خودی کا ذوق انجمن آرائی، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی کا ذوق انجمن آرائی
ارتقائے کائنات ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ سے خودی خودی کی جستجو کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ کائناتی خودی ہے اور دوسری طرف سے انسانی خودی جو اپن مادی اور حیاتیاتی مراحل سے گزر کر انسانی مرحلہ تک پہنچتی ہے۔ خودی جب اپنی منزل مقصود کی طر ف حرکت کرتی ہے تو آپ کو بہت سے افراد کی صورت میں ظاہر کرتی ہے ۔ لیکن چونکہ وہ ایک ہے اور وہ ان سارے افراد کو ایک منظم وحدت کی اکائی بنا کر آگے چلتی ہے۔ حیاتیاتی اور انسانی مراحل ارتقاء پر ہم جنس افراد کی جماعتی تنظیم کا باعث خودی کی فطرت کا یہی تقاضا ہے ۔ اسی کو اقبال خودی کا ذوق انجمن آرائی کہتا ہے۔ اور خودی کی فطرت کا یہ تقاضا بھی خدا کی محؓت کا ایک پہلو ہے۔ خودی اپنی محبت کی تشفی کے لیے جو عمل کرتی ہے ا س میں تنہا نہیں رہنا چاہتی بلکہ اپنے تمام ساتھیوں کو اس میں شریک کرنا چاہتی ہے ۔ اوریہی وجہ ہے کہ خودی کا عمل پوری طرح سے موثر اور کامیات اسی صورت میں رہتا ہے کہ جب وہ پوری جماعت کی رفاقت میں انجام پائے۔ قرآن حکیم میں جو نماز باجماعت (وارکعو مع الراکعین ۴۳۔۲) کا حکم ہے اس کی بنیاد خودی کی فطرت کا یہی تقاضا ہے۔
احساس وحدت زندگی کا خاصہ ہے
تمام انواع حیوانات کے وجود کا سرچشمہ ایک ہی ہے یعنی خودی کائنات لیکن وحدت کا احساس صرف ایک ہی نوع حیوانات کے فرد کے اندر آپس میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ایک ہی نوع کے افراد آپس میں مشابہت رکھتے ہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر نوع حیوانات زندگی کے ارتقا کا ایک خاص مرحلہ ہے جو پچھلے ہر مرحلہ کو منسوخ کر کے اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ خودی ہر اس نئی منزل پر جہاں وہ آ نکلتی ہے ایک وحدت ہوتی ہے اور اپنے آ پ کو ایک وحدت کے طور پر محسوس کرتی ہے اور ایک وحدت کے طور پر رہنے اور کام کرنے کاجذبہ رکھتی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے اس اس بات کی ضمانت ہے کہ نوع انسانی میں بھی خودی اپنے ارتقاء کے اس مقام پر جو اس کا منتہائے مقصود ہے ایک وحدت ہونے کا احساس کرے گی اور ایک وحدت کے طور پر رہنے اور کام کرنے کا جذبہ رکھے گی۔ اسی وحدت کے احساس یا جذبہ کوہی ماہرین حیاتیات نے جبلت اجتماعی کا نام دیا ہے خودی اپنے ارتقاء کے کسی بلند ترین مقام پر قدم رکھتی ہے تو اپنے پست تر مقامات پر جن سے وہ آگے نکل چکی ہوتی ہے۔ حکمران ہوتی ہے اور لہٰذا ان کے ساتھ ایک ہونے کا احساس نہیں کر سکتی۔ اپنے ارتقاء کے ہر مقام پر خودی کی آرزوئیں اور ان آرزوئوں کو حاصل کرنے میں قوتیں بالکل نئی ہوتی ہیں اور پست تر مقام کی خودی ان آرزوئوں اور قوتوں میں اس کے ساتھ برابر کی شرکت نہیںکر سکتی۔ لہٰذا وحدت کا احساس جو ایک نوع حیوانات میں پایا جاتا ہے ۔ خودی کی اس بنیادی خصوصیت کے ماتحت رونما ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارتقا کے ہر مرحلہ پر اپنے تمام اراکین کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار کر کے ایک منظم جماعتی زندگی کی تخلیق کرنا چاہتی ہے۔ ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ارتقا کے انتہائی مرحلہ پر جب خودی اپنے مبداء یعنی کائناتی خودی کے بہت قریب پہنچ جائے گی خودی کی یہی خصوصیت ایسے خود شناس افراد کی جماعت کی صورت میں رونما ہو گی کہ جو ایک دوسرے کے ساتھ اور کائناتی خودی کے ساتھ تعاون کر کے ایک اعلیٰ درجہ کی منظم جماعتی زندگی کو ظہور پذیر کریں گے۔ خودی کے جذبہ محبت کے پہلو کی حیثیت سے خودی کی یہی خصوصیت ہے جو ایک انسانی ریاست کی تنظیم کو ایک خلیہ کی تنظیم اور ایک نظام شمسی ایک قلم ایک سالمہ اور ایک جوہر کی تنظیم کو وجود میں لاتی ہے اور خودی کی یہی خصوصیت ہے جو مستقبل کی عالمگیر ریاست کی تنظیم کو نکتہ کمال پر پہنچائے گی۔
خدا کی محبت کا جذبہ جو انسانی جماعتوں کی تنظیم کا باعث ہوتا ہے حیوان کی قوت حیات کی صورت میں اور اس سے پہلے مادہ میں برقی رو کی صورت میں کام کرتاہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک طرح کی جماعتی تنظیم انواع حیوانات میں اور مادی مظاہر قدرت میں بھی موجود ہوتی ہے۔
ایک جسم حیوانی سے نظریاتی جماعت کی مماثلت
اقبال نے ایک نظریہ کی بنا پر منظم ہونے والی انسانی جماعت یا قوم کو بجا طور پر ایک جسم حیوانی کے مماثل قرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’جس طرح ایک جسم ذوی الاعضا ء مریض ہونے کی حالت میں بعض دفعہ خود بخود بلا علم و ارادہ اپنے اندر ایسی قوتوں کو برانگیختہ کر دیتا ہے جو اس کی تندرسی کاموجب بن جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک قوم جو مخالف قوتوں کے اثرات سے سقیم الحال ہو گئی ہو بعض دفعہ خود بخود رد عمل پیدا کرنے والی قوتوں کو پیدا کر لیا کرتی ہے۔ مثلاً قوم میں کوئی زبردست دل و دماغ کا انسان پیداہو جاتا ہے یا کوئی نئی تخیل رونما ہوتی ہے۔ یا ایک ہمہ گیر مذہبی اصلاح کی تحریک بروئے کار آتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قوم کے قوائے ذہنی اور روحانی تمام طاغی اور سرکش قوتوں کو اپنا مطیع و منقاد بنانے اور اس مواد فاسد کو خارج کر دینے سے جو قوم کے نظام جسمانی کی صحت کے لیے مضر تھا۔ قوم کو نئے سرے سے زندہ کر دیتے ہیں اور اس کی اصل توانائی اس کے اعضا میں عودکر آتی ہے‘‘۔
(مقالات اقبال ص 117)
ایک جسم حیوانی اور ایک نظریاتی جماعت کی یہ مماثلت اتفاقی نہیں بلکہ اس کا ایک معقول سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں کے باعث زندگی کی رو ہے جو دونوں کے کام کرتی ہے اور جس کے فطرتی اوصاف و خواص دونوں میں ایک ہی ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ ایک جسم حیوانی اور ایک نظریاتی جماعت اور باتوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مماثلت رکھیں۔ زندگی کے وہی اوصاف و خواص ہیں جو پہلے حیاتیاتی سطح پر اور پھر انسان کے ظہور پذیر ہونے کے بعد نفسیاتی یا انسانی سطح پر کام کرتے ہیں لہٰذا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ دونوں سطحوں پر ان کا اظہار مماثل ہو گا۔ سوائے اس کے کہ ان دونوں سطحوں پر ان کے اظہار میں اتنا فرق موجود ہو جو خود ان سطحوں کے اپنے فرق کی وجہ سے ناگریز ہے اور حقیقت حال بھی یہی ہے۔
ہر نظریاتی جماعت ایک نصب العین پر مبنی ہے
مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ایک جسم حیوانی کے اندر ایک قوت حیات کام کرتی ہے جو اسے وجود میں لاتی ہے‘ اس کی نشوونما کرتی ہے او ر اس کی تندرستی اور طاقت کو قائم رکھتی ہے۔ اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت یا جسم اجتماعی کے اندر نصب العین کی محبت ایک ایسی قوت کے طورپر کام کرتی ہے جو اسے وجود میں لاتی ہے ا س کی نشوونما کرتی ہے اور اس کی وحدت اور طاقت کو قائم رکھتی ہے۔ دراصل وہی قوت حیات جو حیوان میں کام کرتی ہے۔ انسانی مرحلہ ارتقامیں پہنچ کر نصب العین کی محبت کی صورت میں جلوہ گرہوتی ہے۔
اور ایک بیرونی شکل رکھتی ہے

پھر ایک نظریاتی جماعت بھی ایک جسم حیوانی کی طرح ایک اندرونی قوت ہی نہیں بلکہ ایک بیرونی قوت بھی رکھتی ہے جو اس کے نصب العین کے ماتحت پیدا ہونے والے آئین اور قوانین روسوم و راج اور عادات و شمائل پر مشتمل ہوتی ہے اور جسم حیوانی کی طرح اس کے اندر بھی زندہ رہنے کا عزم ہوتاہے۔ اور جسم حیوانی کی طرح وہ بھی نشوونما پاتی ہے اور خوراک کی ضرورت محسوس کرتیہے جو ایسے تعلیمی مواد پر مشتمل ہوتی ہے جو نصب العین کی محبت کی نشوونما کرنے والا ہو۔ جسم حیوانی کی طرح اس کا بھی ایک مدعا ہوتا ہے اور وہ نصب العین کا حصول ہوتا ہے اور یہ بھی اپنے مدعا کے حصول کے لیے مزاحمت سے دوچار ہوتی ہے۔ اس مزاحمت پر عبور پانے کے لیے جدوجہد کرتی ہے اور اس جدوجہد سے اپنی طاقت میں اضافہ کرتی ہے اور جب جدوجہد ترک کردیتی ہے تو کمزور ہو جاتی ہے جس طرح سے ماضی جسم حیوانی کا حیاتیاتی ماحول حیوان کی نشوونما اور ارتقاء کی سمت اور اس کی فعلیت کے نتائج پرہوتا ہے اسی طرح سے زمانہ حال میں ایک نظریاتی جماعت کا نفسیاتی یا تعلیمی ماحول اس کی نشوونما اور ارتقا کی سمت اور اس کی فعلیت کے نتائج پر اثر انداز ہوت اہے مثلاً انگریزی قوم ایک نظریاتی جماعت اس لیے ہے کہ ان کا نظریہ ایک ہے اور وہ ہے انگلستان کی محبت ہے۔ لیکن ان کا یہ نظریہ اس لیے بن گیا ہے کہ وہ ایک ہی ملک میں رہتے ہیں ایک ہی زبان بولتے ہیں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی عادات و رسوم بھی ایک جیسی ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہوںنے شروع سے ہی مل کر ان کے نفسیاتی یا تعلیمی ماحول کو بنایا  تھا اور اسی ماحول نے ان کے نظریہ کی تشکیل کی تھی اور اس کو وہ خاص صور ت دی تھی جو اسے اب حاصل ہے تاہم چونکہ ان کا یہ نفسیاتی اور تعلیمی ماحول ان کی فطری کے تقاضون کے مطابق نہیں تھا وہ ان  کینظریہ کی صحیح اور پوری طرح نشوونما نہیںکر سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نظریہ اپنی نشوونما کے دوران کامل ہونے سے پہلے ہی ایک ملک کی علاقائی قومیت پر رک گیا ہے اور کامل ہو کر خدا کے نظریہ کی صورت اختیار نہیںکر سکا۔