سونا، بٹ کوئن اور اصل قدر کا سوال

آج کی دنیا ایک حیران کن دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف قدیم معاشی اقدار کا تسلسل ہے، جن میں سونا، چاندی اور زمین جیسے مادی اثاثے ہمیشہ سے "قدر" کی علامت رہے ہیں۔ دوسری طرف ڈیجیٹل دنیا ایک ایسی نئی کرنسی متعارف کرا رہی ہے جسے نہ چھوا جا سکتا ہے، نہ ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، مگر پھر بھی اس کی قیمت آسمان چھو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں اصل "قدر" کا پیمانہ کیا رہا ہے؟ اور اسلام اس سوال کا کیا جواب دیتا ہے؟

قرآن مجید ہمیں اس دنیاوی قدر کی ایک عارضی اور محدود حیثیت یاد دلاتا ہے:

"مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک بہتر اجر اور امید کا ذریعہ ہیں۔" (الکہف: 46)

یہ آیت ہمیں صاف بتاتی ہے کہ اصل قدر وہ نہیں جو بازار میں بکتی ہے، بلکہ وہ ہے جو دلوں کو جوڑتی، روحوں کو سنوارتی اور انسانیت کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ سونا ہو یا بٹ کوئن، اگر وہ انسان کی فلاح کا ذریعہ نہیں تو وہ محض ایک فانی زینت ہے۔

اسلامی تاریخ میں چاندی (درہم) اور سونا (دینار) کو کرنسی کی شکل میں اپنایا گیا، مگر قرآن نے ان کی محض ذخیرہ اندوزی پر شدید وعید سنائی:

"اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔" (التوبہ: 34)

یہ تنبیہ ہمیں بتاتی ہے کہ دولت خود ایک امتحان ہے، نہ کہ مقصد۔ آج جب بٹ کوئن کو "ڈیجیٹل سونا" کہا جا رہا ہے، تو یہ سوال زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ کیا انسان اب بھی دولت کو فقط ذخیرہ کرنے کی مشین بنا رہے گا، یا اسے فلاحِ عامہ میں استعمال کرنے والا شعور بھی پیدا کرے گا؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"ابنِ آدم کہتا ہے: میرا مال، میرا مال! حالانکہ تیرا مال تو وہی ہے جو تُو نے کھا کر فنا کر دیا، یا پہن کر پرانا کر دیا، یا اللہ کی راہ میں دے دیا۔" (صحیح مسلم)

یہ حدیث ایک مکمل معاشی فلسفہ پیش کرتی ہے: دولت وہی ہے جو خرچ ہو کر خیر میں بدل جائے۔ جو صرف محفوظ ہو، وہ بیکار ہے۔

آج بٹ کوئن، ایتھریم اور دیگر ڈیجیٹل کرنسیاں ایک متبادل مالی نظام کی نوید دے رہی ہیں۔ مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل قدر کسی دھات، کاغذ یا کوڈ میں نہیں بلکہ انسانی اعتماد، عدل، اور اخلاقی بنیادوں پر قائم ہوتی ہے۔ اسلامی فقہ نے ہمیشہ سونے چاندی کو اس لیے قبول کیا کہ وہ معاشرتی اعتماد، استحکام اور عدل کا ذریعہ تھے۔ اگر نئی کرنسی یہ اصول پورے کرے، تو وہ بھی قابل قبول ہو سکتی ہے، وگرنہ وہ فتنہ بن سکتی ہے۔

جیسا کہ قرآن ہمیں قارون کی داستان سناتا ہے، جس کی دولت کا زوال اس کے تکبر کی علامت بنا:

"ہم نے اسے اتنا خزانہ دیا تھا کہ اس کی کنجیاں طاقتور جماعتوں سے اٹھائی نہ جاتیں۔" (القصص: 76)

اور پھر وہی دولت، اس کے لیے عذاب بن گئی۔

لہٰذا ہمیں نہ تو سونے سے مرعوب ہونا چاہیے، نہ بٹ کوئن کے فریب میں آنا چاہیے۔ اصل قدر وہی ہے جو قرآن نے "باقیات الصالحات" کہہ کر بیان کی — نیک عمل، پاک نیت، اور انسانوں کے لیے خیر۔

شاید آنے والی دنیا میں کرنسی کا تصور بدل جائے، لیکن قدر کا پیمانہ وہی رہے گا جو اللہ نے مقرر کیا ہے: عدل، احسان اور فلاحِ انسانیت۔