پاکستان کا عالمی رول
قرآن بتا رہے ہیں کہ یہ الحاق سب سے پہلے پاکستا ن میں انجام پائے گا کیونکہ دنیا بھر میں پاکستان ہی وہ ملک ہے جو خدا کے نام پر لیا گیا ہے اور جس میں خدا کا دین فلسفیانہ نظریات کے اس دور میں سب سے پہلے ایک جدید فلسفہ کی صورت میں جو فلسفہ خودی ہے نمودارہوا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ پاکستان ایک دینی ریاست تو بنے لیکن دین کی فلسفیانہ حکیمانہ یا سائنسی توجیہ کو جو فلسفہ خودی کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے کام میں نہ لائے اور اس فلسفہ کو اپنا نظریہ نہ بنائے لہٰذا پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں آئندہ کی عالمگیر ریاست کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جب پاکستان میں یونیورسٹیوں کی نصابی کتب کے اندر خدا اور سائنس کے الحاق سے خودی کا علم ا س قدر عام ہو گا کہ حاکم اور محکوم کی مرضیوں کے درمیان مکمل موافقت پیدا ہو جائے گی رفتہ رفتہ پاکستان کی تخلیقی اور تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں خودی یا روح کے اوصاف و خواص کا سائنسی علم ا س قدرواضح اور شکوک و شبہات سے اس قدر بالا و بلند ہو جائے گا کہ تمام بنی نو ع انسان باسنای میں اس کی صڈاقت کااعتراف کرنے لگے گی۔ یہاں تک کہ اس اعتراف کی وجہ سے وہ پاکستان کی قیادت میں ایک عالم گیر صورت میں متحد اور منظم ہو جائے گی چونکہ ایسی ریاست ایک واضح اور روشن نظام حکمت پر مبنی ہو گی لہٰذا اس کے قائد اور عوام کے درمیان اختلا ف ناممکن ہو گا۔ اقبا ل کے نزدیک یہ صورت حال غیر متوقع یا عجیب نہیں کیونکہ خدا کا عقیدہ جب سائنس کے ساتھ مل جاتاہے تو ایک عالم گیر انقلاب پیدا کرتا ہے۔
عشق چوں بازیرکی ہمسر بود
نقشبند عالم دیگر شود!!
مروجہ جمہوریت غیر فطری ہے
مروجہ جمہوریت میں اکاون فیصد اکثریت کی حکومت خودی کی فطرت کے منافی ہے خودی ہمیشہ ایک فرد کی قیادت میں جماعت پیدا کرتی ہے اور قائم رہتی ہے۔ اور وہ جماعت کا بہترین فرد سمجھا جاتا ہے۔ حیاتیاتی سطح ارتقا پر خودی ایک فرد سے حیوانات کی ایک پوری نوع پیداکرتی ہے اور یہ فرد اس نوع کا جد اول ہوتاہے ۔ اور جب تک نوع زندہ رہتی ہے ا س کے تمام افراد ا س فرد کے جسمانی نمونہ کی پیروی کرتے ہیں گویا وہ ان کا حیاتیاتی قائد ہوتاہے۔ اسی طرح سے نظریاتی سطح ارتقا پرخودی ایک فرد کی رہنمائی سے ایک پوری نظریاتی جماعت پیداکرتی ہے۔ اور وہ فرد ہمیشہ کے لیے اس جماعت کا قائد اول بنتاہے۔ اور اس کی وفات کے بعد جب جماعت کی قیادت کا سوال درپیش ہوتا ہے تو پھر بھی قائد اول کا مقام ایسا مقام ہوتاہے جس کی نظریاتی زندگی قائد اول نمونہ سے قریب ترین ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اپنے بہترین فرد کو اپنی نمازکا امام بناؤ۔ اس ارشا د میں یہ ہدایت مضمر ہے کہ مسلمانوں کو اپنی دینی اور دنیاوی قیادت کے لے اکاون فیصد اکثریت کی بجائے ایک آدمی منتخب کرنا چاہیے جو نظریاتی اعتبار سے ان میں سے بہترین ہو۔
خودی کے اوصاف و خواص کے علم کے عام ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مستقبل کی ریاست میں نصب العین کی محبت یا معرفت تمام افراد میں ہر وقت یکساں رہے گی۔ بلکہ ہر زمانہ میں اس کے اندر ایک شخص ایسا موجود رہے گا جو جماعت کے نصب العین کو دوسرے افراد کی نسبت بہتر سمجھتا ہو اور جانتا ہوگا‘بہتر چاہتا ہو گا اور بہت عمل میں لاتا ہو گا۔ مستقبل کی ریاست میںایسا شخص ہی قائد چنا جائے گا ایسے قائد کو ان لوگوں کی رائے کا پابندنہیں کیا جا سکے گا۔ جن کی محبت یا معرفت قائد سے کم ہو اور وہ بھی صرف اس لیے کہ ان کی تعداد زیادہ ہے۔ اس ریاست میں قائد کو مشورہ دینے والے لوگ موجود ہوں گے اور وہ ان مشوروں کو سنے گا اور ان پر غور کرتا رہ گا تاکہ وہ ان کی روشنی میں اپنی آراء کے نیک و بد کو زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھے۔ لیکن فیصلہ بہرحال اس کا اپنا ہو گا اور جب اس کے فیصلہ کی وضاحت کی جائے گی تو عوام میں سے ہر شخص کو یہی نظر آئے گا کہ یہ فیصلہ صحیح ہے اور قائد ہی کا فیصلہ نہیں بلکہ اس کا اپنا فیصلہ بھی ہے جو اس کے دل کی گہرائیوں میں مخفی تھا اور جسے وہ اپنے علم اور محبت کی نسبتی کمی کی وجہ سے پوری طرح نہ سمجھ سکاتھا۔ اس کے بالمقابل رواجی جمہوریت کا یہ طریق کار غلط ہے کہ اکثریت کی رائے کو قوم کے بہترین شخص کی رائے پر بھی ترجیح دی جائے خواہ اکثریت کی رائے ا س کی رائے سے کیسی ہی مختلف ہو اور کیسی ہی گھٹیا کیوںنہ ہو۔ اقبال بڑے زور دارا لفاظ میں ایسی جمہوریت کی مخالفت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم ایک اچھوتے اور حکیمانہ خیال کی توقع ایسے لوگوں سے کرتے ہو جو جاہل اور پست فطرت ہیں۔ کہاں چیونٹی اور کہاں حضرت سلیمان۔ ہم ایک چیونٹی سے حضرت سلیمان کی سی ذہانت طبع کی توقع نہیں کر سکتے۔ اس رواجی جمہوریت کو ترک کر دو کیونکہ اگر دو سو گدھے بھی جمع ہو جائیں تو ان سے انسان کے فکر کی توقع نہیںکی جا سکتی ۔
متاع معنی بیگانہ ازدوں فطرتاں جوئی
ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید
ایسی جمہوریت بیکار ہے کیونکہ ا س میں افراد کو گنا جاتا ہے ان کی رائے کا وزن نہیں کیا جاتا۔
اس راز کو اک مرد قلندر نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
استبداد کا نیا لباس
پھر ایسی جمہوریت میں اکثریت والوں کی رائے بھی اپنی نہیں ہوتی۔ بلکہ چند خود غرض اور بددیانت دولت مندوںکی رائے ہوتی ہے جس کو وہ اپنی دولت اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر ان کے ووٹوں کی صورت میں لے آتے ہیں۔ گویا وہ درحقیقت جمہوریت نہیں ہوتی بلکہ بادشاہت اور استبداد کی ایک صورت ہوتی ہے جو جمہوریت کا لباس اوڑھ لیتی ہے۔
ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب‘
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری‘
مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق‘
طب مغرب میں مزے میٹھے اثر آوری‘
گرمی گفتار اعضائے مجالس الامان‘
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ میں جب ابلیس کا ایک مشیر دوسرے کو کہتاہے کہ تو سلطانے جمہور نئے فتنہ سے بے خبر ہے۔ یہ فتنہ خیر ہے شرنہیں۔ لہٰذا ابلیس کے کاروبار کو فروغ پانے سے روک دے گا۔
خیر ہے سلطانے جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کہ تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر
تو دوسرا مشیر اسے جواب دیتا ہے کہ میں سلطانے جمہور کی نئی تحریک سے باخبر ہوں لیکن وہی تو بادشاہت کا ایک پردہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ جب آدم اپنی حیثیت سے کسی قدر باخبر ہو نے کے بعد بادشاہوں کی غلامی اور سختی کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہونے لگا تو ہم نے اسے خو د دھوکہ میں مبتلا کرنے کے لے بادشاہت کو ہی جمہوریت کا لباس پہنا دیا۔ بادشاہت کا کاروبار بادشاہ کے بغیر بھی جاری رہ سکتاہے ۔ بادشاہت کا امتیازی نشان لوٹ کھسوٹ اور ظلم ہے۔ سویہ امتیاز ایک جمہوری نظام کے اندر مجلس ملت کو بھی حاصل ہے۔ مغرب کا جمہوری نظام دیکھ کر کیا وہ انصاف اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود کمزور قوموں کو غلام بنا کر ان پر چنگیز کی طرح کے مظالم نہیں ڈھارہا۔
ہوں ‘ مگر میری جہاں بینی بتای ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو اس سے کیا خطر
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے‘
یہ وجود میر و سلطان پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو‘
ہے وہ سلطان غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر