سلاوی ژیژک کے تصورات اور اسلامی نقطۂ نظر

 سلاوی ژیژک (Slavoj Žižek) ایک مشہور فلسفی، ثقافتی نقاد، اور مارکسی مفکر ہیں۔ وہ 21ویں صدی کے اہم ترین فکری شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں، اور ان کی تحریریں اور تقریریں عالمی سطح پر علمی و فکری حلقوں میں اہمیت رکھتی ہیں۔ ژیژک کا تعلق سلووینیا سے ہے، اور ان کی شناخت مارکسی نظریات کے تناظر میں ثقافت، سیاست، نفسیات، اور فلسفہ کے امتزاج سے بنتی ہے۔

ژیژک (Slavoj Žižek)

ژیژک کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لاسک (Lacanian) نفسیات، ہگلی فلسفہ، اور مارکسزم کے مفاہیم کو آپس میں جوڑ کر موجودہ عالمی مسائل، سیاست، اور ثقافت پر گہری تنقید کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب نہ صرف مفہوم کے لحاظ سے پیچیدہ ہے بلکہ وہ اکثر ثقافتی مثالوں، فلموں، اور ادبیات کو اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ژیژک کی تحریریں اور خطابات اکثر عوامی سطح پر مختلف اہم مسائل جیسے کمیونزم، سرمایہ داری، گلوبلائزیشن، اور ثقافتی پس منظر پر روشنی ڈالتی ہیں۔

ژیژک نے اپنے کام میں مابعد جدیدیت کی مخالفت کی ہے اور مادی حقیقت اور طبقاتی جدوجہد پر زور دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ دور میں، جہاں فرد کی آزادی اور خودمختاری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، وہاں سرمایہ داری اور گلوبلائزیشن نے انسانی زندگی کو ایک نئے نوعیت کے استحصال کا شکار بنا دیا ہے۔

اہم تصنیفات:

  • "The Sublime Object of Ideology"

  • "Violence: Six Sideways Reflections"

  • "Living in the End Times"

ژیژک کو ایک فکری چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو موجودہ دنیا کے پیچیدہ مسائل اور تضادات کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ فلسفے، نفسیات، اور سماجیات کو جوڑ کر عالمی سیاست اور معاشرتی حقیقتوں کی پرتوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 ذیل میں سلاوی ژیژک (Slavoj Žižek) کے بارے میں  ایک خیالی فکری مکالمہ ترتیب دیا جا رہا ہے،  یہ مکالمہ فکری، فلسفیانہ، اور تہذیبی سوالات پر مبنی ہے۔ 

عنوان : سرمایہ داری، تہذیب اور مستقبل

سوال: ژیژک صاحب، آپ کو ایک "مارکسی تہذیبی نقاد" کہا جاتا ہے، آپ کے نزدیک سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خامی کیا ہے؟
سلاوی ژیژک:
سرمایہ داری محض ایک معاشی نظام نہیں بلکہ یہ انسانی تعلقات، اخلاقیات اور خوابوں کی تشکیل نو کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ ہر چیز کو بازار میں بیچنے کے قابل بناتا ہے—even our desires. اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسان "آزاد" نظر آتا ہے، مگر درحقیقت وہ نظام کی سب سے زیادہ جکڑ میں ہوتا ہے۔

سوال: آپ کے مطابق موجودہ عالمی ثقافت میں "نفاق" یا "منافقت" کی ایک مستقل کیفیت موجود ہے۔ اس کی وضاحت کریں۔
سلاوی ژیژک:
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں آزادی، اخلاق، اور انصاف کی بات ہر حکومت اور ادارہ کرتا ہے، مگر عملی طور پر وہ انہی اقدار کے خلاف کام کر رہے ہوتے ہیں۔ میں اسے "ideological cynicism" کہتا ہوں، یعنی انسان جانتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے، مگر پھر بھی وہ اسی نظام کو قبول کرتا ہے۔ یہ جدید منافقت ہے۔

سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مذہب کا کردار ختم ہو چکا ہے یا یہ سرمایہ دارانہ نظام کا محض ایک اوزار بن چکا ہے؟
سلاوی ژیژک:
میں مذہب کو مکمل طور پر رد نہیں کرتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب بھی سرمایہ دارانہ نظام کے ماتحت آ چکا ہے، جہاں روحانیت ایک پروڈکٹ بن گئی ہے۔ لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں کہ مذہب میں اب بھی بغاوت اور آزادی کی چنگاری باقی ہے، خاص طور پر جب وہ ظلم اور جبر کے خلاف کھڑا ہو۔

سوال: آپ Lacan، Hegel اور Marx کے نظریات کو جوڑ کر موجودہ انسان کی نفسیاتی اور سماجی حالت کو بیان کرتے ہیں۔ ذرا وضاحت کریں کہ یہ کیسے جڑا ہوا ہے؟
سلاوی ژیژک:
Lacan ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری خواہشات دوسروں کی نگاہ میں تشکیل پاتی ہیں، Marx بتاتے ہیں کہ نظام ان خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے، اور Hegel ہمیں دکھاتے ہیں کہ تاریخ ایک جدلیاتی عمل ہے۔ ان تینوں کو جوڑ کر میں کہتا ہوں کہ آج کا انسان ایک "confused subject" ہے جو بظاہر آزاد ہے، مگر اندر سے مکمل طور پر قابو میں ہے۔

سوال: آپ فلسطین، یوکرین، افغانستان اور کشمیر جیسے تنازعات پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
سلاوی ژیژک:
یہ تمام تنازعات اس عالمی طاقت کی علامت ہیں جو اپنے مفادات کے لیے نظریات کا استعمال کرتی ہے۔ فلسطین ایک ایسا زخم ہے جو عالمی ضمیر پر طمانچہ ہے۔ یوکرین میں جو ہو رہا ہے، وہ سرد جنگ کے بعد کے عالمی نظام کی ناکامی ہے۔ کشمیر ہو یا افغانستان، یہ سب وہ خطے ہیں جہاں انسانی المیے کو "جیو پولیٹکس" کا نام دے کر نظرانداز کیا گیا۔

سوال: آپ مصنوعی ذہانت (AI) جیسے ٹیکنالوجی کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
سلاوی ژیژک:
AI دراصل سرمایہ داری کا اگلا ہتھیار ہے—یہ ہمیں یہ یقین دلاتی ہے کہ ہم زیادہ آزاد ہو رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں ہم زیادہ نگرانی اور قابو میں جا رہے ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ AI کیا کر سکتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم اسے کس نظریے کے تحت استعمال کریں گے؟ اگر اس کا تعلق صرف منافع سے ہو گا، تو یہ انسان کو "ڈیٹا" کے خانے میں بدل دے گا۔

سوال: آپ کے نزدیک موجودہ تعلیم کا بحران کیا ہے؟
سلاوی ژیژک:
ہم نے تعلیم کو ایک "پیداواری عمل" بنا دیا ہے، جہاں طالبعلم "پروڈکٹ" ہوتا ہے۔ ہم تخلیق، سوال، اور مزاحمت سکھانے کی بجائے اطاعت، کامیابی، اور کیریئر کی دوڑ سکھا رہے ہیں۔ یہ تعلیم نہیں، تربیت برائے سرمائے ہے۔

سوال: آپ کے نزدیک دنیا کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے کیا قدم ہونا چاہیے؟
سلاوی ژیژک:
سب سے پہلا قدم ہے: "سوچنا سیکھو۔" سچ مچ سوچنا، اپنی خواہشات، اپنے نظریات، اور اپنے خوف پر سوال کرنا۔ جب ہم اپنے یقین پر شک کرتے ہیں تو ہم حقیقی تبدیلی کی طرف بڑھتے ہیں۔

سلاوی ژیژک کا یہ مکالمہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ تہذیب، سیاست، اور معیشت کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے تضادات کو سمجھنے کے لیے صرف علم نہیں بلکہ جراتِ فکر درکار ہے۔

ذیل میں سلاوی ژیژک کے فکری مکالمے کے پس منظر میں اسلامی تناظر اور قرآنی آیات کی روشنی میں ایک جامع اور متوازن تبصرہ پیش کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد ان کے خیالات کا گہرائی سے جائزہ لینا ہے، نہ کہ جذباتی یا ردِ عمل پر مبنی تنقید:

 سلاوی ژیژک کے تصورات اور اسلامی نقطۂ نظر

سلاوی ژیژک ایک نڈر، پیچیدہ اور تجزیاتی ذہن کے مالک دانشور ہیں، جنہوں نے مارکسزم، لکانین نفسیات، اور ہیگلی جدلیات کے امتزاج سے دنیا کے سیاسی، ثقافتی، اور نفسیاتی نظام پر گہری تنقید کی ہے۔ ان کے بعض مشاہدات عالمی ناانصافی اور سرمایہ داری کے ظلم پر بے حد بصیرت افروز اور قابلِ قدر ہیں، خاص طور پر جب وہ فلسطین، کشمیر، اور افغانستان جیسے مظلوم خطوں کے بارے میں اپنی فکر ظاہر کرتے ہیں۔

1. انسان کی فطرت اور آزادی کا تصور

ژیژک انسان کو ایک "confused subject" قرار دیتے ہیں، جو بظاہر آزاد ہے مگر درحقیقت ایک نظام کا غلام ہے۔ قرآن بھی ہمیں یہی شعور دیتا ہے کہ انسان اگر اللہ کی بندگی سے نکل کر انسانوں، خواہشات، یا نظاموں کی غلامی میں چلا جائے، تو وہ حقیقی آزادی سے محروم ہو جاتا ہے:

"أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ"
"کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا؟"
(سورۃ الجاثیہ: 23)

ژیژک کی فکر یہاں قرآن سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے، کہ انسان اکثر لاشعوری طور پر ان قوتوں کا غلام بن جاتا ہے جنہیں وہ آزادی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

2. مذہب پر ان کا نقطۂ نظر

ژیژک مذہب کو سرمایہ داری کا آلہ سمجھتے ہیں، مگر ساتھ یہ بھی مانتے ہیں کہ مذہب میں بغاوت، مزاحمت، اور اخلاقی طاقت کا پہلو موجود ہے۔ یہاں ان کی تنقید بعض پہلوؤں سے درست ہے، کیونکہ بہت سے ادارے اور افراد مذہب کو اقتدار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ مگر اسلام محض ایک روحانی نظام نہیں، بلکہ ایک عقلی، اخلاقی اور سماجی نظام ہے جو انصاف، رحم، اور علم پر قائم ہے:

"إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ"
"بیشک اللہ انصاف، احسان، اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے"
(سورۃ النحل: 90)

اسلام کا مذہبی تصور، انسان کو نہ صرف خدا سے جوڑتا ہے بلکہ ظلم و جبر کے خلاف کھڑا بھی کرتا ہے۔ اس لیے ژیژک کا یہ تصور کہ مذہب میں مزاحمت کا پہلو ہے، قرآن کی تعلیمات سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔

 3. سرمایہ داری اور استحصال پر تنقید

ژیژک کی سرمایہ داری پر تنقید قرآن کی اس تعلیم سے قریب ہے کہ معاشرہ استحصال، ذخیرہ اندوزی، سود، اور ظلم سے پاک ہونا چاہیے:

"وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ"
"خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے"
(سورۃ المطففین: 1)

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً"
"اے ایمان والو! دوگنا چوگنا سود نہ کھاؤ"
(سورۃ آل عمران: 130)

یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن بھی ایک انصاف پر مبنی معاشی نظام چاہتا ہے، جہاں انسانی وقار کو سرمایہ سے بالا رکھا جائے۔

4. مصنوعی ذہانت (AI) پر خدشات

ژیژک کا یہ نقطہ کہ AI محض سہولت نہیں بلکہ ایک نیا ذریعۂ تسلط بن سکتا ہے، نہایت بامعنی ہے۔ قرآن ہمیں خبردار کرتا ہے کہ انسان اپنی تخلیقی طاقت کو فساد اور ظلم کے لیے استعمال نہ کرے:

"يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ"
"وہ زمین میں فساد مچاتے ہیں، اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا"
(سورۃ المائدہ: 64)

لہٰذا AI سمیت ہر سائنسی ترقی اخلاق، عدل، اور ذمہ داری کے ساتھ مشروط ہونی چاہیے، جیسا کہ اسلام کی تعلیم ہے۔

 5. تعلیم کا بحران

ژیژک کی یہ شکایت کہ تعلیم اب صرف کیریئر بنانے کا ذریعہ بن گئی ہے، بجا ہے۔ قرآن علم کو ہدایت، اخلاق، اور معرفتِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیتا ہے، نہ کہ محض دنیا کمانے کا ہنر:

"قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ"
"کہہ دو: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟"
(سورۃ الزمر: 9)

سلاوی ژیژک کی فکری گہرائی اور موجودہ نظام پر تنقید، کئی جگہ قرآن کی روح سے قریب تر محسوس ہوتی ہے، مگر چونکہ ان کی فکر وحی، رسالت، اور آخرت کے تصور سے خالی ہے، اس لیے ان کے بعض تجزیے انسان کو محض نفسیاتی و سماجی مخلوق سمجھ کر ختم کر دیتے ہیں۔

اسلام ہمیں نہ صرف سماجی انصاف کی طرف بلاتا ہے بلکہ انسان کی روحانی تکمیل، ابدی مقصد، اور خدائی بندگی کا شعور بھی دیتا ہے:

"ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ"
"پھر ہم نے تمہیں دین کے ایک واضح راستے پر قائم کیا، سو تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے"
(سورۃ الجاثیہ: 18)

(احمد طیب )

۹ اپریل ۲۰۲۵

واہ کینٹ