وجدان اور عقلی استدلال کا تعلق
عام طور پرسمجھا جاتا ہے کہ کائنات کی عقلی توجیہ کرتے ہوئے ایک فلسفی محض عقلی یا منطقی استدلال کے بل بوتے پر اپنے نتائج کو پہنچتا ہے۔ اور اپنے اس استدلال میں جذبات کو راہ پانے نہیں دیتا لیکن عقلی استدلال کا یہ نظریہ درست نہیں۔ ہر فلسفی پہلے کائنات کے ان حقائق کی روشنی میں جو اسے معلوم ہوں کائنات کی حقیقت کا ایک وجدانی تصور قائم کر لیتا ہے پھر وہ اپنے اس تصور کی علمی اور عقلی تشریح کرنے کے لیے یہ بتانے کے لیے کہ یہی تصور ہے جو کائنات کی وحدت کا اصول ہے اور سارے حقائق کو منظم اور متحد کرتا ہے عقلی استدلال سے کام لیتا ہے اس کا نتیجہ اس کے استدلال سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کا استدلال اس کے نتیجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنا نتیجہ اسے پہلے ہی وجدانی طور پر معلوم ہوتا ہے اور اس کی طرف وہ اپنے استدلال کو اپنی پوری فکر ی قوت اور زور بیان کے ساتھ موڑتاہے۔ کوئی فلسفی چھوٹا یا بڑا اس اصول سے منحرف نہیں ہو سکتا۔ ایک فلسفی پر ہی موقوف نہیںایک سائنس دان یا ماہر ریاضیات بھی پہلے ایک حقیقت کو وجدانی طو ر پر محسوس کرتا ہے بعدمیں اسے تجربات یا استدلال سے ثابت کرتاہے۔ نیوٹن کا قانون ثقل سیب کو درخت سے نیچے گرتے ہوئے دیکھ کر پہلے وجدانی طور پر محسوس کیا گیا تھا اور بعد میں تجربات سے ثابت کیا گیا فیثا غورث کا مسئلہ بھی پہلے ایک وجدانی تصور تھا۔ جسے بعد میں ریاضیاتی طور پر ثابت کیا گیا۔
حکمت اقبال کی نوعیت کی تشریح ایک ماہر ریاضیات کی مثال ہے
ایک ماہر ریاضیات جس ریاضیاتی حقیقت کو وجدانی طور پر محسوس کرتا ہے وہ اس کے نزدیک ایک حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ اسے ثابت کرے یا نہ کرے اور ثابت کر سکے یا نہ کر سکے لیکن وہ اسے ثابت اس لیے کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے وجدان میں شریک کرے۔ ہر ریاضیاتی حقیقت پہلے وجدانی طور پر ایک کل کی حیثیت سے محسوس کی جاتی ہے۔ بعد میں اسے ثابت کرنے کے لیے اس کا منطقی یا عقلی تجزیہ کیا جاتا ہے جسے ماہر ریاضیات بعض ریاضیاتی مسلمات سے شروع کرتا ہے۔ پھر ان مسلمات سے ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے جو ایک مساوات کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہٰذایہ مساوات بھی ریاضیاتی مساوات میں داخل ہوجاتی ہے پھر اس نتیجہ یا مساوات سے وہ ایک اور نتیجہ اخذ کرتا ہے اور اس طرح ایک اور مساوات قائم کرتا ہے اور وہ بھی ایک ریاضیاتی مسلمہ بن جاتی ہے۔ علی ہذا القیاس وہ یہ عمل جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ اسے اس ریاضیاتی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے جسے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے اس کا یہ عمل نتائج یا مساوات کی کڑیوں یا حلقوں سے بنی ہوئی ایک زنجیر پیدا کرتا ہے جسے ہم اسے ریاضیاتی حقیقت کا ثبوت کہتے ہیں۔ کیونکہ اس عمل سے وہ لوگوں کے ریاضیاتی مسلمہ طورپر ثابت یا قائم ہو جاتی ہے اور اسی کو ہم حقیقت کی تشریح یا تفسیر بھی کہتے ہیں۔
اگر ماہر ریاضیات کا ابتدائی تصور جس سے وہ آغاز کرتا ہے اور جسے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے درست ہو تو ا س کا ثبوت بھی درست ہوتا ہے اور ہم قدم بہ قدم اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں کیونکہ اس کا کوئی نتیجہ کسی قدم پر بھی غلط اور ناقابل فہم نہیں ہوتا اگر ہم ماہر ریاضیات کی وجدانی کیفیت کو درست مان کر اس کے ثبوت کے راستہ پر قدم بہ قدم واپس آئیں یعنی معنی سلسلہ ثبوت کی آخری کڑی سے آغاز کر کے پیچھے کی طرف آئیں تو پھر اس ریاضیاتی مسلمہ پر پہنچ جاتے ہیں جس سے اس نے آغاز کیا تھا۔ اس عمل سے بھی ریاضیاتی حقیقت کی درستی ثابت ہو جاتی ہے گویا ابتدائی حقیقت کے جو نتائج یا مضمرات ہوتے ہیں وہ سب کے سب اس حقیقت کے اندر اور اس کے ہر نتیجہ کے اندر بالقوہ موجود ہوتے ہیں ان کو بالفعل کرنا یا آشکار کرنا ہی اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ اس کی تشریح یا تفسیر کرنا یا اسے لوگوں کے مسلمات میں شامل کرنا ہے جو صورت اوپر بیان کی گئی ہے اس میں ثبوت مسلسل بھی ہے اور مکمل بھی۔ کیونکہ اس کی کڑیاں نہ صرف تعداد میں پوری ہیں بلکہ ایک منطقی ترتیب بھی رکھی گئی ہے۔
منظم اور مختصر ثبوت
لیکن اگر ایک عالم ریاضیات کی وجدانی قوت غیر معمولی طور پر تیز اور قوی ہو اور وہ کسی ریاضیاتی حقیقت کو جو اس نے اپنے وجدان سے دریافت کی ہو اپنی یا اپنی طرح کے دوسرے عالمان ریاضیات کی تشفی کے لیے ثابت کر رہا ہو تو بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ ا س کا وجدان ایک چھلانگ لگاتا ہے اور وہ اپنے سلسلہ ثبوت کی بعض درمیانی کڑیوں کو چھوڑ کر کسی اگلی کڑی پر پہنچ جاتا ہے اور درمیان میں ایک خلا(Gap)چھوڑ جاتا ہے جو اس حقیقت کے بعض نتائج یا مضمرات سے پر ہوتی ہیں اور بعض اور کڑیوں کو چھوڑ کر کسی اور اگلی کڑی پر جا نکلتا ہے اور اسی طرح کا ایک اور خلا درمیان میں چھوڑ جاتا ہے اور علی ہذا لقیاس اس قسم کا ثبوت مختصر تو ہوتا ہے لیکن غلط نہیںہوتا۔ اگرچہ ریاضیات کے ایک معمولی طلاب علم کو جو اس ماہر ریاضیات کے وجدان سے محروم ہو یہ ثبوت آاسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے تاہم یہ ثبوت مکمل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی تمام محذوف کڑیاں نہ صرف ماہر ریاضیات کے بنیادی تصور کے اندر بلکہ ان محذوف کڑیوں سے پہلے اور بعد کی مذکور کڑیوں کے اندر بھی بالقوہ موجود ہوتی ہیں۔ ایک دوسرا ماہر ریاضیات جو اس ریاضیاتی حقیقت کا پورا وجدان رکھتاہے اور اس کی مدد سے اور نیز محذوف کڑیوں سے پہلے اور بعد کی مذکور کڑیوں کی مدد سے محذوف کڑیوں و باسانی مہیا کر سکتا ہے بشرطیکہ محذوف کڑیاں اتنی اہم نہ ہوں کہ ان کی عدم موجودگی میں مذکور کڑیوں کے عقلی اور منطقی تعلق کو سمجھنا ناممکن ہو جائے۔ چنانچہ متبدیوں کو سمجھانے یعنی ماہر ریاضیات کے وجدان میں شریک کرنے کے لیے یہ محذوف کڑیاں فی الواقع مہیا کی جاتی ہیں اور اس طرح سے ثبوت خلائوں کو پر کر کے او ر اس کو ممکن حد تک طوالت اور وسعت دے کر مکمل کیا جاتا ہے۔ اور یہ سمجھاجاتا ہے کہ اب ہر شخص اسے باسانی سمجھ سکتاہے اور اس قسم کا مختصر ثبوت غیر منظم بھی نہیں ہوتا کیونکہ ثبوت کی ہر کڑی جو اس میں موجودہوتی ہے دوسری موجودہ کڑیوں کی نسبت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ا سکے اندر کھوئی ہوئی کڑیوں کو دریافت کر کے اپنی جگہ پر لے آنا نسبتاً آسان ہوتا ہے اس صورت میں ماہر ریاضیات کا ثبوت منظم یا مسلسل تو ہوتا ہے لیکن مکمل نہیں ہوتا۔
غیر منظم اور مختصر ثبوت
اب فرض کیجیے کہ ہمارا پہلا ماہر ریاضیات اپنی وجدانی ریاضیاتی حقیقت کے نتائج اور مضمرات درج کرتے ہوئے بعض نتائج و مضمرات کو اپنی تیز وجدانی قوت کی وجہ سے غیر ضروری سمجھ کر نہ صرف حذف کر دیتا ہے بلکہ بعض جن کو وہ درج کرتاہے ا س ترتیب کے ساتھ نہیں لکھتا کہ وہ اس حقیقت کے ایک مسلسل اورمنظم ثبوت کی کڑیاں بن جائیں گی بلکہ اس کا جو نتیجہ بھی کسی وقت اس کے وجدان کی روشنی میں آتا ہے بلا ترتیب لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کے تمام بڑے بڑے نتائج و مضمرات کو اسی طرح بے ترتیب لکھ دیتا ہے اس صورت میں ماہر ریاضیات کا ثبوت نہ صر ف غیر مکمل ہو گا بلکہ غیر مسلسل بھی ہو گا اور اس صورت میں ریاضیات کے ایک معمولی طالب علم کے لیے اس کاسمجھنا اور بھی زیادہ مشکل ہو گا لیکن ایک دوسرے ماہر ریاضیات کے لیے جو اس ساری حقیقت کا پورا وجدان رکھتا ہو ان بے ترتیب نتائج و مضمرات کو ایک مسلسل اورم کمل ثبوت کی شکل میں لانا اور پھر بھی آسان ہو گا کیونکہ اس کی تمام ضروری کڑیاں بے ترتیب ہونے کے باوجود اسے تمام غیر مرتب کڑیوں کو جو اس کے سامنے ہیں ان کی منطقی یا عقلی ترتیب میںرکھنا پڑے گا۔ اور دوسرے ان کی ترتیب کے درمیانی خلائوں کو ان کڑیوں سے پر کرنا پڑے گا جو ریاضیاتی حقیقت کے موجود کے ریاضیاتی وجدان کی غیر معمولی تیزی اور قوت کی وجہ سے محذوف ہو گی ہیں اور چونکہ دوسری محذوف کڑیاں بھی ترتیب کو چاہیں گی اور پہلی مذکور کڑیوں کو ترتیب کے بغیر ساری کڑیوں کی زنجیر میں انکا مقام بھی متعین نہ ہو سکے گا وہ بجا طور پر محسوس کرے گاکہ یہ دونوں کام الگ الگ نوعیت کے نہیں بلکہ ان میںسے ہر ایک دوسرے کو چاہتا ہے اور دونو ں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اور لہٰذا دونوں کو ایک ساتھ ہی انجام دیا جا سکتا ہے ورنہ بالکل نہیں دیا جاسکتا۔
ایک ماہر ریاضیات اور فلسفی کا تقابل
جس طرح سے ایک ریاضیاتی حقیقت کا ثبوت حقائق معلومہ و مسلمہ کے ایک سلسلہ یا نظام کی شکل میں ہوتا ہے۔ اسی طرح سے حقیقت کائنات کے کسی تصور کا ثبوت جو ایک فلسفی پیش کرتا ہے ۔ حقائق معلومہ و مسلمہ کے ایک سلسلہ یا نظام کی شکل میں ہوتاہے جسے ہم نظام حکمت کہتے ہیں۔ ایک فلسفی بھی حقیقت کائنات کا جو وجدانی تصور قائم کرتا ہے وہ بھی اس کے نزدیک ایک حقیقت ہی کا تصور ہوتا ہے خواہ وہ اسے ایک حقیقت کے طور پر ثابت کرے یا نہ کرے اور کر سکے یا نہ کر سکے لیکن وہ ثابت کرنے کی کوشش اس لیے کرتا ہے کہ دوسروں کو بھی اپنے وجدان سے بہرہ ور کر ے اور اس کے ثابت کرنے کا طریق بھی وہی ہے جو ایک ماہر ریاضیات اختیار کرتا ہے وہ بھی ہمارے مسلمات سے آغاز کرتا ہے اور یہ مسلمات بھی بداہتوں (Self Evident Faiths)پر ا نکے عقلی اور منطقی نتائج پر معلوم اورمسلم علمی اور ریاضیاتی حقیتوں (Scientific and Mathematical Facts) پر اور ان کے نتائج اور مضمرات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ وہ چند ایسے مسلمات کو جو اس کے بنیادی تصور کے مطابق ہوتے ہیں لے کر ایک نتیجہ نکالتا ہے گویا ان کو ایک دوسری شکل دیتا ہے اور ایک مساوات قائم کرتا ہے جو منطقی طورپر یعنی ہمارے ذہنی عمل کے قوانین کی رو سے ہماری سمجھ میں آ جاتی ہے اور لہٰذا ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر اس نتیجہ سے ایک اور نتیجہ نکالتا ہے اور ایک مساوات قائم کرتا ہے جو منطقی طور پر یعنی ہمارے ذہنی عمل کے قوانین کی رو سے ہماری سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اور لہٰذا ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتیہے اور پھر ا س نتیجہ سے ایک اور نتیجہ نکلتا ہے اور ایک اور مساوات قائم کرتا ہے اور وہ بھی اگر درست ہو تو ہمارے مسلمات میں داخل ہو جاتی ہے وہ علی ہذ ا القیاس یہا تک کہ وہ اس عمل سے رفتہ رفتہ حقیقت کائنات کے اس وجدانی تصور تک پہنچ جاتا ہے جسے وہ درست ثابت کرنا چاہتا ہے اگر فلسفی کا تصور حقیقت درست ہو تو ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں کیونکہ پھر اس کا کوئی نتیجہ کسی قمد پر بھی غلط اور ناقابل فہم نہیںہوتا۔ اس صورت میں فلسفی کا ثبوت مسلسل بھی ہوتا ہے اورمکمل بھی ۔ کیونکہ اس کی کڑیاں نہ صرف تعداد میں پوری ہوتی ہیں بلکہ ایک منطقی یا عقلی ترتیب میں رکھی ہوی ہوتی ہیں۔
لیکن اگر فلسفی کی ذہنی یا وجدانی قوت غیر معمولی طور پر تیز ہو تو وہ اپنے وجدانی تصور حقیقت کا جو ثبوت پیش کرتا ہے اس میں بہت سے خلا ہوتے ہیں اور بہت سی کڑیاں غائب ہوتی ہیں اکثر بڑے بڑے فلسفی ایسے ہی ہوتے ہیں یہی سبب ہے کہ بڑے بڑے فسلفیوں کی کتابیں لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں اکثر فلسفیوں کا فلسفہ مسلسل ہوتا ہے یعنی ا س میں استدلال کی کڑیاں عقلی یا منطقی ترتیب کے ساتھ رکھی ہوتی ہیںَ لیکن ان کے درمیان کے خلائوں کی وجہ سے ان کڑیوں کا باہمی عقی یا منطقی ربط مبتدیوں اور عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا گویا مسلسل ہونے کے باوجود وہ عام لوگوں کے یے مکمل نہیں ہوتا لہٰذا ہر بڑے فلسفی کے شارحین یداہوتے ہیں جو اس کے ثبوت کے محذوف کڑیوں کو بیان کر کے اس کے فلسفہ کے خلائوں کو پر کرتے ہیں اور اس طرح سے اس کو عام لوگوں کے افہام کے قریب لے آتے ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑا فلسفی جو حقیقت کائنات کا ایک صحیح اور واضح تصور رکھتا ہو اس کے نتائج اور مضمرات کو ایک مسلسل اور منظم استدلال یا مساوات اور نتائج کی ایک زنجیر کی شکل میں بیان نہ کرے بلکہ اس کا جو نتیجی بھی کسی وقت اس کے وجدان کی روشنی میں نمودار ہو وہ بلا ترتیب لکھتا چلا جائے یہاں تک کہ اس کے تمام ضروری اور بڑے بڑے نتائج اور مضمرات کو اسی طرح سے بلا ترتیب لکھ د ے ا س صورت میں اس کا ثبوت نہ صرف غیر مکمل ہو گا بلکہ غیر مسلسل بھی ہو گا اور اس صورت میں عام لوگوں کے لیے اس کا سمجھنا اور بھی زیادہ مشکل ہو گا۔ اقبال کی حمت اسی نوعیت کی ہے لیکن ایسے شخص کے لیے جو اسیے فلسفی کے تصور حقیقت(Idea of Reality)کا پورا وجدان رکھتا ہو اس تصور کے ثبوت کو اس کے بیان کیے ہوئے نتائج اور مضمرات کی روشنی میں مسلسل اور منظم بنا کر پیش کرنا بھی آسان ہو گا۔ کیونکہ اس کی تمام ضروری کڑیاں بے ترتیب ہونے کے باوجود ا س کے پیش نظر ہوں گی اور اس کا وجدان ان کے باہمی عقلی اور علمی ربط کو اس لیے واضح کرے گا کہ لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسے بھی ماہر ریائضیات کی طرح جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے دو کام ایک ساتھ کرنے پڑیں گے کیونکہ ایک تو یہ کہ اسے ان تمام غیر مرتب کڑیوں کو جو اس کے سامنے موجود ہیں ان کی منطقی اورعقلی ترتیب کے ساتھ رھنا پڑے گا اور دوسرے ان کی ترتیب کے درمیانی خلائوں کو ان کڑیوں سے پر کرنا پڑے گا جو فلسفی کی غیرمعمولی تیزی کی وجہ سے محذوف ہو گئی ہیں اس طرح سے اس کے پیش رو فلسفی کا تصور حقیقت ایک مسلسل اور مکمل نظام حکمت کی صورت میں سامنے آ جائے گا اور لوگوں کے لیے ا س کے وجدان میں شریک ہونا اور اس کے تصور حقیقت سے متفق ہونا آسان ہو جائے گا۔