جمعیۃ علمائے ہند برصغیر کی ایک ایسی دینی و سیاسی تحریک ہے جو نہ صرف برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہی، بلکہ آزادی کے بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کی دینی، ملی اور دستوری نمائندہ جماعت کے طور پر اپنی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اس جماعت کی بنیاد بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت پڑی جب برصغیر کے علما نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے مذہبی تشخص، سیاسی حقوق اور سماجی حیثیت کو منظم پلیٹ فارم سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند اس کا پہلا باضابطہ اظہار تھی۔
![]() |
جمعیت علماء ہند |
تاریخی پس منظر:
جمعیۃ علمائے ہند کا قیام 1919ء میں عمل میں آیا، تاہم اس کی فکری بنیاد اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے ان علما نے رکھی تھی جو تحریکِ ریشمی رومال اور تحریکِ خلافت سے وابستہ رہے۔ برطانوی استعمار کے خلاف جہاد اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جمعیۃ نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا، جو اس وقت ہندوستان میں آزادی کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی۔ جمعیۃ علمائے ہند نے نہ صرف کانگریس کی حمایت کی، بلکہ 1947 میں تقسیمِ ہند کی مخالفت کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد پر مبنی قومیت کو ترجیح دی۔
نظریاتی بنیادیں:
جمعیۃ علمائے ہند کی فکری بنیاد اسلامی تعلیمات، دارالعلوم دیوبند کے علمی سرمایہ، اور برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمتی فکر پر استوار ہے۔ یہ جماعت ایک طرف آزادیِ وطن کو دینی فریضہ سمجھتی تھی، اور دوسری طرف مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی، ثقافتی اور معاشرتی تشخص کے تحفظ کو اپنا فریضہ گردانتی تھی۔ اس کا نعرہ تھا: ’’ہم ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں، لیکن ہندوستانی مسلمان اپنی دینی شناخت کے ساتھ زندہ رہیں گے۔‘‘
تنظیمی ڈھانچہ:
جمعیۃ علمائے ہند کا تنظیمی ڈھانچہ ایک مربوط اور جمہوری بنیاد پر استوار ہے۔ اس کا مرکزی دفتر دہلی میں واقع ہے، اور ریاستی و ضلعی سطح پر اس کی شاخیں قائم ہیں۔ ہر سطح پر صدر، جنرل سکریٹری، اور مجلسِ عاملہ کی موجودگی اسے فعال بناتی ہے۔ جمعیۃ کے سالانہ اجلاس، تربیتی کیمپ، علما کی کانفرنسیں اور ملی اجتماعات نہ صرف جماعتی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں بلکہ عوامی بیداری کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔
اہم شخصیات:
جمعیۃ علمائے ہند کی قیادت میں کئی عظیم المرتبت علما شامل رہے، جن میں مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مولانا اسعد مدنی، اور مولانا ارشد مدنی جیسے نام شامل ہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی کا سیاسی فکر، خصوصاً "متحدہ قومیت" کا نظریہ، آج بھی فکری و سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث ہے۔ مولانا ارشد مدنی آج بھی جماعت کے موجودہ صدر کی حیثیت سے اس کے موقف کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
آزادی کے بعد کا کردار:
1947 کے بعد جمعیۃ علمائے ہند نے سیاسی سرگرمیوں سے بتدریج کنارہ کشی اختیار کی، لیکن مسلمانوں کے ملی مسائل میں اس کی خدمات جاری رہیں۔ مدارس، مساجد، شرعی عدالتوں، اقلیتوں کے حقوق، اور مسلم پرسنل لا کے تحفظ جیسے میدانوں میں جمعیۃ نے مسلسل کام کیا۔ بابری مسجد سے لے کر NRC، CAA، اور دیگر مسائل پر جماعت نے ہمیشہ دستورِ ہند کے دائرے میں رہ کر احتجاج کیا، عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا، اور مسلمانوں کے آئینی حقوق کے لیے قانونی جنگ لڑی۔
عصری چیلنجز اور مؤقف:
آج جب ہندوستانی مسلمان شناخت کے بحران، تعلیمی پسماندگی، اور سماجی بائیکاٹ جیسے خطرات سے دوچار ہیں، جمعیۃ علمائے ہند ایک بار پھر مسلمانوں کی آواز بن کر ابھر رہی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں یہ جماعت دینی تشخص کے تحفظ، باوقار شہریت، اور آئینی مساوات کے اصول پر ڈٹی ہوئی ہے۔ جماعت کی موجودہ سرگرمیوں میں پرامن احتجاج، قانونی دفاع، ملی و دینی اداروں کی سرپرستی، اور سماجی فلاح کے منصوبے شامل ہیں۔
تنقیدی جائزہ:
جمعیۃ علمائے ہند کی تاریخ عزیمت و استقلال سے لبریز ہے، لیکن بعض ناقدین کا خیال ہے کہ آزادی کے بعد اس نے سیاسی میدان میں اپنے مؤثر کردار کو محدود کر لیا، جس کا خمیازہ مسلمان آج اقلیت میں ہونے کے باوجود نمایندگی کے فقدان کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ تاہم اس کا یہ مؤقف بھی وزن رکھتا ہے کہ موجودہ حالات میں دینی و ملی کام کو غیر سیاسی پلیٹ فارم پر مؤثر طریقے سے انجام دینا زیادہ موزوں ہے۔
جمعیۃ علمائے ہند ایک ایسی علمی، دینی، ملی اور سماجی تحریک ہے جس نے نہ صرف ہندوستان کی آزادی میں بھرپور حصہ لیا، بلکہ بعد ازاں اقلیت میں تبدیل ہو جانے والی مسلمان قوم کی بقا، دینی شناخت اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ آج بھی جب مسلمان زخموں سے چور ہیں، جمعیۃ ایک ایسے زخموں پر مرہم رکھنے والے کردار کی صورت میں موجود ہے، جو صبر، حکمت اور استقامت کے ساتھ ملت کو منزل کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔