حکمت اقبال کی تشریح کے لوازمات
کسی حکمت کی صحت کی علامت نہ تو یہ ہے کہ اس کے تمام تصورات بالفعل اور فی الفور ایک منطقی سلسلہ کی صورت میں ہوں اور نہ یہ کہ ان کے منطقی سلسلہ کے اندر ایسے خلا موجود نہ ہوں جو ایک حد تک معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں سے پر ہو سکتے ہوں بلکہ فقط یہ ہے کہ ایک تو حقیقت کائنات کے متعلق اس کاتصور درست ہو اور دوسرے یہ کہ اس کے سارے معلوم اور مذکور تصورات منطقی اور عقلی طور پر اس مرکزی تصور سے مطابقت رکھتے ہوں حکمت اقبا ل میں یہ اوصاف موجود ہیں۔ اس صور ت میں اگرچہ یہ حکمت تصورات کا ایک مرتب سلسلہ نہیں بلکہ غلط تصورات کا ایک مجمودہ ہو گی تاہم صحیح اور درست ہو گی اور ایک نظام کی صورت میں ہو گی۔ تمام صحیح اور سچی علمی حقیقتیں جو اس کے ظہور کے وقت تک دریافت ہو چکی ہوں پہے ہی اس کے ساتھ مناسبت رکھیں گی بلکہ اس کے اندر بالقوہ موجود ہوں گی اگرچہ بالفعل اور آشکار طور پر اس کے ساتھ وابستہ نہ کی گئی ہوں۔ اگرچہ ان علمی حقیقتوں کی تعداد اس حکمت کو منظم کرنے کے لیے کفایت کرتی ہو اس کی معقولیت فلسفہ کے ایک معمولی طالب علم کو جو ا س کے بنیادی تصور حققیت کا پورا وجدان نہ رکھتا ہو آسانی سے سمجھ میں نہ آ سکے گی۔ چونکہ اس کے اندر کے تصورات ای منطقی یا عقلی سلسلہ کی صورت میں نہیں ہوں گے اس کی پہلی غلط فہمی یہ ہو گی کہ یہ تصورات آپس میں اور حکمت کے بنیادی مرکزی تصور حقیقت کے ساتھ کوئی منطقی یا عقلی ربط نہیںرکھتے اور یہ غلط فہی اسے اس حکمت کی معقولیت کا صحیح اندازہ قائم کرن سے باز رکھے گی اور اس کی دوسری غلط فہمی ی ہو گی کہ یہ تصورات ان علمی حقیقتوں کے ساتھ بھی کوئی منطقی یا عقلی ربط رکھتے ہوں جو اس حکمت سے باہر ہیں اور وہ یہ سمجھتا رہے گا کہ یہ بیرونی علمی حقیقتیں دراصل دوسرے فلسفیوں کے ساتھ (جو اتفاقاً منظم اور مسلسل بنا دیے گئے ہوں اور جن کے اندر یہ حقیقتیں توڑ موڑ کر سمو دی گئی ہوں) زیادہ مطابقت رکھتی ہیں اس طرح سے چونکہ وہ ان علمی حقیقتوں کو اس کی حکمت کی تائید کے لیے مہیا نہ کر پائے گا۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی اس کی معقولیت اس کی نگاہوںسے اوجھل رہے گی لہٰذا اگر ہم فلسفہ کے اس طالب علم کو اس حکمت کی معقولیت سے آشنا کرنا چاہیں تو ہمارے لیے اس کے سوائے کوئی چارہ نہ ہو گا کہ :
اول: ہم اس حکمت کے تمام تصورات کو ان کی عقلی یا منطقی ترتیب سے آراستہ کریں جس سے معلوم ہو جائے کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے ساتھ اور حکمت کے بنیادی تصور حقیقت کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔
دوئم: ہم اس تسلسل اور ترتیب کے درمیان خلائوں کو بحد امکان اور تصورات سے یعنی معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں سے جد قدر پر کر سکتے ہیں کریں اور اس طرح ؤسے ان خلائوں کی تعدا د اور طوالت کو جس قدر کم کر سکتے ہیں کریں اس کا سبب یہ ہے کہ اگر ایک بھی سچی علمی حقیقت ایسی ہو جسے ہم اس حکمت کے نظام سے باہر چھوڑ دیں تو ہم اس ضرورت کا حق ادا نہیںکر سکتے کم کرین اس کا سبب ی ہے کہ اگر ای بھی سچی علمی حقیقت ایسی ہو جسے ہم اس ھکمت کے نظام سے باہر چھوڑ دیں تو ہم اس ضرورت کا حق ادا نہیںکر رہے ہوں گے اور اس نظام حکمت کو اتنا معقول اور مدلل اور منظم نہیں بنا رہے ہوں گے جتنا ک وہ اپنے وقت کی معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں کی تعداد کے پیش نظر بن سکتا ہے چونکہ یہ تصورات بھی جو اس حکمت کے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لائے جائیں گے ترتیب کو چاہیں گے اور پہلے اندرونی تصورات کی ترتیب کے بغیر اس پورے نظام حکمت میں ان کا صحیح مقام بھی معین نہ ہو سکے گا۔ لہٰذا یہ دونوں کام الگ الگ نوعیت کے نہیں ہوں گے بلک ہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا تقاضا کرے گا اوردوسرے کے بغیر نامکمل رہے گا۔ لہٰذا ہمیں ان دونوں کاموں کو ایک ساتھ ہی انجام دینا پڑے گا لیکن ان دونوں کو بیک وقت انجام دینے کے لیے د و شرطیں ضروری ہوں گی۔
اول: یہ کہ معلوم اور مسلم سچی حقیقتیں اپنی نوعیت اور تعداد کے لحاظ سے اس حد تک ترقی کر چکی ہوں کہ جب اس حکمت کے اندرونی تصورات کو عقلی ترتیب کے ساتھ آراستہ کرنے کی کوشش کی جائے اور اس سلسلہ میں ان علمی حقیقتوں کو اس ترتیب سے خلائوں کو پر کرنے کے لیے کام میں لایا جا ئے تو خلائوں کی طوالت اور تعداد یہاں تک کم ہو جائے کہ ترتیب سچ مچ ایک مسلسل منطقی اور عقلی نظام کی شکل اختایر کر کے اور اپنی اس حیثیت کی وجہ سے باسانی ہر شخص کی سمجھ میں آ جائے۔
دوم: اس حکمت کے اندر پہلے ہی سے بعض ایسے معلوم او ر مسلم حقائق بھی سموئے ہوئے ہیں اور بالفعل اور آشکار طور پر موجودہوں جن ی وجہ سے اس حکمت کے ساتھ بیرونی علمی حقائق کی علمی اور عقلی مناسبت یا مطابقت واضح ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے اندرونی علمی حقائق کی موجودگی کے بغیر اس حکمت کے اندرونی تصورات کو ایک عقلی ترتیب دینا اور بیرونی علمی حقائق و کام میں لا کر اس کے خلائوں کو پر کرنا مشکل ہو گا اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نقاش فنکار ایک دلکش قدرتی منظر کا ایک وجدانی تصور مؤحسوس کرے پھر اس تصور کی انتہائی محبت کی وجہ سے اسے ایک خوبصورت رنگین تصور کے طور پر صفحہ قرطاس پر لانا چاہے اور وہ پہلے اس کا خاکہ بنانے کا فیصلہ کرے گا تاکہ بعد میں اس خاکہ کے اندر رنگ بھر کر تصویر کو مکمل کر سکے فرض کیا کہ خاکہ مکمل کرنے سے پہلے وہ اسے ایک ایسی حالت میں چھوڑ دیتا ہے کہ یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ کسی وجدانی منظر کی تصویر کا خاکہ ہے لیکن ا س میں بعض درختوں پہاڑوں عمارتوں سڑکوں ‘ میدانوں‘ دریائوں اور کھیتوں کے گوشے اور زاویے بنائے اس حدک تک آشکار نہیںہوتے کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ تصویر کی کون سی چیز بنائیں گے۔ اس حالت میں ایک دوسرے ماہر فنکار کے لیے اپنی ساری مہارت کے باوجود یہ مشکل ہو گا کہ وہ تصویر کو اس کے سارے رنگین مظاہر کے سمیت مکمل کرنا تو درکنار اس کے خاکہ ہی کی تکمیل کر سکے لیکن اگرپہلا فنکار خاکہ کو مکمل تو نہیںکرتا لیکن اس کے خطوط کو یہاں تک آگے بڑھا دیتا ہے کہ ایک دوسرا فنکار اسے دیکھ کر معلوم کر لے کہ یہ خطوط آگے چل کر کس کس طرف کو بڑھنے والے ہیں اور کیا کیا شکلیں بنانے والے تھے اور خاکہ کی آخری شکل کیاہونے والی تھی تو اس صورت میں نہ وہ صرف خاکہ کو مکمل ہی کر سکے گا بلکہ اس قابل بھی ہو گا کہ تصویر کے سارے رنگوں کو خاکہ کے اندر اپنی اپنی جگہ پر بھر کر تصویر کو اس کی پوری آب و تاب اور مکمل اور مکمل دلکشی اور زیبائی کے ساتھ جلوہ گر کر سکے۔
شارح اقبال کی ضروری صلاحیتیں
ان دو شرطوں کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی صحیح اور سچی حکمت نوع بشر کے علمی ارتقاء کے ایک خاص مرحلہ پر پہنچ کر ایک ہی مسلسل اور مرتب علمی نظام کی صورت اختیار کر سکتی ہے اس سے پہلے نہیں ان دو شرائط کو ذہن میں رکھنے سے یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے کہ جو شخص بھی اس قسم کی صحیح اور سچی حکمت کو اپنے وقت پر ایک مسلسل اور مرتب علمی نظام کی شکل دینے کی کوشش کرے گا اس کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ معلوم اور مسلم حقائق سے پوری طرح واقف ہو یعنی فلسفہ اور سائنس کی پوری وسعتوں پر اس کی نگاہ ہو اگر یہ استعداد اس میں نہ ہو گی تو اس کے پاس وہ تصورات ہی نہ ہو ں گے جن سے وہ اس سچی حکمت کو پر کر کے اس کی ترتیب اورتنظیم کو مکمل کر سکے۔ اس استعداد میں حکیمانہ بصیر ت اور اپج اور منطقیانہ ذوق اور باریک بینی کی صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔ ان صلاحیتوں کے بغیر وہ یہ نہیں دیکھ سکے گا کہ اس حکمت کے اندرونی تصورات کا آپس میں اور بیرونی علمی حقائق کے ساتھ اور حقیقت کائنات کے ساتھ کوئی عقلی اور علمی ربط ہے یا نہیں اگر ہے تو کیا ہے؟ پھر اس کے لیے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ اس حکمت کے مرکزی تصور یعنی حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ایک ایسے وجدان سے بہرہ ور ہو جو مکمل ور پر تربیت یافتہ روشن اور طاقت ور ہو۔ اس استعداد کے بغیر وہ سائنس اور فلسفہ کی واقفیت کو غلط طور پر کام میں لائے گا ا س کا استدلال ٹھوکریں کھائے گا اور اس کی حکیمانہ اپج یا بصیرت غلط راہ پر چل نکلے گی ا س کا منطقیانہ ذوق غلط نتائج پیدا کرے گا او ر اس کی باریک بینی غلط راستہ اختیار کرے گی اس کے برعکس اگراس میں یہ استعداد ہو گی تو اپنے وجدان کے زور دار نور تجسس (Search Light)کی مدد س وہ نہ صرف دیکھ سکے گا۔ کہ کہاں تک اس حکمت کے اندر کے تصورات جو علمی حقیقتوں کے طور پر پیش کیے گئے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ حکمت کے مرکزی تصور کے ساتھ اور ان علمی حقیقتوں کے ساتھ جو اس حکمت کے باہر ہیں اور اس میں سموئی ہوئی ہیں عقلی ربط و ضبط رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھ لے گا کہ معلوم اور مسلم علمی حقیقتوں میں سے کون سی ایسی ہیں جو حقیقت کائنات کے صحیح تصور کے ساتھ مطابقت رکھنے کی وجہ سے سچ مچ کی علمی حقیقتیں نہیںہیں ان کی خامیاں کیاہیں اور کس طرح سے ان خامیوں کو دور کرنے کے بعد ان کو سچ مچ علمی حقیقتیں بنایا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کی مثال میں دوسرا نقاش فنکار پہلے فنکار کے نامکمل خاکہ یا اس کے نامکمل تصور کو صرف اسی صورت میں مکمل کر سکے گا کہ وہ پہلے فنکار کے وجدانی تصور حسن سے پوری طرح واقف ہو چکا ہو۔