّ الطّاهِرُ العَلَمُ
ترجمہ:
یہ اللہ کے تمام بندوں میں سب سے بہترین کا بیٹا ہے، یہ پرہیزگار، پاکیزہ، پاک دل، اور بلند مرتبہ شخص ہے۔
شعر 3
هذا ابنُ فاطمَةٍ إنْ كُنْتَ جاهِلَهُ، بِجَدّهِ أنْبِيَاءُ الله قَدْ خُتِمُوا
ترجمہ:
یہ فاطمہ کا بیٹا ہے، اگر تم اسے نہیں پہچانتے، تو جان لو کہ اس کے نانا وہ ہیں جن پر تمام انبیاء ختم ہو گئے۔
شعر 4
وَلَيْسَ قَوْلُكَ: مَن هذا؟ بضَائرِه، العُرْبُ تَعرِفُ من أنكَرْتَ والعَجمُ
ترجمہ:
تمہارا یہ کہنا کہ "یہ کون ہے؟" اس کی شان کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتا۔ عرب و عجم سب اسے پہچانتے ہیں، چاہے تم انکار کرو۔
شعر 5
كِلْتا يَدَيْهِ غِيَاثٌ عَمَّ نَفعُهُمَا، يُسْتَوْكَفانِ، وَلا يَعرُوهُما عَدَمُ
ترجمہ:
اس کے دونوں ہاتھ غیاث (مددگار بارش) کی مانند ہیں جن کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے۔ جو سوال کرے، مایوس نہیں جاتا، اور اس کے ہاتھ کبھی خالی نہیں ہوتے۔
شعر 6
سَهْلُ الخَلِيقَةِ، لا تُخشى بَوَادِرُهُ، يَزِينُهُ اثنانِ: حُسنُ الخَلقِ وَالشّيمُ
ترجمہ:
اس کا مزاج نرم ہے، اس سے سختی یا بے جا ردعمل کا خوف نہیں۔ اس کی خوبیوں کو دو چیزیں مزید خوبصورت بناتی ہیں: اچھا اخلاق اور بلند صفات۔
اشعار 7-10
حمّالُ أثقالِ أقوَامٍ إذا افتُدِحُوا، حُلوُ الشّمائلِ، تَحلُو عندَهُ نَعَمُ
ما قال: لا قطُّ، إلاّ في تَشَهُّدِهِ، لَوْلا التّشَهّدُ كانَتْ لاءَهُ نَعَمُ
عمّ البَرِيّةَ بالإحسانِ، فانْقَشَعَتْ، عنها الغَياهِبُ والإمْلاقُ والعَدَمُ
إذ رَأتْهُ قُرَيْشٌ قال قائِلُها: إلى مَكارِمِ هذا يَنْتَهِي الكَرَمُ
ترجمہ:
وہ لوگوں کے دکھ بانٹنے والا ہے جب وہ آزمائش میں ہوں، اس کی عادتیں شیریں ہیں، اور اس کے پاس نعم (احسان) کا خزانہ ہے۔
اس نے کبھی "نہیں" نہیں کہا، سوائے اس کے کہ وہ تشہد (نماز میں "لا إله إلا الله") میں ہو؛ اگر تشہد نہ ہوتا تو اس کی "لا" بھی "ہاں" ہوتی۔
اس کی سخاوت و احسان سے دنیا میں ظلمت اور فقر و ناداری چھٹ گئی۔
جب قریش نے اسے دیکھا تو ایک نے کہا: فضیلت و کرم کی انتہا اس ہستی پر ختم ہوتی ہے۔
اشعار 11-12
يُغْضِي حَياءً، وَيُغضَى من مَهابَتِه، فَمَا يُكَلَّمُ إلاّ حِينَ يَبْتَسِمُ
بِكَفّهِ خَيْزُرَانٌ رِيحُهُ عَبِقٌ، من كَفّ أرْوَعَ، في عِرْنِينِهِ شمَمُ
ترجمہ:
وہ حیا سے نظریں جھکا لیتا ہے، اور اس کی ہیبت سے لوگ آنکھیں جھکا لیتے ہیں؛ اور جب گفتگو کرتا ہے تو ہمیشہ تبسم کے ساتھ۔
اس کے ہاتھ میں خوشبو دار خیزران (بانس کی چھڑی) ہے، جو ایک باوقار، شجاع شخص کے ہاتھ میں ہے، جس کی ناک اور پیشانی عزت و وقار سے لبریز ہے۔
اشعار 13-14
يكادُ يُمسِكُهُ عِرْفانَ رَاحَتِهِ، رُكنُ الحَطِيمِ إذا ما جاءَ يَستَلِمُ
اللهُ شَرّفَهُ قِدْماً، وَعَظّمَهُ، جَرَى بِذاكَ لَهُ في لَوْحِهِ القَلَمُ
ترجمہ:
جب وہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے آتا ہے تو کعبہ کا رکنِ حطیم گویا اس کے ہاتھ کو پہچان کر خود بڑھ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے قدیم سے ہی شرف و عظمت عطا کی ہے، اور یہ فضیلت لوحِ محفوظ میں بھی لکھی ہوئی ہے۔
اشعار 15-20
أيُّ الخَلائِقِ لَيْسَتْ في رِقَابِهِمُ، لأوّلِيّةِ هَذا، أوْ لَهُ نِعمُ
مَن يَشكُرِ الله يَشكُرْ أوّلِيّةَ ذا، فالدِّينُ مِن بَيتِ هذا نَالَهُ الأُمَمُ
يُنمى إلى ذُرْوَةِ الدّينِ التي قَصُرَتْ، عنها الأكفُّ، وعن إدراكِها القَدَمُ
مَنْ جَدُّهُ دان فَضْلُ الأنْبِياءِ لَهُ، وَفَضْلُ أُمّتِهِ دانَتْ لَهُ الأُمَمُ
مُشْتَقّةٌ مِنْ رَسُولِ الله نَبْعَتُهُ، طَابَتْ مَغارِسُهُ والخِيمُ وَالشّيَمُ
يَنْشَقّ ثَوْبُ الدّجَى عن نورِ غرّتِهِ، كالشمس تَنجابُ عن إشرَاقِها الظُّلَمُ
ترجمہ:
کون سی مخلوق ہے جو اس خاندان کی نعمتوں کا مقروض نہ ہو؟
جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اسے اس ہستی کی اولیت کا بھی شکر ادا کرنا چاہیے، کیونکہ دین اسلام انہی کے گھرانے سے اقوام کو ملا۔
وہ دین کی ایسی چوٹی سے تعلق رکھتا ہے جس تک کسی کا ہاتھ یا قدم نہیں پہنچ سکتا۔
اس کے جد (رسول اللہ ﷺ) کو انبیاء کی فضیلت نے سراہا، اور ان کی امت کی فضیلت بھی ساری اقوام نے مانی۔
یہ ہستی رسول اللہ ﷺ ہی کی نسل سے ہے، اس کا نسب پاک ہے اور اخلاق بلند۔
تاریکی کی چادر اس کے چہرے کے نور سے پھٹ جاتی ہے، جیسے سورج کی روشنی تاریکی کو چیر دیتی ہے۔
اشعار 21-27
مِن مَعشَرٍ حُبُّهُمْ دِينٌ، وَبُغْضُهُمُ كُفْرٌ، وَقُرْبُهُمُ مَنجىً وَمُعتَصَمُ
مُقَدَّمٌ بعد ذِكْرِ الله ذِكْرُهُمُ، في كلّ بَدْءٍ، وَمَختومٌ به الكَلِمُ
إنْ عُدّ أهْلُ التّقَى كانوا أئِمّتَهمْ، أوْ قيل: «من خيرُ أهل الأرْض؟» قيل: هم
لا يَستَطيعُ جَوَادٌ بَعدَ جُودِهِمُ، وَلا يُدانِيهِمُ قَوْمٌ، وَإنْ كَرُمُوا
هُمُ الغُيُوثُ، إذا ما أزْمَةٌ أزَمَتْ، وَالأُسدُ أُسدُ الشّرَى، وَالبأسُ محتدمُ
لا يُنقِصُ العُسرُ بَسطاً من أكُفّهِمُ؛ سِيّانِ ذلك: إن أثَرَوْا وَإنْ عَدِمُوا
يُستدْفَعُ الشرُّ وَالبَلْوَى بحُبّهِمُ، وَيُسْتَرَبّ بِهِ الإحْسَانُ وَالنِّعَمُ
ترجمہ:
وہ ایسے خاندان سے ہیں جن سے محبت رکھنا دین ہے، اور جن سے نفرت رکھنا کفر ہے، اور ان کے قریب ہونا نجات اور پناہ ہے۔
اللہ کے ذکر کے بعد ان کا ذکر ہر بات کی ابتدا اور انتہا میں ہوتا ہے۔
جب پرہیزگاروں کو گنا جاتا ہے تو وہی ان کے امام ہوتے ہیں، اور اگر پوچھا جائے کہ زمین میں بہترین کون ہیں؟ تو کہا جاتا ہے: یہی لوگ۔
ان کے بعد کوئی سخی، سخاوت میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اور نہ کوئی قوم ان کے برابر آ سکتی ہے چاہے کتنی ہی عزت والی ہو۔
یہ لوگ بارش کی مانند ہیں جب مصیبتیں چھا جائیں، اور وہ شیر ہیں جب میدانِ جنگ میں بہادری ہو۔
تنگ دستی کبھی ان کے عطا کرنے میں کمی نہیں لاتی، خواہ وہ دولت مند ہوں یا نادار۔
ان سے محبت مصیبتوں اور آفات کو دور کرتی ہے، اور انہی کے سبب نیکیوں اور نعمتوں کا نزول ہوتا ہے۔