آرٹ کی تاثیر کا منبع
آرٹ یا ہنر کی ساری مشکلوں اور کوتاہیوں کا سبب سمجھنے کے لئے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ جب ایک نے نواز اپنی سے اثر مے ڈوبی ہوئی مست کرنے والی سریں نکالتا ہے تو نے کی آواز میں شراب کا سرور کہاں سے آ جاتا ہے۔ یقینا اس کا منبع نے کی سوکھی ہوئی لکڑی نہیں بلکہ نے نواز کا دل ہے تو پھر یہ دل کیا چیز ہے۔ اس میں مست کرنے کی خاصیت اور اثر پیدا کرنے کی طاقت کہاں سے آئی ہے۔ یہی دل انسان کی خودی ہے جو اصل انسان ہے اور اس دل میں فقط ایک ہی آرزو ہے اور وہ آرزوئے حسن ہے جو صرف خدا کی محبت سے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن ہوتی ہے۔ عبادت، علم، اخلاق اور ہنر ایسے اعمال انسان کی اسی آرزوئے حسن کے پہلو ہیں اور اسی کی اعانت کے لئے وجود میں آتے ہیں۔ غلط اور ناقص اور نازیبا تصورات زیبائی کا لباس اوڑھ کر خدا کی محبت کے جذبہ کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں لیکن اس کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ غیر اللہ سے کٹ کر بالکل خدا کے لئے ہو جائے او رجب یہ کلیتاً خدا کے لئے ہو جاتا ہے تو انسان کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور وہ سچ مچ صاحب دل بن جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صاحب دل ایک نگاہ سے شہنشاہ ایران کا تختہ الٹ سکتا ہے اور اس کی نگاہ میں روم اور شام اور اس کی سلطنتوں کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ جب دل خدا کی محبت سے زندہ ہوں تو قوم بھی زندہ ہوتی ہے اور جب دلوں سے خدا کی محبت رخصت ہو جائے اور دل مردہ ہو جائے تو قوم بھی مر جاتی ہے۔ دل کی واردات پے بہ پے بدلتی رہتی ہیں کیونکہ اس میں جلال بھی ہے اور جمال بھی اس کی محبت کو رکاوٹوں کا سامنا ہونے لگے تو یہ جلالی صفات کا مظاہرہ کرتا ہے جس سے محبت کی رکاوٹوں کو فنا کر دیتا ہے اور جب اس کی محبت کو موافق حالات پیش آئیں تو یہ حریر و پرنیاں کی طرح نرم ہو جاتا ہے اور سرا سر محبت نظر آنے لگتا ہے۔ اگر ایک فنکار کی ناقص ناتمام اور راہ گم کردہ محبت بھی اس کی نے کے نالوں میں کچھ اثر پیدا کر سکتی ہے تو پھر خود ہی سمجھ لیجئے کہ اگر اس کی محبت اپنے حقیقی محبوب کے لئے ہو گی اور درجہ کمال پر ہو گی تو اس کے نالہ نے میں تاثیر اور مستی کس درجہ کی ہو گی اور اس کا فن عمدگی کے کس مقام پر ہو گا۔ اگر فنکار یہ راز پا جائے تو اس کو فن کی تمام مشکلات کا حل یہیں سے ملے گا۔ اقبال اسی مضمون کو شعر میں بیان کرتا ہے۔
آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے
اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے
دل کیا ہے اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے
کیوں اس کی اک نگاہ الٹی ہے تخت کے
کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات
کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے
کیا بات ہے کہ صاحب دل کی نگاہ میں،
مچتی نہیں سلطنت روم و شام و رے
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے،