ریاست کا ارتقاء
سب سے پہلی اور ابتدائی حالت کی ریاست خاندان تھا۔ جس کا سربراہ باپ یا خاندان کا سب سے زیادہ عمر رسیدہ بزرگ ہوتا ہے۔ اس ریاست کا نصب العین خاندان کے باہمی قرابت داری تھی۔ جس کا نمائندہ وہی خاندان کاسربرا ہ ہوتا تھا۔ پھر جب خاندان ترقی کر کے اسی نسل کے بہت سے خاندانوں کا ایک وسیلہ بن گیا تو قبیلے کا سب سے ممتاز آدمی اس کا سردار سمجھا جانے لگا اور اس طرح سے اب خاندان کی بجائے قبیلہ ایک ریاست بن گیا۔ اس ریاست کا نصب العین قبیلہ کی عصبیت تھی۔ جس کا نمائندہ قبیلہ کا سردار ہوتا تھا۔ پھر بہت سے قبیلوں سے ایک قبیلہ سب سے زیادہ معزز شمار ہوا اور اس کا سردار سرداروں کا سردار یا بادشاہ سمجھاگیا جسے ایک خاص خطہ زمین یا ملک کے رہنے والی قوم کا حکمران مانا گیا اور اس طرح سے قبیلہ کی بجائے ملک ایک ریاست بن گیا۔ اس ریاست کو منظم کرنے والا نصب العین بادشاہت کی عظمت یا تقدس کا تصور کرتا تھا جو بادشاہ کی ذات میں مجسم تھا۔ لیکن جلد ہی بادشاہوں کے مظالم نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کوئی نصب العین اس وقت تک پوری طرح سے تسلی بخش نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں عوام کی سود و بہبود مدنظر نہ ہو۔ لہٰذا ریاست کا نصب العین بادشاہت سے آگے بڑھ کر عوا م کی سود و بہبود قرار دے جسے آزادی مساوا ت اور اخوت وغیرہ کے ناموں سے تعبیر کیا گیا۔ لیکن ابھی ان اقدار کے معنی محدود تھے کیونکہ ان کا اطلاق ایک محدود خطہ زمین کے لوگوں پر کیا جاتا تھا جو ایک خاص رنگ کے ہوں خالص زبان بولتے ہوں اور خاص نسل سے تعلق رکھتے ہوں اور اس بنا پر ایک قوم یا ایک نیشن کہلاتے ہوں۔ لہٰذا یسی صورت کا اصلی نصب العین قومیت یا وطنیت یا نیشنلزم تھا موجودہ دور میں انسان کے سیاسی نصب العین نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور وہ فلسفوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں جو کسی خاص خطہ زمین سے متعلق نہیں ہوتے مثلاً اشتراکیت اور جمہوریت اب سیاسی یا سماجی نظامات نہیں بلکہ پوری زندگی کے فلسفے شمار ہوتے ہیں اس لحاظ سے جدید ریاستیں آئندہ کی عالم گیر ریاست سے بہت قریب آ گئی ہیں۔ کیونکہ وہ ریاست بھی ایک فلسفہ پر قائم ہو گی جو انسانی خودی یا روح کا فلسفہ ہو گا۔
جماعت بندی خودی کا وصف ہے
افسوس ہے کہ ان فلسفیوں میں سے کسی نے بھی اس حقیقت کی طرف توجہ نہیں کی کہ معاہدے فقط انسانوںمیں ہوتے ہیں ۔ لیکن جماعت بندی اور تنظیم کا وصف شروع ہی سے زندگی کے ساتھ چلا آتا ہے۔ زندگی کی مادی سطح پر جب ہم زندگی کے سب سے پہلے اہم مظہر یعنی جوہر یا ایٹم کو دیکھیں تو وہ بھی جماعت بندی اور تنظیم کا ایک حیرت انگیز نمونہ نظر آتا ہے۔ اور اس طرح سے جماعت بندی کا وصف ایک سالمہ میں ایک قلم یا کرسٹل می‘ برف کے ایک گالے میں اوراجرام فلکی کے نظامات میں بھی کام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم مادی سطح زندگی سے اوپر زندگی کی حیاتیاتی سطح پر آئیں تو وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نوع حیوانات کا وصف کا اظہر کرتی ہے جوہر نوع کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ ایک طرح کی کشش رکتے ہیں جسے ماہرین نفسیات نے جبلت اجتماعی کا نامدیا ہے۔ اس کشش کی وجہ سے ہو ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بھی وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو وہ ایک منظم جماعت بن جاتے ہیں اور اس طرح سے عمل کرتے ہیں کہ گویا وہ ایک کل کے اجزا ہیں مثلاً پرندوں کی ڈاروں میں اور ہرنوں گرخروں ہاتھیوں زیبروں اور جرفوں ک گلوں میں سب سے بڑا اور سب سے زیادہ شاندار پرندہ یا حیوان قائدبنا لیا جاتا ہے جب تنظیم اورجماعت بندی کا یہ رجحان پوری طرح سے آزاد اور ترقی یافتہ ہو اوردوسری جبلتوں کی مزاحمت کے بغیراپنا اظہار پا رہا ہو تو جماعت کا کردار ایسا منظم ہوتا ہے کہ گویا وہ ایک جسم واحد ہے اور جماعت کیافراد وہ خلیات ہیں جو اس جسم کی تشکیل کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ رجحان تمام انواع حیوانات میں پایاجاتا تاہم اب ت یہ صرف چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں جو اس لحاظ سے دوسری تمام انواع و اقسام میں زیادہ ترقی یافت ہیں۔ اپنے کمال کو پہنچا ہے۔ چیونٹیوں کے ایک گھر میں ہزاروں چیونٹیاں ہوتی ہیں تاہم وہ ایسی ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتی ہیں کہ ہمیں ان کے گھر کو ایک تن واحد مجھنا چاہیے اوراسی طرح سے شہد ک مکھیوں کا ایک چھتہ بھی جسم واحد ہے اور جس کے خلیات آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ الگ الگ ہوتے ہیں اور یہ خلیات مکھیاں ہیں چھتہ کی تمام مکھیاں رانی پر جان فداکرتی ہیں شہد کی مکھیوں کی حیرت انگیزجماعتی تنظیم بڑی وضاحت کے ساتھ اقبال نے اس نظری کی تائید کرتی ہے کہ جماعت بندی جسے اقبال انجمن آرائی کہتا ہے خودی کی فطرت میں ہے ارو انسان کے اندر بھی اپنے اس کمال کو پہنچ سکتی ہے جو ہمیں اس وقت شہد کی مکھیوں کی زندگی میں نظر آتاہے کیونکہ ا سکا یہ کمال بھی خودی کی فطرت کے اندر بالقوہ موجود ہے ورنہ کہیں بھی اظہار نہیں پا سکتا۔
اب تمام انواع حیاتیات کا ارتقا موقوف ہو چکا ہے۔ اور خودی کا آئندہ سارا ارتقا صرف نو ع انسانی کی راہ سے ہونے والا ہے۔ کیونکہ نوع انسانی ہی اپنی آرزوئے حسن کی وجہ سے اس قابل ہے کہ خودی کے مخفی کمالات اور ا سکی پوشیدہ ممکنات کا مکمل اظہار کر سکے لہٰذا ہم آئندہ کی عالمگیر ریاست کے اندر جو خدا کے نصب العین پر قائم ہو گی حضرت انسان کی جماعتی تنظیم کے اس کمال کا نظارہ کر سکیںگے۔ آئندہ کی عالمگیر ریاست کی جماعتی تنظیم اورشہد کی مکھیوں کی جماعتی تنظیم مں فرق صرف یہ رہے گا کہ شہد کی مکھیوں کا مکمل صبط ارو نظم ان کی جبلتوں کے ماتحت رونما ہے۔ جن میں کوئی لچک یا تبدیلی ممکن نہیںہوتی اورمستقبل کے اندر انسانی افراد کامکمل ضبط اور نظم ان کے اپنے ارادہ اور اختیار سے ظہور پذیر ہو گا اور ا س سے کسی قسم کا انحراف ان کی اپنی تربیت یافتہ محبت کے لیے ناگوار ہو گا لیکن یہ صورتحال اس وقت پیدا ہو گی جب انسان اپنے ارتقاء کی اس انتہا تک پہنچ جائے گا جہاں خودی کی تمام صفات اور خصوصیات اپنی پوری ہم آہنگی اور دلکشی کے سات جلوہ افروز ہو گی۔
شہد کی مکھیوں کا چھتہ اس جماعتی تنظیم کا عکس ہونے کی وجہ سے خودی کی فطرت میں مضمر ہے اس با ت پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ خودی فطرت کس قسم کی ریاست کا تقاضا کرتی ہے۔ اور آئندہ کی آخری اور عالمگیر ریاست جو خودی کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرے گی اور اس کی تمام ممکنات کو آشکار کرے گی کس نوعیت کی ہو گی ظاہر ہے کہ شہد کا چھتہ ایک ایسی ریاست ہے جس میں سارا کام صرف ایک فرد کی مرضی کے مطابق انجام پاتا ہے۔ اور یہ فرد رانی ہ۔ رانی کو ریاست کے تمام افراد بالتفاق اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔ اور س کے ہر حک کو بلا چون و چرا قبول کر لیتے ہیں اور ان معنوں میں یہ قائد ایک مکمل ڈکٹیٹر ہے تاہم وہ کوئی ایسا ڈکٹیٹر نہیں جو اپنی رعایات کے کسی ایک فرد کی خواہشات کو بھی نظر انداز کر دے یا ان کے خلاف ہر حالت میں اپنی مرضی منواتاہو اورجوجی میں آئے کر جاتا ہو خواہ نتائج کچھ ہوں بلکہ وہ ایسا ڈکٹیٹر ہے جس کی ہر بات وہی ہوتی ہے جو ریاست کے ہر فرد کی مرضی ہوتی ہے جو ہمیشہ اسی بات کو پسند یاناپسند کرتاہے جسے ریاست کا ہر فرد پسند یا ناپسند کرتا ہے۔ چھتہ ایک ایسی ریاست ہے جس میں حاکم اور محکوم کی مرضی ہمیشہ ایک ہوتی ہے اور ان میں کبھی تضاد پیدا نہیںہوتا اس لحاظ سے جمہوریت کی یہ تعریف اس پر صادق آتی ہے۔ کہ وہ عوام کی حکومت ہوتی ہے جو عوام کے لے ہوتی ہے اور جسے عوام ہی چلاتے ہیں ایک مکمل ڈکٹیٹر شب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل جمہوریت بھی ہے۔ لیکن وہ عصر حاضڑ کی معروف جمہوریت نہیں جس میں ہر مسئلہ پر ووٹ لیے جائیں اور جن میں اکاون فیصد اکثریت کا راج ہے بلکہ وہ اقلیت اور اکثریت کے جھگڑوں سے بے نیا ز ہے۔ اور اس میں اقلیت نہ موجود ہے اورنہ ہو سکتی ہے۔
مستقبل کی عالمگیر ریاست میں حاکم اور محکوم کی ہم آہنگی
مستقبل کی عالمگیر ریاست بھی حاکم اور محکوم کی مرضیوں کی مکمل موافقت کی وجہ سے اسی طرح کی ایک مکمل ڈکٹیٹر شپ بھی ہو گی اور ایک مکمل جمہوریت بھی…لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ریاست میں ڈکٹیٹر کی مرضی کے ساتھ عوام کے ہر ایک فرد کی اپنی مرضی کی مکمل موافقت کیونکر ممکن ہو گی اور اس سوال کا جواب ہمیں اس حقیقت سے ملتا ہے کہ فطرت انسانی یا خودی یا روح ہر فرد انسانی میں ایک ہی ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے یہ فطرت انسانی یا خودی یا روح ہمارے تمام اچھے اور برے کاموں کا سرچشمہ ہے ظاہر ہے کہ اگر ہم اپنی فطرت کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیں اور اس کے مطابق کام کرتے رہتے ہیں تو ہمارے سامنے کام اچھے اور درست ہوں گے ارو اگرچہ غلطی کے راسطے بہت سے ہیں تاکہ درستی کاراستہ سب کے لیے ایک ہی ہے۔ انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے جب کہ اس پر کسی چیز کے اوصاف و خواص کا علم واضح ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس کا انکار نہیںکرتا بلکہ اسے درست تسلیم کرنے کے لیے اپنے آپ مجبور پاتا ہے۔ اشیاء کے اوصاف و خواص کا ایسا واضح علم سائنسی علم ہے یہی وجہ ہے کہ سائنسی علم کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں وہ ہر ملک میں ایک ہے خواہ کسی بھی ملک سے آیا ہو۔ اور ہر سائنس دان خواہ وہ کسی بی مذہب یا قوم کا ہو اس سے متفق ہے مثلاً اس وقت ایٹم کے اوصاف و خواص کا علم نہایت واضح ہے۔ نتیجہ یہ ہے ک ہر ملک خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب میں اپنے ہاں ایٹمی توانائی پیدا کرنے یا ایٹم بم بنانے کے لیے بلا چوں و چرا صحیح تسلیم کرتاہے اور اس سے استفاد ہ کرتا ہے۔ اب فرض کیجیے کہ کسی ملکم میں فطرت انسانی کا علم سائنسی علم کی سطح پر آ جاتا ہے ظاہر ہے کہ اس صورت میں اس کے متعلق تمام اختلافات ختم ہوجائیں گے اگر اس ملک میں عتعلیم کے ذریعہ سے اس علم کو عام کردیاجائے تو ہرشخص کو واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ا س کی خودی یا روح کے اوصاف کیا ہیں اور زندگی کے مختلف مواقع اور حالات میں ان کے مقتضیات اور مطالبات کیا ہیں اور وہ اس سے اور اس کی قوم سے کس قسم کا عمل چاہتے ہیں اور کس قسم کا عمل نہیں چاہتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں اس ملک کے اندر حاکم اور اشخاص محکوم کی مرضیوںمیں سے ہر بات کے لیے موافقت پیدا ہو جائے گی اور جون جوں خودی کا علم ترقی کرتا جائے گا یہ موافقت بھی ترقی کرتی جائے گی یہاں تک کہ اپنے اس کمال کو پہنچ جائے گی کہ جو خودی کی فطرت میں بالقوہ موجود ہے اور جس کا ایک ابتدائی مظاہرہ ہم شہد کی مکھیوں کی حیرت انگیز تنظیم میں دیکھتے ہیں چونکہ خودی یا فطرت انسانی کے صحیح علم کے بغیر انسان نہیں جان سکتا کہ اسے کون سا کام کرنا چاہیے اورکون سا نہیں کرنا چاہیے کون سا کام سا کے لیے خطرناک ہوتاہے اور کون سا نفع بخش لہٰذا خدا نے جو انسان کا خالق ہے انسان کو ا س کی بہتری کے لیے اس کی فطرت کا ضروری اور بنیادی علم جسے دین کہا جاتا ہے اپنی رحمت کے تقاضا سے رحمتہ اللعالمینؐ کے ذریعہ سے بہم پہنچایا ہے ۔ اور کہہ دیا ہے کہ اس علم کے مطابق کام کرتے رہو گے تو ہر غلطی اور پریشانی سے محفوظ رہو گے۔ چنانچہ حضورؐ کو ارشاد ہوا تھا کہ دین پر یکسوئی سے قائم رہیے اور یہ انسان کی وہ فطرت ے جس پر خدا نے تمام انسانوں کو پیدا کیا۔ ار خدا کی یہ تخلیق غیر مبد ل ہے۔
فاقم وجھک للذین حنیفا فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ (۳۰:۳(
لیکن خودی کا بنیادی اور ضڑوری علم جونبوت یا خدا کے قول کے ذریعہ سے انسان کو حاصل ہوتاہے اپنی روشنی کی مدد سے مزید ترقی کرتا رہتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کا علم درحقیقت اس بات کا علم ہے کہ خود ی کیا چاہتی ہے اور جو کچھ چاہتی ہے کیوں چاہتی ہے اور اس علم کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ خودی خدا کو چاہتی ہے اور جو ایسی ایسی صفات کا مالک ہونا چاہیے کہ تاکہ خودی اس س مطمئن نہ ہو سکے لہٰذا خودی کا علم خدا کا علم ہے اور خدا کا علم خودی کا علم ہے۔ لیکن خدا کا علم خڈا یک قول سے نہیں بلکہ خدا کے فعل سے بھی حاصل ہوتا ہے اور خدا کا فعل قدرت اور اس کے مادی حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر ہیں جن کو قرآن حکیم نے خدا کی آیات نفس و آفاق کا نام دیا ہے اور چونکہ مادی اور حیاتیاتی مظاہر قدرت خارج کی دنیا یعنی آفاق سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ان آیات کو آفاق کہا گیا ہے اور چونکہ نفسیاتی مظاہر قدرت انسان کے ذہن سے تعلق رکھتے ہیں ان کوا ٓیات انفس کہا گیا ہے چونکہ ان مظاہر کا علم بڑھتا جا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا علم بھی جو دوسرے پہلو سے خودی کا اور خدا کے قول کا علم بھی ہے برابر بڑھتا جا رہاہے ضروری بات ہے کہ علم کی اس ترقی سے ایسا قوت آ جائے جب خودی کا علم سائنسی سطح پر نمودار ہو یعنی ناقابل انکار حد تک واضح ہو جائے علمی ارتقا کے اس مرحلہ کی پیش گوئی قرآن حکیم میں موجود ہے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ عنقریب ہم لوگوں کو انفس آفاق کے اندر اپنے نشانات دکھائیں گے جن سے یہ واضح ہو جائے گا کہ قرآن خدا کی سچی تعلیم ہے۔
سنریھم ایتنا فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق (۵۳: ۴۱)
علمی ارتقا کا یہ مرحلہ اقبال کے فلسفہ خودی کی صورت میں اس وقت پہنچ چکا ہے ۔ لیکن یہ حقیقت پوری دنیا کے لیے اس وقت آشکا رہو گی جب نوع انسانی مادی حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر قدرت کے علم کے ساتھ خدا کے عقیدہ کو ملحق کر ے گی اور سائنسی حقائق اور خدا کے عقیدہ کا باہمی الحاق کائنات کے ارتقا کی ایک ضروری منزل ہے جو آ کر رہے گی۔