علامہ محمد اقبالؒ کی فکر کی اساس تحرک،تغیر،تسلسل اور ارتقاء ہے اور وہ بھی اس طور پر کہ انسان کائناتی مقصود و مدعا میں معاون ہو جائے اور یوں وہ لافانی ہوجائے۔ کوئی بھی ایسی قدر جو آفاقی ہے (جیسا کہ حق کا سا تھ دینا ،باطل کا رد،مظلوم کی مدد،ظالم کے خلاف قیام، بنیادی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حقوق کی فراہمی) اس کے احیاء کی جدوجہد صحیح معنوں میں کائناتی مقصود کی تائید و نصرت ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر اسلام کی ہیتِ اجتماعیہ کے قیام کو عمل میں لاتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک اسلامی زندگی کا مقصود اسی ہیتِ اجتماعیہ کا قیام ہے نہ کہ کسی کونے میں بیٹھ کر عضوِ معطل بن کر محض عبادت کرنا۔اس عمل کو اقبالؒ گوسفندی کہتے ہیں۔
![]() |
امام حسین علیہ السلام : کلام اقبال ؒ کی روشنی میں |
امام حسینؑ کی فکر،عمل ،جدوجہدمیں مذکورہ حیات بخش عناصر کثر ت سے پائے جاتے ہیں اور اقبالؒ کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کی ساری جدوجہد انہی آفاقی اقدار کی احیاء کے لیے تھی جو بدترین ملوکیت نے زمین بوس کر دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال میں ذکرِ اما م حسین علیہ السلام کثرت سے ملتا ہے۔
اقبالؒ کے نزدیک اما حسین علیہ السلام کی کئی حیثیتیں ہیں:
وہ امامِ حسین علیہ السلام کو کبھی امامِ عشق کہتے ہیں، کیونکہ جو کام امامِ حسین علیہ السلام نے کیا یہ اہلِ عقل کا نہیں ہو سکتا بلکہ اہلِ عشق کا ہی ہو سکتا ہے۔
کبھی وارثِ علوم قرآن کہتے ہیں۔
کبھی حق و باطل کے لیے ابدی معیار قرار دیتے ہیں۔
کبھی انسانیت کو فقرِ حسینی علیہ السلام اپنانے کا درس دیتے ہیں۔
کبھی رسمِ شبیری کی ادائیگی کو رازِ حیات گردانتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو امت کی وحدت کا نمائندہ قرارد یتے ہیں۔
کبھی حیاتِ حسین علیہ السلام کو اسوۂ کامل قرار دیتے ہیں۔
کبھی حسین علیہ السلام کو خلافتِ راشدہ کی قدروں کا محافظ کہتے ہیں۔