خودی اور عقل ، حقیقت عقل کا صحیح نظریہ، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی اور عقل
حقیقت عقل کا صحیح نظریہ
اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کے فلسفہ خودی کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسان خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے جسے سوچنے کے لئے ایک دماغ اور کام کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں دے دئیے گئے ہیں۔ چونکہ خدا کی محبت ہی انسانی خودی کے تمام افکار و اعمال کا سرچشمہ ہے۔ ظاہر ہے کہ عقل انسانی زندگی میں محض ایک ثانوی کردار ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے وجود کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ محبت کی خدمت اور اعانت کرے اور وہ اسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔ زندگی یا خودی کا اصل سرمایہ خدا کی آرزو ہے۔ عقل اس آرزو کی پیداوار ہے۔
زندگی سرمایہ دار از آرزوست
عقل از زائیدگان بطن اوست
خدا کا عشق خودی کا امام ہے اور عقل خودی کی غلام ہے۔
من بندہ آزادم عشق است امام من
عشق است امام من عقل است غلام من
عقل محض ایک قوت ممیزہ ہے۔ جو خودی کو اس کے نصب العین کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے میں مدد دیتی ہے۔ نصب العین کسی تصور کے حسن کا ایک اندازہ ہوتا ہے جو خودی کو براہ راست اپنے وجدان کی مدد سے کرنا پڑتا ہے۔ وجدان در حقیقت آرزوئے حسن کا ہی دوسرا نام ہے جو بالعموم اس وقت برتا جاتا ہے۔ جب آرزوئے حسن کسی چیز کے خوب و زشت حق و باطل یا نیک و بد کے متعلق فیصلہ صادر کر رہی ہو اور اپنے لئے علم بہم پہنچانے کا وظیفہ ادا کر رہی ہو۔
ہر تصور حسن ایک وحدت ہوتا ہے جس کے حسن کو براہ راست محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آرزوئے حسن اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ وہ عقل یا کسی اور قوت کے فیصلے قبول نہیں کرتی اور دراصل انسان کے پاس آرزوئے حسن کے علاوہ کوئی اور قوت ایسی ہے ہی نہیں جو حسن و قبح کے متعلق کوئی فیصلے صادر کر سکے۔ البتہ عقل آرزوئے حسن کو اپنے فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ احساس حسن عقل کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل حسن کی وحدت کو نہیں دیکھ سکتی۔ فقط اس کے اجزا کو دیکھ سکتی ہے اور حسن اجزا میں نہیں ہوتا بلکہ وحدت میں ہوتا ہے۔ عقل حسن کی نئی نئی وحدتوں کے اجزا کی طرف آرزوئے حسن کی راہنمائی کرتی ہے جس کی وجہ سے اس کی توجہ ان وحدتوں کی طرف ہو جاتی ہے جس کے اندر یہ اجزا موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا عقل خودی کی مدد دو طرح سے کرتی ہے ایک تو یہ کہ اسے بتاتی ہے کہ اسے اپنے موجودہ نصب العین کیلئے جدوجہد کس طرح سے کرنی چاہئے۔ اور دوسرے یہ کہ اسے نئے نئے بلند تر نصب العینوں یا تصورات حسن کے نظارہ یا مشاہدہ کے لئے اکساتی ہے۔ عقل نہ محبت کی قلمرو میں داخل ہو سکتی ہے اور نہ حسن کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ یہ امتیاز فقط آرزوئے حسن کو ہی حاصل ہے۔ چونکہ عقل ہمارے ساتھ کچھ راستہ طے کرتی ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہم حسن کی منزل پر پہنچتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ مدت ہوتی عقل ہم سے الگ ہو چکی تھی۔
خرد سے راہ رو روشن بصر سے
خرد کیا ہے چراغ رہگزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے
انسانی اور معاشرتی علوم کی بنیاد محبت ہے نہ کہ عقل
عقل کا یہ نظریہ نفسیات انسانی کے حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور عقل کے دوسرے تمام نظریات کی نسبت زیادہ معقول اور زیادہ یقین افروز ہے۔ اس نظریہ کی رو سے یہ بات طے ہو جاتی ہے کہ انسانی اعمال و افعال کے تمام فلسفے دوسرے لفظوں میں ہمارے تمام انسانی اور معاشرتی علوم مثلاً فلسفہ سیاست، فلسفہ اخلاق، فلسفہ تاریخ، فلسفہ اقتصاد، فلسفہ تعلیم، فلسفہ قانون انفرادی نفسیات، اجتماعی نفسیات وغیرہ عقل سے نہیں بلکہ محبت کی راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ عقل صرف محبت کی راہ نمائی میں ان کو ترتیب دیتی ہے۔ اگر وہ نصب العین جس کی محبت ان کو وجود میں لاتی ہے صحیح ہو گا تو ان کو ترتیب دینے والی عقل بھی صحیح ہو گی ۔ لہٰذا جس انسانی یا معاشرتی علم کا بنیادی تصور خدا نہ ہو وہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اعمال انسانی کا حقیقی سرچشمہ خدا کی محبت کا جذبہ ہے۔
مقام عقل کے متعلق دور حاضر کی غلط فہمی
افسوس ہے کہ اب تک انسان کے امتیازی اوصاف میں سے ایک وصف کو جسے ادراک یا عقل کہا جاتا ہے حد سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا وصف جس کی وجہ سے اسے حیوانات پر فضیلت حاصل ہے یہی ہے۔ حالانکہ دراصل انسان کا امتیازی وصف جس کی وجہ سے وہ انسان بنتا ہے اور حیوانات سے برتر ٹھہرتا ہے اس کی آرزوئے حسن ہے جو صرف خدا کے تصور سے مستقل او رمکمل طور پر مطمئن ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی درجہ کی عقل تو اعلیٰ سطح کے حیوانات میں بھی موجود ہے۔ لیکن تصورات کے حسن و کمال کی محبت کم از کم حیاتیاتی زندگی سے اوپر کی سطح کے تصورات کی محبت سوائے انسان کے اور کسی حیوان میں موجود نہیں۔ انسان کی عقل کی اگر کوئی اہمیت ہے تو وہ فقط اس قدر ہے کہ وہ انسان کی آرزوئے حسن کی خدمت گزار ہے لہٰذا اس کی اہمیت ذاتی اور اصلی نہیں۔ بلکہ آرزوئے حسن سے ماخوذ اور مستعار ہے۔ اگر انسان کی عقل آرزوئے حسن کی غلام اور خدمت گزار نہ ہو تو وہ اسے حیوانات سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ حسن کی تمنا میں ہی انسان کی تمام آرزوئیں جنم لیتی ہیں اور اپنی جستجو کی راہیں معین کرتی ہیں۔ حسن کی تمنا ہی انسان کے تمام اعمال کی خالق اور راہبر ہے۔ عقل کو یہ مقام حاصل نہیں۔
حسن خلاق بہار آرزوست
جلوہ اش پروردگار آرزوست
ہرچہ باشد خوب و زیبا و جمیل،
در بیابان طلب مارا دلیل
نقش او محکم نشنید دردلت
آرزوہا آفریند دردلت
اقبال دور حاضر کے انسان کو جو اپنی نادانی سے عقل ہی کو انسان کا سب سے بڑا امتیازی وصف سمجھا ہوا ہے۔ خوب جھنجھوڑ کر جذبہ حسن کی اہمیت بتاتا ہے۔
ہے ذوق تجلی بھی اس خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک
تجلی کی اہمیت
ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی محبت کو تفکر فی الخلق (مشاہدہ قدرت) تفکر فی الصفات (عبادت) اور تخلق باخلاق اللہ(حسن عمل) کے ذرائع سے فروغ دے کر درجہ کمال پر پہنچائے۔ اس طریق سے اس کے دل کے اندر خدا کی معرفت کا وہ نور پیدا ہو گا جسے اقبال ’’ تجلی‘‘ یا’’ جلوہ‘‘ کا نام دیتا ہے اور چونکہ اس طریق سے اس کا جذبہ محبت پوری پوری تشفی حاصل کر لے گا۔ اور اس جذبہ کے علاوہ تشفی کا تقاضا کرنے والا کوئی اور جذبہ انسان کے اندر ہے ہی نہیں لہٰذا اس کے لئے بے اطمینانی اور پریشانی کی کوئی وجہ باقی نہیں رہے گی اور عقل کے لئے ممکن نہیں رہے گا کہ وہ اس کے دل میں کوئی اعتراضات یا شکوک یا شبہات پیدا کر سکے۔ اس کے برعکس اگر انسان کے دل میں خدا کی محبت اس کی استعداد کے مطابق اپنے کمال کو نہ پہنچے گی تو چونکہ اس کے جذبہ محبت کا ایک حصہ غیر مطمئن رہے گا۔ اس کا سکون قلب مکمل نہ ہو سکے گا اور عقل کے لئے موقع باقی رہے گا کہ اس کو شکوک و شبہات میں ڈالتی رہے۔ اگر انسان کا دل خدا کی معرفت کے نور سے پوری طرح منور نہ ہو تو اس کی عقل جو فقط اس نور سے ہی راہنمائی پا سکتی ہے بھٹکتی رہتی ہے اور اسے مسرور اور مطمئن ہونے نہیں دیتی۔ حکمت کے بیابانوں میں مدتوں خاک چھاننے کے بعد اگر عقل کو کہیں پناہ ملتی ہے تو توحید میں۔
در جہان کیف و گم گردید عقل
پے بمنزل برداز توحید عقل
اس کے علاوہ چونکہ شریعت کی پابندی اور نیک عملی کی زندگی خدا کی محبت کا نہ رکنے والا تقاضا ہے لہٰذا جب خدا کی محبت اپنے کمال پر ہو گی تو انسان شریعت کی پابندی یا نیک عملی کی زندگی کو کسی مجبوری سے اختیار نہیں کرے گا بلکہ ایک ایسی خواہش سے اختیار کرے گا جسے روکنا اس کے بس کی بات نہ ہو گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان اپنی عقل کو مطمئن کرنا چاہتا ہے اگر وہ اس کے اعتراضات کا ایسا جواب مہیا کرنا چاہتا ہے جو اس کے لئے مکمل طور پر کافی اور شافی ہو۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ دین اور شریعت کے راستوں پر مجبوری سے نہیں بلکہ پورے ذوق و شوق سے گامزن رہے اور نہیں چاہتا کہ مختلف نظریات اور تصورات کے درمیان بھٹکتا پھرے تو اسے اپنے دل کو خدا کی محبت اور معرفت کے نور (تجلی) سے منور کرنا چاہئے ورنہ اس کی روح ا سکے فاسد خیالات کی دو لتیوں کی مار کھا کھا کر مردہ ہو جائے گی۔ دلوں میں خدا کے نور کا جلوہ فرد اور قوم دونوں کے لئے پیغام حیات ہے اور ہماری فطرت کا ایک زبردست تقاضا یہ ہے کہ ہم اس نور کو اپنے دلوں کے اندر بسائیں۔
بے تجلی مرد دانار رہ نہ برد
از لکد کوب خیال خویش مرد
بے تجلی زندگی رنجوری است
عقل مہجوری و دین مجبوری است
٭٭٭
نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
٭٭٭
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے
٭٭٭
بے تجلی نیست آدم را ثبات
جلوہ ما فرد و ملت را حیات
٭٭٭
تجلی سے یہاں اقبال کی مراد خدا کی معرفت یا خدا کی محبت کا نور ہے۔

٭٭٭