حکمت اقبال کی خصوصیت، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

حکمت اقبال کی خصوصیت
اگر کسی حکمت کے متعلق یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اس قسم کی ہے جب اسے منظم کیاجائے تو تمام سچی علمی حقیقتین جو اس زمانہ تک دریافت ہو چکی ہیں سارے معلوم اور مسلم منطقی اور عقلی اصولوں کے مطابق اس کے اندر سما جاتی ہیں اور جو آئندہ دریافت ہونے والی ہوںوہ بھی اس کے اندر جذب ہو سکتی ہیں تو اس سے بڑھ کر کوئی ثبوت اس بات کا نہیں ہو سکتا کہ یہ حکمت جس وجدانی تصور حقیقت پر مبنی ہے وہ صحیح ہے اور خود یہ حکمت سچی اور پائیدار ہے اور تمام دوسری حکمتیں مٹ کر اس کی عالم گیر قبولیت کے لیے راستہ ہموار کر دیں گی۔ ظاہر ہے کہ ہم جب اس قسم کی حکمت کی بہترین تشریح کریںگے تو وہ اس کی عقلی اور علمی تنظیم اور ترتیب ہی کی صورت اختیار کرے گی اور اس کے برعکس جب ہم اس کو ایک عقلی اور علمی ترتیب اور تنظیم کے ساتھ دوبارہ لکھیں گے تو اس کی یہی ترتیب اور تنظیم ا س کی بہترین تشریح قرار پائے گی۔
اقبال کی حکمت اسی نوعیت کی ہے ایک سچی حکمت کے دو ضروری لوازمات جو اوپر بیان کیے گئے ہیں اس میں موجود ہیں وہ حقیقت کائنات کے ایک ایسے تصور پر مبنی ہے جو صحیح ہے اور اس کے سارے معلوم اور مذکور تصورات منطقی اور عقلی طور پر اس مرکزی تصور سے مطابقت رکھتے ہوں حقیقت کائنات کایہ صحیح تصور جو حکمت اقبا ل کا بھی مرکز ہے اور خدا کا تصور ہے اور اس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ خدا انسان کو چاہتا ہے اور تخلیق اور تکمیل کائنات کا عمل دراصل تخلیق و تکمیل انسان ہی کا عمل ہے اور دوسرا یہ کہ انسان خدا کو چاہتا ہے او ر اس کی ساری زندگی تگ و دو جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی صرف یہ مقصد رکھتی ہے کہ خدا انسان کو پہنچے حقیقت کائنات کی حیثیت سے یہ تصور نہ صڑف واضح اور روشن ہے بلکہ صحت اور درستی کے تمام معیاروں پر پورا اترتا ہے ۔ اقبال نے اپنے تصور حقیقت کے تمام ضروری نتائج و مضمرات کو بالوضاحت اور بالتکرار بیان کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ نتائج اور مضمرات ایک ہی تصور کے ساتھ عقلی اور علمی تعلق رکھنے کی وجہ سے ایک نظام حکمت کی سورت میں ہیں۔ اور ایک عقلی اور منطقی تنظیم اورترتیب پا لیناان کی فطرت میں ہے تاک ہچونکہ وہ شایدہ تر شعر کی زبان میںبیان کیے گئے ہیں وہ عقلی اور منطقی ترتیب اور تنظیم میںنہیں آ سکتے۔ ہو نہیں سکتا کہ ایک نظام تصورات شعر کی زبان میں بھی ہو اورپھر ایک منطقی اور عقلی ترتیب اور تنظیم بھی رکھتا ہو ۔ ہو نہیںسکتا کہ وہ جذبات کی گرمی اور منطق کی ٹھنڈک دونوںسے بیک وقت بہرہ ور ہو۔ اقبال کا فلسفہ اس کی غیر معمولی ذہانت اور وجدانی قوت رکھنے والے ماہر ریاضیات یا ماہر فلسفی کی طرح ہے جس کا تصور حقیقت صحیح ہے لیکن وہ اپنے تصور حقیقت کے نتائج کو جو بے اختیار اس کے قلب پر وارد ہوتے چلے جاتے ہیں ایک منطقی ترتیب اور تنظیم میںرکھنے کی فرصت یا ضرورت نہیں پاتا تاہم اس کے نتائج اس قدر مفصل ہیں کہ ہر موزو ں شخص جو اس کے تصور حقیقت کا صحیح وجدان رکھتا ہے باسانی ان کے منطقی سلسلہ کے خلائوں کو پر کر کے ا ن کو ایک مکمل منطقی ترتیب اور تنظیم کا جامہ پہنا سکتا ہے۔ اقبا ل نے اپنے فلسفہ میں حقیقت انسان و کائنات کی اصل تصویر کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ اس قدر مکمل ہے کہ مناسب قابلیت کا ہر انسان جو اقبال کے ذوق سے آشنا ہو اس خاکہ میں صحیح رنگوں کو اپنی اپنی جگہ بھر کر تصویر کو اس کی پوری زیبائی اور دلکشی کے ساتھ جلوہ گر کر سکتا ہے۔
حکمت اقبال کی تشریح کا مطلب
اوپر کی بحث ہمیں جس اہم نتیجہ کی طرف راہ نمائی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اقبال کے فلسفہ کی ایک ایسی تشریح بہم پہنچائیں جو اس کے فلسفہ کو خواص اور عوام کے لیے اور غیروں اور اپنوں کے لیے موثر اور قابل فہم بنا دے اور اس کی صحیح اور تسلی بخش تشریح قرار پائے تو ضروری ہے کہ ہم اقبال کے تصور حقیقت کے نتائج اور مضمرات کو جو اس نے بلا ترتیب شعر کی زبان میں بیان کیے گئے ہیں نہ صرف یہ کہ ایک منطقی اور عقلی ترتیب کے ساتھ بیان کریںبلکہ ان کے درمیانی خلائو ں کو زیادہ سے زیادہ پر کریں اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ اس عمل سے اس کے فلسفہ کی تشریح کس قدر طویل ہو جائے گی کیونکہ یہ تشریح جس قدر طویل ہو گی اسی قدر زیادہ اقبال کا فلسفہ قابل فہم اور اثر آفریںہو گا اور لوگوں کے اعتقاد اور عمل کو بدلنے والی ایک قوت ہو گا۔
غلط اور صحیح فلسفہ کے استدلال کا فرق
یہ حقیقت ہے کہ ایک فلسفی کے ادراک کا آغاز اور انجام حقیقت کائنات کے ایک وجدانی تصور ہوتا ہے جو اس کے ذہن میںپہلے ہی سے موجود ہوتا ہے ۔ فلسفی کے استدلال کی سمت کو معین کر دیتی ہے اور اس کی صحت اور عدم صحت کا فیصلہ کر دیتی ہے اگر اس کا تصور حقیقت غلط ہو گا تو اس کے استدلال کی خشت اول ہی غلط رکھی جائے گی جس کے بعد ا س کا سارا استدلال خواہ اس کی دیوار ثریا تک چلی جائے غلط ہو جائے گا چونکہ اس کے استدلال کا راستہ منزل سے ٹہا ہوا ہوتا ہے۔ یہ راستہ ٹیڑھا ہی نہیںہوتا بلکہ دشوار گزار بھی ہوتا ہے اور اس راستہ پر چل کر اسے عمی حقائق کو اپنے تصورحقیقت کے مطابق ثابت کرنے میں بڑی دقت پیش آتی ہے اور پھر بھی وہ ان کواپنے تصور کے مطابق ثابت نہیں کر سکتا اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے استدلال میں جا بجا عقلی اور منطقی خامیاں پید اہو جاتی ہیں۔ اپنے استدلال کی قوت کو قائم رکھنے کے لیے کہیں تو وہ بعض سچے علمی حقائق کو جو اس کے غلط تصور حقیقت کی غمازی کرنے کی استعداد کررکھتے ہوں نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہیں ان حقائق کو جو ا س غلط تصو ر حقیقت کی غمازی کرنے کی استعداد رکھتے ہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہیں ان حقائق کی غلط توجیہہ اور تشریح کرتا ہے اور ان کو غلط طور پر توڑ موڑ کر سمجھتا اور سمجھاتا ہے ۔ کہیں ان کی امیت کو اتنا کم کر دیتا ہے کہ وہ اس تصور حقیقت کو چیلنج نہ کر سکیں اورا سکے برعکس کہٰں وہ غلط علمی حقائق کو جنہیں اچھی طرح سے آزمایا اور پرکھا نہیں گیا اور جو اس کے غلط تصور حقیقت سے کسی مناسبت رکھتے ہیں اور اپنے استدلال میںجگہ دیتا ہے اور ان کی اہمیت کو بڑھاتا ہے کہ گویا وہی کائنات کی عقدہ کشائی کر سکتے ہیں و علی ہذ ا لقیاس۔ لیکن اگر اس کا تور حقیقت صحیح ہو اور وہ کائنات کے عمی ؤحقائق کو جو اس کے زمانہ تک دریافت ہو چکے ہیں ٹھیک طرح سمجھتا ہو تو اس کا استدلال صحیح ہوتا ہے اور یہ تمام علمی حقائق آسانی کے ساتھ اس کے نظام حکمت میں اپنی جگہ پاتے ہیں اور وہ جہاں ؤسے اسے مل سکیں تلا ش کرکے لاتا ہے اور اپنے نظام حکمت میں جگہ دیتا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کے تصور حقیقت سے مناسبت رکھتے ہیں اور اس کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔ اپنے استدلال کی قوت کو قائم رکھنے کے لیے اگر اسے بعض غلط حقائق کو جنہیں علمی حقائق سمجھا جا رہا ہے توڑنا موڑنا بدلنا پڑتا ہے اور تو وہ اس طرح سے بدلتے رہتے ہیں کہ ان کی خامیاں اور کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں اور اگر بعض کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے تو وہ درحقیقت غلط اور نظر انداز کرنے کے قابل ہی ہوتے ہیں اور اگر کہیں ان کی اہمیت کو کم کرنا پڑتا ہے تو فی الواقع ان کی  اہمیت کم ہوتی ہے۔ اسی طرح کے اگر اسے بعض مفروضات ہی نہیں بلکہ تمام علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق فی الواقع صحیح علمی حقائق ہیں۔ گویا حقیقت کائنات کے تصور کی درستی اور درست فہمی اس کے سارے نظام حکمت کو درست کرتی ہے اور اس کے ساتھ بعض ایسے نام نہاد علمی حقائق کو بھی درست کرتی ہے جن کی نادر ستی ابھی آشکار نہ ہوئی ہو بلکہ بعض نئے درست علمی حقائق کی دریافت کی تحریک بھی کرتی ہے اور اس طرح درست تصور حقیقت کی مدد سے علم اپنے ہی تراشے ہوئے بؤتوں کوتوڑتا ہوا صڈاقت کی منزلوں کی طرف چلا جاتا ہے اقبال ہی ا بات کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ کہتا ہے:
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم
کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم
وہ علم کم بصری جس میں ہم کنار نہیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم
علمی حقائق کی ترقی سے غلط فلسفے مٹتے ہیں اور صحیح فلسفہ ابھرتا ہے

چونکہ حقائق معلومہ و مسلمہ جو ایک نظام حکمت کی کڑیوں کی صورت اختیار کرتے ہیں بداہتوں کے علاوہ علمی حقیقتوں پر بھی مشتمل ہوتے ہیں اور چونکہ علمی حقیقتیں ابھی تک سب کی سب دریافت نہیں ہو سکیں اور ہر فلسفہ ان کے ساتھ مطابقت بھی نہیں رکھتا اس لیے ہر فلسفہ کے اندر خلائوں کاہونا ضروری ہے۔ اور چونکہ علمی حقیقتیں سب کی سب قیامت تک بھی دریافت نہ ہوسکیں گی۔ لہٰذا اس فلسفہ کے اندر بھی جو ان حقیقتوں سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے یعنی صحیح فلسفہ کے اندر بھی تاقیامت خلائوں کا باقی رہنا ضروری ہے۔ بعض فلسفوں کے خلائوں کی تعداد اور طوالت زیادہ ہوتی ہے اوربعض کی کم۔ یعنی بعض فلسفوں کا استدلال زیادہ گنجان آباد ہوتا ہے اور بعض کا کم۔ جس قدر کسی فلسفہ کے منطقی تسلسل میں خلائوں کی تدداد زیادہ اور طوالت کم ہو گی یعنی جس قدر کسی فلسفہ کا استدلال زیاد ہ گنجان ہو گا اسی قدر وہ زیادہ آسان او ر قابل فہم اور معقول اور مضبوط اور مکمل اور مدلل سمجھا جائے گا چونکہ سچی علمی حقیقتیں ایک دوسرے کے ساتھ عقلی ربط یا مطابقت رکھتی ہیں لہٰذا ایک دوسرے کی تائید و توثیق کری ہیں اس کے برعکس چونکہ وہ غلط تصورات کے ساتھ کوئی عقلی ربط یا مطابقت نہیں رکھتیں اور ان کی تائید اور توثیق بھی نہیںکرتیں اس بنا پر ضروری ہے کہ جوں جوں علم ترقی کرتا جائے اور علمی حقیقتوں کی تعداد بڑھتی جائے ان کی دلالت اور وضاحت بھی بڑھتی جائے اور ان کا توڑنا اور مسخ کر کے سمجھنا اور سمجھانا زیادہ سے زیادہ مشکل ہوتا جائے او ر اس طرح سے صحیح فلسفوں کے خلائوں کی تعداد و طوالت کم ہوتی جائے اور غلم فلسفیوں کے خلائوں کی تعداد اور طوالت بڑھتی جائے گی اور اس کے نتیجہ کے طور پر صحیح فلسفہ کی معقولیت کے ساتھ ساتھ غلط فلسفوں کی نامعقویلت زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتی جائے ضروری ہے کہ اس نہ رکھنے والے قدرتی عمل کا نتیجہ یہ ہو کہ بالاخر دنیا میں صرف ایک ہی فلسفہ جو صحیح ہو کائنات کے صحیح تصور پر مبنی ہو اور اس بنا پر حال اور مستقبل کی تمام علمی حقیقتوں سے مطابقت اور مناسبت رکھتا ہو باقی رہ جائے اور باقی تمام فلسفے نامعقول اور بیکار سمجھ کر رد کر دیے جائیں اور اس سے یہ ناگزیر نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ یہی فلسفہ ہو گا جو بالاخر انسانیت کو متحد کرے گا اور جب تک یہ فلسفہ ظہور پذیر ہو کر دنیا میںپھیل نہیںجائے گا اس وقت تک نوع بنی انسان کا امن اور اس کا اتحاد دونوں ممکن نہ ہوں‘آگے چل کر میں عرض کروں گا کہ کیوں یہ فلسفہ اقبال کا فلسفہ خودی ہی ہو سکتا ہے اور دوسرا کوئی فلسفہ نہیں ہو سکتا۔