غلط فلسفہ بھی غلط محبت سے پیدا ہوتا ہے
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ تصور حقیقت کا عشق صرف اس فلسفی کا ہی امتیاز نہیں ہوتا جو صحیح تصور حقیقت کو اپنے فلسفہ کی بنیاد بنا رہا ہے بلکہ استدلال کی طاہری اورعارضی قوت جو ایک فلسفہ غلط کو حاصل ہوتی ہے وہ اس کے موجد کے اس عشق کی وجہ ہوتی ہے جو اسے اپنے غلط تصور حقیقت سے ہوتا ہے۔ اس عشق کی وجہ سے وہ ان سچے حقائق سے آنکھیں بند کر لیتا ہے جو اس کے غلط تصور حقیقت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ور ان غلط حقائق کو صحیح سمجھ لیتا ہے جو اس کے غلط تصور حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوں مثلاً اگر کارل مارکس کو اپنے غلط تصور حقیقت سے عشق نہ ہوتا تو وہ ہرگز ایسا فلسفہ نہ لکھ سکتا جو قطعی طور پر غلط ہونے کے باوجود آج کروڑوں بندگا ن خدا کی زندگیوں کا مدار و محور بنا ہوا ہے۔
اب غور کیجیے ک ایک طر ف تو کائنات کا صحیح فلسفہ انسان کی شدید نظری اور عملی ضرورت میں سے ہے اور دوسری طرف سے اس کے بہم پہنچنے کی راہ میں ناقابل عبور دشواریاں ہیں لیکن قدرت کا قاعدہ ہے کہ انسان کی ہر شدید قدرتی ضرورت کی تشفی کے لیے وہ اپنا نظام کرتی ہے ۔ اور اس التزام کی بنیاد باسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر قدرت ایسا نہ کرے تو کائنات میں اس کے مقاصد کی تکمیل نہیںہو سکتی۔ جس طرح سے قدرت ہماری شدید بانی ضروریات کی تکمیل کے لیے بادل ہوا سورج چاند زمین اور آسمان ایسی قوتوںکو کارفرما کرتی ہے اسی طرح سے وہ ہماری شدید روحانی ضروریات کی تشفی کے لیے انبیاء کا سلسلہ قائم کرتی ہے۔
اس کتاب میں آگے چل کر اقبال کے نظریہ نبوت کی پوری تشریح کی جائے گی۔ یہاں صرف یہ گزارش کرنا مقصودہے کہ حضرت انسان کے لیے ہر نبی کا سب سے پہلا اور سب سے آخری اور سب سے زیادہ قیمتی تحفہ حقیقت کائنات کا صحیح تصور ہوتا ہے اسی تصور کو ہم خدا کا تصور کہتے ہیں۔ اس تصور کی پوری حقیقت ا سکے عملی اطلاق سے ہی سمجھ میں آتی ہے ۔ اور اس کا عملی اطلاعق جس کا ظہور سب سے پہلے نبی کی عملی زندگی کی مثال میں ہوتا ہے ا س وقت تک مکمل نہیںہوتا جب تک کہ بنی نو ع انسان کی سماجی زندگی کے ارتقا کر کے ایک خاص مقام تک نہ پہنچ جائے۔ جہاں سے اس کے تمام ضروری اور قدرتی پہلو مثلاً سیاست ‘ جنگ معاشیات‘ قانون‘ معاملات‘ وغیرہ پوری طرح سے نمایاں ہوں جونہی کہ انسانی سماج کا ارتقا اس مرحلہ پر پہنچتا ہے اس میں ایک ایسا نبی پیدا ہوتا ہے جو اپنی عملی زندگی ک مثال کے ذریعہ سے انسان کی عمملی زندگی کے ان تمام ضروری شعبو ں پر خدا کے تصور کا اطلاق کرتا ہے او ر اس اطلاق کے ذریعہ سے خدا کے تصور کی صٖات کے نظری اور عملی پہلوئوں کو آشکار کرتا ہے۔ وہ گویا پہلا شخص ہوتا ہے جو نوع بشر کو حقیقت کائانت کا ایسا کامل تصور عطا کرتا ہے جو ایک کامل اور صحیح فلسفہ کی بنیاد بن سکتا ہے اور بنتا ہے۔ اس بنی کے ظہور کے بعد نبوت کا اختتام ایک قدرتی بات ہے کیونکہ اس کے بعد انسان کے لیے کوئی مشکل باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنی عملی زندگی کو ہر قسم کی درستی اور ثروت کے اعتبار سے نقطہ کمال پر پہنچا سکے اور وہ خاتم الابنیاء جنہوں نے نوع انسانی کو حقیقت کائنات کا کامل تصور عطا کیا ہے جناب محبد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ فلسفی جس نے علمی حقائق کی ترقیوں کے اس دور میں سب سے پہلے اپنے فلسفہ کی بنیاد نبوت کاملہ کے عطاکیے ہوئے کامل تصور حقیقت پر رکھی ہے اقبال ہے اور وہ فلسفہ جو اس کے دور کے علمی حقائق کو نبوت کے عطا کیے ہوئے کامل تصور حقیقت کی بنیادوں پر منظم کرتا ہے فلسفہ خودی ہے۔ اقبال نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہی وہ تصور حقیقت کی بنیادوں پر منظم کرتا ہے فلسفہ خودی ہے اقبال نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہی وہ تصور حقایت ہے جو صحیح اور تمام حقائق کائنات کو منظم کر کے ایک وحدت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال بار بار کہتا ہے کہ وہ فلسفہ جو نبوت کاملہ کے عطا کیے ہوئے تصور حقیقت پر مبنی نہ ہو بلکہ حقیقت کے کسی ایسے تصور پر مبنی ہو جو کسی فلسفی نے حقائق عالم کی ناتمام معرفت کی بنا پر نبوت کی مدد کے بغیر خود بخود قائم کر لیا ہو بیکار اور غلط ہے اورتمام فلسفے جو آج تک وجود میں آئے ہیں ایسے ہی ہیں۔ صرف خدا کا عشق ہی صحیح فلسفہ کی بنیاد بن سکتاہے۔ اور اس عشق کا منبع رسولؐ کی اطاعت ہے۔
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زناری برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اس کا طلسم سب خیالی
انجام خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
دل در سخن محمدی بند
اے پور علی زبو علی چند
ہیگل کے فلسفہ پر اقبال نے جو تحقیر آمیز تنقید کی ہے وہ دراصل اس کے نزدیک ہر غیر قرآنی فلسفہ پر صادق آتی ہے۔
حکمتش معقول و بامحسوس در خلوت نہ رفت
گرچہ فکر جکر او پیرایہ پوشد چوں عروس
طائر عقل فلک پرواز او دانی کہ چیست
ماکیاں کز زور مستی خایہ گیر و بے خروس
سچا تصور حقیقت فقط خدا کاتصور ہے جو زندہ اور حی و قیوم ہے۔ باقی تمام تصور ات حقیقت مردہ ہیں اور مرد ہ کی تصویر کشی بھی مردہ ہی ہوتی ہے۔ اگر آج اسے زندہ سمجھا جا رہا ہو تو یوں سمجھیے کہ وہ نزع کی حالت میں گرفتار ہے اور اسے آج نہیں تو کل مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا جائے گا۔
یا مردہ ہے یا نزعع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے
٭٭٭
بلند اقبال تھا لیکن نہ تھا جسور و غیور
حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضائوں میں شاہیں اگرچہ کرگس وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
٭٭٭
حکیماں مردہ را صورت نگارند
ید موسیٰ دم عیسیٰ ندراند
دریں حکمت دلم چیزے نہ دید است
برائے حکمت دیگر تپید است
ظاہر ہے کہ حکمت دیگر سے اقبال کی مراد وہ حکتم ہے جو زندہ خدا کو حقیقت کائنات مانتی ہو۔ خدا ہی وہ تصور حقیقت ہے جو سچے عشق کا منبع ہے اور جس کی فلسفی کو ضرورت ہے۔ اسی عشق سے کائنات کے راز ہائے سربستہ منکشف ہوتے ہیں۔ یہی وہ خون جگر ہے جس سے فلسفہ کو لکھا جاتاہے تو پھر نہ حالت نزع میں گرفتا ر ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے اور خدا کا عشق خدا کے رسول کے عشق کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا:
مے ندائی عشق و مست از کجاست
ایں شعاع آفتاب مصطفی است
عقل تصور حقیقت کے تابع رہتی ہے اور اس کی راہیں اتنی ہی ہیں جتنے کہ حقیقت کے تصورات موجود ہیں ۔لہٰذا اقبال نے عقل کو’’عقل ہزار حیلہ‘‘ کہا ہے سچے فلسفہ کا دارومدار محض عقل پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ خدا کا سچا عشق عقل کی راہ نمائی کرے۔ سچے عشق کا راستہ فقط ایک ہے اور وہی انسان کی صحیح منزل کی طرف جاتاہے لیکن عقل کے راستے ہزاروں میں۔
نشان رہ ز عقل ہزار حیلہ مپرس
بیا کہ عشق کمالے زیک فنی دارد
اسی طرح سے وہ علم شیطانی ہے جو خدا کے سچے عشق سے راہ نمائی نہیں پاتا۔ ایسا علم صحیح فلسفہ کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ لیکن وہ علم جو خدا کی محبت کے ماتحت وجود میں آئے پاکیز ہ اور صحیح ہوتا ہے اور صحیح فلسفے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
علم بے عشق است از طاغوتیاں
علم باعشق است از لاہوتیاں
٭٭٭
نقشے کہ بستہ ہمہ اوہام باطل است
عقلے بہم رساں کہ ادب خورد دل است
٭٭٭
بے محبت علم و حکمت مردہ
عقل تیرے بر ہدف نا خوردہ
٭٭٭
بچشم عشق نگر تا سراغ او بینی
جہاں بچشم خرد سیمیا و نیرنگ است
٭٭٭
وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم
٭٭٭
نقطہ ادوار عالم لا الہ
منتہائے کار عالم لا الہ
لا و الا احتساب کائنات
لا و الا فتح باب کائنات
٭٭٭
حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم
نگاہ چاہیے اسرار لا الہ کے لیے
٭٭٭
فلسفی را با سیاستدان بیک میزان مسخ
چشم آں خورشید کورے دیدہ آں بے نے
ایں تراشد قول حق را حجتے نا استوار
آں بیارد قول باطل را دلیلے محکمے
ہر علمی حقیت (حکمت کی بات) صرف ایک فلسفے کے ساتھ پوری مطابقت رکھتی ہے اور وہ وہی ہے جو صحیح تصور حقیقت یعنی خدا کے تصور پر مبنی ہو لہٰذا جہاں سے وہ مل جائے اسے تلاش کر کے اس فلسفہ کا جزو بنا دینا چاہیے۔
گفت حکمت را خدا خیر کثیر
ہر کجا ایں کیر را بینی بگیر
چونکہ صحیح اور سچی حکمت جو دنیا کی آخری حکمت ہو گی خدا کی محبت یا خدا کے عشق کی بنیاد پر قائم ہو گی اور نوع بشر کو متحد کر کے انہیں دائمی امن سے ہمکنار کرے گی۔ اقبال اس بات پر زورتحریک کرتا ہے کہ خدا کہ محبت کے نظریہ کو ایک فلسفہ یا حکمت کی شکل دی جائے۔ ا س کے بغیر نہ تو خود یہ نظریہ قائم قبولیت حاصل کر سکے گا اور نہ ہی عالم انسانی غلط فلسفوں اور باہمی آویزشوں اور رقابتوں سے نجات پا سکے گا۔ اس قسم کا فلسفہ جب بھی وجود میں آئے گا ایک عالم گیر انقلاب اپنے ساتھ لاء گا اور ایک نئی دنیا پیدا کرے گا۔ عقل جس پر اہل مغرب کی زندگی کا دارومدار ہے عشق سے راہ نمائی حاصل کرتی ہے اور خدا کا عشق جو اہل مشرق کا امتیار ہے۔ عقل سے قوت حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا جب عقل اور عقل ایک دوسرے کے ہم دوش ہو کر ایک دوسرے کے ممدو معاون بن جائیں گے تو پوری دنیا کے اندر ایک انقلاب کا رونما ہو جانا ضروری ہو گا۔
غریباں را زیرکی ساز حیات
شرقیاں را عشق رمز کائنات
زیرکی از عشق گرد و حق شناس
کار عشق از زیرکی محکم اساس
عشق چوں با زیرکی ہمبر بود
نقش بند عالم دیگر شود
خیز و نقش عالم دیگر بند
عشق را با زیرکی آمیز وہ
لیکن ان تمام علمی حقائق کو جنہیںانسان کی جستجوئے صداقت آج تک دریافت کر سکی ہے حقیقت کے صحیح تصور کے ساتھ منسلک کرنے کے بعد بھی تصور حقیقت کی تشریح اپنے کمال کو نہیںپہنچے گی کیونکہ قیامت تک نئے نئے علمی حقائق دریافت ہو کرا س حقیقت کی تشریح کے رشتہ میں منسلک ہوت یرہیں گے اور اس کو زیادہ سے زیادہ روشن اور واضح کرتے رہیں گے اسی لیے اقبال نے تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے دیباچہ میں مشورہ دیا ہے:
’’جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا اور فکر کی نئی نئی راہیں کھلتی جائیں گی ان ہی مطالب کی تشریح کے لیے اور تصورات اور غالباً بہتر تصورات میسر آتے جائیں گے۔ ہمارافرض ہے کہ ہم انسان کی علمی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے تصور حقیقت کی روشنی میں ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں‘‘۔
اسی خیال کو اقبال نے اس شعر کا جامہ پہنایا ہے:
گفت حکمت را خدا خیر کثیر
ہر کجا ایں خیر رابینی بگیر
لیکن اگر کوئی شخص آج حقیقت کی معرفت تامہ کا خواہس مند ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عبادت اور ریاضت کے ذریعہ سے حقیقت کے حسن و کمال کا ذاتی احساس یا تجربہ یا عشق پیدا کرے ورنہ نہ تو کوئی دانائے راز حقیقت کائنات کی مکمل تشریح کر سکتا ہے اورنہ ہی کس فرد بشر کے لیے ممکن ہے کہ فقط اس کی تشریح کو سن کر یا پڑھ کر کائنات کی مکمل معرفت حاصل کر سکے۔
حقیقت پہ ہے جامہ حرف تنگ
حقیقت ہے آئینہ گفتار زنگ
فروزاں ہے سینہ میں شمع نفس
مگر تاب گفتار کہتی ہے بس
زباں اگرچہ دلیر است و مدعا شیریں
سخن ز عشق چہ گویم جزا لکہ نتواں گفت
رومی نے اس خیال کو بڑے زور دار الفاظ میں ظاہر کیا ہے:
ہرچہ گویم عشق را شرح و بیاں
چوں بعشق آیم خجل ہاشم ازاں
گرچہ تفسیر و بیاں روشن گر است
لیک عشق بے زباں روشن ترا است
چوں قلم اندر نوشتن مے شتافت
چوں بعشق آمد قلم برخود شگافت
چوں سخن در وصف ایں حالت رسید
ہم قلم بشکست و ہم کاغذ درید
عقل در شرجش چوخر دل گل نجفت
شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت
آفتاب آمد دلیل آفتاب
گر دلیلت باید از دے رومتاب
اقبال ایک ایسا عاشق زات فلسفی اپنے عشق کی حکیمان توجیہ اس لیے کرتا ہے کہ تاکہ اس ک مطالعہ کرنے والا ان عقلی اور علمی قسم کی رکاوٹوں سے نجات پائے جو حقائق علمی کی غلط بینی غلط فہی اور غلط ترجمانی سے اس کے عشق کی راہ میں پیدا ہو گئی ہوں اور تاکہ وہ ان کی رکاوٹوں سے نجات پا کر اس کے عشق سے بہرہ اندوز ہوں اور پھر جب ا س کی محبت کا چراغ اس طرح سے روشن ہو جائے تو وہ بے اختیار عبدت اور ریاضت کی طرف متوجہ ہو اور پھر عبادت ارو ریاضت کے راستہ ہی سے اپنے عشق کو یہاں تک ترقی دے کہ اسے کم از کم اس غرض کے لیے جو خود حکمت کی بھی حاجت نہ رہے پہلے حکمت سے اس کا عشق پیدا ہو اورپھر اس کے عشق سے حکمت پھوٹتی اور بڑھتی اور پھولتی رہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر علمی حقیقت اصرف ایک ہی تصور حقیقت کے ساتھ عقلی اور علمی طور پر وابست ہے اور وہ خدا کا تصور ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ک کائنات کا ہر ذرہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے ک خدا ہی کائنات کی سچی حقیقت ہے اس لیے قرآن حکیم نے کائناب ک ہر علیمی حقیقت کو ایک آیت نشان کہا ہے:
وفی الارض ایت للمومنین
(اور زمین میں خدا پر یقین رکھنے والوں کے لیے بہت سے نشانات ہیں) یعنی چونکہ کائنات کی علمی حقیقتیں صرف خدا کے تصور کے ساتھ جو کائنات کی صحیح اور اصلی حقیقت ہے مطابقت رکھتی ہیں اور کسی باطل تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں لہٰذ ا وہ خدا کی خدائی کے نشانات یا دلائل یا شہادتیں ہیں۔
سچا فلسفی یہی کرتا ہے کہ جس قدر حقائق تمام نوع بشر کے دائرہ علم یں داخل ہو چکے ہوں اور ان کو معروف اور مقبول علمی اور بنیادی عقلی معیاروں کے مطابق کائنات کی سچی حقیقت کے ساتھ وابستہ کر کے معلوم کائنات کے ذرہ ذرہ سے کہلواتا ہے کہ کائنات کی سچی حقیقت وہی ہے۔
وفی کل شی لہ ایتہ
تدل علی انہ واحد
اور اس طریق سے باطل کے تصورات حقیقت کے حق میں تمام ممکن شہادتوں کو ملیامیت کر دیتا ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ابھی نوع بشر کے احاطہ علم میں بہت کم حقائق عالم داخل ہوئے ہیں اس لیے کہ وہ کم ہوں یا زیادہ سب اسی کے تصور حقیقت کی تائید کر رہے ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ غلط تصورات حقیقت کے حق میں جھوٹی شہادتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں ان کا دارومدار بھی تو ان ہی حقائق کی غلط ترجمانی پر ہوتا ہے۔ جب ہماری معلوم کائنات کا ہر ذرہ بلند آواز سے اس بات کی شہادت دینے لگ جائے کہ کائنات کی سچی حقیقت خدا ہے تو وہ ساتھ ہی اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ خدا کے سوائے تمام تصورات حقیقت باطل اور نامعقول ہیں۔
"ومن یدع مع اللہ الھاً اخر لا برھان لہ بہ"
اور جو شخص خدا کو چھوڑ کر کسی اور معبود کو پکارے اس کے پاس کوئی دلیل یا شہادت موجود نہیں ہو سکتی۔
اور جب پوری کائنت میں ایک بھی علمی شہادت کسی باطل تصور حقیقت کے حق میں باقی نہ رہے تو پھر باطل تصورات حقیقت کا باقی رہنا ناممکن ہو جاتاہے اور پھر حقیقت کائنات کے صحیح تصور پر قائم کیا ہوا نیا سچا فلسفہ دنیا بھر میں اشاعت پذیر ہوتا ہے اور کسی مزاحمت کے بغیر دنیا کے کناروں تک پھیل جاتا ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ تصورات حقیقت فقط علمی دلچسپی کے نظریات نہیں ہوتے بلکہ افراد اور اقوام کی علمی زندگی کی پوری عمارتیں ان بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہیںلہٰذا جب وہ علمی حیثیت سے ختم ہو جائیں تو ان تعمیرات کا ختم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو ان پر کھڑی ہوں اور جب ساری دنیا ہی باطل ہو تصورات حقیقت پر تعمیر پائے ہوئے ہو تو ایسی حالت میں اس نئے سچے فلسفے کا ظہور ہونا اور اشاعت پانا جو دونوں دنیائوںکی حقیقت کے مرغوب اور مروج تصورات کوباطل ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ساری دنیا کے لیے ایک قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ باطل تصورات حقیقت کے پرستاروں میں سے کون ایسا ہو گا جو کسی فرد واحد کی ذات میں اس قیامت کو ابھرتا ہوا دیکھے اور اسے مٹانے کے درپے نہ ہو جائے۔ لہٰذا اس قسم کے زلزلہ خیز فلسفہ کو پیش کرنا بڑی جرات کی بات ہے جس کی توقع ہر شخص سے نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ وہ اپنے فکر کی تلوار سے اپنے ہم عصر لوگوں کی دونوں دنیائوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینا چاہتا ہے۔
حکمت و فلسفہ ہمت مرے باید
تیغ اندیشہ بروئے دو جہاں آختن است
٭٭٭
خوگر من نیست چشم ہست و بود
لرزہ برتن خیزم از بیم نمود
تاہم یہ قیامت آ کر رہتی ہے اور جب حقیقت کے باطل تصور ات مٹ رہے ہوتے ہیں ا ور ان کے اوپر کی عمارتیں بھی منہدم ہو رہی ہوتی ہیں تو اس عمل کے ساتھ ساتھ اس نئے سچے نظام حکمت کی بنیادوں پر ایک نئی دنیا وجود میں آتی ہے جسے عاشقان جمال ذات مل کر اپنی مرضی کے مطابق تعمیر کرتے ہیں اور ان کی مرضی خداہی کی مرضی ہوتی ہے گویا اس سے پہلے ان کے اور خدا کے درمیان یہ مکالمہ ہو چکا ہوتا ہے:
گفتند جہان ما آیا بتومے سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برھم زن
اور پھر خدا ان عاشقوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہی ہو گا اور تمہاری مزاحمت کرنے والے مٹا دیے جائیں گے:
قدم بیباک تر نہ در رہ زیست
بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست
یہی وجہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ صحیح تصور حقیقت پر ایک نئے فلسفے کی تشکیل کریں:
عشق چوں با زیرکی ہمبر بود
نقش بند عالم دیگر شود
خیز و نقش عالم دیگر بند
عشق را با زیرکی آمیز دہ
چونکہ اس وقت صحیح تصور حقیقت اپنی پوری صحت اور صفائی کے ساتھ صرف مسلمان قوم ہی کے پاس ہے جو خاتم الانبیاء کی دعوت و تعلیم کی حامل ہے ۔ ضروری ہے کہ یہ قوم اپنے نظریہ کی وجہ سے کسی جنگ و جدال کے بغیر وئے زمین پر غالب آئے:
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
جب ایسا ہو گا تو یقینا یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا حادثہ اور عظیم الشان انقلاب ہو گا لیکن یہ حادثہ اور یہ انقلاب ضمیر افلاک میں مخفی ہونے کے باوجود اقبال کی نگاہوں میں آشکار ہے:
انقلابے کہ نگنجد ضمیر افلاک
بینم و ہیچ ندانم کہ چسان مے بینم
٭٭٭
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
اس حادثہ یا انقلاب کے بعد جو حیرت انگیز نئی دنیا کے وجود میں آئے گی اس وقت ہم میں سے کوئی ا س کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور کسی کو اس کا خیال بھی نہیں آ سکتا کہ مسجد میں نہ مکتب میں اور نہ مے خانہ میں:
کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و مے خانے میں مدت سے خموش
٭٭٭
عالم تو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کے سحر بے حجاب
یہ بات حیر ت میں ڈالنے والی ہے اور اگر زبان سے کہی جائے تو اسے کون مانے گا کہ کفر اور شرک اور فسق و فجور اور جنگ و جدال کے ایک ایسے طویل دور کے بعد ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں دنیا کے ایک کنار سے دوسرے کنار تک خدا پرستی اور نیکی اور امن اور صلح اور سلامتی کا دور دورہ ہو گا۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
لیکن اہل فرنگ جو اس وقت دنیا میں غالب ہیں اس بات کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ آخر کار مسلمان قوم ہی غالب رہے گی۔ سمجھنا تو درکنار وہ تو ا س با ت کو سننا بھی گوارانہیں کریں گے۔
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب
خود قرآن حکیم کے اندر عالم انسانی کے اس شاندار مستقبل کی پیش گوئی موجود ہے قرآن حکیم میں بڑی تحدی سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ ابنیاء کا نظریہ حیات ہی دنیا میں غالب رہے گا۔ اور دوسرے تمام نظریات مٹ کر فنا ہو جائیں گے۔
کتب اللہ لا تغلبن انا ورسلی
(خدا نے لکھ دیا ہے کہ بے شک میں اور میرے رسول ہی دنیا میں غالب رہیں گے)
انتم الا علون ان کنتم مومنین
(اگر تم سچے مومن بنو گے تو تم ہی دنیا پر غالب رہو گے)
لقد سبقت کلمتنا بعبادنا المرسلین انھم لھم المنصور ون وان جندنا لھم الغلبون
(اور بے شک ہمارے پیغمبروں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ یقینا وہ مظفر و منصور ہو ں گے اور ہمارا لشکر ہی لازماً غالب رہے گا)۔
اور پھر جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے متعلق بالخصوص فرمایا گیا ہے۔
ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظہر علی الدین کلہ و کفی باللہ شھیدا
منکرین نبوت فلسفیوں کو آج تک اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود بھی کائنات کی سچی حقیقت کا پورا علم نہیںہوا۔
حریف نکتہ توحید ہو سکا نہ حکیم
نگا چاہیے اسرار لا الہ کے لیے
اگرچہ اس حقیقت کے علم کی طر ف انہوںنے کچھ پیش قدمی ضرور کی ہے دراصل فلسفہ اور نبوت دو مختلف راستو ںسے ایک ہی منزل یعنی حقیقت عالم کی نقاب کشائی کی منزل کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ نبوت خاتم النبیینؐ کے ظہور سے پہلے اپنی جگہ پر نہ پہنچ سکی تاہم اس کی رفتارکا ہر قدم صحیح راستہ پر اٹھا اور صحیح منزل کی طرف بڑھتا رہا۔ اور اس کے برعکس اگرچہ فلسفی جزوی اور محدود کامیابیاں حاصل کرتا رہا لیکن حقیقت کائنات کے صحیح تصور سے محڑوم ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر منزل سے دور ٹھوکریں کھاتا رہا۔ نبوت کاملہ کی راہ نمائی کے بغیر صحیح قسم کے وجدان سے آغاز کرنا اور لہٰذا صحیح عقلی استدلال کو پانا اس کے بس کی بات نہ تھی۔
ہر دو امیر کارواں ہر دو منزلے رواں
عقل بحیلہ می کشد عشق برو کشاں کشاں
نبوت کی ایک ووکوشش یہ تھی کہ انسان کو نظام عالم کی عقلی ترتیب کی تفصیلا ت میں لے جانے کی بجائے انسان کو اس کے ضروری حقائق کی واقفیت اس حد تک بہم پہنچا دی جائے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ایسے عمل پر آمادہ ہو جائے جس سے نہ صرف اس کی عملی زندگی درست اور پر امن او رخوشگوار ہو بلکہ جس سے اس کے اندر وہ صحیح وجدان حقیقت بھی پیداہو جائے جو بیک وقت حقیقت اور حقیقت کا بنیادی علم ہوتا ہے۔ اور جسکے بغیر وہ نہ تو حقائق کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکتا ہے اور نہ ان کی صحیح عقلی اور علمی ترتیب کو دریافت کر سکتا ہے۔ زندگی کو درست اور پرامن اور خوشگوار بنانا اور حقائق عالم کی عقلی ترتیب کا دریافت کرنا انسان کی یہ دونوں ضرورتیں ایسی ہیں کہ نبوت کی روشنی کے بغیر ان کی عکمیل ممکن نہیں لیکن انسان کی پہلی ضرورت فوری تکمیل کا تقاضا کرتی ہے۔ اور دوسری ضڑورت اس نوعیت کی ہے کہ اگرچہ اس کی تکمیل کے لیے انسان ہر روز قدم بڑھاتا ہے لیکن اس کی آخری اور پوری تکمیل نوع بشر کے علمی ارتقاء کے ایک خاص مقام پر ہی ہو سکتی ہے اس سے پہلے نہیں ہو سکتی یہی سبب ہے کہ نبوت اپنے کمال کو پہنچ کر بھی ہمیں نظام عالم کی عقلی منطق کی واقفیت بہم پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ صرف اس اعلیٰ قسم کے وجدان کی ترتیب کا اہتمام کرتی ہے جو آخر کار اس واقفیت کے حصول کے لیے ضروری ہے اور جس کے بغیر ہمارا عقلی استدلال کامل طور پر درست نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ نے ٹھیک سمجھا کہ نظام عالم ایک زنجیر کی طرح ہے جس کی ہر کڑی اگلی کڑی کے ساتھ ای عقلی اور عمی تعلق رکھتی ہے ۔ لہٰذا اسے یہی نظر آیا کہ وہ نہایت آسانی سے یہ سلسلہ عالم کی ساری کڑیوں کو عقل کی مدد سے دریافت کر لے گا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ہر بار اپنے غلط وجدان کو ہی ایک منطقی زنجیر کی شکل دیتا رہا اور لہٰذا ہمیشہ ناکام رہا۔ اگر فلسفہ ذرا جرات سے قدم اٹھاتا اورنبوت کاملہ کے تصور حقیقت کو جب کہ وہ دنیا کے اندر ظہور پذیر ہو کر اس کی تعلیم دے چکی تھی تو اپنا لیتا تو اس کی پریشانیاں ختم ہو جاتیں اور وہ صحیح عقلی استدلال جو صدیوں سے اس کی جستجو کا محور رہا ہے اسے حاصل ہو جاتا لیکن جب تک فلسفہ اپنے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ چلتے چلتے نبوت کے تصور حقیقت کے قرب و جوار میں ایک خاص مقام پر نہ پہنچ پاتا یہ دلیرانہ قاقدام اٹھانا اس کے لیے ممکن نہ تھا خوش قسمتی سے اس بیسویں صدی میں طبیعیات‘ حیاتیات اورنفسیات کے اکتشافات کی وجہ سے فلسفہ کو یہ مقام حاصل ہو گیا ہے اور ا س کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نے اقبال کی حکمت میں تعلیم نبوت کی اصل یعنی توحید یا حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ساتھ پیوست ہونے کا دلیرانہ قدم بھی اٹھا لیا ہے۔ اقبال کافلسفہ خودی نبوت کے عطا کیے ہوئے تصور حقیقت کی ایسی تشریح بہم پہنچاتا ہے جس میں آج تک کے دریافت کیے ہوئے تمام عملی حقائق سموئے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس بات کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی کہ مستقبل کے عملی حقائق بھی اس کے اندر کیوں سموئے نہ جا سکیں گے۔ فلسفہ کے اس دلیرانہ قدم نے اب راہ گم کردہ عقل کو اپنی منزل مقصود پر پہنچا دیا ہے اور اب اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہا کہ وہ اس کے بعد بھی بھٹکتی رہے گی۔ اگرچہ اسے عالمگیر انسانی سطح پر سمجھنے کے لیے کچھ وقت لگے گا کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ چکی ہے اور اس کے آگے اب اس کی کوئی منزل نہیں:
در جہان کیف و کم گردید عقل
پے بہ منزل برو از توحید عقل
ورنہ ایں بے چارہ را منزل کجاست
کشتی ادراک را ساحل کجاست