ایک روشن حقیقت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

ایک روشن حقیقت
ہمیں اس روشن حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کہ جو سوشلسٹ قسم کی نام نہاد اقتصادی اصلاحات ہم اسلامی نظام تعلیم اور اسلامی قوانین زکوۃ و میراث وغیرہ کے نفاذ سے پہلے اسلامی سوشلزم کا نام دے کر جاری کریں گے۔ وہ اسلام کی راہ سے نہیں آئیں گی بلکہ اسلامی نظام کے قائم مقام نظام کی حیثیت سے آئیں گی اور ان کا آنا اس مفروضہ پر مبنی ہو گا کہ اسلامی نظام معاذ اللہ بیکار اور فرسودہ اور قابل ترک ہو گیا ہے۔ اس صورت میں ان کے پس منظر میں سوشلزم کا پورا نظام موجود ہو گا جو ان کے ساتھ آئے گا۔ اگرچہ رفتہ رفتہ سامنے آئے گا اور اس سوشلسٹ نظام میں سوشلسٹ ضابطہ اخلاق بھی شامل ہو گا جو اسلامی ضابطہ اخلاق کے بالکل برعکس ہو گا ۔ اور جس کی رو سے سوشلزم کو لانے کے لیے قتل لوٹ مار آتش زنی اور املاک کو نقصان رسانی ایسی خدا کو ناراض کرنے والی حرکات سب جائز ہوں گی اور یہ ضابطہ اخلاق شرو ع ہی سے ان اصلاحات کو لانے کے طریق میں ظاہر ہو گا۔ غرض یہ کہ ان کو لانے کی جدوجہد کے آغاز کے دن ہی سے ان میں اور اسلامی نظام میں ایک نیا تضاد پیدا ہو جائے گا ان کے فروغ اور استحکام سے اسلامی نظام لوگوں کے سینوں میںدبتا اور مٹتا جائے گا اور اسلامی نظام کے ابھرنے کا امکان سے ان کے دبنے اور مٹنے کا اندیشہ پیدا ہوتا رہے گا۔ لہٰذا ان کی حفاظت کے لیے اور ان کے حریف اسلامی نظام کو دبانے اورمٹانے کے لیے سوشلزم کا قانون زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتا جائے گا یہاں تک کہ اسلام کا نام پہلے فقط زبانوں پر رہ جائے گا اور چند نسلوں کے بعد زبانوں پر بھی باقی نہ رہے گا۔
اسلام کی طرف پیش قدمی یا موت
اگر ہم اس دین کی توہین کرنا نہیں چاہتے جس پر ہم ایمان لائے ہیں اگر ہم اپنے سالار کارواں میر حجاز صلی اللہ علیہ وسلم کادامن ہاتھ سے چھوڑ کر بعض اورنام نہاد مسلمان قوموں کی طرح خدا کی رحمت سے دور اور دنیا اور آخرت میں ذلیل ہونا نہیں چاہتے۔ اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو ایک ایسے نظریہ حیات کے سپرد کرنا نہیں چاہتے جو علمی اور عقلی معیاروں پر پورانہیں اترسکتا۔ جس کا حقیقت کائنات کا تصور غلط ہے جس کا انسانی اعمال کی قوت محرکہ کا تصور درست نہیں۔ جس کا عمل تاریخ کے سبب کا نظریہ نامعقول ہے۔ جس کا فلسفہ سیاست فلسفہ تعلیم اور جس کی نفسیات فرد اور نفسیات جماعت سب غلط ہیں اور جو خود ھی ایک کل کی حیثیت سے عارضی اور ناپائیدار ہے ۔ اگر ہم دینو سار کی نسل کی طرح اور تما م غلط نظریات کے ماننے والوں کی طرح عمل ارتقا کی بے پناہ ضڑبوں سے مٹ جانا نہیں چاہتے اگر ہم رحمتہ للعالمینؐ کے دامن سے لپٹی ہوئی دنیا کی وہ آخری قوم بننا چاہتے ہیں جو اپنے ایمان کی وجہ سے اقوام عالم کی قیادت کرے گی جو روئے زمین پر پھیل جائے گی۔ اور جو نوع انسانی کو امن عالم اور اتحاد عالم کی نعمتوں سے مستقل طور پر ہمکنار کر دے گی اگر ہم نہیں چاہتے کہ خدا ہمیں مٹا کر ایک اور قوم دنیا میں لائے جو اس کی اطاعت بجا لا کر مقاصد ارتقاء کو پورا کرے اور ہماری بجائے قوموں کی امات کے شاندار منصب پر فائز ہو اور پھر اگر ہم نہیں چاہتے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بنائیں تو ہمیں اپنے معاشرہ کی اصلاح کے لیے اس اسلام کی طرف آگے بڑھنا پڑے گا۔ جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ نے عمل کیاتھا اور جس کامرکزی نکتہ خدا کی عبادت اور پہلااور آخری مقصد پوری نوع انسانی میں خدا کی محبت کی نشوونما اور خودی کی تعمیر اور تربیت ہے یہی اسلام ہے جس کے متعلق اقبال کہتا ہے کہ وہ شیطان کے نزدیک شیطان کے منصوبوں کو خاک میں ملانے والا ’’فتنہ فردا‘‘ ہے اور جس میں صلاحیت ہے کہ آخر کار روئے زمین کے کناروں تک پھیل کر رہے۔
دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
اقبال کا موقف
سوشلزم کے بارہ میں اقبا ل کا موقف ان اشعار سے واضح ہو جاتا ہے کہ جن میں اس نے سوشلزم کے متعلق اشارے کیے ہیں۔ لیکن بعض لوگ ان اشعار کی تشریح غلط طور پر کرتے ہیں چونکہ اقبال کے فلسفہ خودی کا سرچشمہ اسلام ہے ۔ لہٰذا اگر قارئین سوشلزم اور اقتصادی مسئلہ کے متعلق اسلام کے اس نقطہ نظر کو جو اوپر کی تمہیدی گزارشات میں پیش کیا گیاہے اور نیز اقبال کے پورے کلام کو مدنظر رکھیں گے تو اقبال کے ایسے اشعار کو سمجھنے میں انہیں کوئی دقت نہیں ہو گی۔
شکم میں خودی کی احمقانہ جستجو
جاوید نامہ میں اقبال جب زندہ رود کی زبان سے جمال الدین افغانی کے روبرو یہ کہلواتا ہے کہ مشرق مغربی ملوکیت کے ہاتھوں ستم اٹھا رہاہے اور اشتراکیت نے دین و ملت کی آب و تاب کو ختم کر دیا ہے۔
مشرق از سلطانئے مغرب خراب
اشتراک از دین و ملت بردہ تاب
تو افغانی اپنے جواب میں سوشلزم کی خرابیاں بیان کرتے ہوئے لھکتا ہے کہ کتاب ’’سرمایہ‘‘ کے یہودی مصنف کو بعض لوگوں نے ایک پیغمبر راہ کی طرح تسلیم کر لیا ہے۔ اگرچہ جبرئیل خدا کی وحٰ لے کر اس کے پاس نہیں آیا تھا اگر اسے پیغمبر کہا جائے تووہ پیغمبر حق ناشناس تھا۔ تاہم چونکہ ہر باطل ی طرف سے اس کے باطل میں بھی حق چھپا ہوتا ہے جو اسکی غلط تدابیر کی وجہ سے مکمل اور مستقل طور پر جامہ عمل نہیں پہن سکتا۔ لہٰذا یوں سمجھنا چاہیے کہ اس کا تو ایک مومن کے دل کیی طرح حق کا طالب ہے لیکن اس کا کافرانہ دماغ یہ بات نہ سمجھ سکا کہ جو حق وہ چاہتا ہے اس کے لوازمات اور تقاضے کیا ہیں مثلاً وہ اقتصادی مساوات پر یقین رکھتاتھا اور اسے بروئے کار لانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکاکہ اقتصادی مساوات فقط بیرونی دبائو اور قانون کے ڈنڈے سے قائم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے لیے فر د کے دل میں خدا کی محبت کی پرورش کرنا اور پرورش کر کے اسے جس حد تک ممکن ہو کمال تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ گمراہ انسان جو اپنے اندر حرص و ہوا اور خود غرضی اور خود پرستی کے طاقت ور میلانات رکھتا ہے صرف خدا کی خوشنودی ایسے بیش بہا اور لازوال مقصد کے لیے ہی دوسروں سے مخلصانہ محبت کر سکتا ہے اور اپنے فائدہ کو ترک کر کے سچ مچ دوسروں کی بھلائی کی آرزو کر سکتاہے۔ دوسروں کی بھلائی کی آرزو خدا کی رضامندی کی آرزو کا ایک پہلو ہے اور خدا کی رضامندی وہی چاہتاہے جو خدا پر ایمان لا چکا ہو اور خدا سے گہری محبت رکھتا ہو۔ انسان کی غیر مبدل فطرت کی روسے پوری بے غرضٰ ار پورے اخلاص کے ساتھ دوسرے انسانوں سے محبت کرنے اور ان کی بھلائی چاہنے کا کوئی اور مستقل ار قابل اعتما د محرک انسان کے لیے ممکن نہیں۔ اہل مغرب ماوراء الطبیعیات (افلاک) کی دنیا سے بے تعلق ہیں اور خدا کو بھولے ہوئے ہیں جس کی محبت میں نشوونما انسان کی خودی یا روح کی بالیدگی کے لیے ضروری ہے کہ اور سمجھتے ہیں کہ اگر وہ شکم کی ضرورتوں کو ٹھیک طرح سے پورا کر لیں تو جسم کی بالیدگی کے ساتھ ان کی خودی (جان پاک) کی بالیدگی بھی حاصل ہو جائے گی۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ۔ خودی کی بالیدگی کی شرطیں اور ضرورتیں بالکل مختلف ہیں مثلاً آیات اللہ کے طور پر مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ دل سے خدا کا ذکر اور خدا کی مخلصانہ عبادت نبوت کاملہ کے ضابطہ اخلاق و اعمال کی عاشقانہ پیروی۔
صاحب سرمایہ از نسل خلیل
یعنی آن پیغمبرے بے جبرئیل
زانکہ حق در باطل او مضمر است
قلب او مومن و ما غش کافر است
غریبان گم کردہ ان افلاک را
در شکم جویند جان پاک را
خودی کی رونق جسم پر موقوف نہیں
روح یا جان جسم کی ضروریات کی تشفی سے رونق اور حسن اور کمال (رنگ و بو) حاصل نہیں کرتی لیکن سوشلزم کی ساری تگ و دو فقط جسم کی ضروریات کی تشفی تک محدود ہے۔ اس ’’پیغمبرے حق ناشناس‘‘ کے باطل دین کا دارومدار اس بات پر ہے کہ تمام انسانوں کو ایک شکم کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا سب انسان برابر ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ خیال سراسر غلط ہے ۔ اخوت کا احساس ایک روحانی یا اخلاقی قدر ہے اور لہٰذا آرزوئے حسن یا خدا کی محبت کا ایک پہلو ہے اور آرزوئے حسن یا خدا کی محبت خودی یا روح (دل ) کا ایک تقاضا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخوت کے احساس کی جڑ انسان کی خودی میں ہے نہ کہ اس کے شکم میں یا اس کیچڑ میں جس سے اس کا جسم بنا ہے اور یہ احساس خودی کی پرورش کر کے اس کو طاقت ور کرنے سے ہی طاقت ور ہوسکتا ہے۔ بیشک سب انسان برابر ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں لیکن اس لیے کہ سب کا محبوب اور مقصود خدا ہے جو چاہتا ہے کہ انسان آپس میں اخوت کا احساس کریں اور محبت سے رہیں۔ شکم کی مساوات محبت اور اخوت پیدا نہیں کرتی بلکہ رقابت اور دشمنی پیدا کرتی ہے کیونکہ جو چیز ایک انسان کے شکم میں رہ جاتی ہے اور دوسرے کے شکم میں نہیں جاتی اور ہر انسان کا شکم چاہتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر طریق پر پر کیا جائے۔
رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک
جز بہ تن کارے ندارد اشتراک
دین آں پیغمبرے حق ناشناس
بر مساوات دارد اساس
تا اخوت را مقام اندر دل است
بیخ او در دل نہ در آب و گل است
ملوکیت اور سوشلزم دونوں آب و گل میں غرق ہیں
اس کے بعد افغانی ملوکیت پرتنقید کرتا ہے اور پھر ان دونوں کے مشترک اور متضاد نقائص کو بیان کرتا ہے۔ دونوں نظریات ناصبور اور ناشکیب ہیں۔ کیونکہ دونوں اپنے اپنے حلقہ اثر کی توسیع کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔ دونوں خدا اور اس کے پسندیدہ اصول اخلاق سے بیگانہ ہیں۔ دونوں کا شیوہ آدم کو فریب میں دینا اور بہکانا ہے ایک کے لیے زندگی بغاوت کا نام ہے اور وہ سوشلزم ہے۔ اور دوسرے کے لیے زندگی خراج وصول کرنے اور دوسری قوموں کو لوٹنے کا نام ہے اور وہ ملوکیت ہے ۔ اور آدمی ہمیشہ وہ شیشہ ہے جو ان دونوں پتھروں کے درمیان پس رہا ہے۔ سوشلزم علم اور فن اور دین کو تباہ کر رہا ہے۔ کیونکہ ان تینوں کو اپنے غلط نقطہ نظر کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے اور ملوکیت کا حال یہ ہے کہ غلامی پر رضامند کر کے جسم سے جان نکال لیتی ہے یعنی خودی کے تقاضوں کو فراموش کر دیتی ہے اور لوٹ کھسوٹ کر کے ہاتھ سے روٹی چھین لیتی ہے۔ دونوں کیچڑ میں غرق ہیں یعنی کیچڑ سے بنے ہوئے جسم کی خواہشات اور ضروریات کے غلام ہیں۔ دونوں کا تن روشن ہے اور دل تاریک یعنی جسم کی ضروریات کے لحاظ سے کامیاب اور خوشحال ہیں اور خودی کی ضروریات کے لحاظ سے ناکام اور بدحال۔ دونوں اس با ت سے بے خبر ہیں کہ زندگی کا مقصد یہ ہے کہ انسان خدا کی محبت کا سوز و گداز پیدا کرے اور بڑھائے اور اس طرح سے اپنی خودی یا شخصیت کی تعمیر کر کے اس خاکی کائنات کے اندر خدا کی محبت کا ایسا بیج بوئے جو ہمیشہ بڑھتا اور پھولتا رہے۔ افغانی کے الفاظ یہ ہیں:
ہر دورا جان نا صبور و ناشکیب
ہر دو یزدان ناشناس آدم فریب
زندگی ایں را خروج آں راج خراج
درمیاں ایں دو سنگ آدم نہ جاج
ایںبہ علم و دین و فن آرد شکست
آں برد جان راز تن نان راز دست
غرق دیدم ہر دورا در آب و گل
ہر دوراتن روشن و تاریک دل
زندگانی سوختن یا ساختن

درگلے تخم دلے انداختن