سائنس اور فلسفہ کا باہمی تعلق، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

سائنس اور فلسفہ کا باہمی تعلق
سائنس دان وجدانی مفروضات ایجاد کرنے کی جو ضرورت محسوس کرتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی وحدتیں مل کر ایک بڑی وحدت بناتی ہیں اور ہم کائنات کی فطرت اور اپنی فطرت سے مجبور ہیں کہ حقائق کو وحدتوں کی صورت میں جانیں اور سمجھیں۔ ضروری ہے کہ ہماری یہ مجبوری سائنس دان کو زود یا بدیر ایک ایسے مرحلے پر پہنچا دے جہاں اس کے دریافت کیے ہوئے حقائق کی تشریح ایک ایسے مفروضہ یا ایک ایسے وجدانی یا اعتقادی تصور ہی سے ہو سکتی ہو جو پوری کائنات کے حقائق کو متحد اور منظم کرتا ہو اور جب سائنس دان اس مفروضہ سے حقائق کائنات کی تشریح کرنے لگ جائے تو خواہ ہم اسے سائنس دان کہیں یا فلسفی دونوں صفات میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ فلسفی بھی سائنس دان کے بہم پہنچائے ہوئے حقائق کی تشریح ایک ایسے وجدانی تصور سے کرتاہے جو ا س کے خیال میں پوری کائنات کے حقائق کو اک وحدت بناتا ہے خواہ اس کا یہ تصور روحانیاتی ہو یامادیاتی ان مفروضات سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ دراصل سائنس دان اور فلسفی میں کوئی فرق نہیں دونوں کے کام ایک دائرہ ایک ہی ہے اور دونوں کی علمی تحقیق اور تجسس کا دارومدار بھی انسان کی ایک ہی استعداد پر ہے جسے ہم وجدان کہتے ہیں۔
سائنس کو اپنی ترقی کی انتہائوں پر پہنچ کر فلسفہ فننے کے بغیر چارہ نہیں رہتا کیونکہ اگر وہ اس مرحلہ پر فلسفہ نہ بن سکے تو بے معنی ہو جاتی ہے۔ اتفاقا اس بیسویں صدی میں سائنس اپنی ترقی کی ان انتہائوں پر پہنچ گئی ہے جہاں اسے فلسفہ کے بغیر چارہ نہیں۔ جہاں اس کے دریافت کیے ہوئے علمی حقائق کی تشریح ایک ایسے وجدانی یا اعتقادی تصور ہی سے ہو سکتی ہے جو پوری کائنات کے حقائق کو متحد اور منظم کرتا ہے ہم مانتے ہیں کہ تخلیق کی تین سطحیں ہیں۔ مادہ کی دنیا حیوانات کی دنیا اور انسانوں کی دنیا ان کے بالمقابل علم سے بھی تینہی بڑے شعبے ہیں طبیعیات‘ حیاتیات اور نفسیات اس صدی میں جو طبیعیاتی حقائق دریافت ہوئے ہیں انہوںنے ماہرین طبیعیات کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کی تنظیم اور تشریح کے لیے یہ وجدانی تصوریا اعتقاد ایجاد کریں کہ کائنات کی آخری حقیقت شعورہے کیونکہ یہ تصور کہ کائنا ت کی حقیقت مادی ہے جسے ا ب تک سائنسدان قبو ل کر رہے ہیں۔ ان نئے طبیعیاتی حقائق کی تشریح کرنے سے قاصر ہے اس وجدانی تصور یا اعتقاد کو واضح کرنے کے لیے ایڈنگٹن (Eddington)اور جیمز جینز (James Jeans)ایسے ماہرین طبیعیات نے جو کتابیں لکھیں ہیں وہ بظاہر طبیعیات کی کتابین ۃیں لیکن کوئی نہین کہہ سکتا کہ وہ فلسفہ کی کتابیں نہیں ہیں اسی طرح سے اس صدی میں جو حیاتیاتی حقائق منکشف ہوئے ہیں انہوںنے ماہرین حیاتیات کو مجبور کر دیا ہے کہ ان کی تشریح اس مفروضہ یا اعتقاد سے کریں کہ کائنات کی حقیقت شعور ہے مادہ نہیں۔ اس نظریہ کی تشریح کے لیے جے ۔ ایس ہالڈین(Haldane)نے جو کتاب لکھی ہے اس کا نا م ہی حیاتیات کی فلسفیانہ بنیاد ہے (Philosophical Basis of Biology)۔ اور پھر اس وقت نفسیات کے میدان میں جو حقائق منکشف ہو رہے ہیںإ وہ بھی شعور کی حقیقت پر دلالت کرتے ہیںمجموعی طور پر یہ بات نہایت تسلی بخش ہے کہ ماہرین طبیعیات حیاتیات اور نفسیات ایسے حقائق کا انکشاف کر رہے ہیں جن کی معقول اور یقین افروز تشیرح کے لیے خدا کے تصور کے علاوہ کوئی دوسرا تصور کام نہیں دے سکتا اگرچہ اس تصور کے خلاف  اہل مغرب فی الحال ایک دیرینہ علمی تعصب میں مبتلا ہیں۔
سائنسی نظریات کے تغیر کی سمت
فلسفیوں اور سائنس دانوںکے نظریات کا بدلنا نہایت مفید اور اہم ہے کیونکہ وہ بدل بدل کر درستی کی طرف آتے رہتے ہیں جب نئے علمی حقائق دریافت ہوتے ہیں اور کوئی نظریہ جو پرانے علمی حقائق کی تشریح اور تنظیم کے لیے پہلے کافی سمجھا گیا تھا ان کی تشریح اور تنظیم کلیے کفایت نہیں کرتا تو فلسفی اور سائنس دان دونوں مجبور ہوتے ہیں کہ اس کی جگہ دوسرا نظریہ قائم کریں جو تمام نئے اور پرانے علمی حقائق کی تسلی بخش تنظیم او رتشریح کرتا ہو۔

اس کی مثال روشنی کا نظریہ امواج ہے جسے سب سے پہلے 1665ء میں ہوک(Hooke)نے پیش کیا تھا۔ بعد کی دو صدیوں میں یہ نظریہ ان تمام حقائق کی کامیاب تشریح کرتا رہا جو اس کے سامنے آتے رہے حتیٰ کہ 1914ء تک بھی یہ نظریہ ان حقائق کی معقول تشریح کرا رہا تھا جو فان لائے(Von Laue)نے روشنی کی ایکس (X)شعاعوں کے متعلق دریافت کیے تھے اور جن کی دریافت پر اس سائنس دان کو نوبل (Nobel)کا انعام دیا گیا تھا لیکن 1932ء میں جب اسے انعام حاصل کیے ہوئے ابھی نو سال ہی گزرے تھے یہ نئی علمی حقیقت سامنے آئی کہ ایکس(X)شعاعین منتشر ہو جات ہیں اور یہ حقیقت ایسی تھی کہ روشنی کا قدیم نظریہ امواج اس کی معقول تشریح کرنے سے قاصر تھا۔ لہٰذا روشنیکا ایک نظریہ ایجاد کیاگیا جسے نظریہ ذرات یا نظریہ کوانٹم(Quantum Theory) کہتے ہیں۔ اب یہ نظریہ قدیم اور جدید تمام حقائق علمی کی معقول تشریح کر سکتا ہے اگر ہوک کا وجدان ا س قدر تیز یا قوی ہوتا کہ اس کے ذہن میں یہ بات آ جاتی یا ہوک(Hooke)سے بہتر حقائق عالم کا وجدان رکھنے والا کوئی شخص اسے بتا دیتا کہ نور امواج کی صورت میں نہیں بلکہ ذرات کی صورت میں ہونا چاہیے تو یہ نظریہ روشنی کے متعلق نہ صرف اس وقت کے علمی حقائق کی بلکہ آج تک دریافت کیے ہوئے تمام علمی حقائق کی تشریح کے لیے کفایت کرتا ۔ تاہم اس سے یہ بات عیاںہوتی ہے کہ جوں جوں معلوم اور مسلم حقائق کی تعداد بڑھتی جاتی ہے حقیقت اشیاء کے متعلق ہمارا وجدانی تصور بھی زیادہ سے زیادہ درست ہوتاجاتا ہے اور یہ کہ حقیقت اشیا ء کا صحیح تصور ہی تمام علمی حقائق کی معقول اورمکمل تشریح کر سکتا ہے اور اس سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ ضروری ہے کہ حقائق علمی ترقی کی وجہ سے بالاخر حقیقت اشیا کے ایسے وجدانی تصور پر پہنچ جائیں جو کامل طور پر صحیح ہو اور پوری کائنات کے ان تمام علمی حقائق کی معقول اور کامل طورپر تسلی بخش تشریح کر سکے جو قیامت تک دریافت ہوتے رہیں گے۔