منکر خدا کا آرٹ، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

منکر خدا کا آرٹ
جو شخص اپنی آرزوئے حسن کی تشفی کے لئے خدا کے تصور سے کام نہیں لے سکتا اس لئے کہ وہ خدا کا منکر یا کافر ہے یا خدا کے تصور سے آشنا نہیں اس کا آرٹ اسی گھٹیا قسم کا آرٹ ہو سکتا ہے اگرچہ وہ دیکھنے والوں کے لئے فردوس نظر ہو اور وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ اس آرٹ نے ان پر جنت کا ایک دروازہ کھول دیاہے اور خدا کی قدرت کے راز ہائے سربستہ ان پر آشکار کر دئیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خودی کی تگ و دو سے مادی طور پر ترقی یافتہ بن جانا یا اس جہان سحر و شام کے ادوار میں سے دور جدید کا انسان بن جانا ایسے کارہائے نمایاں بھی حق و باطل اور زشت و زیبا کی اس حریفانہ کشمکش سے جو انسانی زندگی کی ایک خصوصیت کے طور پر انسان کے ضمیر کے اندر اور باہر جاری ہے، انسان کو نجات نہیں دلا سکتے۔ اس سے نجات پانے کا طریق صرف یہ ہے کہ انسان خدا پر ایمان لائے اور خدا کی محبت کو ترقی دے کر کمال پر پہنچائے۔ اس زمانہ کے کافر نے ایک نئی قسم کی بت پرستی کو جس میں لات و منات کی بجائے وطن اور قوم اور رنگ اور نسل کو اصنام بنایا جاتا ہے اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ خدا سے بیگانگی کے اس زمانہ میں اس کافر سے ہم اس سچے آرٹ کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جو صرف عشق حقیقی سے زندگی پانے والوں کا ہی امتیاز ہے، وہ مر چکا ہے اور یہی اس کا آرٹ جو غیر حسن کو حسن، موت کو حیات اور قبر کی تاریک رات کو زندگی کی روشنی سمجھتا ہے اس کا جنازہ پڑھا رہا ہے۔
ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر
فاش ہے چشم تماشا پہ نہانخانہ ذات
نہ خودی ہے نہ جہان سحر و شام کے دور
زندگی کی حریفانہ کشاکش سے نجات
آہ وہ کافر بے چارہ کہ ہیں اس کے صنم
عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات
تو ہے میت! یہ ہنر تیرے جنازے کا امام
نظر آئی جسے مرقد کے شبستان میں حیات
انسان کی تمام اعلیٰ سرگرمیوں کا مقصد خودی کی حفاظت اور تربیت ہے
سرود اور شعر اور ہنر کی دوسری قسمیں ہی نہیں بلکہ ادب اور دین اور سیاست بھی انسان کے ایسے اعمال ہیں جن کا منبع بندہ خاکی کا دل یا اس کی آرزوئے حسن ہے۔ یہ اعلیٰ قسم کے اعمال انسان کا خاص امتیاز ہیں اور حیوان کے حصہ میں نہیں آئے۔ ان کا مقصد خدا کی محبت کے اسی جذبہ کی تشفی اور خدا اور اعانت ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات اور خدا کا خلیفہ اور ہمراز اور ہم کار بناتا ہے۔ ان اعمال کے نتائج اور فوائد میں سے ہ رایک اپنی قدر و قیمت میں ایک نا یاب اور قیمتی موتی کی طرح ہے۔ لہٰذا اس میں ذرا شک نہیں کہ ان اعمال کا مقام ستاروں سے بھی بلند تر ہے۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی خودی کی (یعنی خودی کی محبت کی جو فقط خدا کے لئے ہوتی ہے) حفاظت اور تربیت نہ کر سکے تو محض بے سود اور بیکار ہے کیونکہ اس سے زندگی کے مقصد کو اور اس عمل کے اپنے مقصد کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور اگر وہ عمل خودی کی حفاظت اور تربیت کرنے والا ہے تو عین زندگی ہے۔ اس دنیا میں جن قوموں نے اپنے دین اور اپنے ادب کو خودی کی تربیت اور ترقی کے مقصد سے بے تعلق کر لیا تھا وہ ذلیل ہو کر رہی ہیں۔
سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یکدانہ،
ضمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی
بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسوں و افسانہ
ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی،
خودی سے جب ادب و دین ہوئے ہیں بیگانہ
اگر آرٹ میں خودی کی تعمیر یعنی خدا کی محبت کی نشوونما کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو خواہ وہ مصوری ہو یا شاعری ہو یا موسیقی ہو یا گانا وہ افسوسناک ہے۔ انسان کے لئے زندگی خدا کی محبت ہے اور موت خدا سے دوری لیکن افسوس کہ مکتب ہویا مے کدہ (یعنی آرٹ جو حسن کی نمائش سے مست کرتا ہے) اس وقت دونوں بے خدا ہونے کی وجہ سے موت کا درس دے رہے ہیں۔ ہمیں جینا سیکھنا چاہئے اور اصل جینا خودی کا جینا ہے۔ اگر ہماری خودی زندہ ہو جائے تو ہم اس دنیا میں بھی زندہ رہیں گے اور اگلی دنیا میں بھی بدن کی زندگی جو شرر کی طرح ایک لمحہ سے زیادہ نہیں ہوتی ہماری اصل زندگی نہیں۔ انسان کی اصل بدن سے نہیں بلکہ روح سے ہے۔ بدن روح سے ہے، روح بدن سے نہیں۔ زندہ رہنے کے لئے ہمیں وجود یا زندگی کے لوازمات اور مقدمات اور مدارج کو سمجھنا چاہئے۔
اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود
کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر،
وائے صورت گری و شاعری و نالے و سرود
مکتب و میکدہ جز درس بنوں دن نہ دبند

بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود،