جمودخودی کی ایک خصوصیت ہے، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

جمودخودی کی ایک خصوصیت ہے
کاش کہ مسلمانوں کو اتباع شریعت کا مشورہ دینے کی وجہ سے اقبال کو جمود کا طعنہ دینے والے یہ جانتے کہ جمود بھی زندگی کی ایک خصوصیت ہے جو کمال کی جانب زندگی کی حرکت کے لئے ضروری ہے اسی لئے جمود کی وجہ سے زندگی طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی قوانین قدرت کو غیر مبدل اور لازوال بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اور ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ ان پر بھروسہ کر سکیں اور ان سے کام لے سکیں۔ اپنی ہر کامیابی کو جمود سے محفوظ کرنے کے بغیر زندگی اپنی اگلی منزل کی طرف قدم اٹھانے کے لئے آزاد نہ ہو سکتی اور نہ ہی منزل بہ منزل چل کر یہاں تک پہنچ سکتی اور نہ ہی اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ جمود سے کام لینے کے بغیر وہ اپنے کمال کو پہنچ سکے گی۔ کاش کہ جدت پر فخر کرنے والوں کو یہ علم ہوتا کہ زندگی حیاتیاتی سطح پر مصروف عمل ہو یا نظریاتی سطح پر اس کا قاعدہ ہی یہ ہے کہ جب وہ مکمل اور مستقل قدر و قیمت کا ایک نمونہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بار بار اس کا اعادہ کرتی ہے اور اسے موت سے محفوظ رکھتی ہے تاکہ وہ قائم اور موجود رہ کر زندگی کے ارتقائی مقاصد کے لئے کام آ سکے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مکمل اور مستقل قدر و قیمت رکھنے کی وجہ سے وہ اس میں ایسی صلاحیتیں اور خوبیاں پیدا کر دیتی ہے کہ وہ زندہ اور قائم رہتا ہے اور زندگی کے ارتقائی مقاصد کے لئے کام آتا رہتا ہے۔ ایسی حالت میں زندگی موت کا شکار نہیں ہوتی بلکہ اپنی کامیابیوں کو ان کی اصلی حالت پر قائم رکھ کر موت کا شکار کرتی ہے۔
اتر کر جہان مکافات میں
رہی زندگی موت کی گھات میں
ہوا جب اسے سامنا موت کا
کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا
سچا اسلام محفوظ ہے
سچا اسلام وہی ہے جو رحمتہ للعالمین ؐ نے اپنے ساتھیوں کو دیا تھا اور جب آپؐ کی وفات سے پہلے ان کے اعتقاد اور عمل میں محفوظ ہو گیا تھا اور جو اب کسی تبدیلی کے بغیر تواتر اور توارث سے ہم تک پہنچا ہے اگر تاریخ کے کسی نکتہ پر وہ اسلام مٹ گیا تھا اور اس پر کاربند ہونے والا کوئی انسان بھی باقی نہیں رہا تھا تو اب کوئی بڑے سے بڑا ہوشیار اور ماہر نظریات مفسر اور مجتہد بھی اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا کیوں کہ زندگی ہمیشہ زندگی سے پیدا ہوتی ہے موت سے کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ تسلسل جس طرح سے ایک نوع حیوانی کی بقا کے لئے ضروری ہے اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت کی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی نوع حیوانی مثلاً گھوڑے یا اونٹ کی نسل جب مٹ جائے تو کوئی بڑے سے بڑا ماہر حیاتیات بھی اسے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا اسلام کسی وقت مٹ گیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ بار بار رونما ہونے والے سخت مشکل حالات کے باوجود مسلمانوں پر ایسا وقت کبھی نہیں آیا جب انہیں ایسے لوگوں کی کمی رہی ہو۔ جو حضور اور آپ ؐ کے ساتھیوں کے نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوں۔ رحمتہ للعالمین ؐ کی امت کے ایک گروہ کے اعتقاد و عمل کا اپنی اصلی حالت پر تا قیامت موجود رہنا۔ زندگی کی خصوصیات کی بنا پر بھی یقینی اور ضروری تھا لیکن اس کی تائید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور پیش گوئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میری امت کا ایک فرقہ تا قیامت حق پر موجود رہے گا اور وہ وہی ہو گا جو میرے اور میرے صحابہ کے اعتقادات اور اعمال کے نمونہ کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔
شریعت کی پوری پابندی خودی کی ضرورت ہے
غرض خودی کی فطرت کے تمام حقائق ہمیں اس نتیجہ پر پہنچاتے ہیں کہ اگر مسلمان اس کائنات میں اپنا وہ مقام پانا چاہتے ہیں جو خدا نے ان کے نظریہ حیات کی کاملیت کی بنا پر ان کے لئے مقدر کیا ہے تو ان کو چاہئے کہ اپنے بزرگوں کی طرح خدا کی محبت کو اپنے تمام اعمال کا سرچشمہ بنائیں اور اس غرض کے لئے رسولؐ کی عملی زندگی کے نمونہ کو اپنا راہ نما قرار دیں۔
مقام خویش اگر خواہی دریں دیر
بحق دل بند و راہ مصطفی رو
زندگی کی خصوصیات کی بنا پر رحمتہ للعالمین کی مکمل عاشقانہ اشاعت کی جو اہمیت ثابت ہوتی ہے اسی کے پیش نظر اقبال، ورد کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ایسے ارکان اسلام کی پابندی پر زور دیتا ہے۔
لا الہ باشد صدف گوہر نماز
قلب مسلم را حج اصغر نماز
در کف مسلم مثال خنجر است
قاتل فحشاد یعنی و منکر است
روزہ بر جوع و عطش شبخوں زند
خیبر تن پروری را بشکند
مومناں را خلوت افروز است حج
ہجرت آموز و وطن سوز است حج
طاعتے سرمایہ جمعیتے
ربط اوراق کتاب ملتے،
حب دولت را فنا سازد زکوۃ
ہم مساوات آشنا سازو زکوۃ
دل زحتی تنفقو محکم کند
زر فزاید الفت زر کم کند
ایں ہمہ اسباب استحکام تست
پختہ محکم اگر اسلام تست
صالحین سلف کے مسلک کی تقلید کا فائدہ یہ ہو گاکہ مسلمانوں کے اعتقاد و عمل کا اضمحلال دور ہو گا او ران میں خیالات کی ہم آہنگی اور عمل کی یک جہتی پیدا ہو گی۔
مضمحل گردو چو تقویم حیات
ملت از تقلید مے گیرد ثبات
راہہ آباروکہ ایں جمعیت است
معنی تقلید ضبط ملت است
٭٭٭
اے پریشان محفل دیرینہ اش
مرد شمع زندگی در سینہ اش
نقش بر دل معنی توحید کن
چارہ کار خود از تقلید کن
عالمان کم نظر کا خطرناک اجتہاد
اعتقاد و عمل کے انحطاط کے زمانہ میں بے بصیرت اور کم نظر عالمان دین کا اجتہاد غلط نظریات و تصورات کو تقویت پہنچاتاہے۔ اور قوم کے اعتقاد اور عمل کو اور مضمحل کرتا ہے اپنے ایمان اور عمل کی حفاظت کے لئے اس اجتہاد سے تو یہ بہتر ہے کہ ان بزرگوں کی پیروی کی جائے جو رحلت کر چکے ہیں۔
اجتہاد اندر زمان انحطاط
قوم را برہم ہمے پچد بساط
ز اجتہاد عالمان کم نظر
اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
عقل آبایت ہوس فرسودہ نیست
کار پاکاں از غرض آلودہ نیست
فکر شاں ریسہ ہمے باریک تر
درع شان از مصطفی نزدیک تر
اس زمانہ میں جو مسلمان اجتہاد کے طلب گار ہیں ان کا مقصد دراصل یہ ہے کہ قرآن کی تاویل سے اسلام کو بدل کر ان جدید مغربی غیر اسلامی نظریات یا اصنام فرنگی کے مطابق کر دیں جو ان کو اپنی نادانی کی وجہ سے پسند ہیں اور اس طرح سے گویا ایک نئی شریعت وجود میں لائیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ دوسرے مسلمان اس خطرناک ہمت آزمائی میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ البتہ اس قسم کا اجتہاد کر کے وہ خود ہی اس پر بلا روک ٹوک عمل کریں۔ حریت افکار کے اس زمانہ میں یہ ان کا پیدائشی اور خدا داد حق ہے جس سے ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔
ہے کس کو یہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے
حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد
چاہے تو کرے کعبہ کو آتشکدہ پارس
چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد
قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد
ایسے مصلحین اسلام کے متعلق اقبال لکھتا ہے۔
’’ ہمارے مذہبی اور سیاسی مصلحین سے خطرہ ہے کہ اگر ان کے نوجوانانہ جوش تجدد پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تو وہ اصلاح کی صحیح حدود سے تجاوز کر جائیں گے۔‘‘
ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔
’’ میں قدامت پسند ہندوؤں کے اس مطالبہ کو بنظر استحسان دیکھتا ہوں کہ انہوں نے نئے دستور میں مذہبی مصلحین کے خلاف تحفظات مانگے ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ یہ مطالبہ سب سے پہلے مسلمانوں کی طرف سے پیش ہونا چاہئے تھا۔‘‘
’’ اقبال کی تقریریں اور بیانات‘‘ شملہ (1948ئ) صفحہ98
’’ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ میں اقبال لکھتا ہے۔

’’ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اسلام میں تجدد کا ظہور تاریخ اسلام کا نازک ترین دور ہے۔ تجدد کے اندر اس بات کا رحجان موجود ہے کہ وہ ایک طرح کا اضمحلال ثابت ہو۔‘‘