محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر مذہبی، فکری اور ثقافتی مباحث کا طوفان سا برپا ہو جاتا ہے۔ سانحۂ کربلا جیسا عظیم اور اندوہناک واقعہ، جو تاریخ انسانیت میں ظلم و حق کے ٹکراؤ کی ایک دائمی علامت بن چکا ہے، ہر سال محرم میں نئی جہات سے زیرِ بحث آتا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں میں ایک نیا مظہر سامنے آیا ہے: اس سانحہ پر عوام سے زیادہ دانشوروں، فکری حلقوں اور مذہبی علما کے درمیان فکری اور بعض اوقات جارحانہ مجادلوں کا بڑھتا ہوا رجحان۔ یہ امر قابلِ توجہ ہے اور اس کا تجزیہ محض جذباتی نہیں، بلکہ فکری و فلسفیانہ سطح پر کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
پہلا حلقہ : دینی علوم میں مہارت رکھنے والے اہل علم
میرے مشاہدے کے مطابق محرم کے عشرے میں سوشل میڈیا پر سب سے نمایاں فکری معرکہ شیعہ اور سنی مکاتب فکر کے اہل علم کے مابین ہوتا ہے۔ دونوں اطراف کے علما اور محققین اپنے اپنے نقطۂ نظر کے اثبات اور دوسرے کے رد میں بھرپور استدلالی اور تاریخی مواد پیش کرتے ہیں۔ بسا اوقات یہ علمی سطح پر گراں قدر ہوتا ہے، لیکن اکثر یہ مباحث جلدی جذباتی اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ مباحثہ ایک تعمیری مکالمے کی صورت رکھتا ہے یا محض فکری بالادستی اور جذباتی فتح کا میدان ہے؟ اس کا جواب پیچیدہ ہے، مگر یہ طے ہے کہ جب تک علمی اختلاف، اخلاقی آداب اور بین المذاہب احترام کے دائرے میں نہیں آتا، وہ مزید افتراق کو جنم دیتا ہے۔
دوسرا حلقہ: عصری علوم میں مہارت رکھنے والے اہل علم
دوسری نمایاں صف اُن افراد کی ہے جن کا تعلق براہِ راست مذہبی علوم سے نہیں، لیکن وہ ادبی، صحافتی یا تعلیمی پس منظر رکھتے ہیں۔ ان میں شعراء، ادباء، اساتذہ، صحافی اور سول سوسائٹی کے با شعور افراد شامل ہیں۔ یہ طبقہ اپنے اپنے نظریاتی میلان کے مطابق سانحہ کربلا کو یا تو فقط انسانی جدوجہد اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر دیکھتا ہے، یا پھر اسے مخصوص فرقہ وارانہ شناخت سے الگ کرکے عالمگیر استعارہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طبقے کی تحریروں میں بعض اوقات وہ فکری گہرائی ملتی ہے جو روایتی مذہبی طبقے کی تحریروں سے مفقود ہوتی ہے۔
یہ طبقہ شعورِ کربلا کو ثقافتی اور علامتی پیکر میں بیان کرتا ہے، مثلاً حسینؑ کو "مظلومِ کُل" اور یزید کو "استبدادِ کُل" کے طور پر، جس سے ایک نیا بیانیہ جنم لیتا ہے، جو بعض مذہبی حلقوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا۔
تیسرا حلقہ: کلچرل فری تھنکرز اور متشکک دانشور
ایک اور منفرد طبقہ ان افراد پر مشتمل ہے جو خود کو "فری تھنکرز" یا "ریشنلسٹ" کہتے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ مذہب کے روایتی ڈھانچے سے متفق نہیں ہوتے، لیکن مذہبی تہوار، علامات، اور تاریخی سانحات سے ایک ثقافتی یا فلسفیانہ انسیت رکھتے ہیں۔ محرم، عاشورہ، امام حسینؑ، شبیہِ ذوالجناح، نوحہ و مرثیہ — یہ سب ان کے لیے مذہبی کم اور ثقافتی یا مزاحمتی استعارے زیادہ بن چکے ہیں۔
یہ طبقہ کربلا کو ایک ’کامن ہیومن نیرٹیو‘ (مشترکہ انسانی داستان) کے طور پر اپنانا چاہتا ہے اور مذہبی تناظر کو یا تو حذف کر دیتا ہے یا اس میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ رجحان اگرچہ مذہب کی روح سے دوری کا پتہ دیتا ہے، لیکن ایک پہلو سے مذہبی شعائر کو نئے سامعین تک بھی پہنچاتا ہے، اگرچہ اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر۔
چوتھا طبقہ: مذہب بیزار ملحدین
اس تمام فکری افق کے کنارے ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو مذہب، مذہبی شخصیات، شعائر اور یہاں تک کہ اخلاقی و تہذیبی بنیادوں سے بھی برسرِ پیکار ہے۔ یہ طبقہ نہ صرف کربلا بلکہ مذہب کے ہر مظہر کو شک، تنقید اور تضحیک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ان کے نزدیک مذہب ایک فرسودہ نظام ہے، اور مذہبی عقائد تاریخ کی ایک غلطی یا انسانی کمزوری کا نام ہیں۔ یہ لوگ نہ کسی امام کے قافلے کے ساتھ ہیں، نہ کسی علمی مناظرے کے، بلکہ ان کا مقصد زندگی کے اسٹیج سے مذہبی چراغوں کو بجھانا ہے، وہ مذہب کی ہر روشنی کو مکمل طور پرتاریکی میں بدلنا چاہتے ہیں ۔
سوال ؟
سوال یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر ہر طبقہ اپنی فکر کے مطابق سانحۂ کربلا کو پیش کرے گا، تو اس کا نتیجہ فکری وسعت ہے یا انتشار؟ شاید دونوں۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ڈیجیٹل دور میں ہر شخص کا نظریہ اب محض ایک انفرادی رائے نہیں، بلکہ ایک سماجی مظہر ہے جو دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔ سوشل میڈیا نے دین اسلام کے بارے میں فقہی، فکری، اور فلسفیانہ سطح پر جو شفافیت پیدا کی ہے، وہ ہمارے ماضی کے تقلیدی ماحول میں ممکن نہ تھی۔
لہٰذا، اب ضرورت صرف مکالمے کی نہیں، مکالمے کے آداب اور تناظر کی ہے۔ سانحہ کربلا صرف شیعہ یا سنی کا نہیں، بلکہ یہ پوری انسانیت کے ضمیر کی ایک آزمائش ہے اور ایک یاد دہانی ہے کہ سچ، عدل اور عزیمت کی راہ میں تنہائی اور شہادت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
"إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا..." (الاحقاف: 13)
یہی استقامت، یہی شعور، اور یہی کربلا کا درس ہے — جو ہر زمانے میں زندہ رہے گا، اگر ہم خود زندہ شعور کے ساتھ اسے سمجھیں۔ یہی ہر ذی شعور مسلم کا احساس ہے ، حکیم الامت علامہ اقبال نے اسی احساس کو اپنے کلام میں یوں بیان کیا ہے :
آن امامِ عاشقان پور بتول
سرو آزادے ز بستانِ رسول
وہ عاشقوں کے امام سیدہ فاطمہ ؓ کے فرزند اور حضور اکرم (ﷺ) کے باغ کے سرو آزاد تھے۔
سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی این مصرع از مضمون او
عشقِ غیّور ان کے خون سے سرخرو ہوا؛ مصرعۂ عشق کی شوخی اسی مضمون (واقعۂ کربلا) سے ہے۔
سر ابراہیم و اسمعیل بود
یعنی آن اجمال را تفصیل بود
آپ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام ) کے واقعہ کے سرّ اور اس اجمال کی تفصیل ثابت ہوئے۔
تار ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز
لیکن ہماری زندگی کے تار ابھی تک سید نا ( علیہ السلام ) کے زخمہ (تار کو بجانے والا آلہ) سے لرزاں ہیں؛ انہوں نے میدانِ
کربلا میں جو تکبیر بلند کی تھی وہ ہمارے ایمان کو زندہ کر رہی ہے۔
کربلا میں جو تکبیر بلند کی تھی وہ ہمارے ایمان کو زندہ کر رہی ہے۔
شوکتِ شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت
تار ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایمان ہنوز
شام و بغداد کی شان و شوکت جاتی رہی؛ سطوتِ غرناطہ کی یاد بھی ذہنوں سے محو ہوئی۔ لیکن ہماری زندگی کے تار ابھی تک سید نا ( علیہ السلام ) کے زخمہ (تار کو بجانے والا آلہ) سے لرزاں ہیں؛ انہوں نے میدانِ کربلا میں جو تکبیر بلند کی تھی وہ ہمارے ایمان کو زندہ کر رہی ہے۔
اے صبا اے پیک دور افتادگان
اشک ما بر خاک پاک او رسان
اے صبا! اے دور بسنے والوں کی پیغام رساں؛ ان کی خاک پاک پر ہمارے آنسوؤں کا تحفہ پہنچا دے۔
در نوائے زندگی سوز از حسین
اہلِ حق حریت آموز از حسین
سیدنا حسین ( علیہ السلام ) کے اسوہ سے نوائے زندگی میں سوز پیدا ہوا اور اہلِ حق نے آپ سے حریّت کا درس لیا۔(رموزِ بے خودی)