خودی اور مشاہدہ قدرت، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی اور مشاہدہ قدرت
خودی کی ایک اہم ضرورت مشاہدہ قدرت ہے۔خودی خدا کی محبت کے جذبہ کی مکمل تشفی چاہتی ہے جو اظہار محبت سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا خودی اپنے جذبہ محبت کی کامل تشفی کے لئے اظہار محبت کے تمام ممکن ذرائع کو کام میں لاتی ہے۔ ان میں سے ایک ذریعہ مظاہر قدرت کے اندر خدا کی صفات کے حسن و جمال کا مشاہدہ اور مطالعہ ہے۔ خدا مخفی ہونے کے باوجود کائنات میں آشکار ہے وہ زندگی ہے وجود ہے اور وجود کا خاصہ آشکارائی ہے۔ لہٰذا خدا نے اپنی صفات کو اپنی تخلیق میں پوری طرح سے آشکار کر رکھا ہے۔
گفتہ موجود آنکہ مے خواہد نمود،
آشکارائی تقاضائے وجود،
کائنات کی حقیقت سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی صفات کے حسن کی جلوہ گا ہے یوں سمجھنا چاہئے کہ کائنات گویا ہے ہی نہیں۔ فقط خدا ہی خدا ہے جس کا حسن کائنات کی صورت میں بے حجاب ہو گیا ہے۔ یا ہم ہیں جو اس حسن کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
گفت آدم! گفت از اسرار اوست
گفت عالم! گفت او خود روبروست
٭٭٭
بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر
جہان ناپید داد پیداست بنگر
٭٭٭
در و دیوار و شہر و کاخ و کو نیست
کہ ایں جا ہیچ کس جز ما داد نیست
٭٭٭
زمین و آسماں و چار سو نیست
دریں عالم بجز اللہ ہو نیست
کائنات کا یہ مادی پیکر خودی عالم کی ہستی اور قدرت اور قوت کے نشانات میں سے ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز جو ہم دیکھتے ہیں اپنے وجود کے لئے خودی عالم کی صفات کی پر اسرار تخلیقی کارروائی کی مرہون منت ہے۔
پیکر ہستی و آثار خودیست
ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست
لہٰذا خودی کو خدا کے حسن کے مشاہدہ سے لذت اندوز ہو کر اپنے جذبہ محبت کی تشفی کرنے کے لئے کسی وقت کا سامنا نہیں ہو سکتا۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم قدت کے آئینہ پر نگاہ ڈال کر خدا کے حسن کا جلوہ مفت میں دیکھ لیتے ہیں۔ لیکن حسن حقیقی کے اس نظارہ کے لئے شرط یہ ہے کہ ہمارا فطری ذوق حسن یا خدا کی محبت کا جذبہ مردہ نہ ہو چکا ہو اور ہماری نگاہ سلامت رہے۔
اندھیری رات میں یہ چشمگیں ستاروں کی
یہ بحر یہ فلک نیلگوں کی پہنائی،
سفر عروس قمر کا عماری شب میں
طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی،
نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں
کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی،
٭٭٭
صبح و ستار و شفق و ماہ و آفتاب
بے پردہ جلوۂ ہائے نگاہ مے توان خرید
فطرت کے مطالعہ سے خدا کی جو معرفت حاصل ہو سکتی ہے وہ کتابوں کے مطالعہ سے نہیں ہو سکتی۔ چمن کا ہر آتشیں رنگ گل لالہ انسان کے دل میں اپنی کشش پیدا کر کے انسانی خودی کی اس مخفی حقیقت کو آشکار کر رہا ہے کہ وہ سراپا آرزوئے حسن ہے۔
کھلا جب چمن میں کتب خانہ گل
نہ کام آیا ملا کو علم کتابی،
کہا لالہ آتشیں پیرہن نے،
کہ اسرار جان کی ہوں میں بے حجابی
قدرت کا حسن خدا کے حسن کا آئینہ ہے
قدرت کا حسن خدا کا آئینہ ہے۔ جس میں خدا کا جمال منعکس ہوتا ہے اورقدرت کے حسن کا آئینہ جس میں قدرت کا حسن منعکس ہوتا ہے انسان کا دل ہے لیکن اچھے شاعر کا اچھا کلام انسان کے دل کا آئینہ ہے جس میں انسان کی آرزوئے حسن کا عکس نظر آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان جو کچھ سوچتا ہے اور جو کچھ کرتا ہے حسن کی جستجو کے لئے کرتا ہے۔
حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن
دل انسان کو ترا حسن کلام آئینہ،
حسن خداوندی نے اپنے ارد گرد فطرت کا حجاب بنا ہوا ہے لیکن یہ حجاب اتنا باریک ہے کہ اس میں سے ان فرشتوں کے تبسم ہائے پنہاں جو اس حجاب کو بنتے ہوئے اس بات پر ایک رکی ہوئی ہنسی سے ہنس رہے ہیں کہ یہ حجاب ہے بھی اور نہیں بھی، آشکار نظر آتے ہیں۔ یہ کائنات انسان کو حق تعالیٰ کے دیدار کی دعوت دے رہی ہے اور یہ عجیب بات نہیں اس لئے کہ ہر حسین جس کا حسن چھپا ہوا ہو اپنے حسن کو بے حجاب کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ خدا کے حسن کو آشکار ہونا ہی تھا۔
کوئی دیکھے تو ہے باریک فطرت کا حجاب اتنا
نمایاں ہیں فرشتوں کے تبسم ہائے پنہائی
یہ دنیا دعوت دیدار ہے فرزند آدم کو

کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوق عریانی