معاشی نظام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
معاشی نظام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

تنخواہ دار طبقے کے نئے مجوزہ سلیبز کیا ہیں؟

رواں مالی سال کی طرح آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بھی کُل ٹیکس سلیب چھ ہی ہیں تاہم چار سلیبز اور ان کے ریٹس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ نئے مجوزہ سلیبز کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔
پہلا سلیب: تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ
دوسراسلیب: تنخواہ چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ
تیسرا سلیب: تنخواہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 12-24 لاکھ تھا)
چوتھا سلیب: تنخواہ 22 لاکھ سے 32 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 24-36 لاکھ تھا)
پانچواں سلیب: تنخواہ 32 لاکھ سے 41 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 36-60 لاکھ تھا)
چھٹا سلیب: تنخواہ 41 لاکھ سے زیادہ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 60 لاکھ سے زیادہ تنخواہ والے افراد کے لیے تھا)

واضح رہے کہ 30 جون تک رواں مالی سال ہے جبکہ یکم جولائی 2024 سے اگلا مالی سال شروع ہو گا۔

تنخواہوں پر ٹیکس کے نئے ریٹس کیا ہیں؟


تنخواہوں کے نئے سلیب کا جائزہ لینے کے بعد آئیے جانتے ہیں کہ نئے ریٹس کیا ہیں۔ اس سال پانچ سلیبز کے ریٹس میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔

پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ ہے اور ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.

دوسرا سلیب ایسے افراد کا ہے، جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو چھ لاکھ سے زیادہ آمدن پر پانچ فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ (یہ رواں مالی سال میں ڈھائی فیصد تھا)

تیسرا سلیب سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ کی آمدن والے افراد کے لیے ہے۔ ان کے لیے 30 ہزار فکسڈ ٹیکس ہو گا جبکہ اس کے علاوہ 12 لاکھ سے زائد کی آمدن پر 15 فیصد ٹیکس لگے گا۔ (یہ رواں مالی سال میں 15 ہزار فکسڈ اور 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 12.5 فیصد تھا)

چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 22 لاکھ سے زیادہ اور 32 لاکھ تک ہے۔ انھیں سالانہ ایک لاکھ 80 ہزار فکسڈ اور 22 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 25 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ (یہ رواں مالی سال میں ایک لاکھ 65 ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد تھا)

پاکستان سٹاک مارکیٹ: بازارِ حصص کیا ہے اور نوجوان یہاں سرمایہ کاری کیسے کر سکتے ہیں؟

محمد صہیب
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
19 اکتوبر 2020

یہ کہانی ایک ایسے بازار کی ہے جہاں بقول مقبول امریکی کاروباری شخصیت وارن بفیٹ ’بے صبروں سے پیسہ صبر کرنے والوں کو منتقل ہوتا ہے‘ اور جہاں ایک بروکر کے مطابق آپ ایک ہی دن میں آسمان کی بلندیاں چھونے کے بعد زمین پر پٹخے جا سکتے ہیں۔

26 سالہ کراچی کے رہائشی اور حال ہی میں فارغ التحصیل جہانزیب طاہر کو ٹینس کورٹ میں اس بازار سے متعلق آگاہی ملی۔

اس وقت ان کی تنخواہ محض 18 ہزار روپے تھی۔ انھوں نے ہچکچاتے ہوئے بہت چھوٹے پیمانے پر یہاں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ تو کر لیا لیکن آج وہ اس سرمایہ کاری کو ’منافع بخش‘ قرار دیتے ہیں۔

یہ کیسا بازار ہے جہاں لالچ اور جلد بازی کے فیصلوں کے نتیجے میں آخر نقصان ہی ہوتا ہے لیکن سٹے بازی کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے، جہاں صبر کی اہمیت سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن متوسط طبقے اور معاشی امور سے نابلد افراد کے لیے جگہ بنانا بھی انتہائی مشکل ہے۔

یہاں بات بازارِ حصص یعنی پاکستان سٹاک مارکیٹ کی ہو رہی ہے۔

پاکستان میں رواں برس پیدا ہونے والے معاشی بحران کے باوجود سٹاک مارکیٹ کی مثبت کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے اس میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب بھی دی جا رہی ہے۔

عموماً پاکستان میں جب ایک نوجوان اپنی پہلی نوکری کا آغاز کرتا ہے تو اسے بچت کرنے اور سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے مختلف مشورے دیے جاتے ہیں۔

لیکن اکثر بازارِ حصص میں سرمایہ کاری کرنا ان مشوروں میں شامل نہیں ہوتا۔ تو بازارِ حصص ہے کیا اور یہاں نوجوان کیسے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں؟