دو ممکن صورتیں، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

دو ممکن صورتیں
ایک فلسفی کے لیے صحیح تصور حقیقت تک پہنچنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو اسے کائنات کے تمام حقائق علمی کی واقفیت فی الفور حاصل ہو جائے پھر وہ ان کی روشنی میں باسانی دیکھ لے گا کہ کون سا تصور حقیقت ایسا ہے جو ان حقائق سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کو منظم کرتاہے اس صورت میں اس کو تصور حقیقت کی فطرت اور اوصاف کا صحیح اندازہ کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی کیونکہ اگر وہ ان حقائق کے علم کے باجودحقیقت کا کوئی ایسا تصور قائم کرے گا جو کسی پہلو سے تھوڑا سا بھی غلط ہو گا تو کئی علمی حقائق اس کی تردید کرنے کے لیے موجود ہوں گے لیکن یہ امید عبث ہے دنیا بھر کے حکما اور علما اس بات پر متفق ہیں کہ نوع انسانی کا علم تاقیامت بھی کائنات کے تمام علمی حقائق کا احاطہ نہیںکر سکتا۔ خود قرآن حکیم نے اس حقیقت کی طرح اشارہ کیا ہے:
قل لو کان البحر مذادً الکلمت ربی لنفدا البحر قبل ان تنفذوا کلمت ربی ولو جئنا بمثلہ مددا
کہیے اے پیغمبر اگر سمندر کا پانی بھی میرے پروردگار کی قدرت کے نشانات کو لکھنے کے لیے بطور سیاہی ہو تو پانی نشانات کا ذکر ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجائے گا خواہ ہم امداد کے طور ر ہی اتنا پانی اور شامل کر دیں۔
دوسری صور ت یہ ہے کہ فلسفی کو حقیقت کائنات کا صحیح تصور کہیں سے اتفاقاً دستیاب ہو جائے اور اس کا عشق اور وجدانی علم اسے یہاں تک حاصل ہو جائے کہ وہ اس کی روشنی میں ان تمام حقائق علمی کو صحیح طور پر دیکھ سکے اور سمجھ سکے جو آج تک دریافت ہوئے ہیں اور ان کو اس تصور کی بنیاد پر دوسرے تصورات کی دخل اندازی کے بغیر متحد اور منظم کر سکے ایسی حالت میں اگرچہ اس کے پاس حقائق علمی کم تعدا د میں ہوں گے تو تاہم حقیقت کائنات کے صحیح اور مکمل تصور کی روشنی میں اگر وہ ٹھیک طرح سے ان کو سمجھ سکے گا اور بتا سکے گا کہ کیونکر وہ فقط اس تصور سے مطابقت رکھتے ہیں اس صورت میں اس کانظام حکمت ناتمام تو ہو گا لیکن غلط نہیں ہو گا اور جوں جوں حقائق علمی دریافت ہوتے جائیں گے اس کے نظریہ کائنات میں اپنی جگہ پاتے جائیں گے اس طرح سے اس کا نظریہ کامل سے کامل تر ہوتا جائے گا اور یہ عمل تا قیامت جاری رہے گا جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اس قسم کے فلسفہ کے وجود میں آنے کے بعد فلسفہ کی تمام حقیقی ترقیوں کا دارومدار نئے فلسفوں کے ظہور پر نہیں بلکہ اس فلسفہ کی زیادہ سے زیادہ ترقی اور تکمیل پر ہو گا لیکن اگر فلسفی کو حقیقت کائنات کا صحیح تصور کہیں سے دستیاب بھی ہو جائے او روہ اس کے عشق اور وجدانی علم سے بہرہ ور بھی ہو جائے تو پھربھی اس تصور حقیقت سے استفادہ کرنے اور اس کی بنا پر ایک صحیح نظام حکمت کی تعمیر کرنے کے لیے یہ شرط ضروری ہو گی کہ اس کے زمانہ میں حقائق علمی یہاں تک ترقی کر چکے ہوں کہ وہ اتفاقی طور پر ہاتھ لگ جانے والے اس تصور حقیقت کے ساتھ ان حقائق کی مناسبت یا مطابقت باسانی دیکھ سکے ورنہ اس تصر حقیقت کے ساتھ ان کو علمی اور عقلی طور پر وابستہ کرنے کا امکان نہ پائے گا اور کسی اور تصور حقیقت کی تلاش میں بدستور سرگرداں رہے گا اور وہ یہ سمجھتا رہے گا کہ علمی حقائق اس تصور حقیقت کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے اور لہٰذا یہ تصور حقیقت شاید درست نہیں یا شاید اس کی بنا پر کوئی فلسفہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ اس صورت میں کمی اس کے تصور حقیقت میں نہ ہو گی بلکہ ان حقائق علمی کی تعداد اور نوعیت میں ہو گی جو اس کے پیش نظر ہوں گے تاکہ فلسفی کا تصور حقیقت کائنات کے علمی حقائق سے بغل گیر ہو جائے ضروری ہو گا کہ کچھ تو اس تصور حقیقت زیادہ سے زیادہ صحیح اور کامل ہو کر ان حقائق کی طرف آگے بڑھے اور کچھ یہ حقائق ترقی کر کے اس کی طرف پیش قدمی کریں یہاں تک کہ اس کے ساتھ ان کے مجموعہ کی مناسبت آشکار ہو جائے۔
تصور حقیقت کے عشق کی ضرورت
یہاں شاید یہ سوال کیا جائے گا کہ یہ بات تو سمجھ میں آ سکتی ہے کہ اپنے مقصد کو پانے کے لیے ایک فلسفی کو حقیقت وجود کے صحیح تصور سے واقف ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ اسے ا س تصور حقیقت کے ساتھ عشق بھی ہونا چاہیے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کا یہ خیال قطعی طور پر درست ہے کہ علم کا سرچشمہ انسان کا وجدان ہے اور وجدان کا باعث ہماری آرزوئے حسن یا عشق ہے۔ صحیح تصور حقیقت کا کامل عشق ہی اس کا کامل وجدان یا کامل علم ہے۔ اتنا کام علم جتنا کہ کسی شخص کی فطری استعداد علم اس کو کامل ہونے کی اجازت دے سکتی ہے:
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک
سپاہ تازہ برانگیزم از ولایت عشق
کہ در حرم خطرے از بغاوت خرد است
زمانہ ہیچ نداند حقیقت او را
جنوں قباست کہ موزوں بقاست خرد است
بان مقام رسیدم چودر برش کر دم
کہ طوف بام و در من سعادت خرد است
قدرت نے ہر انسان کو عشق کی ایک خاص استعداد بخشی ہے۔ یہ استعداد بالعموم افراد کی ذہانت کی نسبت سے کم و بیش ہوتی ہے کوئی چاہے تو اسے غلط تصور حقیقت یا غلط محبوب کے لیے کام میں لائے اور کوئی چاہے تو اسے صحیح تصور حقیقت یا صحیح محبوب کے لیے استعمال کرے لیکن چونکہ استعدا د ایک ہی ہے یہ بات ہر حالت میں درست رہے گی کہ جس حد تک وہ اسے غلط تصور حقیقت کے لیے کام میں لائے گا اس حد تک وہ صحیح تصور حقیقت کے لیے میسر نہ آ سکیں گے انگریزی زبان میں ایک مثل ہے کہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کیک کھا بھی لیں اور کیک آپ کے پا س جوں کا توں موجود بھی رہے۔ اسی طرح سے ہو نہیں سکتا کہ آپ اپنی محبت کی استعداد کو کسی غلط تصور کے لیے استعمال بھی کر لیں اور پھر وہ صحیح تصور کے لیے بھی بچ رہے جس نسبت سے ایک انسان کی محبت خدا کے لیے بڑھتی جاتی ہے اسی نسبت سے باطل تصورات کی محبت کم ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ بالکل مٹ جاتی ہے اور اس مقام پر صحیح تصور حقیقت کی محبت اتنی کامل ہوجاتی ہے ک جتنی کہ انسان کی فطری استعداد اجازت دیتی ہو۔ لیکن یہ مقام ابراہیم خلیل اللہ کا ہے جن کے متعلق ارشاد قرآن میں ہے کہ وہ حنیف یعنی یک بین و یک اندیش تھے۔ اور ان کاایمان شرک کے تمام شوائب سے پاک تھا۔ غیر اللہ کی محبت کی تمام قسموں کو دل سے نکال کر اس مقام کو پا لینا بڑے مجاہدہ کے بعد ہی ممکن ہوتاہے۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
اگر فلسفی کی ساری استعداد محبت جو اسے فطرت کی طرف سے ارزانی ہوئی ہے ابھی حقیقت وجود کے صحیح تصور کے لیے وقف نہ ہوئی ہو اور اس استعداد کا کچھ حصہ کسی غلط تصور حقیقت کے لیے بھی کام آ رہا ہو تو وہ لازماً حقائق عالم کو کسی قدراس غلط محبت کی عینک سے دیکھے گا اور ان کی جو توجیہہ کرے گا وہ کامل طور پر درست نہ ہو گی۔ یعنی وہ ان حقائق کو صحیح تصور حقیقت کے ساتھ ٹھیک طرح سے متعلق نہ کر سکے گا اورلہٰذا وہ ایسا فلسفہ پیدا کرے گا جو اسی نسبت سے غلط اور ناقص ہو گا جس نسبت سے اس کی محبت غلط اور ناقص ہو گی۔ صحیح تصور حقیقت کامل کے طور پر تربیت یافتہ روشن اور طاقتور وجدان سے مرا د اس تصور کی ایک ایسی محبت ہے جو مجادہ اور ریاضت سے ترقی کر کے درجہ کمال پر پہنچائی گئی ہو۔ یہ محبت ایک روشنی ہے کیونکہ یہ غلط تصورات کی جہالتوں اور تاریکیوں سے پاک ہوتی ہے اور صحیح اور غلط اور نیک و بد اور زشت و زیبا میں ٹھیک ٹھیک امتیاز کر سکتی ہے۔ پرھ یہ محبتر ایک طاقت ہے کیونکہ یہ غلط تصورات پر ان کی غیر معمولی قوت کے باوجود فتح پاتی ہے صحیح تصور کے کامل عشق کے بغیر فلسفی کا علم ناقص رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کے نزدیک صحیح تصور حقیقت کا کامل عشق صحیح فلسفہ کی تعمیر کے لیے ضروری ہے اس کے بغیر عطار یا رومی یا رازی یا غزالی ایسا ایک شخص بھی علم سے محروم رہتا ہے:
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی