مصطفی کمال پر نکتہ چینی، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

مصطفی کمال پر نکتہ چینی
اقبال کو مصطفی کمال کی نام نہاد اصلاحات بجا طور پر سخت ناپسند تھیں۔ کہتے ہیں کہ جب ایک سر بر آوردہ ہندی مسلمان نے مصطفی کمال سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے کہ خلافت کے اعزاز کو خود بخود چھوڑ دیا ہے۔ اپنی ریاست کو لادینی بنا دیا ہے۔ عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط اختیار کر لیا ہے اور پردہ ہٹا دیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ ’’ ہم یورپ کی عیسائی قوموں کے قریب رہتے ہیں۔ وہ ہمارے دشمن اسی لئے تھے کہ ہماری ریاست اسلامی ہے اور ہم قبائے خلافت پہن کر دنیائے اسلام کی قیادت کر رہے تھے۔ ہم نے مذہبی ریاست کی علامات کو دور کر دیا ہے اور یورپین اقوام کے طور طریقوں کو اختیار کر لیا ہے تاکہ یہ لوگ ہمیں ترقی یافتہ سمجھیں اور ہماری مخالفت سے درگزر کریں۔‘‘ اقبال نے اس پر بڑے افسوس سے لکھا کہ تعجب ہے کہ وہ ترک قوم جن کا مقام مسلمان ہونے کی وجہ سے بلندی میں ستاروں سے بھی زیادہ ہے اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ وہ پستی میں ڈوبی ہوئی راہ گم کردہ عیسائی قوموں کے ہمسائے ہیں۔
سنا ہے میں نے سخن رس ہے ترک عثمانی
سنائے کون اسے اقبال کا یہ شعر غریب
سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب
٭٭٭
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
وہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور
مصطفی کمال نے لادینی اور لاطینی کو اپنی قوم کی حفاظت کے لئے ضروری سمجھا۔ افسوس۔ کیسی الجھن میں پڑ گیا اسے معلوم نہیں کہ ناتوانوں کا علاج خدا پر بھروسہ کرنا اور خدا سے مدد مانگنا ہے جس کی طرف خدا ہو گا وہی غالب رہے گا کیونکہ خدا سب پر غالب ہے۔
لادینی و لاطینی کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے غریبوں کا لا غالب الا ہو
’’ جاوید نامہ‘‘ میں اقبال مصطفی کمال پر اور بھی چبھتا ہوا اعتراض کرتا ہے۔
مصطفی کو از تجدد مے سرود
گفت نقش کہنہ را باید زودد
نونہ گردو کعبہ رارخت حیات
گرز افرنگ آیدش لات و منات
ترک را آہنگ نو درچنگ نیست
تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست
خلافت سے دستبردار ہو جانا مصطفی کمال کی دور اندیشی نہیں تھی اور قومیں تو اپنی عیاری سے بلا استحقاق مسلمانوں کی قیادت اور سرپرستی کا دعویٰ کرتی ہیں اور اپنی سیاسی اغراض کی بنا پر چاہتی ہیں کہ مسلمان ان کا یہ دعویٰ قبول کر لیں۔ ادھر ترکوں کا یہ حال ہے کہ مسلمان ان کو اپنی سیاست اور قیادت باصرار سونپتے ہیں اور وہ انکار کرتے ہیں۔
چاک کر دی ترک نادان نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
پنڈت نہرو کے جواب میں اقبال نے لکھا۔
’’ سوئذر لینڈ کے قانون کو جس میں وراثت کا قانون بھی شامل ہے اختیار کرنا یقینا ایک شدید غلطی ہے جو نوجوانوں کے اصلاحی جوش و خروش سے پیدا ہوئی ہے۔‘‘
(تقاریر و بیانات صفحہ136)
اسی طرح سے ترکیہ کے اس قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کی رو سے اذان اور قرآن کا ترکی زبان میں پڑھنا ضروری ہے۔ اقبال لکھتا ہے:
’’ ذاتی طور پر میں اس فیصلہ کو ایک شدید غلطی قرار دیتا ہوں۔‘‘
(تقاریر و بیانات صفحہ135)
ضرب کلیم میں اقبال صاف طور پر بتاتا ہے کہ مصطفی کمال کی اصلاحات اہل مشر ق کے لئے کوئی قابل تقلید مثال نہیں ہیں۔ اسی طرح سے رضا شاہ پہلوی کی مثال بھی اہل مشرق کی آرزوؤں کی تشفی نہیں کر سکتی۔
میری نوا سے گریباں لالہ چاک ہوا
نسیم صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

٭٭٭