ہنر کے کمال کا معیار
ایک فن کار کے متعلق بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اہل نظر ہوتا ہے، حسن کا ذوق رکھتا ہے اور حسن کو غیر حسن سے ممیز کر سکتا ہے۔ لیکن اگر ایک فنکار خود فن کی حقیقت اور اس کے مقصد سے نا آشنا ہو تو ہم اسے اہل نظر کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہنر کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کی سچی محبت کا ایسا سوز پیدا ہو جو اس کو زندہ جاوید بنا دے۔ یہ مقصد اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ ہنر کی تخلیق اس قسم کی ہو کہ وہ خدا کی محبت کی نشوونما کر سکے۔ اگر فنکار غیر حسن کو حسن بنا کر پیش کرے تو اس کا فن بدن کی اس زندگی میں جو شرر کی طرح ایک دو لمحہ کے لئے ہی ہوتی ہے۔ کسی قدر لذت یا سرور کا باعث ہو تو ہو لیکن نہ تو وہ خدا کی محبت کی تربیت کر سکے گا اور نہ ہی روح کی ابدی زندگی اور اس کی محبت کے ابدی سوز کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکے گا۔ لیکن بدن کی اس نفس یا دو نفس کی زندگی کی حقیقت کیا ہے کہ فنکار اپنے فن کو اس کا غلام بنا دے۔ ابرنیساں کا قطرہ اگر کسی صدف میں جا پڑے تو وہ گہر بن جاتا ہے فن کار کا جو ہر وہ قطرہ نیساں ہی سہی جو اس کے شاہکار کے صدف کو حسن کے گوہر تابدار سے پر کرتا ہے لیکن وہ صدف یا وہ گوہر جو قطرہ نیساں کے کمالات کی تخلیق ہونے کے باوجود دریا میں تلاطم پیدا نہ کر سکے دریا کے لئے بے حقیقت ہے۔ اسی طرح سے فن کار وہ شاہکار اور فن کا وہ حسن جو قوم کے اندر کوئی حرکت پیدا نہ کر سکے قوم کے لئے بے معنی اور بے کار ہے۔ باد سحر سے چمن میں پھول کھلتے ہیں اور یہ صحیح ہے کہ شاعر کی شاعری اور گانے والے کا گانا دونوں چمن قوم کے لئے باد سحر کا کام دے سکتے ہیں۔ لیکن وہ باد سحر بے کار ہے جس سے قوم کا گلستان شگفتہ ہونے کی بجائے مرجھا جائے۔ ایک ایسی قوم جو حالت جمود میں ہو جب تک اس کے لئے کسی معجزہ سے فکر و عمل کی نئی راہیں نہ کھل جائیں وہ انسانیت کی منزل مقصود کی طرف حرکت نہیں کر سکتی۔ ہنر ایسا ہونا چاہئے جو عصائے کلیمی کی طرح ہو جس کی ایک ضرب سے بے آب و گیاہ بیابان میں پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے تھے جو ایک معجزہ کا حکم رکھتا ہو اور ایک حیرت انگیز فکری انقلاب سے قوم کو ارتقا کے کھوئے ہوئے راستوں پر ڈال سکتا ہو۔ اقبال کہتا ہے:
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
شاعر کی نو ہو کہ مغنی کا نفس ہو،
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
خطرناک شاعری
اگر شعر خودی کی آرزوئے حسن کے اصل مقصود کو پیش نظر نہ رکھ سکے تو یہ انسانیت کے لئے نہایت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ یہ فن کی اور قسموں کی نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ عوام تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سے تھوڑے خرچ پر اور بار بار استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ اظہار مطلب کے لئے زیادہ موزوں اور موثر ہے۔ انسانی جذبات کو زیادہ آسانی کے ساتھ اپنے ضبط میں لا سکتا ہے اور ہماری روز مرہ کی زندگی سے بآسانی تعلق پیدا کر سکتا ہے اگر شاعر مقصود حیات سے نا آشنا ہو تو پھر وہ زشتی اور نازیبائی کو حسن بنا کر پیش کرتا ہے انسان کے ارتقا کی راہ میں ایک رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے۔ موت کی زندگی اور زندگی کو موت کا رنگ دے کر سامنے لاتا ہے۔ ایسا زہر تقسیم کرتا ہے جو شہد میں حل کیا گیا ہو۔ بعض اوقات ا س کا نقصان حساب باہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ لاتعداد انسانوں کی آرزوئے حسن کی غلط راہوں اور غلط منزلوں کی طرف راہ نمائی کر کے ان کو بڑی بڑی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جن سے وہ مر کر ہی نجات پاتے ہیں۔ ایسے شاعر کا کلام پھول کو تازگی سے اور بلبل کو ذوق پرواز سے محروم کر دیتا ہے۔ گویا اس کے اثر سے نہ حسن میں شوخی باقی رہتی ہے اور نہ عشق میں گرمی۔ انسان خیالات کے بحر بیکراں میں غرق ہو جاتا ہے اور عمل سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اس کا کام شراب کی سی مستی ضرور پیدا کرتا ہے لیکن ہر انسان کو اپنی خودی کی سلامتی کے لئے اس کی چمکتی ہوئی شراب سے بچنا چاہئے۔ جس بدقسمت قوم میں ایسا شاعر پیدا ہو وہ اجل سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔
وائے قومے کز اجل گیرد برات
شاعرش دابوسد از ذوق حیات
خوش نماید زشت را آئینہ اش
در جگر صد نشتر از نوشینہ اش
بوسہ او تازگی از گل برد،
ذوق پرواز از دل بلبل برد
دریم اندیشہ اندازد ترا،
از عمل بیگانی مے سازد ترا
از غم و مینا و جامش الحذر
از مے آئینہ فامش الحذر
مقدس شاعری
اس کے برعکس اگر شعر خودی کی آرزوئے حسن کے مقصود سے آگاہ ہو تو عالم انسانی کے ارتقا کا ایک مفید اور موثر ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسا شعر کہنے والے شاعر کے متعلق اقبال لکھتا ہے کہ اس کا سینہ حسن کی جلوہ گاہ ہوتا ہے جس سے حسن کا نور پھیلتا ہے ۔ وہ اپنے شعر سے جس چیز کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کے حسن میں اضافہ کر دیتاہے۔ قدرت کا حسن بھی اس کے کلام کے جادو سے اور زیادہ دلکش اور محبوب ہو جاتا ہے۔ اس کا فکر بلندی میں چاند اور ستاروں تک پہنچتا ہے وہ زشتی کو جانتا ہی نہیں اور حسن کو پیدا کرتا رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ قافلے اس کی بانگ درا سے اس کے پیچھے اپنی منزلوں کی طرف چل پڑے ہیں۔
سینہ شاعر تجلی راز حسن
خیزد از پہنائے او انوار حسن
از نگاہش خوب گرد و خوب تر
فطرت از افسوں اور محبوب تر
فکر ادبا ماہ و انجم ہم نشین،
زشت را نا آشنا خوب آفریں
کارد انہا از درایش گام زن
درپئے آواز نائیش گام زن
جس طرح سے دل جسم کے اندر احساسات کا مرکز ہوتا ہے۔ شاعر ایک قوم کے لئے جذبات اور احساسات کا مرکز ہوتا ہے۔ وہ اپنی محبت کے سوز سے جو شاعری کی جان ہے۔ ایک نئی دنیا پیدا کرتاہے۔ خدا کی محبت کا سوز کائنات کے ہر ذرہ میں ہے اسی سے پوری کائنات کی تعمیر ہوئی ہے۔ وہ شاعری جو اس سے خالی ہے ایک طرح کا ماتم ہے۔ اگر شعر کا مقصود خدا کی محبت کی بنیاد پر انسانیت کی تعمیر ہو تو وہ نبوت کا وارث ہے۔
شاعر اندر سینہ ملت چو دل
ملتے بے شاعرے انبار گل
سوز و مستی نقشبند عالمے است
شاعری بے سوز و مستی ماتمے است
شعر را مقصود اگر آدم گری است
شاعری ہم وارث پیغمبری است
لہٰذا اقبال شاعر کو دعوت دیتا ہے کہ وہ زندگی کے مقصد کو اپنے ہنر کا معیار قرار دے اگر اس کی شاعری خدا کی محبت کو فروغ دینے کے کام آ رہی ہے تو قابل قدر ہے ورنہ نہیں۔
اے میان کیسرات نقد سخن
بر عیار زندگی او را بزن،
اگر ہنر کار کا ہنر خدا کی محبت کے جذبہ کی عملی تسکین اور تشفی کے لئے کام نہیں آ رہا تو وہ یقینا قوموں کی بربادی کا سبب بنے گا۔ ایسے ہنر سے گریز واجب ہے۔
نہ جدا رہے تو اگر تب و تاب زندگی سے
کہ ہلاکئے امم ہے یہ طریق نے نوازی
غلام اور کافر کا آرٹ
چونکہ آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کی آزادانہ اظہار پر موقوف ہوتا ہے ایک غلام یا ایک ایسا آدمی جس کا تصور حقیقت صحیح نہ ہو، اعلیٰ قسم کا آرٹ پیدا نہیں کر سکتا۔ اکثر اوقات اس کے آرٹ کا مقصد یا فطرت کی نقل ہوتا ہے یا ان افراد کے ذوق کی ترجمانی اور خدمت گزاری جن کو یہ آرٹ محظوظ کرنا چاہتا ہے۔
ایک غلام اپنی پوری آرزوئے حسن کے مطابق ایجاد و تخلیق کی اہلیت سے محروم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی خودی اپنے صحیح تصور حقیقت کے لئے نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کے غلط تصور حقیقت کے لئے سوچنے اور کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کی ایجاد و تخلیق کی قوتیں اپنا آزادانہ اور مکمل اظہار نہیں پا سکتیں۔ اس کا آرٹ جدت کے وصف سے عاری ہوتا ہے۔ آرٹ حسن کے آزادانہ اظہار کا نام ہے چونکہ غلام کا آرٹ حسن کا آزادانہ اظہار نہیں ہوتا لہٰذا وہ سچا آرٹ بھی نہیں ہوتا۔ ایک فن کار اپنے آرٹ میں اپنے آپ کا مکمل آزادانہ اظہار اسی صورت میں کر سکتا ہے جب اس کی خودی ہر قسم کے زشت اور ناقص تصورات حقیقت کے اثر سے آزاد ہو۔ ناقص تصورات حقیقت چونکہ خودی کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتے وہ اس کی آزادی کو سلب کر کے اسے اپنا غلام بنا لیتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں خودی آزادانہ تخلیق کے قابل نہیں رہتی۔ لہٰذا خدا سے کفر اور غلامی دونوں حالتیں اعلیٰ قسم کے آرٹ کے لئے سازگار نہیں۔ بلند ترین سطح کا آرٹ صرف اسی حالت میں ممکن ہے جب فن کار کی خودی ہر قسم کے غلط تصورات حقیقت کے اثر سے مکمل طور پر آزاد ہو۔ خواہ یہ اثر کفر سے پیدا ہو رہا ہو یا غلامی سے۔ غلامی کی حالت میں پیدا ہونے والے فنون لطیفہ کے اندر کئی قسم کی ہلاکتیں مخفی ہوتی ہیں۔ غلامی کے ساحرانہ اثرات کا ذکر کیا جائے۔ غلام کی فنی مخلوقات اس کے دل کی طرح بے نور ہوتی ہیں۔ اس کی سریں اس کے دبے ہوئے دل و دماغ کی طرح پست ہوتی ہیں۔ اس کی نے کی آواز ہی سے پتہ چل جاتاہے کہ وہ غلام ہے اس کا ساز انسانوں کی ایک پوری بستی کے لئے موت کا پیغام ہوتا ہے۔
مرگ ہا اندر فنون بندگی،
من چہ گویم از فسون بندگی
چوں دل او تیرہ سیمائے غلام
پست چوں طبعش نوا ہائے غلام
از نئے او آشکارا راز اد
مرگ یک شہر است اندر ساز او
٭٭٭