مقصود حیات کا ذریعہ یامقصود حیات
بعض سوشلزم پسند مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم روس اور چین کا سوشلزم نہیں بلکہ حضرت ابوذر غفاریؓ کا سوشلزم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا انہوںنے پہلے اپنے آپ میں اور اپنی قوم میں خدا اور رسولؐ اور آخرت کے محاسبہ اعمال پر حضرت ابوذر غفاریؓ کا ایمان پیداکر لیا۔ دراصل اکثر سوشلزم پسند مسلمان جسمانی ضروریات کی تکمیل اور تشفی کا اہتمام بزور اوربجز تکمیل خودی کے ایک ذریعہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصود حیات کے طور پر کرنا چاہتے ہیں اوران کا خیال ہے کہ سارا اسلام اسی میں آ جائے گا اور اسلام کا مقصد بھی جسم کی ضروریات کی عادلانہ تکمیل اور تشفی کے سوائے اور کچھ نہیں۔ اگر یہ بات نہ ہو تو وہ سب سے پہلے اسلامی تعلیم پر زور دیں تاکہ لوگوں کو پہلے ان کے اصلی مقصود حیات سے آگاہ کریں جس کی خاطر وہ ان کے جسم کی ضروریات کی تشفی اور تسکین چاہتے ہیں ۔ لیکن جسمانی ضروریات کی تکمیل کی خودی کی تکمیل کے ایک ذریعہ کے طور پر عوام کے نزدیک جو خوبی یا اہمیت حاصل ہے اس کے بل بوتے پر یہ لوگ اسے مقصود حیات کے ایک ذریعہ کا نہیں بلکہ خودمقصود حیات کا مقام دینا چاہتے ہیں۔
معاشرتی ناہمواریوں کاواحد علاج
جب یہ کہاجاتاہے کہ اسلام کے وہ احکام بھی جو بظاہر معاشی اور اقتصادی نوعیت کے نظر آتے ہیں براہ راست اور اپنے اولین مقصد کے اعتبار سے جس چیز کی پرورش کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ انسان کا جسم نہیں بلکہ اس کی خودی ہے تو سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پھر اسلام کے پاس افلاس اور معاشی ناہمواریوں کا کوئی حل نہیںحالانکہ اگرخودی کی پرورش کے اسلامی احکام پر عمل کیا جائے تو نہ افلاس پیدا ہو سکتاہے اور نہ معاشی ناہمواریاں وجودمیں آ سکتی ہیں۔ نہ جاگیرداری باقی رہ سکتی ہے اور نہ دولت ہی خود بخود مساوی طور پر تقسیم ہونے سے رہ سکتی ہے۔ افسوس ہے کہ دور حاضر کا انسان اس بات کو پے در پے نظر انداز کرتا رہتا ہے کہ معاشرہ کی تمام خرابیاں جو ہمیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ انسانی فر د کی اندرونی خرابیوں سے پیداہوتی ہیں بلکہ ان کا فقط ایک عکس ہیں اپنی کوتاہ نظری سے وہ ان کا علاج باہرسے کرتاہے اور قانون کے زیادہ تر بے اثر اور بے کار خارجی طریقوں کو کام میں لاتا ہے۔ حالانکہ اگر کسی فرد کو ایسی تعلیم دی جائے جو اس کی خودی کے تقاضوں کے مطابق ہو اور لہٰذا درست ہو تو معاشرہ کی کوئی خرابی پیدا نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو تو رفع ہو جاتی ہے۔ حقیقت نہ صرف یہ ہے کہ اسلام کے پاس افلاس اور معاشی ناہمواریوں کا حل موجود ہے بلکہ اسلام کے سوائے اور کسی نظریہ حیات کے پاس خواہ وہ سوشلزم ہی کیوں نہ ہو ان کا کوئی فطری کامیاب اور پائیدار حل موجود نہیں۔ پہلے تو اسلام انسان کے دل میں خدا کی محبت کا سوز و گداز‘ غیر اللہ سے بے نیازی اور بیزاری ارو جسم کی زندگی کی ناپائیداری اور بے اعتباری کا احساس اور محاسبہ اعمال کا یقین اور خوف پیداکرتا ہے‘ اور اس طرح سے انسان کو خدا کے احکام کی عاشقانہ اور عاجزانہ اور عاجزانہ تعمیل کے لیے مہیا کرتا ہے۔ پھر اسے کہتا ہے کہ محنت سے کام کرو۔ جو شخص محنت سے کام کرتا ہے وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے خدا کی ربوبیت اور رزاقیت کاسامان پیدا کرتا ہے اور اس طرح سے خدا کی ربوبیت اور رزاقیت اور رزاقیت میں شریک کار ہوتاہے۔ لہٰذا وہ تخلق باخلاق اللہ کی وجہ سے خدا کا محبوب بن جاتا ہے (الکاسب حبیب اللہ) ظاہر با ت ہے کہ جو شخص محنت سے کام کرے گا وہ بہت کمائے گا ارو ا س کے پاس خرچ کرنے کے لیے مال بہت کم ہوگا۔ لیکن اسلام دوسری بات اسے یہ کہتا ہے اگر تمہارے پاس مال ضرورت سے زیادہ ہو تو پھر بھی اسے ضرورت سے زیادہ سے زیادہ خرچ نہ کرو اور نہ اسراف کرو اور نہ تبذبر۔ پھر ظاہر ہے کہ اگر وہ کفایت اور ضرورت کے مطابق خرچ کرے گا تو مال اس کے پا س بچ رہے گا اورجمع ہوتا رہے گا۔ لیکن اسلام تیسری بات اسے یہ کہتا ہے کہ اپنے پاس فالتو مال جمع نہ کرو۔ اور اگر جمع ہو جائے تو اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دو۔ پھر جو لوگ مال جمع کرتے اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اسلام ان کو دردناک عذاب سے ڈراتا ہے۔ کہ ان کے جمع کیے ہوئے سکوں کو جہنم کی آگ میں تپا کر ان کے جسموں کو داغا جائے گا کہ اب اس کے جمع کیے ہوئے مال کا مزا چکھو۔ اگر کوئی مسلمان پہلے ہی سے جاگیردار یا صاحب جائیداد بنا ہوا ہو تو اس کے لیے حکم ہے کہ اپنی جائیدا د کو قانون وراثت کے مطابق ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ جمالیاتی ضرورتیں اسلام میں حرام نہیں ہیں لیکن ان کی بات اس وقت آتی ہے جب تمام لوگوں کی حیاتیاتی ضرورتیں پوری ہو رہی ہوں اور پھر ان میں بھی دوسرے بھائیوں کو برابر کا شریک کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس فراوانی میں ہمیں اپنے سب بھائیوں کو شریک کرنا چاہیے۔ اگر کسی مسلمان کو اس کی جمالیاتی حس کھانے پہننے اور رہنے کی نفاستوں پر زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کرتی ہو تو اسلام اسے تنبیہہ کرتا ہے کہ تم اس وقت تک مومن شمارنہیں کیے جائو گے جب تک تم اپنے ہر مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرو جو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ پھر تم دیکھ لو کہ آیا زائد خرچ کر کے جو چیز تم اپنے لیے حاصل کرتے ہو اس میں دوسروں کو شریک کر سکتے ہو۔
الذی نفسی بیدہ لا یومن احدکم حتی یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ (الحدیث)
اب بتائیے کہ جس قوم کے افراد محنت سے کام کرنے کے باوجود ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے سے نفرت کرتے ہوں اور اپنے بچے ہوئے فالتو مال سے بیزار ہوں اور اسے جلد از جلد ضرورت مندوں کو دے دینے کے بغیر چین محسوس نہ کرتے ہوں اپنی سابقہ جائیدادوں اور جاگیروں کو پے درپے تقسیم کرتے چلے جاتے ہوں اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں میں قوم کے دوسرے افراد کو برابر کا شریک کرنے کے بغیر اپنے ایمان میں خلل سمجھتے ہوں۔ اس قوم میں افلاس کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور معاشی ناہمواریاں کیسے وجود میں آ سکتی ہیں۔ اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے قارئین میری کتاب ’’قرآن اور جدید علم‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
اسلامی سوشلزم کیاہے
ایسے حالات میں ضروری ہے کہ فالتو دولت پیدا ہوتے ہی خود بخود پوری قوم میں مساوی طور پر تقسیم ہو جائے اور اگر دولت کی مساوی تقسیم ہی سوشلزم کا مقصد ہے تو پھریہ ہے وہ سوشلزم جسے اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ ہے وہ سوشلزم جس پر اسلامی سوشلزم کی اصطلاح صادق آ سکتی ہے۔ یہی وہ اسلامی سوشلزم ہے جس کا ذکر اقبال نے اپنے خطوںمیں کیا ہے اور جس کا حوالہ دے کر ہم ایک اور ہی قسم کا سوشلزم لانا چاہتے ہیں جس کے خطرناک نتائج بعض ملکوںمیں آزمائے جا چکے ہیں۔ اسلامی سوشلزم کا یہ امتیاز یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے خدا کی شدید محبت سے پیدا ہوتا ہے ۔ جبریا خارجی قانون سے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا منبع انسان کا دل ہے جسے جبریا قانون سے بدلا نہیںجا سکتا۔ فقط تعلیم سے بدلا جا سکتا ہے۔ اقبال کا سوشلزم اقبال کے پورے نظام کے ساتھ ہی لایا جا سکتا ہے۔ اس سے الگ کر کے لایا نہیں جا سکتا۔ ہم اقبال کے شیدائی جو اقبال کا سوشلزم لانا چاہتے ہیں اس کے ساتھ اقبال کا نظام تعلیم جو خودی کی پرورش کرتا ہے کیوں لانا نہیں چاہتے۔ آخر اس میں حکمت کیا ہے۔ ہم کو فرد کے جسم کی فکر ہے ۔ لیکن فرد کی خودی کیوں نہیں جو اقبال کی تعلیمات کامرکزی نقطہ ہے اور جس کی پرورش کی اہمیت واضح کرنے کے لیے اقبال نے اپنی ساری عمر صرف کی ہے۔
اسلامی نظام تعلیم کی ضرورت
خودی کی پرورش کے لیے ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس کا امتیاز یہ ہو کہ اس میں خدا کا تصور سائنسی علوم کا مدارومرکز ہو اور وہ اقبال کے الفاظ میں ’’عشق کی تیغ جگر دار‘‘ کو علم کے ہاتھ کی خالی نیام میں واپس لائے۔ اقبال کا سوشلزم حضرت ابوذرؓ کا سوشلزم یا اسلام کا سوشلزم اب اسلامی تعلیم کی راہ ہی سے آ سکتا ہے۔ اگر ہم وہ سوشلزم لانا چاہتے ہیں جو اقبال کے الفاظ میں ’’حرف قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے تو ہمیں ایک لمحہ کے لیے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جو شخص اپنا سارا فالتو مال خدا کی راہ میں دے دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور اپنے کل کی فکر نہیں کرتا خدا کی رزاقیت اور ربوبیت پر اس کے ایمان کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ خدا کے بالمقابل اسے اپنی جان سے یا دنیا سے کتنی محبت ہوتی ہے۔ آخرت کی زندگی اور خدا کی باز پرس میں اسے کس قسم کی حقیقت نظر آتی ہے۔ افلاس کے خوف سے اس کی آزادی اور بے پرواہی کا رنگ کیا ہوتا ہے۔ خدا پر اس کے توکل کے انعام کا کیامقام ہے اور خدا کی اس گارنٹی پر کہ اس نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لے لیا ہے اس کا یقین ہم کس قسم کا ہوتا ہے۔ کیا ہم میں سے ایک بھی ایسا ہے جو اس قسم کے ایمان اور توکل کا دعویٰ کر سکے۔ ایک طرف سے ہم میں سے ایک ذرہ بھی ہل نہ جائے اور دوسری طرف سے اسلامی سوشلزم اور حضرت ابوذرؓ کے سوشلزم کی تمنا کرتے ہیں اور جب پوچھا جائے تو ہمارا جواب بالعموم یہ ہوتا ہے کہ جس وقت یہ سب لوگ اپنے اپنے اندوختوں کو ترک کریں گے۔ ہم بھی اپنا اندوختہ ترک کر دیں گے۔ کیا حضرت ابوذر غفاریؓ کا جواب یہی ہو سکتا تھا۔ جن کو اپنی موت کے وقت اس بات کا افسوس تھا کہ گھر میں ایک لکڑی کا پیالہ کیوں موجود ہے اور وہ اپنے خدا کے پاس ایسی حالت میں کیوں نہیں جا رہے ہیں کہ ان کے پاس کچھ بھی موجود نہ ہوتا۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اقبال اور حضرت ابوذرؓ کا سوشلزم لافذ کرنے سے پہلے ہمیں اسلامی تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے دلوں میں خدا اور رسولؐ اور آخرت پر ابوذرؓ کاایمان پیدا کر سکے۔ اور یہ کہ اس وقت ہمارا دعویٰ کہ ہم اسلامی سوشلزم لانا چاہتے ہیں اور ایک سطحی قسم کا خارجی قانون سوشلزم نافذ کر کے بعض سوشلسٹ ملکو ں کی بھونڈی نقل کرنا نہیں چاہتے سراسر خود فریبی ہے ۔
’’اسلامی سوشلزم‘‘ سے اقبال کی مراد اسلام ہے
جس اسلامی سوشلزم کی طرف اقبا ل نے اپنے خطوں میں اشارہ کیا تھا۔ اس بحث کے بعد اس کے تین واضح امتیازات ہمارے سامنے آتے ہیں:
(1) ’’اسلامی سوشلزم‘‘ بنیادی طور پر خدا کی شدید محبت سے پیدا ہوتا ہے اس کامنبع انسان کا دل ہے جو قانون سے بدلانہیں جا سکتا بلکہ فقط تعلیم سے بدلا جا سکتا ہے ۔ البتہ اگر وہ محبت پہلے موجود وہو تو قانون اس کی مدد کر سکتا ہے۔
(2) ’’اسلامی سوشلزم‘‘ بذات خود اسلامی معاشرہ کا مقصود اور مطلوب نہیں ہوتا بلکہ وہ خودی کے مقصود اور مطلوب یعنی خدا کی محبت کی تشفی اور تسکین کا ذریعہ اور اس کا ضمنی نتیجہ ہوتا ہے۔
(3) ’’اسلامی سوشلزم‘‘ پورے زور سے اس وقت آتاہے جب پورا اسلام نظام تعلیم پر ہی نہیں بلکہ قوم کی زندگی کے ہر شعبہ پر حکمران ہو چکا ہو۔
اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی سوشلزم سے اقبال کی مراد اسلام ہی ہے اور اپنے ایک نجی خط کے سیاق و سباق میں اس مرکب توصیف کا کام میں لانے سے اس کامقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ اسلامی نظام کے ایک خاص پہلو کو جو اس زمانہ میں بعض لوگوں کے لیے کشش رکھتا ہے زمانہ حال کی زان سے استفادہ کر کے سمجھایا جا ئے تاکہ باسانی اس کے مخاطب کی سمجھ میں آ جائے۔ اقبال کی ساری نظم و نثر کی تصنیفات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ اقبال جس نظام کو برپا کر نا چاہتا ہے اور جس کے دنیا پر چھا جانے سے وہ پیش گوئی کرتا ہے وہ اسلام ہی ہے اور اس کے لیے وہ ’’اسلام‘‘ ہی کی قرآنی اصطلاح کو پسند کرتا ہے۔ جب خدا کہتا ہے کہ وہ اسلام کے بغیر ہرگز کسی اور دین کو قبول نہیں کرے گا تو ظاہر ہے کہ وہ اس دین کے لیے اسلام کے سوائے کوئی اور نام بھی ہرگز قبول نہیں کرے گا
ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ ۸۵:۳
بلکہ یہ کہہ کر اس نے نام کی اہمیت پر زر دیا ہے کہ یہ نام جو ہم نے تمہارے دین کے لیے پسند کیا ہے۔ تمہارے روحانی باپ ابراہیم نے تجویز کیا تھا۔
ملتہ ابیکم ابراھیم ہو سمعکم المسلمین ۷۸:۲۲
یہ بات ظاہر ہے کہ اگر اسلام کی بجائے ہمارا اسم کوئی اور ہو گا تو ہمار ا مسمی بھی کوئی اور ہو گا اور وہ اسلام نہیں ہو گا۔
ظاہر ہے کہ خدا سے بلند تر نصب العین ممکن نہیںَ چونکہ اسلام خڈا کے تصور کو انسان کی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر چسپاں کرتا ہے۔ اسلام سے بلند تر نظریہ حیات بھی ممکن نہیں پھر جوں جوں نظریات خدا کے نصب العین سے دور ہوتے جاتے ہیں وہ پست تر ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ نظریہ حیات جو خدا کے اندکار پر قاء ہو گا پست ترین مقام کا نظریہ حیات شمار ہو گا۔ ایسا نظریہ حیات سوشلزم ہے۔ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح میں ہم دنیا کے بلند ترین نظریہ حیات کو دنیا کے پست ترین نظریہ حیات کے ساتھ جوڑ کر اول الذکر کو اس کی عظمت کے بلند مقا م کے نیچے لاتے ہیں۔ جس طرح سے اسلامی عیسائیت یا اسلامی یہودیت یا اسلامی دہریت کی اصطلاح بے معنی ہے اور مضحکہ خیز ہے اسی طرح سے اسلامی سوشلزم کی اصطلاح بے معنی اور مضحکہ خیز ہے۔ اس اصطلاح پر اصرار کرنے والے اس بات کا جواب نہیںدے سکتے کہ اسلام اور اسلامی سوشلزم میں کیا فرق ہے ۔ اگر اسلامی سوشلزم سے مراد اسلام ہی ہے تو پھر اس مقدس نام کے ساتھ سوشلزم ایسی کافران اصطلاح جوڑنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر اس سے مراز سوشلزم ہی ہے تو پھر اس کافرانہ اصطلاح کے ساتھ اسلام کا مقدس نام جوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر وہ اسلام اور سوشلزم کا ایک نیا مرکب ہے تو یہ مردود ہے کیونکہ اس کی سند نہ دین سے ملتی ہے نہ دنیا سے۔
اقبال کی مساوات کا مطلب
بعض اشتراکیت پسند مسلمان کہتے ہیں کہ اقبال نے یہ مساوات قائم کی تھی کہ اشتراکیت جمع خدا اسلام کے برابر ہے (اشتراکیت +خدا=اسلام) اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اقبال نے اشتراکیت کی حمایت کی ہے کیونکہ اشتراکیت میں اس کو صرف ایک ہی نقص نظر آتا ہے کہ اس میں خدا نہیں ہے۔ لیکن دراصل انہوں نے اقبال کی اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں گوارا کی۔ اقبال کی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ اشتراکیت میں جمع خد ا کرنے سے اشتراکیت کلیتاً اسلام بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اشتراکیت میں خدا جمع ہو جائے گا تو اشتراکیت پھر یہ نہیں کہے گی کہ حقیقت کائنات کامادہ ہے بلکہ وہ حقیقت کائنات خدا کو قرار دے گی۔ اور پھر وہ یہ بھی نہیں کہے گی کہ انسان فقط مادہ ہے بلکہ یہ کہے گی کہ اصل انسان روح یا خودی ہے اور مادہ یا جسم اس کا خدمت گزار ہے اور روح یا خودی کی آرزو فقط خدا ہے اور خدا ہی کی محبت تمام انسانی اعمال کی قوت محرکہ ہے لہٰذا وہی انسانی اعمال درست اور اچھے اور نتیجہ خیز ظاہر ہو سکتے ہیں جو خدا کی محبت سے سرزد ہوں۔ لہٰذا وہ اپنے نظام تعلیم ‘ نظام سیاست‘ نظام اخلاق اور نظام قانون کو خدا کی محبت کے عقیدہ پر قائم کرے گی۔ پھر وہ یہ بھی کہے گی کہ خدا کی محبت ہی وہ قوت ہے کہ جو عمل تاریخ کا سبب ہے ۔ لہٰذا تاریخ کی منزل مقصود اشتراکیت نہیں بلکہ خدا ہے اور خدا کے عقیدہ کے سوائے ہر نظریہ حیات ناپائیدار اور عارضی ہے اور خدا وہ ہے جو انبیاء کے ایک سلسلہ سے انسان کی راہ نمائی کرتاہے اور اس سلسلہ کو رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کرتا ہے جس کے دین کے متعلق اس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تمام نظریات پر غالب آئے گا اور تا قیامت موجود رہے گا اور جس کی من و عن اطاعت انسان کے لیے باعث صد افتخار ہو گی۔ اب بتائیے کہ کیا اس صورت میں اشتراکیت کلیتاً اسلام نہیں بن جاتی ہے۔۔ اس صورت میں اگر اس کا پھر کوئی بھی نشان باقی رہ جاتاہے تو صرف ان اسلامی حکام کی شکل میں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور جن کی اطاعت سے ایک اسلامی معاشرہ میں دولت خود بخود مساوی طور پر تقسیم ہوتی ہے۔ اس مساوات کی وضاحت سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے آپ کو بیک وقت پکا سوشلسٹ اور پکا مسلمان سمجھتا ہے اس بات سے غافل ہے کہ اگروہ مسلمان ہے تو پھر پکا سوشلسٹ ہونا تو درکنار وہ کسی درجہ کا بھی سوشلسٹ نہیں رہ سکتا۔
طریق کار
کہا جاتا ہے کہ دور حاضر میں بڑے پیمانہ کی صنعت نے جو حالات پیدا کیے ہیں ان میں سرمایہ دار محض اپنے سرمایہ کی وجہ سے اس موقف میں ہوتا ہے کہ وہ مزدور کو اس کی پوری محنت کا معاوضہ نہ دے اور وہ اسے پورا معاوضہ نہیں دیتا۔ اور یہ بے انصافی ہے۔ لیکن کیا اس بے انصافی کے ازالہ کے لیے اس دین کے ماننے والوں کو سوشلزم کی ضرورت ہے ۔ جس کی تعلیم یہ ہے کہ عدل کے تقاضوں کو کہیں بھی نظر انداز نہ ہونے دو۔ لوگوں کا مال نہ کھاھو نہ کھلائو اور دولت تمہارے اغنیاء میں گھومتی نہ رہے۔ کیا وہ اس مقدس تعلیم کے ہوتے ہوئے اپنی مومنانہ فراست سے خود نہیں دیکھ سکتے۔ کہ ظلم کہاں کہاں ہو رہا ہے اور اس کے ازالہ کے لیے وہ خود نئے اسلامی قوانین نہیں بنا سکتے اسی قسم کے بعض بے انصافیاں اسلام کے ظہور کے وقت بھی رائج تھیں اور اسلام نے ان کے ازالہ کے لیے قوانین وضع کیے تھے۔ ان قوانین کا مقصد یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کے لیے بروقت ضرورت اسی قسم کے اور قوانین بنانے کے لیے تاقیامت ایک راستہ کھل جائے گا۔ اسی لیے اسلام کی راہ نمائی قیامت تک کے یلے کافی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ جہاں خدا اور رسولؐ کے احکام موجود نہ ہوں ہمیں اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں نئے قوانین بنانے کی اجازت ہے۔ اسی کواسلام کی اصطلاح میں اجتہاد کہا جاتاہے۔ نئے حالات سے نپٹنے کے لیے ہم یقینا نہایت آزادی کے ساتھ دوسروں کی نقل کرنے کے بغیر اپنے اسلامی مصالح اور مقاصد کے مطابق نئے قوانین بنا سکتے ہیں اور ایسے قوانین بنانے کے لیے ہمیں ہمارے ایمان کی روشنی کی راہ نمائی کفایت کرتی ہے۔ سوشلزم مذہب کی خوشہ چینی کر رہاہے اور اہل مذہب بالخصوص اسلام ایسے ایک زندہ اورمکمل مذہب کے ماننے والوں کی سادگی دیکھیے کہ وہ اپنے آپ کو سوشلزم کی خوشہ چینی کامحتاج سمجھ رہے ہیں۔ ع
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
لیکن اس قسم کے قوانین اسلامی نظام کے جزو کے طور پر ہی وجود میں آ سکتے ہیں اور اس نظام سے الگ ہو کر ایک اسلامی معاشرہ میں اسن کے وجود کو کوئی وجہ جواز اور قدر و قیمت نہیں ہو سکتی اگر وہ اسلامی نظام سے الگ ہوکر وجود میں آئیں گے تو مسلمانوں کو اسلام سے ہٹا کر یہ سوشلزم کی طرف لے جائیں گے۔ ان قوانین کا جواز اس وقت پیدا ہو گا کہ جب ہم پورا اسلامی نظام نافذ کر چکے ہوں گے۔ اور اس کو شاید اپنا اثرپیداکرنے کے لیے پورا موقع دے چکے ہوں گے۔ اور اس کے باوجود یہ محسوس کریں گے کہ کچھ اور قوانین کی ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اسلامی نظام تعلیم کے سمیت پورا اسلامی نظام جس میں زکوۃ اور وراثت کے قوانین بھی شامل ہیں نافذ کرنا چاہیے پھر اس کے بعد اگر عدل کی ضرورتیں تقاضا کریں تو ہم اور قوانین (اجتہادی قوانین) مثلاً صنعت تجارت اور زراعت کے بعض اداروں کو قومیانے کے بارے میں قوانین بھی وضع کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ قوانین صرف ایسے لوگوں کے مشورے ہی سے بن سکیں گے جو متقی اورپرہیز گار ہوں گے۔ اسلام کے مقاصد کو علمی اور عقلی نقطہ نظر سے سمجھتے ہوں۔ اس کے شاندار مستقبل پر یقین رکھتے ہوں اور عہد قدیم اور عصر جدید کے علوم میں ماہر ہوں اور جدید اسلامی تعلیم کے نفاذ کے بعد ایسے لوگوں کی کوئی کمی باقی نہ رہے گی۔