سانحہ اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سانحہ اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

امام حسین علیہ السلام: کلامِ اقبالؒ کی روشنی میں ۔ علی وقار قادری

علامہ محمد اقبالؒ کی فکر کی اساس تحرک،تغیر،تسلسل اور ارتقاء ہے اور وہ بھی اس طور پر کہ انسان کائناتی مقصود و مدعا میں معاون ہو جائے اور یوں وہ لافانی ہوجائے۔ کوئی بھی ایسی قدر جو آفاقی ہے (جیسا کہ حق کا سا تھ دینا ،باطل کا رد،مظلوم کی مدد،ظالم کے خلاف قیام، بنیادی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کی فراہمی) اس کے احیاء کی جدوجہد صحیح معنوں میں کائناتی مقصود کی تائید و نصرت ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر اسلام کی ہیتِ اجتماعیہ کے قیام کو عمل میں لاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اسلامی زندگی کا مقصود اسی ہیتِ اجتماعیہ کا قیام ہے نہ کہ کسی کونے میں بیٹھ کر عضوِ معطل بن کر محض عبادت کرنا۔اس عمل کو اقبالؒ گوسفندی کہتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام : کلام اقبال ؒ کی روشنی میں 

امام حسینؑ کی فکر،عمل ،جدوجہدمیں مذکورہ حیات بخش عناصر کثر ت سے پائے جاتے ہیں اور اقبالؒ کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کی ساری جدوجہد انہی آفاقی اقدار کی احیاء کے لیے تھی جو بدترین ملوکیت نے زمین بوس کر دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال میں ذکرِ اما م حسین علیہ السلام کثرت سے ملتا ہے۔

اقبالؒ کے نزدیک اما حسین علیہ السلام کی کئی حیثیتیں ہیں:

وہ امامِ حسین علیہ السلام کو کبھی امامِ عشق کہتے ہیں، کیونکہ جو کام امامِ حسین علیہ السلام نے کیا یہ اہلِ عقل کا نہیں ہو سکتا بلکہ اہلِ عشق کا ہی ہو سکتا ہے۔
کبھی وارثِ علوم قرآن کہتے ہیں۔
کبھی حق و باطل کے لیے ابدی معیار قرار دیتے ہیں۔
کبھی انسانیت کو فقرِ حسینی علیہ السلام اپنانے کا درس دیتے ہیں۔
کبھی رسمِ شبیری کی ادائیگی کو رازِ حیات گردانتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو امت کی وحدت کا نمائندہ قرارد یتے ہیں۔
کبھی حیاتِ حسین علیہ السلام کو اسوۂ کامل قرار دیتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو خلافتِ راشدہ کی قدروں کا محافظ کہتے ہیں۔

سانحۂ کربلا، مذہبی شعور اور سوشل میڈیا کی فکری دنیا: ایک تجزیاتی مطالعہ

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر مذہبی، فکری اور ثقافتی مباحث کا طوفان سا برپا ہو جاتا ہے۔ سانحۂ کربلا جیسا عظیم اور اندوہناک واقعہ، جو تاریخ انسانیت میں ظلم و حق کے ٹکراؤ کی ایک دائمی علامت بن چکا ہے، ہر سال محرم میں نئی جہات سے زیرِ بحث آتا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں میں ایک نیا مظہر سامنے آیا ہے: اس سانحہ پر عوام سے زیادہ دانشوروں، فکری حلقوں اور مذہبی علما کے درمیان فکری اور بعض اوقات جارحانہ مجادلوں کا بڑھتا ہوا رجحان۔ یہ امر قابلِ توجہ ہے اور اس کا تجزیہ محض جذباتی نہیں، بلکہ فکری و فلسفیانہ سطح پر کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

پہلا حلقہ : دینی علوم میں مہارت رکھنے والے اہل علم

میرے مشاہدے کے مطابق محرم کے عشرے میں سوشل میڈیا پر سب سے نمایاں فکری معرکہ شیعہ اور سنی مکاتب فکر کے اہل علم کے مابین ہوتا ہے۔ دونوں اطراف کے علما اور محققین اپنے اپنے نقطۂ نظر کے اثبات اور دوسرے کے رد میں بھرپور استدلالی اور تاریخی مواد پیش کرتے ہیں۔ بسا اوقات یہ علمی سطح پر گراں قدر ہوتا ہے، لیکن اکثر یہ مباحث جلدی جذباتی اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔

اس تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آیا یہ مباحثہ ایک تعمیری مکالمے کی صورت رکھتا ہے یا محض فکری بالادستی اور جذباتی فتح کا میدان ہے؟ اس کا جواب پیچیدہ ہے، مگر یہ طے ہے کہ جب تک علمی اختلاف، اخلاقی آداب اور بین المذاہب احترام کے دائرے میں نہیں آتا، وہ مزید افتراق کو جنم دیتا ہے۔