ادبیات اسلامی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ادبیات اسلامی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مرض اور اس کا علاج - مولانا سید ابوالاعلی مودودی

مرض اور اس کا علاج
اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے‘ نہ وہ محض چند ’’مذہبی‘‘ اعمال اوررسموں کا مجموعہ ہے‘ بلکہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک مفصل اسکیم ہے۔ اس میں عقائد‘ عبادات اورعملی زندگی کے اصول و قواعد الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ سب مل کر ایک ناقابل تقسیم مجموعہ بناتے ہیں‘ جس کے اجزا کا باہمی ربط بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک زندہ جسم کے اعضا میں ہوتا ہے۔

آپ کسی زندہ آدمی کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں‘ آنکھیں اور کان اور زبان جدا کر دیں‘ معدہ اور جگر نکال دیں‘ پھیپھڑے اور گردے الگ کر دیں‘ دماغ بھی پورا یا کچھ کم و بیش کاسۂ سر سے خارج کر دیں اور بس ایک دل اُس کے سینے میں رہنے دیں۔ کیا یہ باقی ماندہ حصۂ جسم زندہ رہ سکے گا؟ اور اگر زندہ بھی رہے تو کیا وہ کسی کام کا ہوگا؟

ایسا ہی حال اسلام کا بھی ہے۔ عقائد اس کا قلب ہیں۔ وہ طریق فکر (Attitude of mind)، نظریہ حیات (view of Life)، مقصد زندگی اور معیار قدر (Standard of values)جوان عقائد سے پیدا ہوتا ہے اس کا دماغ ہے‘ عبادات اس کے جوارح اور قوائم ہیں جن کے بل پر وہ کھڑا ہوتا ہے اور کام کرتا ہے۔ معیشت‘ معاشرت‘ سیاست اور نظم اجتماعی کے تمام وہ اصول جو زندگی کے لیے اسلام نے پیش کیے ہیں وہ اس کے لیے معدے اور جگر اور دوسرے اعضائے رئیسہ کا حکم رکھتے ہیں۔ اس کو صحیح و سالم آنکھوں اور بے عیب کانوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ زمانے کے احوال و ظروف کی ٹھیک ٹھیک رپورٹیں دماغ تک پہنچائیں اور دماغ ان کے متعلق صحیح حکم لگائے۔ اس کو اپنے قابو کی زبان درکار ہے تاکہ وہ اپنی خودی کا کما حقہ اظہار کرسکے۔ اس کو پاک صاف فضا کی حاجت ہے جس میں وہ سانس لے سکے۔ اس کو طیب و طاہر غذا مطلوب ہے جو اس کے معدے سے مناسبت رکھتی ہو اور اچھا خون بنا سکے۔

اس پورے نظام میں اگرچہ قلب (یعنی عقیدہ)بہت اہمیت رکھتا ہے‘ مگر اس کی اہمیت اسی لیے تو ہے کہ وہ تمام اعضا و جوارح کو زندگی کی طاقت بخشتا ہے۔ جب اکثر و بیش تر اعضا کٹ جائیں، جسم سے خارج کر دیے جائیں یا خراب ہو جائیں تو اکیلا قلب تھوڑے بہت بچے کھچے خستہ و بیمار اعضا کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اور اگر زندہ بھی ہے تو اس زندگی کی کیا وقعت ہوسکتی ہے؟

اب آپ غور فرمائیں کہ اس وقت آپ اپنی اسی ہندستان کی دنیا میں اسلام کو کس حال میں دیکھ رہے ہیں۔ قوانین اسلامی قریب قریب معطل ہیں‘ اخلاق میں‘ معاشرت میں‘ معیشت میں اور زندگی کے سارے معاملات میں اصول اسلامی کا نفاذ ۵ فی صدی سے زیادہ نہیں ہے۔ غیر اسلامی ماحول‘ غیر اسلامی تربیت‘ اور غیر اسلامی تعلیم نے دماغ کو کہیں بالکل اور کہیں کچھ کم و بیش غیر مسلم بنادیا ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں مگر زاویہ نظر بدل گیا ہے‘ کان سنتے ہیں مگر ان کے پردے متغیر ہو چکے ہیں‘ زبان بولتی ہے مگر اس کی گویائی میں فرق آگیا ہے۔ پھیپھڑوں کو صاف ہوا میسر نہیں کہ ایک زہریلی فضا چاروں طرف محیط ہے۔ معدے کو پاک غذا نہیں ملتی کہ رزق کے خزانے مسموم ہو چکے ہیں۔ عبادات جو اس جسم کے جوارح اور قوائم ہیں قریب قریب ۶۰فی صدی تو مفلوج ہیں اور ۴۰ فی صدی جو باقی ہیں وہ بھی کوئی اثر نہیں دکھا رہے ہیں کیونکہ دوسرے اعضائے رئیسہ سے ان کا تعلق باقی نہیں رہا، اسی لیے فالج کا مادہ ان میں پھیلتا جارہا ہے۔ ایسی حالت میں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پورا اسلام ہے جو آپ کے سامنے ہے؟ کتنے ہی اعضا کٹ گئے‘ کتنے مفلوج ہوگئے‘ کتنے موجود ہیں مگر بیمار ہیں اور ٹھیک کام ہی نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک قلب باقی ہے‘ اور وہ بیمار ہو رہا ہے کیونکہ جس طرح وہ ان اعضا کو زندگی کی طاقت بخشتا تھا اسی طرح خود بھی تو ان سے طاقت حاصل کرتا تھا۔ جب دماغ اور پھیپھڑوں اور معدہ و جگر سب کا فعل خراب ہوگیا تو قلب کیسے صحیح و سالم رہ سکتا ہے؟ یہ محض اس زبردست قلب کی غیر معمولی طاقت ہے کہ نہ صرف خود زندہ ہے بلکہ بچے کھچے اعضا کو بھی کسی نہ کسی طرح چلائے جارہا ہے، مگر کیا اس میں یہ طاقت ہے کہ ہندستان کی زندگی میں اپنا کوئی اثر قائم کرسکے؟ بلکہ خاکم بدہن میں تو یہ پوچھوں گا کہ اس نوبت پر کیا یہ ان حوادث کے مقابلے میں جن کا سیلاب روز افزوں تیزی کے ساتھ آرہا ہے اپنے بقیہ اعضا کو مزید قطع و برید سے اور خود اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے؟

اسی کا نتیجہ ہے کہ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا ] النصر ۱۱۰۲[ کے برعکس اب خود مسلمانوں کے گروہ میں اسلام سے بغاوت اور انحراف کی وبا پھیل رہی ہے۔ سارے ہندستان میں اور اس کے اطراف و اکناف میں کہیں بھی نظام اسلامی اپنی پوری مشینری کے ساتھ کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا کہ لوگ اس کے جمال و کمال کو دیکھیں اور درخت کو اس کے پھلوں سے پہچانیں۔ وہ جس چیز کو دیکھتے ہیں وہ یہی اعضا بریدہ اسلام ہے اور سمجھتے ہیں کہ بس اسلام یہی ہے۔ اس کو دیکھ کر بعض تو علانیہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں‘ بہت سے ایسے ہیں کہ مسلمان ہونے سے بس انکار نہیں کرتے باقی تمام باتیں ایسی کرتے ہیں کہ ان میں اور منکرین اسلام میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ بہت سوں کے دل پھر گئے ہیں‘ مگر چونکہ ابھی صریح بغاوت برپا نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ منافقت کے ساتھ مسلمانوں میں شامل ہیں اور بغاوت کے جراثیم پھیلا رہے ہیں تاکہ جب عام بلوٰی شروع ہو جائے تب خود بھی اپنا جھنڈا لے کر کھڑے ہوں۔ کچھ لوگ صاف نہیں کہتے مگر دبی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ نئی قومیت اور نئی تہذیب میں جذب ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ‘ کیونکہ یہ تن مردہ جسے تم لیے بیٹھے ہو‘ نہ خود تمھیں کوئی فائدہ پہنچاتا ہے اور نہ ان فوائد ہی سے متمتع ہونے دیتا ہے جو دوسروں میں جذب ہونے سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک اب مسئلے کا صحیح حل یہ ہے کہ اسلام کا باضابطہ مثلہ کر دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف مذہبی حرکت و عمل کی حد تک مسلمان رہنا چاہیے‘ باقی زندگی کا سارا پروگرام وہی اختیار کرلینا چاہیے جو غیرمسلموں نے سکھایا ہے اور جس کو غیر مسلم اختیار کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ لوگ خود دھوکے میں ہیں یا دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے جس کو یہ لوگ بھول گئے ہیں یا بھلا رہے ہیں کہ تمام معاملات زندگی میں غیر اسلامی نظریات اختیار کرنے اور غیر اسلامی اصول پر عامل ہوجانے کے بعد مذہبی عقائد اور مذہی حرکت و عمل قطعاً بے زور ہو جاتے ہیں۔ نہ ان پر زیادہ مدت تک ایمان باقی رہ سکتا ہے اور نہ عمل جاری رہ سکتا ہے اس لیے کہ یہ عقائد اور یہ عبادات تووہ بنیادیں ہیں جن کو اس لیے قائم کیاگیا ہے کہ زندگی کی پوری عمارت ان پر تعمیر ہو۔ جب یہ عمارت دوسری بنیادوں پر تعمیر ہوگئی تو ان آثار قدیمہ سے بے فائدہ و بے ضرورت دلچسپی کب تک باقی رہ سکے گی؟ نئے نظام زندگی میں جو بچہ پرورش پا کر جوان ہوگا وہ پوچھے گا کہ چند لا حاصل عقیدتوں اور چند بے نتیجہ رسموں کا یہ قلادہ کیوں میرے گلے میں ڈال رکھا ہے؟ میں کیوں اس قرآن کو پڑھوں اور کیوں اس پر ایمان رکھوں جس کے سارے احکام اب بے کار ہو چکے ہیں؟ ساڑھے تیرہ سو برس پہلے جو انسان گزر چکا ہے آج اس کو میں کس لیے خدا کا رسول مانوں؟ جب اس زندگی میں وہ میری رہنمائی ہی نہیں کرتا تو محض اس کی رسالت تسلیم کرلینے سے فائدہ کیا اور نہ تسلیم کرنے سے نقصان کیا؟ یہ نظام حیات جس میں عمل کر رہا ہوں اس میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے‘ روزہ رکھنے اور نہ رکھنے سے کیا فرق واقع ہو جاتا ہے؟ کیا رابطہ ہے ان اعمال اور اس زندگی کے درمیان؟ یہ بے جوڑ پیوند میری زندگی میں آخر کیوں لگا رہے؟

یہ منطقی نتیجہ ہے دین اور دنیا کی علیحدگی کا اور جب یہ علیحدگی اصولاً اور عملاً مکمل ہو جائے گی تو یہ نتیجہ رونما ہو کر رہے گا۔ جس طرح نظام جسمانی سے الگ ہو جانے کے بعد قلب بے کار ہو جاتا ہے اسی طرح زندگی سے بے تعلق ہو جانے کے بعد عقائد اور عبادات کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ عقائد اور عبادات اسلامی زندگی کو قوت حیات دیتے ہیں اور اسلامی زندگی عقائد اور عبادات کو طاقت بہم پہنچاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں ان دونوں میں ایک زندہ نظام جسمانی کے اعضا کا تعلق ہے جسے منقطع کر دینے کا لازمی نتیجہ دونوں کی موت ہے۔ غیر اسلامی زندگی میں اسلامی عقائد اور عبادات کا پیوند بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے گویلا کے جسم میں انسانی دماغ اور انسانی دست و پا۔

یہ نہ سمجھ لیجیے کہ اسلام کی موجودہ حالت کا یہ اثر صرف نئے تعلیم یافتہ طبقے کے ایک مختصر گروہ پر ہی مترتب ہو رہا ہے۔ نہیں آج جو لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں‘ جن کے دلوں میں اس کی محبت اور عزت موجود ہے‘ خواہ نئے گروہ کے لوگ ہوں یا پرانے گروہ کے‘ ان سب پر کم و بیش ان حالات کا اثر پڑ رہا ہے۔ اسلامی نظام زندگی کا درہم برہم ہو جانا ایک عام مصیبت ہے جس کے طبیعی نتائج سے کوئی مسلمان بھی محفوظ نہیں ہے اور نہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہم سب کو اس میں سے حصہ مل رہا ہے، اور ہمارے علما و مشائخ بھی اس میں اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنے مدرسوں اورکالجوں سے نکلے ہوئے لوگ،لیکن سب سے زیادہ خطرہ میں ہمارے وہ عوام ہیں جو کروڑوں کی تعداد میں ۱۶ لاکھ مربع میل کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں، اُن کے پاس صرف اسلام کا نام باقی ہے جس سے ان کو غیر معمولی محبت ہے۔ نہ علمی حیثیت سے یہ غریب اس چیز سے واقف ہیں جس پر یہ اس طرح جان دے رہے ہیں اور نہ عملی حیثیت سے کوئی ایسا نظام زندگی موجود ہے جو انھیں غیر اسلامی اثرات سے محفوظ رکھ سکے۔ ان کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر ہر گمراہ کرنے والا، ان کے عقائد اور ان کی زندگی کو اسلام کی صراط مستقیم سے ہٹا سکتا ہے۔ بس انھیں یہ اطمینان دلا دینا کافی ہے کہ یہ ضلالت جو ان کے سامنے پیش کی جارہی ہے یہی عین ہدایت ہے یا کم از کم اسلام کے مخالف نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ جس راستے پر چاہیں انھیں بھٹکالے جاسکتے ہیں‘ خواہ وہ قادیانیت کا راستہ ہویا اشتراکیت کا‘ یا فسطائیت کا۔ ان کے روز افزوں افلاس اور ان کی ہولناک معاشی خستہ حالی نے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کو موجودہ بے نظمی کی حالت میں اصول اسلام کے مطابق حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔

مسلمانوں میں کوئی منظم جماعت ایسی موجود نہیں جو اشتراکیت کے مقابلے میں اسلام کے معاشی و تمدنی اصولوں کو لے کر اٹھے اور ان مسائل کو حل کرکے دکھادے جو عام لوگوں کے لیے فی الواقع بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں مفلس و فاقہ کش مسلمانوں کی یہ بھیڑ اشتراکی مبلغین کے لیے نہایت سہل الحصول شکار بن گئی ہے۔ بور ژوا طبقے کے جن لوگوں میں حوصلہ مندی اور اقتدار کی حرص ذرا اعتدال سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے وہ ہمیشہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے نئی نئی تدبیریں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اب روسی انقلاب نے اس طبقے کے ایک گروہ کو ایک اور تدبیر سکھا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسان اور مزدور کے حامی بن کر غریب عوام کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ان کے اندر خود غرضی‘ حرص اور حسد کی آگ بھڑکائیں‘ ان کے جائز حقوق سے بڑھ کر انھیں دولت میں حصہ دلوانے کا لالچ دلائیں‘ خوش حال طبقوں کی جائز دولت تک چھین کر ان میں تقسیم کر دینے کا وعدہ کریں‘ اور اس طرح ملک کے سواد اعظم کو اپنی مٹھی میں لے کر وہ اقتدار حاصل کریں جو سرمایہ داری نظام کے بادشاہوں‘ ڈکٹیڑوں اور کروڑ پتیوں کو حاصل ہے۔ یہ لوگ غیر مسلم عوام سے بڑھ کر مسلم عوام سے توقعات رکھتے ہیں کیونکہ معاشی حیثیت سے مسلمان زیادہ خستہ حال ہیں۔ یہ ان کے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے پیٹ کی طرف سے راستہ پیدا کر رہے ہیں جو بھوکے آدمی کے جسم کا سب سے زیادہ نازک حصہ ہوتا ہے۔ یہ ان سے کہتے ہیں کہ آؤ ہم وہ طریقہ بتائیں جس سے امیری اور غریبی مرتی ہے اور آسودہ حالی آتی ہے۔ پھر جب بے چارہ بھوکا مسلمان دو روٹیوں کی امید پر ان کی طرف دوڑتا ہے تو یہ اسے خدا پرستی کے بجائے شکم پرستی کے مذہب کی تلقین کرتے ہیں اور یہ جذبہ اس کے دل میں پیدا کرتے ہیں کہ دین اور ایمان کوئی چیز نہیں‘ اصل چیز روٹی ہے‘وہ جس طریقے سے ملے وہی دین ہے اور اسی میں نجات ہے۔

غریبوں مفلسوں اور غلاموں کا کوئی مذہب اور کوئی تمدن نہیں۔ اس کا سب سے بڑا مذہب روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تمدن ایک پھٹا پرانا کُرتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ایمان اس موجودہ افلاس اور نکبت سے چھٹکارا پالینا ہے۔ وہی روٹی اورکپڑا جس کے لیے وہ چوری تک کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج افلاس اور غلامی کی دنیا میں اس کا کوئی مذہب نہیں۔

یہ ابتدائی سبق ہے مذہب اشتراکیت کا اور جس آن یہ سبق بے چارے جاہل و مفلس مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اسی آن انھیں اس امر کا اطمینان بھی دلایا جاتا ہے کہ ہم تمھارے مذہب کو ہاتھ نہیں لگاتے۔

مذہب اورعقائد کو ان باتوں سے کیا خطرہ؟ کیا تعلق؟ مذہب تو ہمیشہ اگر اس میں اخلاقی اور روحانی طاقت رہی ہے‘ زندہ، تابندہ اور پائندہ ہی رہا ہے۔

یہ دونوں فقرے جو یہاں نقل کیے گئے ہیں ایک مسلمان صاحب کے مضمون سے ماخوذ ہیں جو ایک کثیر الاشاعت مسلم اخبارکے کالموں میں شائع ہوا ہے۔

گزشتہ ۲۰ سال کے اندر روسی اشتراکیت کے جو اثرات مسلمانانِ روس کی نوخیز نسلوں پر مترتب ہوئے ہیں وہ جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہی مستقبل مسلمانانِ ہند کے سامنے بھی دھمکیاں دیتا ہوا آرہا ہے۔ پیٹ کی آگ متاع ایمان کو خاکستر کر دینے کے لیے بڑھ رہی ہے۔ ابھی تک سرچشمہ اتنا چھوٹا ہے کہ اسے ایک سلائی سے بند کیاجاسکتا ہے، لیکن اگر غفلت کے چند سال یوں ہی گزار دیے گئے تو یہ اتنا بڑا سیلاب بن جائے گا کہ اس کے مقابلے میں ہاتھیوں کے پاؤں اکھڑ جائیں گے۔

ان حالات میں محض عیسائی مشنریوں کے ڈھنگ پر اسلام کی تبلیغ کر دینا لاحاصل ہے۔ عقائد کی اصلاح کے لیے ایک رسالہ نہیں ہزاروں رسالے، اگر لاکھوں کی تعداد میں بھی شائع کر دے جائیں تو یہ حالات روبراہ نہیں آسکتے۔ محض زبان اور قلم سے اسلام کی خوبیوں کو بیان کردینے سے کیا فائدہ؟ ضرورت تو اس کی ہے کہ ان خوبیوں کو واقعات کی دنیا میں سامنے لایا جائے۔ محض یہ کہہ دینے سے کہ اس اسلام کے اصولوں میں زندگی کے مسائل کا حل موجود ہے‘ سارے مسائل خود بخود حل نہیں ہو جائیں گے۔ اسلام میں بالقوۃ جو کچھ موجود ہے اس کو بالفعل بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کشمکش اور جدوجہد کی دنیا ہے‘ اس کی رفتار محض باتوں سے نہیں بدلی جاسکتی۔ اس کو بدلنے کے لیے انقلاب انگیز جہاد کی ضرورت ہے۔ اگر اشتراکی اپنے غلط اصولوں کو لے کر نصف صدی کے اندر دنیا کے ایک بڑے حصے میں اپنا اثر و اقتدار قائم کر سکتے ہیں۔ اگر فاشست اپنے غیر معتدل طریقوں کو لے کر دنیا پر اپنی دھاک بٹھا سکتی ہے۔ اگر گاندھی کی اہمسا ایک غیر فطری چیز ہونے کے باوجود محض جدوجہد کے بل پر فروغ پا سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان جن کے پاس حق اور عدل کے غیر فانی اصول ہیں‘ ایک مرتبہ پھر دنیا میں اپنا سکہ نہ جما سکیں، مگر یہ سکہ نرے وعظ و تلقین سے نہیں جم سکتا۔ اس کے لیے سعی و عمل کی ضرورت ہے اور انھی طریقوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن سے سنت اللہ کے مطابق دنیا میں سکہ جما کرتا ہے۔

’انقلاب انگیز جدوجہد‘ ایک مبہم لفظ ہے۔ اس کی عملی صورتیں بہت سی ہیں اور بہت سی ہوسکتی ہیں۔ جس قسم کا انقلاب برپا کرنا مقصود ہو اُس کے لیے وہی صورت اختیار کرنی پڑے گی جو اس انقلاب کی فطرت سے مناسبت رکھتی ہو۔

ہم جو انقلاب چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں کوئی نئی صورت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انقلاب اس سے پہلے برپا ہو چکا ہے۔ جس پاک انسان(صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلی مرتبہ یہ انقلاب برپا کیا تھا وہی اس کی فطرت کو خوب جانتا تھا‘ اور اسی کے اختیارکیے ہوئے طریقے کی پیروی کرکے آج بھی یہ انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس پاک ہستی کی سیرت ایک لحاظ سے معجزہ ہے‘ مگر دوسرے لحاظ سے اسوہ بھی ہے۔ وہ اخلاق‘ وہ تقویٰ ‘ وہ حکمت‘ وہ عدالت‘ وہ طاقت وَر شخصیت، وہ انسانیت کبریٰ کی عظیم الشان خصوصیات اب کوئی انسان کہاں سے لاسکتا ہے؟ اس لیے اب کوئی انسان اتنا کمال درجے کا انقلاب بھی کہاں برپا کرسکتا ہے؟ اس لحاظ سے وہ معجزہ ہے اور قیامت تک کے لیے معجزہ ہے،لیکن اس انسان اکبر نے جو نمونہ چھوڑا ہے اس کا طبعی خاصہ وہی انقلاب انگیزی ہے، جس کی نظیر ساڑھے تیرہ سو برس پہلے دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ اس نمونے کی جتنی زیادہ پیروی کی جائے گی اور جس قدر زیادہ اس سے مماثلت پیدا کی جائے گی‘ اسی قدر زیادہ انقلاب انگیز نتائج بھی ظاہر ہوں گے اور وہ اس پہلے انقلاب سے اتنے ہی زیادہ اقرب ہوں گے جو اصل نمونے کی طاقت سے برپا ہوا تھا۔ اس لحاظ سے وہ اسوہ ہے، اور قیامت تک کے لیے اسوہ ہے۔ بیسویں صدی ہو یا چالیسویں صدی‘ ہندستان ہو‘ یا امریکہ یا روس جہاں اور جس وقت چاہیں آپ اسی نوعیت کا انقلاب برپا کرسکتے ہیں بشرطیکہ اسی اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کر کام کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا اس کی تفصیلات یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں۔ یہاں صرف اس امرکی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ادارہ دارالاسلام ۲؂کا تخیل اسی اسوہ پاک کے غائر مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔

آنحضرت ؐ جب مبعوث ہوئے تو روئے زمین پر ایک شخص بھی مسلم نہ تھا۔ آپؐ نے اپنی دعوت دنیا کے سامنے پیش کی اور آہستہ آہستہ متفرق طور پر ایک ایک دو دو چار چار آدمی مسلمان ہوتے چلے گئے۔ یہ لوگ اگرچہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان رکھتے تھے‘اور ایسی فدویت ان کو اسلام کے ساتھ تھی کہ دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے‘ مگر چونکہ متفرق تھے‘ کفارکے درمیان گھرے ہوئے تھے، بے بس اور کمزور تھے اس لیے اپنے ماحول سے لڑتے لڑتے ان کے بازو شل ہو جاتے تھے اور پھر بھی وہ ان حالات کو نہ بدل سکتے تھے جن کو بدلنے کے لیے وہ اور ان کے ہادی و مرشد (فِدَاہُ اُمِّیْ وَ اَبِیْ) کوشش فرما رہے تھے۔ ۱۳ سال تک حضورؐ اسی طرح جدوجہد کرتے رہے اور اس مدت میں سرفروش اہل ایمان کی ایک مٹھی بھر جماعت آپؐ نے فراہم کرلی۔ اس کے بعد اللہ نے دوسری تدبیرکی طرف آپؐ کی ہدایت فرمائی اور وہ یہ تھی کہ ان سرفروشوں کو لے کر کفر کے ماحول سے نکل جائیں‘ ایک جگہ ان کو جمع کرکے اسلامی ماحول پیدا کر دیں‘ اسلام کا ایک گھر بنائیں جہاں اسلامی زندگی کا پورا پروگرام نافذ ہو‘ ایک مرکز بنائیں جہاں مسلمانوں میں اجتماعی طاقت پیدا ہو‘ ایک ایسا پاور ہاؤس بنا دیں جس میں تمام برقی طاقت ایک جگہ جمع ہو جائے اور پھر ایک منضبط طریقے سے وہ پھیلنی شروع ہو۔ یہاں تک کہ زمین کا گوشہ گوشہ اس سے منور ہوجائے۔ مدینہ طیبہ کی جانب آپؐ کی ہجرت اسی غرض کے لیے تھی۔ تمام مسلمان جو عرب کے مختلف قبیلوں میں منتشر تھے‘ ان سب کو حکم دیا گیا کہ سمٹ کر اس مرکز پر جمع ہو جائیں۔ یہاں اسلام کو عمل کی صورت میں نافذ کرکے بتایا گیا۔ اس پاک ماحول میں پوری جماعت کو اسلامی زندگی کی ایسی تربیت دی گئی کہ اس جماعت کا ہر شخص ایک چلتا پھرتا اسلام بن گیا جسے دیکھ لینا ہی معلوم کرنے کے لیے کافی تھا کہ اسلام کیا ہے اور کس لیے آیا ہے۔ ان پر اللہ کا رنگ (صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً)اتنا گہرا رنگ چڑھایا گیا کہ وہ جدھر جائیں دوسروں کا رنگ قبول کرنے کے بجائے اپنا رنگ دوسروں پر چڑھائیں۔ ان میں کیرکٹر کی اتنی طاقت پیداکی گئی کہ وہ کسی سے مغلوب نہ ہوں اور جو ان کے مقابلے میں آئے ان سے مغلوب ہو کر رہ جائے۔ ان کی رگ رگ میں اسلامی زندگی کا نصب العین اس طرح پیوست کر دیا گیا کہ زندگی کے ہر عمل میں وہ مقدم ہو اور باقی تمام دنیوی اغراض ثانوی درجے میں ہوں۔ ان کو تعلیم اور تربیت دونوں کے ذریعے سے اس قابل بنا دیا گیا کہ جہاں جائیں زندگی کے اسی پروگرام کو نافذ کرکے چھوڑیں جو قرآن و سنت نے انھیں دیا ہے اورہر قسم کے بگڑے ہوئے حالات کو منقلب کرکے اسی کے مطابق ڈھال لیں۔

یہ حیرت انگیز تنظیم تھی جس کا ایک ایک جز گہرے مطالعے اورغور و فکر کا مستحق ہے۔ اس تنظیم میں کام کو چار بڑے بڑے شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا

۱۔ ایک گروہ ایسے لوگوں کا تیار کیا جائے جو دین میں تفقہ حاصل کریں اور جن میں یہ استعداد ہو کہ لوگوں کو دین اور اس کے احکام بہترین طریقے پر سمجھا سکیں

فَلَوْ لَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ۔ (التوبہ۹ ۱۲۲)

[ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے۔]

۲۔ کچھ لوگ ایسے تیار کیے جائیں جن کی زندگیاں اسلام کے نظام عمل کو قائم کرنے اور پھیلانے کی سعی وجہد کے لیے وقف ہوں۔ جماعت کا فرض ہے کہ ان کو کسب معیشت سے بے نیاز کر دے لیکن خود انھیں اس کی پرواہ نہ ہو‘ چاہے معیشت کا کوئی انتظام ہو یا نہ ہو‘ بہرحال وہ اپنے دل کی لگن سے مجبور ہوں اور ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کرکے اس کام میں لگے رہیں جو اُن کی زندگی کا واحد نصب العین ہے

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِْ۔ (آل عمران۳ ۱۰۴)

[تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔]

۳۔ پوری جماعت میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ ہر ہر شخص اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھے۔ وہ اپنے دنیا کے کاروبار چلاتا رہے مگر ہر کام میں یہ مقصد اس کے سامنے ہو۔ تاجر اپنی تجارت میں‘ کسان اپنی زراعت میں‘ صَنَّاع اپنے پیشے کے کام میں اور ملازم اپنی ملازمت میں اس مقصد کو نہ بھولے۔ وہ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ یہ سب کام جینے کے لیے ہیں اور جینا اس کام کے لیے ہے۔ وہ زندگی کے جس دائرے میں بھی کام کرے‘ اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق اور معاملات میں اسلام کے اصول کی پابندی کرے اور جہاں دنیوی فوائد میں اور اصول اسلام میں نقیض واقع ہو جائے وہاں فوائد پر لات مار دے اور اصول کو ہاتھ سے دے کر اسلام کی عزت کو بٹہ نہ لگائے۔ پھر وہ جتنا مال اور جتنا وقت اپنی ذاتی ضروریات سے بچا سکتا ہو اس کو اسلام کی خدمت میں صَرف کر دے، اور ان لوگوں کا ہاتھ بٹائے جنھوں نے اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کی ہیں

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (آل عمران۳ ۱۱۰)

[اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔]

۴۔ باہر کے لوگوں کو موقع دیا جائے کہ دار الاسلام میں آئیں اور ایسے ماحول میں رہ کر کلام اللہ کا مطالعہ کریں جہاں کی ساری زندگی اس کلام پاک کی عملی تفسیر ہو۔ کفر کے ماحول کی بہ نسبت اسلام کے ماحول میں وہ قرآن کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھیں گے اور زیادہ گہرا اثر لے کر واپس جائیں گے

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہ‘۔ (التوبہ۹ ۶)

[اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اُسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کلام سن لے پھر اُسے اُس کے مَاْمَن (ٹھکانے) تک پہنچا دو۔]

اس طرح صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں دنیا کے اس سب سے بڑے ہادی و رہبر نے مدینہ کے پاور ہاؤس میں اتنی زبردست طاقت بھر دی کہ دیکھتے دیکھتے اس نے سارے عرب کو منور کر دیا اور پھر عرب سے نکل کر اس کی روشنی روئے زمین پر پھیل گئی۔ حتیٰ کہ آج ساڑھے تیرہ سو برس گزر چکے ہیں مگر وہ پاور ہاؤس اب بھی طاقت کے خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔

خلافت راشدہ کے بعد جب نظام اسلامی میں بہت کچھ برہمی پیدا ہوگئی تو صوفیائے اسلام نے بھی اسی طریقے کی پیروی میں جگہ جگہ خانقاہیں قائم کی تھیں۔ آج خانقاہ کا مفہوم اس قدر گر گیا ہے کہ یہ لفظ سنتے ہی انسان کے ذہن میں ایک ایسی جگہ کا تصور آجاتا ہے جہاں ہوا اور روشنی کا گزر نہ ہو، اور صدیوں تک جنتری کا ورق نہ پلٹے، مگر اصل میں یہ خانقاہ بھی اسی نمونے کی ایک نقل تھی جسے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کیا تھا۔ صوفیائے کرام جن لوگوں میں استعداد پاتے تھے ان کو بیرونی دنیا کے گندے ماحول سے نکال کر کچھ مدت تک خانقاہ میں رکھتے تھے اور وہاں اعلیٰ درجے کی تربیت دے کر انھیں اسی کام کے لیے تیار کرتے تھے جس کے لیے مرشد اعظمؐ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تیار کیا کرتے تھے۔

اب جو لوگ اسلامی طرز کا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ان کو پھر اسی طریقے کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ہم ہندستان سے نکل کر کہیں آزاد فضا نہیں پاسکتے جہاں مدینہ طیبہ کی طرح دارالاسلام بنایا جاسکے تو کم از کم ہم کو اسی ملک میں ایسی تربیت گاہیں بنانی چاہییں جہاں خالص اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ جہاں اخلاق اسلامی ہوں‘ معاشرت اسلامی ہو‘ عملی زندگی مسلمانوں کی سی ہو‘ گرد و پیش ہر طرف اسلام اپنی روح اور اپنی صورت کے ساتھ نمایاں ہو۔ جہاں کسی چیز کے صحیح ہونے کے لیے صرف یہ دلیل کافی ہو کہ خدا اوررسول نے اس کی اجازت دی ہے، یا اس کا حکم دیا ہے‘ اور کسی چیز کا غلط ہونا صرف اس دلیل سے تسلیم کیا جائے کہ خدا اور رسول نے اس سے منع کیا ہے، یا اسے ناپسند کیا ہے۔ جہاں یہ بغاوت اورسرکشی کا ماحول‘ یہ غیر اسلامی فضا نہ ہو جس نے ہر طرف سے ہمارا احاطہ کر رکھا ہے۔ جہاں ہم کو کم از کم اتنا اختیار تو ہو کہ بیرونی اثرات میں سے جن کو ہم روح اسلامی کے موافق پائیں صرف انھی کو داخل ہونے دیں اور جن کو منافی پائیں ان کو اپنی زندگی پر مسلط ہونے اور اپنے دل و جان میں نفوذ کرنے سے روک سکیں۔ جہاں ہم کو ایسی فضا میسر آسکے کہ مسلمان کی طرح سوچ سکیں‘ مسلمان کی سی نظر اپنے اندر پیدا کرسکیں‘ ان اسلامی صفات کو نشوونما دے سکیں جو اس دار الکفر کی مسموم آب و ہوا میں فنا ہوتی چلی جا رہی ہیں‘ ان گندگیوں اور آلائشوں سے اپنی زندگی کو پاک کر سکیں جو غیر اسلامی ماحول میں آنکھیں کھولنے اور نشوونما پانے کی وجہ سے ہمارے افکار اور اعمال میں گھس گئی ہیں‘ جن کا شعور تک بسا اوقات ہمیں نہیں ہوتا اور جن کو اگر ہم محسوس کر بھی لیتے ہیں تو ماحول کی طاقت اتنی جابر و قاہر ثابت ہوتی ہے کہ باوجود کوشش کرنے کے ہم اپنے آپ کو ان سے نہیں بچا سکتے۔ اس قسم کی تربیت گاہوں میں ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو سچے دل سے اسلام کی خدمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہاں کے کام کا نقشہ وہی ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کا نقشہ تھا۔ اسی طرح کام کو شعبوں میں تقسیم کیا جائے‘ اور اسی طرح ہر شعبے میں آدمیت کو اسلامیت کے سانچے میں ڈھالنے کی تدبیر کی جائے

• ایک شعبہ ایسا ہو کہ جس میں اعلیٰ درجے کی علمی استعداد کے لوگ شامل ہوں۔ ان میں سے جو لوگ علوم دینیہ میں دستگاہ رکھتے ہوں انھیں مغربی زبانوں سے اورعلوم جدیدہ سے روشناس کیا جائے‘ اور جن حضرات نے علوم جدیدہ کی تحصیل کی ہو انھیں عربی زبان اور اسلامی علوم کی تعلیم دی جائے۔ پھر یہ لوگ قرآن اور سنت کا گہرا مطالعہ کرکے دین میں تفقہ اور بصیرت حاصل کریں۔ اس کے بعد ان کے مختلف گروپ بنا دیے جائیں۔ ہر گروپ ایک ایک شعبہ علم کو لے کر اس میں اسلام کے اصول و نظریات کوجدید طرز پر مرتب کرے‘ زندگی کے جدید مسائل کو سمجھے اور اصول اسلام کے مطابق ان کا حل تلاش کرے‘ علوم کی بنیاد میں جو مغربی نقطہ نظر پیوست ہو گیا ہے اس کو نکال کر اسلام کے نقطہ نظر سے علوم کو از سر نو مدون کرے اور اپنی تحقیقات سے ایسا صالح لٹریچر پیدا کرے جو اسلام کی موافقت میں ایک ذہنی انقلاب برپا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔

۲۔ دوسرا شعبہ ایسا ہو جس میں خدمت اسلام کے لیے اچھے کارکن تیارکرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکیزہ اخلاق‘ مضبوط سیرت‘ دھن کے پکے اور اپنے نصب العین کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والے لوگ، جو ایک زبردست انقلابی پارٹی کی صورت میں منظم ہوں‘ جن کی زندگی سادہ ہو‘ جن میں جفا کشی ہو‘ جن میں پورا ضبط و نظم پایا جائے‘ اور جن کی عملی سیرت ٹھیٹھ مسلمان کی سی ہو۔ یہ پارٹی اسلام کے اصولوں پر ایک نئے اجتماعی نظام (Social order)اور ایک نئی تہذیب (Civilisation)کی تعمیر کا پروگرام لے کر اٹھے اور عامہ خلائق کے سامنے اپنے پروگرام کو پیش کرکے، زیادہ سے زیادہ سیاسی طاقت فراہم کرے اور بالآخر حکومت کی مشین پر قابض ہو جائے تاکہ ظلم و جور کی حکومت کو عدل کی حکومت میں تبدیل کیا جاسکے۔

۳۔ تیسرے شعبے میں ایسے لوگ ہوں جو صرف تھوڑی مدت کے لیے تربیت گاہ میں رہ کر واپس جانا چاہتے ہوں۔ انھیں صحیح علم اور اخلاقی تربیت دے کر چھوڑ دیا جائے کہ جہاں چاہیں رہیں مگر مسلمان کی طرح رہیں۔ دوسروں سے متاثر ہونے کے بجائے ان پر اپنا اثر ڈالیں۔ اپنے اصولوں میں سخت ہوں۔ اپنے عقائد میں مضبوط ہوں‘ بے مقصد زندگی نہ بسر کریں۔ ایک نصب العین ہر حال میں ان کے سامنے ہو۔ پاک طریقوں سے روزی کمائیں اور ان لوگوں کو ہر ممکن طریقے سے مدد دینے کے لیے تیار رہیں جو شعبہ نمبر۲ کے تحت کام کر کر رہے ہوں۔ یہ ان کو مالی مدد بھی دیں‘ ان کے کاموں میں شریک بھی رہیں، اور جہاں رہیں وہاں کی فضا کو انقلابی پارٹی کی موافقت میں تیار بھی کرتے رہیں۔

۴۔چوتھا شعبہ ایسے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے ہو جو محض عارضی طور پر تربیت گاہ میں آکر کچھ علمی استفادہ کرنا چاہیں، یا وہاں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے خواہش مند ہوں۔ ان لوگوں کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں جائیں تاکہ وہ اسلام اور اس کی تعلیم کا گہرا نقش لے کر واپس جائیں۔

یہ ایک سرسری سا خاکہ ہے اس نظام کا جو ہمارے نزدیک اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک ضروری مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام کی کامیابی کا انحصار تمام تر اس پر ہے کہ یہ اپنی روح اور اپنے جوہر میں مدینہ طیبہ کے اس مثالی نظام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مماثلت پیدا کرے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا۔

مدینہ طیبہ سے مماثلت پیدا کرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کرکے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اتباع رسولؐ و اصحاب کا یہ مفہوم ہی سرے سے غلط ہے‘ اور اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالح کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسا لباس وہ پہنتے تھے ویسا ہی ہم پہنیں‘ جس قسم کے کھانے وہ کھاتے تھے اسی قسم کے کھانے ہم بھی کھائیں‘ جیسا طرز معاشرت ان کے گھروں میں تھا بعینہ وہی طرز معاشرت ہمارے گھروں میں بھی ہو۔ تمدن و حضارت کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل مُتَحَبَّر۳؂ (Foscilised)صورت میں قیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں‘ اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے ارد گرد ایک حصار کھینچ لیں جس کی سرحدمیں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ اتباع کا یہ تصور جو دور انحطاط کی کئی صدیوں سے دین دار مسلمانوں کے دماغوں پر مسلط رہا ہے درحقیقت روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثار قدیمہ بن کر رہیں اور اپنی زندگی کو قدیم تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔ وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔ اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا نہیں ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے، بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے‘ جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرے۔ وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ زمان و مکان کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے۔ ہم کو ’خیرامت‘ جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (Rear Guard) کی حیثیت سے لگے رہیں‘ بلکہ ہمارا کام امامت و رہنمائی ہے۔ ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیر امت ہونے کا راز اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِمیں پوشیدہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کا اصلی اسوہ جس کی پیروی ہمیں کرنی چاہیے‘ یہ ہے کہ انھوں نے قوانینِ طبیعی کو قوانینِ شرعی کے تحت استعمال کرکے، زمین میں خدا کی خلافت کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ ان کے عہد میں جو تمدن تھا، انھوں نے اس کے قالب میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکی۔ اس وقت جتنی طبیعی قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو چکی تھی ان سب کو انھوں نے اس تہذیب کا خادم بنایا‘ اور غلبہ و ترقی کے جس قدر وسائل تمدن نے فراہم کیے تھے ان سے کام لینے میں وہ کفار و مشرکین سے سبقت لے گئے تاکہ خدا سے بغاوت کرنے والوں کی تہذیب کے مقابلے میں خدا کی خلافت سنبھلانے والوں کی تہذیب کامیاب ہو۔ اسی چیز کی تعلیم خدا نے اپنی کتاب میں ان کو دی تھی کہ وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنَ قُوَّۃٍ ] الانفال۸۶۰[ اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت۔۔۔۔۔۔ مہیا رکھو۔

ان کو یہ سکھایا گیا تھا کہ خدا کی پیدا کی ہوئی قوتوں سے کام لینے کا حق کافر سے زیادہ مسلم کو پہنچتا ہے بلکہ اس کا اصلی حق دار مسلم ہی ہے۔ پس نبیؐ و اصحاب نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن کے ارتقا اور قوانین طبیعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں ان کو ہم اس طرح تہذیب اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدر اول میں کی گئی تھی۔ نجاست اور گندگی جو کچھ ہے وہ ان وسائل میں نہیں ہے بلکہ اس کافرانہ تہذیب میں ہے جو ان وسائل سے فروغ پا رہی ہے۔ ریڈیو بجائے خود ناپاک نہیں ہے، ناپاک وہ تہذیب ہے جو ریڈیو کے ڈائرکٹر کو داروغۂ ارباب نشاط یا ناشر کذب و افترا بناتی ہے۔ ہوائی جہاز ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ہوا کے فرشتے سے خدائی قانون کے بجائے شیطانی اغوا کے تحت خدمت لیتی ہے۔ سینما ناپاک نہیں ہے، ناپاک دراصل وہ تہذیب ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی اس طاقت سے فحش اور بے حیائی کی اشاعت کاکام لیتی ہے۔ آج کل کی ناپاک تہذیب کو فروغ اسی لیے ہو رہا ہے کہ اس کو فروغ دینے کے لیے خدا کی بخشی ہوئی تمام ان طاقتوں سے کام لیا جارہا ہے جو اس وقت تک انسان پر منکشف ہوئی ہیں۔ اب اگر ہم اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں جو الٰہی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہم پر عائد ہوتا ہے تو ہمیں بھی انھی طاقتوں سے کام لینا چاہیے۔ یہ طاقتیں تو تلوار کی طرح ہیں کہ جو اس سے کام لے گا وہی کامیاب ہوگا‘ خواہ وہ ناپاک مقصد کے لیے کام لے یا پاک مقصد کے لیے۔ پاک مقصد والا اگر اپنے مقصد کی پاکی ہی کو لیے بیٹھا رہے اور تلوار استعمال نہ کرے تو یہ اس کا قصور ہے اور اس قصور کی سزا اسے بھگتنی پڑے گی کیونکہ اس عالم اسباب میں خدا کی جو سنت ہے اسے کسی کی خاطر نہیں بدلا جاسکتا۔

اس تصریح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک جسے میں پیش کر رہا ہوں، نہ تو کوئی ارتجاعی (Reactionary) تحریک ہے اور نہ اس قسم کی ارتقائی تحریک ہے جس کے پیش نظر صرف مادی ارتقا ہو۔ میرے پیش نظر جو تربیت گاہ ہے اس کے لیے گرو کل کانگڑی‘ سیہ گرہ آشرم‘ شانتی نکیتن اور دیال باغ میں کوئی نمونہ نہیں ہے‘ اور اسی طرح جس انقلابی پارٹی کا تصور میرے ذہن میں ہے اس کے لیے اٹلی کی فاشست اور جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں بھی کوئی نمونہ نہیں ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی نمونہ ہے تو وہ صرف مدینۃ الرسول اور اس حزب اللّٰہ میں ہے جسے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتب کیا تھا۔

(ترجمان القرآن‘ شوال ۱۳۵۵۶ھ۔ دسمبر ۱۹۳۷ء)


دور جدید کی بیمار قومیں - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

دور جدید کی بیمار قومیں 
مشرق ہو یا مغرب‘ مسلمان ہو یا غیر مسلم‘ بلا اِستثنا سب ایک ہی مصیبت میں گرفتار ہیں‘ اور وہ یہ ہے کہ ان پر ایک تہذیب مسلط ہوگئی ہے جس نے سراسر مادیت کے آغوش میں پرورش پائی ہے۔ اس کی حکمت نظری و حکمت عملی‘ دونوں کی عمارت غلط بنیادوں پر اٹھائی گئی ہے۔ اس کا فلسفہ‘ اس کا سائنس‘ اس کا اخلاق‘ اس کی معاشرت‘ اس کی سیاست‘ اس کا قانون‘ غرض اس کی ہر چیز ایک غلط نقطۂ آغاز سے چل کر ایک غلط رخ پر ترقی کرتی چلی گئی ہے اور اب اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں سے ہلاکت کی آخری منزل قریب نظر آرہی ہے۔

اس تہذیب کا آغاز ایسے لوگوں میں ہوا جن کے پاس درحقیقت حکمت الٰہی کا کوئی صاف اور پاکیزہ سرچشمہ نہ تھا۔ مذہب کے پیشوا وہاں ضرور موجود تھے‘ مگر ان کے پاس حکمت نہ تھی‘ ان کے پاس علم نہ تھا‘ ان کے پاس خدا کا قانون نہ تھا۔ محض ایک غلط مذہبی تخیل تھا جو فکر و عمل کی راہوں میں نوعِ انسانی کو سیدھے راستے پر اگر چلانا چاہتا بھی تو نہ چلا سکتا تھا۔ وہ بس اتنا ہی کر سکتا تھا کہ علم و حکمت کی ترقی میں سدِراہ بن جاتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اس مزاحمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ ترقی کرنا چاہتے تھے وہ مذہب اور مذہبیت کو ٹھوکر مار کر ایک دوسرے راستے پر چل پڑے جس میں مشاہدے‘ تجربے اور قیاس و استقرا کے سوا کوئی اور چیز ان کی رہنما نہ تھی۔ یہی ناقابل اعتماد رہنما‘ جو خود ہدایت اور نور کے محتاج ہیں‘ ان کے معتمد علیہ بن گئے۔ ان کی مدد سے انھوں نے فکر و نظر‘ تحقیق و اکتشاف‘ اور تعمیر و تنظیم کی راہ میں بہت کچھ جدوجہد کی مگر ان کو ہر میدان میں ایک غلط نقطۂ آغاز نصیب ہوا ،اور ان کی تمام ترقیات کا رخ ایک غلط منزلِ مقصود کی طرف پھر گیا۔ وہ الحاد اور مادیت کے نقطے سے چلے۔

اسلام کى وجہ تسميہ

کتاب: دینیات
مصنف: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
باب: اسلام
عنوان: وجہ تسمیہ

دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام یاتو کسی خاص شخص کے نام پر رکھا گیا ہے یا اس قوم کے نام پر جس میں مذہب پیدا ہوا۔ مثلاً عیسائیت کا نام اس لیے عیسائیت ہے کہ اس کی نسبت حضرت عیسی کی طرف ہے۔ بودھ مت کا نام اس لیے بودھ مت ہے کہ اس کے بانی مہاتما بدھ تھے۔ زردشتی مذہب کا نام اپنے بانی زردشت کے نام پر ہے۔یہودی مذہب ایک خاص قبیلہ میں پیدا ہوا جس کانام یہوداہ تھا۔ایسا ہی حال دوسرے مذاہب کے ناموں کابھی ہے۔ مگر اسلام کی خصوصیت یہ ہےکہ وہ کسی شخص یا قوم کی طرف سےمنسوب نہیں ہے۔ بلکہ اس کانام ایک خاص صفت کو ظاہر کرتا ہے جو لفظ “اسلام” کے معنی میں پائی جاتی ہے۔یہ نام خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی ایک شخص کی ایجاد نہیں ہے۔ نہ کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کو شخص یاملک یا قوم سے کوئی علاقہ نہیں۔ صرف “اسلام” کی صفت لوگوں میں پیدا کرنا اس کا مقصد ہے۔ ہر زمانے اور ہر قوم کےجن سچے اور نیک لوگوں میں یہ صفت پائی گئی ہے وہ سب مسلم تھے، “مسلم” ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔

ذہین ترین لوگوں کی عادات کے بارے میں پروفیسرکریگ رائٹ کے خیالات

ڈاکٹر کریگ رائٹ  نے اپنی زندگی میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ماضی اور حاضر دور کے ذہین ترین لوگوں کو سمجھنے میں گزارا ہے۔

ذہین ترین لوگوں کے بارے میں 
پروفیسرکریگ رائٹ کے خیالات

اپنی تین کتابوں میں انھوں نے ایسی شخصیات میں 14 مشترکہ عادات کا تعین کیا ہے۔ اس فہرست میں ان افراد کے ٹیلنٹ یا خاص ہنر کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ روزمرہ کی عام عادات کو حصہ بنایا گیا ہے۔ جب کہ ذہانت کے جائزہ کيلئے ’آئی کیو کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘  کریگ رائٹ کے مطابق ذہین افراد میں مندرجہ ذیل 14 عادات پائی گئی ہیں:

1- کام کے آداب۔

2- لچک، یعنی مشکلات سے گھرنے کے باوجود جلد بحالی۔

3-نیا کام۔

4-بچے جیسا تخیل۔

5- ختم نہ ہونے والا تجسس۔

6-جنون۔

7-اردگرد کے ماحول سے الگ تخلیقی صلاحیت۔

8-بغاوت کا جذبہ۔

9-ایسی سوچ جو حد پار کر دے۔

10-باقی لوگوں سے مختلف عمل یا سوچ۔

11-تیاری۔

12-بار بار ایک چیز کے بارے میں سوچنا۔

13-آرام۔

14-توجہ۔

-------------

 ذہین شخص کون ہے؟ پروفیسر رائٹ کے مطابق ہر کسی کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ’ذہین فرد میں ذہانت کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ان کے کارناموں سے وقت کے ساتھ معاشرے میں اچھی یا بُری تبدیلی واقع ہوتی ہے۔‘ ان کے نزدیک  زیادہ ذہین وہ ہے جس کے کارناموں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو طویل دورانیے تک متاثر کیا ہے۔  

غیر معمولی ذہانت کے مالک افراد کی مشترکہ 14 عادات ۔

 دنیا کے عظیم موسیقاروں میں سے ایک لوڈویگ وین بیتھوون کو ریاضی میں جمع کے سوال حل کرنے میں مشکل پیش آتی تھی اور انھوں نے کبھی ضرب یا تقسیم کرنا نہیں سیکھا تھا۔

ہسپانوی پینٹر پابلو پیکاسو کو حروف کی سمجھ نہیں تھی اور والٹ ڈزنی کلاس روم میں خواب خرگوش میں پائے جاتے تھے۔ برطانوی مصنفہ کو تو سکول ہی جانے نہیں دیا گیا مگر ان کے بھائیوں نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی۔

چارلس ڈارون کی سکول کی کارکردگی اتنی بُری تھی کہ ان کے والد انھیں خاندان کے لیے باعثِ شرمندگی سمجھتے تھے۔

 ایلبرٹ آئن سٹائن کو اپنے دور میں فزکس کے امتحان میں چوتھے نمبر پر آنے کا اعزاز حاصل ہے، ہاں مگر جماعت میں طالب علم صرف پانچ ہی تھے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کے تعلیمی معیار پر ان میں سے شاید کوئی بھی پورا نہ اتر پاتا۔ مگر یہ تمام لوگ تاریخ میں ذہین یا جینیئس مانے جاتے ہیں کیونکہ آرٹس اور سائنس کے میدانوں میں ان کی خدمات عظیم ہیں۔

آج کے دور کی بھی کئی معروف شخصیات جیسے بِل گیٹس، باب ڈیلن اور اوپرا ونفری نے ہائی سکول کی تعلیم مکمل نہیں کی مگر اس کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں بے انتہا کامیاب رہے۔

ڈاکٹر کریگ رائٹ کا کہنا ہے کہ ’آئی کیو کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘ انھوں نے اپنی زندگی میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تاریخ اور حاضر دور کے ذہین ترین لوگوں کو سمجھنے میں گزارا ہے۔

اپنی تین کتابوں میں انھوں نے ایسی شخصیات میں 14 مشترکہ عادات کا تعین کیا ہے۔ اس فہرست میں ان افراد کے ٹیلنٹ یا خاص ہنر کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ روزمرہ کی عام عادات کو حصہ بنایا گیا ہے۔

پروفیسر رائٹ کے مطابق ذہین شخص کون ہے، ہر کسی کے لیے اس کی تعریف مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ’ذہین فرد میں ذہانت کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ان کے کارناموں سے وقت کے ساتھ معاشرے میں اچھی یا بُری تبدیلی واقع ہوتی ہے۔‘

رائٹ سمجھتے ہیں کہ زیادہ ذہین وہ ہے جس کے کارناموں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو طویل دورانیے تک متاثر کیا ہے۔

انھوں نے کئی برسوں تک ییل یونیورسٹی میں ’جینیئس کورس‘ پڑھایا ہے۔ کئی طالب علم ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوتے جب وہ بتاتے ہیں کہ امریکی گلوکارہ لیڈی گاگا جینیئس ہیں جبکہ اولمپکس میں سب سے زیادہ سونے کے تمغے جیتنے والے سوئمر مائیکل فیلپس جینیئس نہیں ہیں۔

وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پہلی کلاس میں کئی طلبہ جینیئس بننے کے لیے ہاتھ کھڑے کرتے ہیں اور آخر میں ان کی تعداد بہت کم وہ جاتی ہے۔

بی بی سی نے ان سے ایک انٹرویو میں مزید جاننے کی کوشش کی ہے۔

سوال: رائل سپینش اکیڈمی کے مطابق جینیئس سے مراد غیر معمولی ذہنی قابلیت یا نئی ایجادات کی صلاحیت رکھنا ہے۔ کیا آپ اس تعریف سے مطمئن ہیں؟

جواب: یہ تعریف محدود ہے۔ میرے خیال میں اس سے مراد ایسے افراد ہیں جو جینیئس بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ابھی جینیئس ہوتے نہیں۔

یہ تعریف دینے والی ادبی شخصیات چاہتی ہیں کہ آپ اپنا ذہن استعمال کریں اور نئے خیالات کو تشکیل دیں۔ یعنی تخلیق کاروں کے لیے یہ خیالات بدلتے رہتے ہیں۔

ہم اس پر بحث کر سکتے ہیں اور میرے ذہن میں آئن سٹائن آتے ہیں جو فرض کریں کہ کسی جزیرے پر تنہا ہیں۔ وہاں وہ اپنا فارمولا (ای = ایم سی سکوئر) سوچ سکتے ہیں، وہ تھیوری آف جنرل ریلٹیوٹی اور مزید بہت کچھ سوچ سکتے ہیں۔ لیکن اس دوران وہ کسی سے رابطہ نہیں کر پاتے اور ہمیں کبھی کسی آئن سٹائن کی خبر ہی نہیں ہوتی۔

اکیڈمی کی تعریف کے مطابق آئن سٹائن اب بھی جینیئس ہوں گے لیکن میری تعریف کے مطابق ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وہ دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں لائے ہوں گے۔

سوال: تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ جینیئس کون ہوتا ہے؟

جواب: میں اپنی کتاب میں بتا چکا ہوں کہ آئی کیو یعنی ذہانت کے معیار کو ضرورت سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔

کسی عام آئی کیو ٹیسٹ میں ایسی صلاحیت جانچی جاتی ہے جو انسان کو وراثت میں ملی ہوتی ہے۔

کئی دہائیوں کے لیے ان عظیم شخصیات کے بارے میں مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ ذہین تھے لیکن آئی کیو ٹیسٹ میں ان کے سکور غیر معمولی طور پر زیادہ نہیں تھے، جیسے 200 میں سے 140 یا 150 کا سکور۔

میں نوبیل انعام جیتنے والوں کی بھی مثال دیتا ہوں کہ ان میں سے کچھ کے آئی کیو سکور 115 یا 120 تھے۔

آئی کیو کے علاوہ ایسے کئی عناصر ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ طویل دورانیے تک کوئی کیسے اپنی مہارت سے دنیا کو بدل سکتا ہے۔

میں نے قریب 13، 14 اور 16 سال کی عمر کے تین نوجوانوں کے ساتھ پانچ سنہرے دن گزارے ہیں۔ ان تینوں کی تعلیمی کارکردگی اچھی ہے اور وہ ایسے امتحانات کے لیے تیاری کر رہے ہیں جن کی مدد سے وہ بہتر تعلیمی اداروں میں جا سکتے ہیں۔

میں نے انھیں بتایا کہ شاید نوٹس کی اتنی اہمیت نہیں اور انھیں دنیا کا مطالعہ کرنا چاہیے، مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے، غلطیاں کرنی چاہییں اور گِر کر دوبارہ اٹھنا چاہیے۔

لیکن ان کے والدین (میرا بیٹا اور اس کی اہلیہ) نے بتایا کہ میں انھیں غلط پیغام دے رہا ہوں اور مجھے انھیں بہتر کارکردگی پر ابھارنا چاہیے۔

تو اب یہ والدین مجھے غلط صحبت سمجھتے ہیں۔

مگر سچ یہ ہے کہ آج کل نوجوانوں پر بہت دباؤ ہے اور شاید لوگوں کی قابلیت جانچنے کے لیے موجود طریقۂ کار ٹھیک نہیں۔

سوال: اپنے بچوں کو جینیئس بنانے یا خود بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

جواب: میرے خیال سے سب سے اہم چیز کوشش ہے۔ لیکن سخت محنت کے لیے کیا درکار ہوتا ہے؟

کیونکہ کوشش خود سے وجود میں نہیں آتی بلکہ یہ اندرونی قوت سے بیرونی طور پر واقع ہوتی ہے۔

جنون پیدا ہونے سے سخت محنت کا حوصلہ ملتا ہے اور اس کی بنیاد محبت ہوسکتی ہے یا ذہن میں کسی چیز کا بار بار خیال آنا۔

میں کہوں گا کہ اپنے جنون کو شہہ دینا اہم ہے۔

ایک اور چیز جو میں نے عظیم ذہنوں میں دیکھی وہ یہ ہے کہ وہ خود میں ایک سکالر یا محقق ہوتے ہیں اور انھیں مختلف شعبوں کا علم ہوتا ہے۔

اپنی کتاب کے ایک باب میں، میں نے لکھا ہے کہ آپ کو لومڑی اور ہیج ہاگ میں فرق دیکھنا چاہیے۔ لومڑی کو مختلف چیزوں کا علم ہوتا ہے جبکہ ہیج ہاگ صرف ایک چیز کے بارے میں جانتا ہے۔

تو آپ کس طرح کے انسان ہیں: جو ہزاروں میل سفر کرے یا ہزاروں میل نیچے گِرے؟

مختلف تجربات ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ الگ الگ چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے لوگ کم تجربات کی وجہ سے محض کچھ ہی چیزوں کے بارے میں سوچ پاتے ہیں۔

بچوں کی پرورش کے دوران یہ اہم ہے کہ آپ انھیں مختلف قسم کے تجربات دیں۔ اگر انھیں سائنس پسند ہے تو آپ انھیں ناول پڑھنے کا کہیں۔ اگر انھیں سیاست میں دلچسپی ہے تو آپ انھیں پینٹنگ کرنا سکھائیں۔

وہ والدین جو اپنے بچوں کو صرف ایک طرح کی سرگرمیوں میں شریک کر رہے، جیسے اولمپکس کا سوئمر بنانے کی کوشش یا فزکس میں نوبیل انعام دلوانے کی کوشش، وہ غلط ہیں۔

ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ ان کا جنون کیا ہے، جب تک یہ مختلف تجربات سے نہیں گزر جاتے۔

جیسے ایک قول ہے کہ اگر آپ اپنے کام سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو زندگی میں ایک دن بھی یہ کام محسوس نہیں ہوگا۔

سوال: جدید دور میں ذہین شخصیات کون سی ہیں اور کس مثال پر طالب علم حیران ہوتے ہیں؟

جواب: ایلون مسک ایک جدید دور کے جینیئس ہیں جنھوں نے بظاہر اپنے دیوانے پن میں مختلف شعبوں میں عظیم کارنامے سرانجام دیے ہیں جیسے ٹیسلا اور سپیس ایکس جیسی کمپنیوں کا قیام۔

ان کی مثال ایک سکالر کی سی ہے جو ایک ہی وقت میں مختلف شعبوں میں انقلاب لا رہا ہے۔

لیکن غیر متوقع جینیئس افراد میں کانیے ویسٹ، ڈولی پارٹن اور لیڈی گاگا جیسے نام ہیں۔ ان ناموں پر کچھ لوگ سر ہلا کر نفی میں جواب دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔

ڈولی پارٹن ایک دلچسپ مثال ہے کیونکہ وہ بہت ذہین ہیں مگر انھیں سیلی بلانڈ (احمق شخص) سمجھا جاتا ہے۔ یہ ان کی طاقت ہے۔

انھوں نے خود کے لیے ایک عظیم کمپنی بنائی ہے اور وہ تفریح کی صنعت میں کامیاب کاروباری خاتون کے طور پر ہر کسی کے لیے ایک مثال ہیں۔ وہ ایسے گانے گاتی اور لکھتی ہیں جو جدید دور میں کافی پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔

تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈولی پارٹن کی کافی اہمیت ہے، خاص کر امریکہ میں غریب سفید فام خواتین کے لیے۔ ان کی موسیقی کئی افراد کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ یہ اثر کب تک قائم رہتا ہے۔

لیکن یہاں سوئمر مائیکل فیلپس کی بھی مثال ہے جنھوں نے اولمپکس میں سب سے زیادہ گولڈ میڈل جیتے ہیں۔

فرانس میں کسی نے ماضی کے یونان کی نوعیت کے اولمپکس شروع کیے اور اس میں سوئمنگ کا کھیل شامل کیا۔ یہاں سو اور دو سو میٹر کی ریس ہوتی ہے اور فری سٹائل، بیک سٹروک، بریسٹ سٹروک اور بٹر فلائی جیسے ہنر آزمائے جاتے ہیں۔

مائیکل سوئمنگ پول میں داخل ہوتے ہیں اور دوسروں کی نسبت زیادہ تیزی سے تیر سکتے ہیں۔

لیکن مستقبل میں کوئی ان سے بھی تیز تیر سکے گا کیونکہ اس کے لیے جسم کی خاص بناوٹ درکار ہے، آہستہ آہستہ غذائی عادات بہتر ہو رہی ہیں اور ٹریننگ سے مزید بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔

لیکن اس مثال کے لیے سپینش اکیڈمی کی مثال درست ہے: یہاں کوئی ذہانت کے عنصر نہیں۔ یہ کسی جانور کی طرح ہے جو پنجرے میں تیز سے تیز تر کرتب دکھا سکتا ہے۔

میرے خیال سے کسی جینیئس کو اس سے بہتر کام کرنا چاہیے۔

سوال: ییل کے طلبہ آپ کی کلاس پڑھ کر جینیئس کیوں نہیں بننا چاہتے؟

جواب: عظیم ذہنوں کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ وہ اکثر اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے کافی تباہ کن ہوتے ہیں کیونکہ وہ جنون سے اتنے بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کے بارے میں بار بار سوچتے ہیں۔

ان کی توجہ صرف اپنے ذہنی مقصد کو پورا کرنے کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں اور ان کے مطابق صرف وہ ہی ایسا کر سکتے ہیں۔

ان لوگوں کے بہت سارے خواب ہوتے ہیں جن سے وہ خود پر اور اپنے اردگرد لوگوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ وہ دوسرے کے لیے مشکل رویہ اختیار کر سکتے ہیں اور انھیں کمتر سمجھ سکتے ہیں۔

تو ان کے لیے کام کرنا اچھا نہیں بھی ہوسکتا ہے۔

جیف بیزوس، ایلون مسک اور بِل گیٹس اس کی مثالیں ہیں۔

جینیئس کورس کے دوران لوگ خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ’کیا میں واقعی یہ کرنا چاہتا ہوں؟ کیا میں بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے دنیا کو بدلنا چاہتا ہوں یا محض اپنے اردگرد کا ماحول؟ تاکہ میرے قریبی لوگ بہتر محسوس کر سکیں۔۔۔‘

اور میری کتاب کا بھی عنوان یہی ہے۔ اس کتاب کا راز یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ کسی معنی خیز انداز میں دنیا کو تبدیل کرنے والے نہیں ہیں۔

تاہم اس سے ہم عملی طور پر اہم چیزیں سیکھ سکتے ہیں، جیسے لوگوں سے اپنے تعلقات کیسے رکھے جاسکتے ہیں اور اپنی پیداوار یا تخلیقی صلاحیت کیسے بہتر کی جاسکتی ہے۔

کیونکہ جینیئس افراد اپنے جنون میں پہلے سے مبتلا ہوتے ہیں اور وہ کبھی بھی اُڑان بھر سکتے ہیں۔

دریں اثنا ہم باقی لوگ اس سے یہ موقع حاصل کر سکتے ہیں کہ اپنی زندگیاں کیسے گزارنی ہیں اور کیسے اس میں تبدیلی لانی ہے۔

کریگ رائٹ کے مطابق ذہین افراد میں مندرجہ ذیل 14 عادات پائی گئی ہیں:

کام کے آداب۔

لچک، یعنی مشکلات سے گھرنے کے باوجود جلد بحالی۔

نیا کام۔

بچے جیسا تخیل۔

ختم نہ ہونے والا تجسس۔

جنون۔

اردگرد کے ماحول سے الگ تخلیقی صلاحیت۔

بغاوت کا جذبہ۔

ایسی سوچ جو حد پار کر دے۔

باقی لوگوں سے مختلف عمل یا سوچ۔

تیاری۔

بار بار ایک چیز کے بارے میں سوچنا۔

آرام۔

توجہ۔

فن ادب اور ادبی تخلیق - ابوالبشر احمد طیب

فن ادب

فن ادب اور ادبی تخلیق
یہ حقیقت ہے کہ انسانیت اور انسانی معاشرت  فلسفہ اور سائنس پر نہیں بلکہ جذبات پر قائم  ہے ، فرض کریں ایک بڈھے شخص کا بیٹا مرگیا ہے اور لاش سامنے پڑی ہے ، یہ شخص اگر سائنسدان سے رائے لے تو جواب ملے گا کہ ایسے اسباب جمع ہوگئے جن کی وجہ سےدوران خون یا دل کی حرکت بندہوگئی ، اسى کا نام موت ہے ، یہ ایک مادی  حادثہ ہے لہذا رونا دھونا بےکار ہے ، رونے سے وہ دو بارہ زندہ نہیں ہوگا۔ لیکن کیا سائنسدا ن خود اس اصول پر عمل پیرا ہوسکتا ہے ، بچوں کا پیار ، ماں کی مامتا ، محبت کا جوش ، غم کا ہنگامہ ، موت کا رنج ، ولادت کی خوشی ، کیا ان چیزوں کو سائنس سے کوئی تعلق ہے ، لیکن یہ چیزیں اگر مٹ جائیں تو زندگی میں سناٹا چھاجائے گا ، اور دنیا قالب بے جان ، شراب بے کیف ، گل بےرنگ ، گوہر بے آب ہوکر رہ جائیگی ، دنیا کی چہل پہل ، رنگینی ، دلآویزی ، دلفریبی ، سائنس  اور فلسفہ کی وجہ سے نہیں بلکہ انسانی جذبات کی وجہ سے ہے جو عقل کی حکومت سے تقریبا آزاد ہیں ۔

 فن ادب یا تخلیق ادب کو جذبات ہی سے تعلق ہے  اس لیے تاثیر اس کا عنصر ہے ، ادب ہر قسم کے جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے ، اس لیے رنج ، خوشی ، جوش ، استعجاب ، حیرت  میں جواثر ہے وہی ادب میں ہے ، باد سحر کی جھونکے ، آب رواں کی رفتا ر ، پھولوں کی شگفتگی ، غنچوں کا تبسم ، سبزہ کی لہلہاہٹ ، خوشبؤں کی لپٹ ، بادل کی پھوہار ، بجلی کی چمک ، یہ منظر آنکھ کے سامنے ہو تو دل پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، شاعر یا انشا پرداز ان مناظر کو بعینہ پیش کردیتا ہے تو  دل پر ان کا اثر ہوتا ہے ۔  ادب صرف محسوسات کی تصویر نہیں کھینچتا ، بلکہ جذبات اور احساسات کو بھی پیش نظر کردیتا ہے ، اکثر عام انسان اپنے جذبات سے خود واقف نہیں ہوتے اگر ہوتے ہیں تو صرف دھندلاسا نقش نظر آتا ہے ، شاعر یا انشا پر داز ان پس ِپردہ چیزوں کو پیش نظر کردیتا ہے ، دھندلی چیزیں چمک اٹھتی ہیں ، مٹا ہوا نقش اجاگر ہوجاتا ہے ،یہاں تک کہ روحانی تصویر جو کسی آئینہ کے ذریعہ ہم نہیں دیکھ سکتے ، ادب ہمیں دکھا دیتا ہے ۔ 

میر انیس اور ان کے مرثیوں کا مختصر فنّی جائزہ

 میر انیس 
ببر علی انیس۔ اردو مرثیہ گو۔ میر مستحسن خلیق کے صاحبزادے تھے اور معروف مثنوی سحر البیان کے خالق میر غلام حسین حسن ان کے دادا تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔

تعلیم

مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔

شاعری و مرثیہ گوئی

شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیسؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اور پھر کبھی غزل کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہاں کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔

غزل سے مرثیے تک

میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ

والد کی فرماں برداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔
ناصر لکھنوی نے خوش معرکہء زیبا (مرتّبہ مشفق خواجہ کراچی ) میں لکھا ہے کہ غزلیں انہوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیس کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔ چند شعر دیکھیے

نسیم حجازی کى شخصیت اور ان کی تصانیف

نسیم حجازی کی شخصت 
نسیم حجازی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

حالات زندگی


ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔

عملی زندگی کا آغاز

نسیم حجازی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت کے شعبے سے کیا اور ہفت روزہ تنظیم کوئٹہ،روزنامہ حیات کراچی، روزنامہ زمانہ کراچی، روزنامہ تعمیر راولپنڈی اور روزنامہ کوہستان راولپنڈی سے وابستہ رہے۔ انہوں نے بلوچستان اور شمالی سندھ میں تحریک پاکستان کو مقبول عام بنانے میں تحریری جہاد کیا اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں فعال کردار ادا کیا۔

یوم النبی ﷺ کا ایک نشریہ ۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

گوشہ عبد الماجد دریابادیبارہویں تاریخ مارچ ۶۲۴ عیسوی کی ہے اور بارہویں تاریخ ماہ رمضان ۲ ھ کی بھی ،کہ مدینہ سے ایک قافلہ ایک بڑی مہم پر ایک بڑے میدان کی طرف رواں ہے۔فاصلہ کچھ ایسا کم نہیں کوئی چار منزل۔ قافلہ میں آدمی تین سو سے اوپر اور اونٹ کُل سو ۔نتیجہ ہے کہ ایک ایک اونٹ کے حصہ دار تین تین ،اور سوار ہونا تو ایک وقت میں دوہی کے لیے ممکن تھا۔ اس لیے ایک ساتھی کو تولا محالہ پیدل ہی چلنا پڑتا۔۔۔۔۔۔اور یہی صورت قافلہ کے سردار کے لیے بھی ۔یہ صاحب اڈھیڑ عمر کے ۔یہی کوئی ۵۳ یا ۵۴ سال کی عمر کے ۔دونوں ساتھی سِن میں چھوٹے ۔دونوں ادب کے ساتھ اور جذبہ اطاعت و وفاداری کے ساتھ عرض کرتے ہے کہ محترم سردار!ہم اپنی باری بخوشی بخشتے ہیں۔ہم لوگ پیدل بآسانی چل لینگے ۔ہمارے بجائے آپ ہی سواری پر تشریف رکھیں۔

خلوص سے بھری ہوئی درخواست فدائیوں کی طرف سے تھی جو سِن میں بھی چھوٹے تھے ۔ مگر سنئے کے محترم آقا کی طرف سے جواب کیا ملتا ہے ۔ہمارے آپکے لفظوں میں یہ کہ

تم دونوں کچھ مچھ سے زیادہ قوی تو ہو نہیں(پیدل جیسے تم چل سکتے ہو،میں بھی چل سکتا ہوں )اور رہا وہ اجر جو پیدل چلنے کی مشقت سے حاصل ہوتا ہے ،تو اسکے بھی حاجت مند جیسے تم ویسے میں‘‘۔

جو اب آپ نے سن لیا ؟

مسلمان کون؟۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

مسلمان کون ہے؟ خدا کا قانون بتاتاہے کہ وہی جو سارے جہانوں کے رب کا کہنا مانے۔ کام تو یہ کچھ بڑا اور کٹھن نہیں ہے، پر دیکھو اور دل کو ٹٹولو تو جان جاؤ گے کہ رب کاکہنا ماننے والے کتنے ہیں اور نہ ماننے ولے کتنے۔ مگر جو کہنا مانتے ہیں وہ بھی مسلمان کہتے جاتے ہیں اور جو نہیں مانتے لوگ ان کو بھی مسلمان ہی جانتے ہیں۔شاید رب کا کہنا ماننے کا مطلب لوگوں نے نہیں سمجھا۔

رب کا کہنا ماننے کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ رب نے جو قانون بھیجا ہے اس کے موافق سب کام کئے جائں۔ بات تو یہ بھی بڑی سہل ہے مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ لوگ اپنے رب کے قانون کو اٹھاکر دیکھے ہی نہیں۔ اور بنتے ہیں بڑے پکے مسلمان۔ اگر تمہارے ماں باپ ، دادادادی ، نانا نانی، میں سے کوئی مسلمان تھا اور اس کی اولاد ہونے کی وجہ سے تم بھی مردم شماری میں مسلمان لکھ دئیے گئے ، نام بھی تمہارا مسلمانوں کاساہے، اور دنیا تم کو کہتی بھی مسلمان ہے، تو کیا تم سچ مچ مسلمان ہوگئے؟نہیں۔ لوہار کا بیٹا یا پوتا کہاجاتاہے لوہار ہی، مگر جب تک وہ ہتوڑا چلانا نہیں سیکھتا لوہار نہیں ہوتا۔ سنار، بڑھئی، دھوبی، نائی، قصائی، سب کا یہی حال ہے۔ پھر کوئی مسلمان کیسے ہوسکتاہے اگر اپنے رب کا کہا نہ مانے۔ اور رب کا کہا وہی مان سکتاہے جو اس کے حکم کو بجائے۔ اور حکم اس کا لکھا ہے اس کے قانون یعنی قرآن میں۔ تو جو مسلمان کہاجاتاہے اس کو چاہئے کہ قرآن پڑھے۔ اور جو آپ نہیں پڑھ سکتا وہ کسی سے پڑھوا کرسنے۔ جیسے کسی کے پاس کوئی چٹھی پتر آئے اور وہ پڑھنا نہ جانتاہو تو کسی پڑھے لکھے کے پاس جاکر پڑھوالیتاہے ، ویسے ہی اگر خدا کی بھیجی ہوئی چٹھی کوئی آپ نہیں پڑھ سکتا تو کسی سے پڑھوا کر سنے۔ اور جو اس میں لکھاہے اس کے موافق کرے۔ کہ یہی مسلمان کی پہچان ہے۔

میلادی روایات۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

میلادی روایات - عبد الماجد دریابادی 
بعض پچھلے نمبروں میں بہ ذیل مراسلات، میلادی روایات کی صحت پر گفتگو آچکی ہے، آج کی صحبت میں پھر اس پر ایک نظرکرنا ہے۔

کلام مجید میں ذکر متعدد انبیاء کرام کا آتا ہے، لیکن صرف چند انبیاء کرام اور ان کے متعلقین ہیں، جن کی پیدائش یا ولادت کا ذکر آیا ہے۔ اس مختصرفہرست میں سب سے پہلے نام حضرت آدم علیہ السلام کا ہے۔ آپ کی پیدائش خوارق عادات ایک مجموعہ تھی، اور فطرت کے عام دستور کے بالکل مخالف ہوئی۔ اوّل تو آپ کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا گیا، پھر فرشتوں سے آپ کی تعظیم کرائی گئی، اور جس مخلوق نے آپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا وہ ہمیشہ کے لیے ملعون ہوگیا۔

آپ کو تمام اسماء کا علم کرادیا گیا، آپ کی پیدائش سے قبل فرشتوں سے خاص طور پر گفتگو فرمائی گئی اور پیدائش کے بعد ہی فرشتوں کے علم کا آپ کے علم کے مقابلہ میں امتحان لیا گیا، جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا سلسلہ واقعات عام انسانوں کی پیدائش کے قبل و بعد وجود میں لاتے رہنے کا دستور نہیں۔ زوج آدم علیہ السلام حضرت حوّا کی پیدائش کے بابت کوئی تصریح کلام مجید میں وارد نہیں، لیکن اس قدر ہے کہ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا (اسی نفس واحد، یعنی آدم علیہ السلام سے اس کے زوج کو پیدا کیا) اور اکثر مفسرین مثلًا امام ابن جریر، حافظ ابن کثیر، قاضی بیضاوی وغیرہم نے قتادہؓ، سدیّ و ابن عباسؓ کے حوالہ دے کر یہ معنی لکھے ہیں، کہ آپ کی پیدائش فطرت معنی بالکل صحیح ہوں یا نہ ہوں، لیکن اتنا اشارہ تو کلام مجید سے بھی ہوتا ہے، کہ آپ کی پیدائش فطرت کے عام دستور سے ہٹ کر کسی اور طریق پر ہوئی تھی۔

ناک کا داغ ۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

ناک کا داغ -  عبدالماجد دریابادی 

ناک کا داغ

نظام عالم کو قائم کیے ہوئےبے شمار مدّت گزر چکی ہے، دنیا اپنی انھیں نیرنگیوں اور بوقلمونیوں کے ساتھ ایک بے حساب زمانہ سے آباد ہے، نامی گرامی حکماء پیدا ہوچکے ہیں ، نامور کشور کشا گزر چکے ہیں ، یہ سب کچھ ہے، لیکن ’’علم‘‘اور ’’تمدن‘‘ کا جو مفہوم سمجھا جارہا ہے۔ اس سے انسانی دماغ ابھی تک ناآشنا ہے۔ دنیا مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے، اور زمین مختلف اقلیموں میں پھٹی ہوئی ہے، ہرقوم دوسری سے بے گانہ، ہر ملک دوسرے سے اجنبی۔ آمد و رفت کے وسائل محدود، رسائل کے ذرائع دشوار، بین الاقوامی تعلقات بمنزلہ صفر۔لکھے پڑھے ہوؤں کی تعداد ہر ملک میں قلیل۔ کتابوں کی یہ فراوانی جو آج ہے، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ۔ گویا ہر ملک دوسرے ملکوں سے بے نیاز و بے تعلق بجائے خود ایک مستقل عالم تھا، اسی لئے قدرتا ہر ملک کے لیے ایک جداگانہ ہادی، اور ہر قوم کے لیے ایک علیحدہ داعی۔

لیکن اب محاسب قدرت کے اندازہ میں وہ وقت آجاتا ہے، جب ہر ملک کے ڈانڈے دوسرے سے مل کر رہیں گے، ہر قوم دوسری قوم سے تعلقات پیدا کرے گی، بے گانگی و بے تعلقی کی جگہ ایک سخت قسم کی دوستی یا دشمنی لے گی۔ کلوں کی ایجاد دور دراز سفر کو آسان کردے گی۔ آلات کی مدد سے مشرق کی خبر، دم کی دم میں مغرب تک پہونچ جائے گی، چھاپہ کی کلیں نقوش کاغذی کے خزانے اگلنے لگیں گی، اور کتابوں کے لکھنے والوں کی تعداد شاید پڑھنے والوں سے بھی بڑھ کر رہے گی!

غلطیوں کا ازالہ ۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

مسلمانوں کی جنتری میں اس مبار ک مہینہ کا نام شعبانؔ ہے۔ اسے مبارک اس لئے کہاگیاہے ، کہ رسول خدا ﷺ نے اسے ایک خاص عبادت، روزہ کے لئے چن لیاتھا۔ صحیح حدیثوں میں اس مہینے کے روزوں کی بڑی فضیلتیں اور برکتیں وارد ہوئی ہیں۔ اور بعض میں آیاہے ، کہ بعد رمضان کے فرض روزوں کے، رسول خداﷺ جس ماہ میں سب سے زیادہ روزہ رکھتے تھے، وہ یہی ماہ شعبان ہے۔ اسی ماہ کے وسط میں ایک رات ایسی آتی ہے، جس کی بابت یہ روایت آئی ہے ، کہ آپ اس میں اٹھ کر قبرستان تشریف لے جاتے، اور مُردہ مسلمانوں کے حق میں دعائے مغفرت فرماتے تھے۔

غلطیوں کا ازالہ - عبد الماجد دریابادی 
یہ عمل تھا رسول خداؐ کا۔ یہ تعلیم تھی ہمارے سب سے بڑے پیشواکی۔ لیکن آج اس رسولؐ کی امت کا، اس کے نام کا کلمہ پڑھنے والوںکا، اس کی محبت کے دعویداروں کا کیا حال ہے؟ کتنے مسلمان ایسے ہیں ، جو اس ماہ میں خدا کی خوشنودی کے لئے دن بھر کھانے پینے ، اور دیگر خواہشات نفس سے اپنے تئیں روکے رہتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں، جو اپنے اوردوسرے مسلمانوں کے حق میں دعائے خیر واستغفار کرتے رہتے ہیں؟ یہ بھی نہ سہی ، تو کتنے ایسے ہیں، جو اس مہینے میں اپنا روپیہ آگ میں پھونکنے، آتشبازی دیکھنے، اور حلوے وغیرہ میں اسراف کرنے سے باز رہتے ہیں؟ کیا رسول خدا ﷺ ۱۴؍شعبان کے دن حلوہ نوش فرماتے اور اس کی تقسیم میں صرف فرماتے؟ کیا صحابۂ کرام (نعوذ باللہ) یہ رات آتشبازی کے تماشوں میں بسر کرتے تھے؟ کیا اسلام نے اس نادانی کو، ان فضولیات کو، اس اسراف کو کسی صورت میں بھی جائز رکھاہے؟ کیا ائمہ فقہ، واکابر طریقت کی کسی تعلیم سے ’’شبرات‘‘ کی موجودہ رسموں کی تائید میں کوئی دلیل پیش کی جاسکتی ہے؟

ماہ رجب کی رسومات ۔۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

ماہ رجب کی رسومات - عبد الماجد دریابادی 
اسلامی دنیا میں یہ مہینہ رجب کے نام سے موسوم ہے ، ایک ضعیف روایت یہ پھیلی ہوئی ہے کہ رسول خدا ﷺ کی معراج مبارک اسی مہینہ میں ہوئی تھی۔ بہت سے مسلمان اس روایت کو مان کر ، اس مہینہ میں طرح طرح کی خوشی کرتے ، اور بہت سی رسمیں بجا لاتے ہیں۔ اول تو یہ روایت ہی ثبوت کو نہیں پہنچی ہے، لیکن جو لوگ اس کے ماننے ہی پر زور دے رہے ہیں ، ذرا وہ اپنے دل میں سوچیں، کہ اس کے ماننے کے بعد خوشی منانے کا کیا طریقہ ہونا چاہئے۔ آیا وہی جس کے وہ عادی ہیں ، یا کچھ اور ! ایسا نہ ہو کہ ہم خوشی منانے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کربیٹھیں ، جوہمارے رسولؐ کا ناپسند کیا ہوا، اور ہمارے خدا کی ناخوشی کا باعث ہو۔

خوشی منانے کے دنیا میں بہت سے طریقے ہیں۔ بعض قومیں خوشی کے وقت شراب پیتی ہیں بعض ناچ دیکھتی ہیں،بعض آتشبازی میں اپنا روپیہ پھونکتی ہیں۔ لیکن مسلمان کاکام تو یہ نہیں، کہ ان طریقوں سے اپنی خوشی کو ظاہر کرے، اس لئے کہ ہمارے سچے مذہب نے ان سب صورتوں کو ہمارے لئے منع کردیا ہے۔ دنیا کاتجربہ بھی یہی بتاتاہے کہ ان طریقوں سے نمائشی خوشی چند لمحوں کے لئے ہوجاتی ہے لیکن بعد کو رنج وتکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور دل کی فرحت وراحت تو ایک لمحہ کے لئے بھی ان طریقوں سے نہیں ہوتی۔ مسلمان کو اتنا ناسمجھ تو نہ ہونا چاہئے ، کہ اس کی ناسمجھی پر دوسری قومیں ہنسیں، اور وہ خود دنیا میں بھی اپنا نقصان کرے ، اور آخرت میں بھی اس کو شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔

شادی کی رسومات ۔۔۔: مولانا عبد الماجد دریابادی

شادی کی رسومات -- عبد الماجد دریابادی
آپ کو اپنے خاندان ، وطن، اور برادری کی شادیوں میں شرکت کا بارہا موقع ملاہوگا۔ آپ نے کبھی یہ خیال کیا، کہ مسلمان لڑکے یا لڑکی کی شادی کا یہی طریقہ ہوناچاہئے؟ آپ کے رسول مقبولؐ، حبیب کبریا، جنہیں ہمارے اورآپ کے عقیدے میںد ونوں جہاں کی عزت ودولت، سرداری وبادشاہی سب کچھ حاصل تھی، بن بیاہے نہ تھے، باقی سب نکاح مرتبۂ رسالت پر فائز ہوچکنے کے بعد ہی کئے تھے، مگر حضورؐ کے کسی نکاح میں وہ دھوم دھام، وہ طویل سلسلۂ رسوم، اور وہ جشن منایاگیا ، جسے آج ہم میں سے ہرمعمولی شخص بھی شادی کے وقت ، اپنے عزیزوں کے لئے ضروری سمجھتا ہے؟ پھر کیا نعوذ باللہ آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں، کہ آپ کی عزت اورآن اس سردار دوعالم سے بڑھ چڑھ کرہے؟ رسول خداﷺ کی ذات مبارک کے علاوہ ، جن جن ہستیوں کی ہم سب مسلمان عزت کرتے ہیں، جن کے نام ہم ادب سے لیتے ہیں، جن کے طریقہ پر چلنا ہم اپنی نجات کا ذریعہ جانتے ہیں، وہ سب کے سب بیاہے ہوئے تھے۔ رسول خداﷺ کے چاروں سچے دوست، ابو بکرصدیقؓ، عمر فاروق، عثمان غنیؓ، وعلی مرتضیؓ، اور آپ کی نور نظر بیوی فاطمہؓ اور آپ کے جگر کے ٹکرے امام حسنؓ اور امام حسینؓ، اورآپ کی دوسری صاحبزادیاں یہ سب بیاہے ہوئے مرد، اور بیاہی ہوئی بیویاں تھیں۔ 

ولادت باسعادت۔ ۔۔ : مولانا عبد الماجد دریابادی

ولادت باسعادت - عبد الماجد دریابادی
آگے کچھ سننے سنانے سے قبل ذہن کے سامنے نقشہ، تاریخ کی بڑی بڑی ضخیم کتابوں کی مدد سے چھٹی صدی عیسوی کے آخر اور ساتویں صدی عیسوی کے شروع کی دنیا کی زبردست اور نامور طاقتیں اس وقت دو تھیں، جن کے نام سے سب تھراتے تھے اور جن کا لوہا مشرق و مغرب مانے ہوئے تھے۔ مغرب میں رومن امپائر یا شہنشاہی روم اور مشرق میں پرشین امپائر یا شہنشاہی ایران۔ دونوں بڑی بڑی فوجوں اور لشکروں کے مالک، دونوں میں زر و دولت کی افراط اور دونوں تمدن عروج پر۔لیکن دونوں کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ۔عیش و عشرت نے مردانگی کی جڑ یں کھوکھلی کر ڈالی تھیں اور روح و قلب کے روگ ہر قسم کے پھیلے ہوئے۔ انسان کا رشتہ اپنے خالق سے بالکل ٹوٹا ہوا۔توحید کا چراغ گویا بالکل بجھا ہوا اور یہی حال کم وبیش ساری دنیا کا۔ تفصیل کا وقت کہاں، ورنہ ہندوستان، چین، مصر وغیرہ ایک ایک ملک کا نام لے کر اس وقت کے اخلاقی زوال کی تصویر آپ کے سامنے پیش کردی جاتی۔

’رحمۃ للعالمین۔۔۔تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

 رحمۃ للعالمین - عبد الماجد دریابادی 
میں شہادت دیتا ہوں کہ انسان بھائی بھائی ہیں‘‘۔

جس کے منھ سے یہ سندربول نکلے تھے ، آج اس کی پیدائش کا دن ہے۔اسی نے آکر دنیا کو یہ پیغام دیا تھا۔بتایا تھاکہ نسل کی ،جلد کی ،رنگ کی یاد وطنی تقسیم کی بناء پر کسی سے جنگ کرنا یا کسی کوحقیر اور ذلیل سمجھنا حماقت ہے۔یہ ساری چیزیں غیر اختیاری ہیں ۔انسان کے کردار کا ،اس کے کردار کا ،اس کے شرف اور عظمت کا ان سے کیا سردکار ۔اور اسی نے آکر یہ منادی کی تھی کہ :

الخلق عیال اللہ

مخلوق تو ساری ،اللہ کا کنبہ ہے۔

فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ

تو مخلوق میں،اللہ کی نظر میں محبوب ترین وہی ہے جو اپنے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک سے پیش آئے۔

مہر و محبت کے اس پیامبر کو ،شفقت و الفت ،ہمدردی و انسانیت کے اس سچّے پیام رساںکو ’’رحمت عالم،،نہ کہئے تو آخر کہئے کیا؟