کارل مارکس کی عبقریت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

کارل مارکس کی عبقریت
کارل مارکس کے پہلے کے سوشلزم کو خیالی (Utopian) سوشلزم کہا جاتا ہے لیکن جب سے کارل مارکس نے سوشلزم کو ایک فلسفہ کی شکل دی ہے یہ فلسفہ اس کی ناگزیر قدرتی بنیاد نظر آنے لگا ہے اور اس کو سوشلزم سے الگ کرنا ممکن نہیں رہا۔ اگر اسے ایک کیا جائے تو وہ علمی اور عقلی بنیادوں سے محروم ہو کر کمزور اور بے اثر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اب جہاں کہیں سوشلزم کا ذکر آتا ہے وہاں مراد وہی سوشلزم ہوتا ہے جس کا فلسفہ کارل مارکس نے دیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب جب کہ مارکس کے فلسفہ کی بنیاد پر دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتیں وجود میں آ چکی ہیں کوئی سوشلسٹ سوسائٹی ان سلطنتوں سے بے تعلق نہیں رہ سکتی۔ کارل مارکس نے سوشلزم کے ساتھ دہریت کا پیوند نہیں لگایا بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس کی عبقریت نے سوشلزم اور دہریت کے اس قدرتی علمی اور عقلی پیوند کو سمجھا ہے جسے کوئی اور نہیں سمجھ سکا تھا اور یہی وجہ ہے کہ گو مارکس سے پہلے درجنوں سوشلسٹ مصنفین گزرے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سوشلزم کی تحریک کو ایک انقلابی قوت نہ بنا سکا۔ مذہب روح کی پائیدار زندگی پر زور دیتا ہے۔ وہ عیش و عشرت کی زندگی )فقط بدن کی زندگی) کا مخالف اس لئے ہے کہ جس قدر کوئی شخص بدن کی ناپائیدار زندگی میں غرق ہو گا اسی قدر خدا پرستی اور روح کی زندگی سے محروم ہو جائے گا۔ اس کے برعکس یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس قدر کوئی شخص روح کی زندگی اور خدا پرستی کو اہمیت دے گا اسی قدر وہ فقط بدن کی زندگی کو بے حقیقت سمجھے گا۔ لہٰذا روح کو اور خدا کو بھلانا اور کسی (نام نہاد) عقلی استدلال کے بل بوتے پر غیر موجود قرار دینا سوشلزم کی دعوت کو (ناجائز طور پر سہی) وہ ساری اہمیت دے دیتا ہے جو زندگی کے کسی مقصد وحید کو حاصل ہو سکتی ہے اس کے برعکس اگر روح اور خدا کو موجود اور موثر سمجھا جائے تو محض بدن کی زندگی کی اہمیت اور سوشلزم کی دعوت کی قوت دونوں ختم ہو جاتی ہیں۔ سوشلزم کو اپنی معقولیت ثابت کرنے کے لئے دہریت کی ضرورت ہے۔
مصلحت کے ماتحت خواہ کوئی سوشلسٹ اپنے آپ کو ایک مذہبی آدمی ظاہر کرتا رہے لیکن عملی طور پر ترک مذہب یا دہریت سوشلزم کے لئے لازم ہے۔ اس کے بغیر اور روح کی ضرورتوں کو پوری طرح مدنظر رکھتے ہوئے کوئی سوشلسٹ سوشلزم پر پورا زور دے ہی نہیں سکتا۔ روس میں مذہب کی خاموش مخالفت مذہب کے ساتھ کسی عداوت کی بنا پر نہیں بلکہ سوشلزم کی ایک شدید ضرورت کی بنا پر ہے۔ اسلام کے جن احکام کو سوشلزم کے مشابہ سمجھا جاتا ہے وہ دراصل خدا کی عبادت کے احکام ہیں اور ان کا مقصد خودی کی تربیت ہے۔
مغربی جمہوریت اسلامی تصور نہیں
ہمارے اسلامی سوشلسٹ بھائیوں کا خیال ہے کہ سوشلزم ایک تہذیب ہے اور جمہوریت کی طرح ایک دانائی یا حکمت کی بات ہے اور حضورؐ کا ارشاد ہے کہ دانائی کی بات جہاں مل جائے اسے اپنا لو۔ وہ تمہاری ہی گم شدہ چیز ہے جس طرح ہم نے جمہوریت کو اپنایا ہے ہمیں چاہئے کہ ہم سوشلزم کو بھی اپنا لیں یہ خیال کئی خطرناک غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے بعض کا مغرب سے آئے ہوئے کسی عقیدہ یا عمل کو اپنا لینا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ عقیدہ یا عمل اسلامی ہے خصوصاً اس زمانہ میں جب اسلام کی بصیرت مفقود ہوتی جا رہی ہے اور مغرب کی تقلید کا رحجان زوروں پر ہے دراصل اسلام مغرب کی ایجاد کی ہوئی اکاون فیصد والی غیر فطری جمہوریت کا قائل نہیں اسلام میں جمہوریت کا مطلب فقط اتنا ہی ہے کہ مشہور اور معروف دینداری اور تقویٰ کے ثقہ اور معتبر لوگ جس شخص کو خلیفہ تسلیم کر لیں اسے سب تسلیم کر لیں۔ ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگوں کی ایک جماعت ملک میں ہر وقت موجود رہے گی اور ایسے لوگ اپنے ایمان اور تقویٰ کی وجہ سے خود بخود لوگوں کے راہ نماؤں کے مقام پر ہوں گے۔ خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد ایسے لوگوں کے مشورہ سے کام کرے لیکن اگر وہ ان کی اکثریت کی رائے سے مطمئن نہ ہو تو ضروری نہیں کہ وہ اس پر عمل کرے اس کا اختیار ہے کہ چاہے تو کسی کی رائے نہ مانے اور اپنی رائے کے مطابق کام کرے اور چاہے تو کسی اقلیت کی رائے کے ساتھ اتفاق کر کے قدم اٹھائے لیکن یہ نہایت ضروری ہے کہ خلیفہ کی جو رائے بھی ہو سب اس کی اطاعت کریں اور اس کا حکم بجا لائیں اگر اکاون فیصد کی جمہوریت کا کوئی اسلامی تصور ہوتا تو حضرت ابوبکرؓ نے جب دیکھا کہ حضرت عمرؓ کے سمیت تمام صحابہ مانعین زکوۃ سے جنگ کرنے کے خلاف ہیں تو آپ یہ نہ فرماتے
واللہ لا جاھدنھم ولو منعو انی عقالاً
کہ خدا کی قسم اگر یہ لوگ زکوۃ کی ادائیگی سے رسی کا ایک ٹکڑا بھی روکیں گے تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ حضرت ابوبکرؓ کی رائے درست تھی اور اگر وہ اکثریت کی رائے پر عمل کر کے جنگ نہ کرتے تو اسلام ہم تک نہ پہنچ سکتا۔ اس سے پہلے اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اقبال نے مغربی قسم کی جمہوریت کی مذمت اس بنا پر کی ہے کہ وہ خودی کی فطرت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی جہاں جہاں ہم نے مغربی جمہوریت کو اپنایا ہے اس کی وجہ سے اسلام سے ہماری بے خبری اور دوری اور مغرب کے تصورات سے رغبت اور الفت ہے ہمارا مغربی جمہوریت کو اپنانا ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمارا مغربی لباس کو یا بیسیوں اور مغربی عادات و اطوار کو اپنانا۔
دانائی کو ترک کرنا دانائی نہیں
دوسری بات یہ ہے کہ ہم مسلمان رہتے ہوئے کسی ایسے عقیدہ یا عمل کو تہذیب یا دانائی نہیں کہہ سکتے جو اسلام کے واضح قوانین اور احکام کے ساتھ متصادم ہوتا ہو اور ان کی جگہ لینا چاہتا ہو مثلاً ہم زکوۃ اور وراثت ایسے قوانین کو ترک کر کے سوشلزم کے قوانین کا نافذ نہیں کر سکتے۔ جہاں اسلام کے قوانین پہلے موجود ہوں ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کو قبول کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ خدا اور رسولؐ کے فیصلے کے بعد کسی اور کا فیصلہ طلب کرنا، سراہنا اور قبول کرنا کفر صریح ہے اس سے پہلے اس کتاب میں اس موضوع پر قرآن حکیم کے ارشادات نقل کئے جا چکے ہیں۔ پھر ان ارشادات کی عقلی اور عملی بنیادوں کی وضاحت کرتے ہوئے زندگی کی خصوصیات اور ارتقاء کی ضروریات کی روشنی میں یہ عرض کیا گیا ہے کہ خودی کی آزادانہ اور مکمل نشوونما کے لئے رسولؐ کی ہو بمو اطاعت کیوں ضروری ہے۔ ناظرین ان معروضات کو بھی ذہن میں رکھیں تاہم جہاں اسلام کے قوانین پہلے موجود نہ ہوں ہم موجود قوانین کی روشنی میں ضروری غیر موجود قوانین وضع کر سکتے ہیں مثلاً زکوۃ اور وراثت ایسے قوانین کو نافذ کرنے کے بعد اگر ضرورت ہو تو ہم معاشی عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کسی ازم کی نقل کرتے ہوئے نہیں بلکہ تعلیمات اسلام کی روشنی میں حالات کے مطابق اور قوانین بنا سکتے ہیں۔
فطرت انسانی سے لاعلمی کا نتیجہ
تیسری بات یہ ہے کہ سوشلزم معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے کی ایک تجویز کی حیثیت سے فطرت انسانی کی انتہائی لاعلمی پر مبنی ہے اور جس تجویز کی بنیاد ایسی لاعلمی پر ہو وہ تو کوئی دانائی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تہذیب یا شائستگی پیدا کر سکتی ہے بلکہ انسان کو شاہراہ ارتقاء سے ہٹا دینے کی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اس کو زود یا بدیر ایسی طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کر دے جن سے نجات پھر اسی شاہراہ کی طرف لوٹنے کے بغیر ممکن نہیں ہوتی جب یورپ میں مشینوں کا دور شروع ہوا اور بڑے پیمانہ کی صنعت وجود میں آئی تو کارخانہ دار یا سرمایہ دار اس موقف میں ہو گیا کہ مزدور کی محنت کی کمائی کا بہت سا حصہ خود کھا جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود روز بروز زیادہ دولت مند اور مزدور روز بروز زیادہ مفلس ہوتا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کارخانہ دار دولت مند ہونے کے باوجود مزدور پر یہ ظلم کیوں روا رکھتا تھا وہ یہ کیوں نہ سوچ سکا کہ مزدور کی محنت سے جو نفع اسے حاصل ہوتا ہے۔ وہ اس میں سے اتنا ہی لے جتنا اس کا حق بنتا ہے اور باقی مزدور کو دے دے۔ وہ حرص اور لالچ اور بخل اور ظلم کے زوائل کے ماتحت کیوں کام کرتا رہا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ معنی آدم سے یا اپنی فطرت یا اپنی خودی کے حقائق سے ناواقف تھا علم ہی عمل کو پیدا کرتا اور روکتا ہے جو شخص جانتا ہو کہ آگ جلا دیتی ہے وہ آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا مثلاً مغربی کارخانہ دار کو علم نہیں تھا۔
1۔کہ وہ خود یا انسان کی حیثیت سے اس کی اصل اس کی خودی ہے اس کا جسم نہیں۔
2۔کہ اس کا جسم فانی اور ناپائیدار ہے لیکن اس کی خودی کی زندگی یا دوسرے لفظوں میں اس کی اپنی زندگی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔
3۔کہ اس کی خودی صرف ایک ہی آرزو رکھتی ہے اور وہ خدا کی محبت کی آرزو ہے اور لہٰذا صرف اسی آرزو کی تشفی سے اسے مکمل اور مستقل اطمینان قلب اور مکمل خوشی اور آسودگی حاصل ہو سکتی ہے۔
4۔کہ خدا وہ ذات پاک ہے جو حسن کی ابتدا او رانتہا ہے اور جس کی تمام صفات بدرجہ کمال حسین و جمیل ہیں۔
5۔کہ اس کی اور تمام آرزوئیں اس کی اپنی نہیں بلکہ اس کے جسم کی آرزوئیں ہیں اور اس کا جسم اس کی خودی کا ایک آلہ کار ہے جو اسے عارضی طور پر اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ اسے کام میں لا کر اپنی واحد آرزو یعنی خدا کی محبت کی تشفی کرے۔
6 ۔کہ اگر وہ خدا کی آرزو کی تشفی نہ کر سکے گا تو اندر سے غیر مطمئن اور ناخوش اور غمگین رہے گا اور کسی اور جسمانی آرزو کی تشفی کا سامان مثلاً دولت مندی یا عیش پرستی خدا کی آرزو کی تشنگی کی تلافی نہ کر سکے گا تاہم اس کی اندرونی غم اور باطنی ناخوشی اور بے اطمینانی کی حالت اس وقت پوری شدت پر ہو گی جب جسم کی موت واقع ہو جائے گی اور اس کی لذتیں ختم ہو جائیں گی۔
7۔کہ خدا کی آرزو کی تشفی کا طریق یہ ہے کہ خدا کی صفات کے حسن کو دل میں بسایا جائے اور خدا سے جس قدر زیادہ ہو سکے محبت کی جائے اور اس کے دو بڑے ذرائع ہیں ایک خدا کی صفات پر غور و فکر جسے ذکر اور عبادت کہتے ہیں اور دوسرا خدا کی صفات کے مطابق عمل جسے نیک عملی کہتے ہیں۔ نیکی، رحم، انصاف، دوسروں کی پرورش خدا کی صفات کے مطابع عمل ہے اور حرص، لالچ، بخل، مزدور پر ظلم اور اس کی حق تلفی خدا کی صفات کے مطابق عمل نہیں۔
8۔کہ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ اس کا ہر عمل نیک یا بد چھوٹا یا بڑا جو وہ اس دنیا میں کرتی ہے اس کے اندر لاشعور میں محفوظ ہو جاتا ہے اور جسم کی موت کے بعد اس کے ساتھ رہتا ہے اور خودی نیک اعمال کا اچھا صلہ خوشی اور راحت کی صورت میں اور برے اعمال کی سزا رنج اور غم کی صورت میں پاتی ہے۔
9۔کہ جسم کی طرح خودی بھی ایک طرح کی بھوک محسوس کرتی ہے اگر خودی کی بھوک ایسی اچھی غذا کھانے سے دور ہوتی ہے جس میں حیاتین اور پروٹین ایسے تمام ضروری عناصر بدرجہ اتم موجود ہوں تو خودی کی بھوک کسی ایسے عمدہ نصب العین کے حسن کو جذب کرنے سے دور ہوتی ہے جس میں تمام صفات حسن بدرجہ کمال موجود ہوں۔ یہی نصب العین خدا ہے اگر جسم غذا کو چبا کر نگل کر اورہضم کر کے جذب کرتا ہے تو خودی عبادت اور نیک عملی کے ذریعہ سے حسن کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اس سے لذت اندوز ہو کر اور اسے اپنا کر جذب کرتی ہے۔
10۔کہ خودی حسن کو جذب کرنے سے ہی توانا اور قوی اور زندہ اور شادماںہوتی ہے اگر وہ اس کو جذب نہ کرے تو کمزور اور مضمحل اور قریب المرگ اور غمگین ہو جاتی ہے ایک آدمی کے لئے جو بھوک سے مر رہا ہو یہ جاننا کافی نہیں کہ اس کی الماری میں بہت سی عمدہ مٹھائی پڑی ہے اپنی جان کو بچانے کے لئے اسے تکلیف کر کے اس مٹھائی کو کھانا پڑے گا اسی طرح ایک ایسے آدمی کے لئے جس کی خودی گرسنگی حسن سے مر رہی ہو یہ جاننا کافی نہیں کہ خدا موجود ہے اور وہ حسن ہے اسے چاہئے کہ عبادت اور نیک عملی کے ذریعہ سے اس حسن کو جذب کرے۔
11۔کہ خودی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر وہ انسان کی نادانی کی وجہ سچے خدا کی آرزو کی تشفی نہ کرے یا نہ کر سکے تو اس کی آرزو رکی نہیں رہتی بلکہ وہ راہ راست سے بھٹک کر کسی غلط مقصود کو جو خودی کو کمزور اور مضمحل اور غمگین اور قریب المرگ کرنے والا ہو اپنا لیتی ہے۔ کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کی حرص اور مزدوروں پر ان کا ظلم اسی وجہ سے ہے کہ ان کی فطرتی آرزوئے حسن راہ راست سے بھٹک کر خدا کی بجائے دولت اور عیش پرستی کو اپنا مقصود بنا رہی ہے اور وہ خود اپنی ضرورتوں کو ترک کر کے فقط جسم کی خواہشات کو اپنی توجہ کا مرکز بنا رہے ہیں۔


پہلا اور بنیادی علاج
فطرت انسانی کے یہ حقائق ایسے ہیں کہ ان سے انکار ممکن نہیں ان حقائق کے پیش نظر سرمایہ داروں کے ظلم کا پہلا اور بنیادی علاج یہ تھا کہ جس آرزو کے بھٹکنے سے وہ ممکن ہوا ہے اسے پورے معاشرہ کی تعلیم اور تربیت کے ذریعہ سے پھر صحیح راستہ پر ڈالا جاتا اور اسے اس کے اصلی اور فطری مقصود یعنی خدا کی طرف لوٹایا جاتا اور پھر تعلیم و تربیت ہی کے ذریعے سے خدا کی محبت کی نشوونما کر کے اسے درجہ کمال پر پہنچایا جاتا تاکہ اس معاشرہ میں پھر ایسے سرمایہ دار پیدا نہ ہو سکتے بلکہ اور بھی کوئی اخلاقی خرابی پیدا نہ ہو سکتی اور پھر اگر ضرورت ہوتی تو ایسے قوانین بھی بنائے جاتے جو افراد کی کمزوریوں کے خلاف ان کی مدد کرتے اور ان کو زندگی کے اقتصادی شعبہ میں کوئی ایسا کام کرنے نہ دیتے جو ان کی تمنائے حسن کے ساتھ مزاحمت کرتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاقی رذائل سے گھری ہوئی ایک پست حال قوم کو اخلاقی رفعت اور شائستگی کے کمال پر پہنچایا تھا تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کو سب سے پہلے اور بنیادی علاج میں سے گزارا گیا تھا اگرچہ اس علاج کی مزید تقویت کے لئے زکوۃ اور وراثت ایسے قوانین بھی وضع کئے گئے تھے۔ اگر اس وقت یورپ میں سچا اسلامی معاشرہ ہوتا تو وہاں اس قسم کے سرمایہ داروں کا وجود ممکن نہ ہوتا۔ لیکن یورپ جس طرح آج فطرت انسانی کی لاعلمی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے اس وقت بھی ڈوبا ہوا تھا۔ وہاں کون ہو سکتا تھا جسے معلوم ہوتا کہ سرمایہ داروں کے ظلم کا اصل سبب کیا ہے اور اس کا اصل علاج کیا ہے اور جو فطرت انسانی کے ٹھوس علم کی بنا پر اس سب سے پہلے اور بنیادی علاج کو جاری کرتا وہاں سرمایہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو عقلاء اور حکماء سمجھے جاتے تھے فطرت انسانی کی اسی لاعلمی کا شکار تھے لہٰذا وہ دوسروں کی راہ نمائی کیسے کرتے۔
آن کس کہ خود گم است گرا رہبری کند


التوائے مرض علاج نہیں
کچھ نام نہاد دانشوروں نے جنہیں بعد میں سوشلزم کے مفکرین اور مصنفین کہا گیا یہ سمجھا کہ سرمایہ دار فطرتاً حریص اور ظالم ہے اس کا علاج سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ اس کا کارخانہ چھین کر حکومت کو دے دیا جائے لیکن انہوں نے نہیں سمجھا کہ حکومت کے لوگ جو سب سے اوپر ہو کر پھر کارخانہ کو سرمایہ سے چلائیں گے وہ بھی تو سرمایہ دار ہی ہوں گے اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ اور سرمایہ داروں کی طرح حریص اور ظالم نہیں ہوں گے اس طرح سے انہوں نے جہاں تک ان کی تجویز کا تعلق ہے مشکل کو حل نہیں کیا بلکہ مشکل کو ایک جگہ سے اٹھا کر اپنے ہی ملک میں دوسری جگہ رکھ دیا۔ تاہم ان کی بات کو کسی نے نہیں مانا۔ بعد میں سوشلزم کا ایک فلاسفر کارل مارکس آیا اس نے اس تجویز میں یہ اضافہ کیا کہ دلفریب مستقبل کے سہانے خوابوں سے کچھ نہیں ہو گا۔ مزدور کو چاہئے کہ جبر و تشدد اور قتل و غارت اورلوٹ مار اور آتش زنی اور دہشت انگیزی سے کام لے کر سرمایہ داروں کے کارخانوں پر اور پوری حکومت پر قبضہ کر لے لیکن مزدور بھی بہر حال ایک انسان ہوتا ہے جس کے اعمال کا بھی کوئی ضابطہ یا قاعدہ یا حسن و قبح کا معیار ہوتا ہے جس کا منبع فطرت انسانی کا کوئی واضح سائنسی علم نہ سہی لیکن ایک خوف سے ملا ہوا غیر واضح قسم کا مذہبی عقیدہ ضرور ہوتا ہے اس کے لئے مشکل تھا کہ محض اپنی اجرتوں کو بڑھانے کے لئے اس قسم کے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا خصوصاً جب کہ یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس سلسلہ جرائم کا نتیجہ کیا ہو گا۔ کارل مارکس نے مزدوروں اور ان کے راہ نماؤں کی ذہنی مشکلات کا علاج یہ کیا کہ سوشلزم کا ایک فلسفہ بنا دیا جس میں استدلال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دنیا میں نہ خدا ہے نہ روح نہ موت کے بعد کوئی زندگی ہے اور نہ اعمال کا محاسبہ۔ انسان فقط مادہ کی ایک ترتیب اور ترکیب کا نام ہے جو موت پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا خوف کس کو، کس خدا کا اور کون سے محاسبہ کا۔ باقی رہا یہ سوال کہ ان جرائم کا نتیجہ کیا ہو گا۔ سو ارتقا کی مادی اور میکانکی قوتیں اس طرح کام کر رہی ہیں کہ دنیا میں مزدور کا غلبہ ہو کر رہے گا اور مزدور کا تشدد ہی اس غلبہ کا ذریعہ بنے گا۔ کاش کہ مارکس کو علم ہوتا کہ ارتقا کی قوتیں مادی اور میکانکی نہیں بلکہ ایک رب العالمین کی ربوبیت کا مظہر ہیں اور آخر کار دنیا میں وہی قوم غالب رہے گی جو اس رب العالمین کو دل سے مانے گی۔ اور اس کی محبت کو انسانی معاشرہ کی تمام خرابیوں کو دور کرنے کا ایک ہی صحیح اور فطری اور مستقل ذریعہ تسلیم کرے گی اور اس ذریعہ کو کام میں لائے گی۔
مارکس کی تشدد پسندی
حاصل یہ ہے کہ کارل مارکس نے سوشلزم کو ایک فلسفہ کی شکل اس لئے دی ہے کہ وہ تشدد کے لئے ایک کامیاب محرک بن جائے لہٰذا اس نے سوشلزم کے پہلے مفکرین کے طریق کار میں سوائے تشدد کے اور کسی بات کا اضافہ نہیں کیا۔ اس نے بھی اپنے پیشرو سوشل فلاسفروں کی طرح سرمایہ دار کا استیصال نہیں کیا۔ بلکہ اسے ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ کھڑا کر دیا ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعت سرمایہ کے بغیر چل نہیں سکتی اور اگر سرمایہ رہے گا تو ضروری ہے کہ اس کا کوئی مالک بھی ہو جو اس کی حفاظت کرتے اس کو تلف ہونے سے بچائے اس کے مفاد کو سوچے اور اس کو صحیح طور پر کام میں لگائے یہ کہنا درست نہیں کہ اس کا مالک مزدور ہے اس لئے کہ کسی کاغذ پر ایسا لکھا ہوا ہے۔ مزدور کو تو اپنی اجرت سے واسطہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ اجرت زیادہ سے زیادہ ہو لیکن اگر اجرت زیادہ ہو گی تو سرمایہ کم ہو جائے گا اور اگر سرمایہ کو زیادہ رکھنے کی ضرورت ہو گی تو اجرت کم کرنا پڑے گی۔ اس طرح سرمایہ اور محنت کے مفاد کبھی ایک نہیں ہو سکتے یہی وجہ ہے کہ روس میں اب بھی کچھ لوگ کام کرنے والے ہیں اور کچھ کام کروانے والے۔ کام کرنے والوں پر نگران مقرر ہیں اور پھر ان نگرانوں پر نگران اور پھر ان پر بھی اور نگران، و علی ہذا القیاس اور یہ سلسلہ کمیونسٹ پارٹی پر ختم ہوتا ہے جو روس کے اصلی سرمایہ دار ہیں۔ مارکس کے علاج میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مزدور اور اس کا نگران ہر حالت میں حرص اور بد دیانتی سے محفوظ رہیں گے اگر اندر سے نیت درست نہ ہو تو نگران سے آنکھ بچائی جا سکتی ہے اور قانون کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔
اگر قانون انسان کی فطری آرزوؤں سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو انسان کچھ عرصہ کے لئے اس سے ڈر سکتا ہے لیکن اس کا احترام نہیں کر سکتا اور ایسا ڈر ایک قسم کی غلامی ہے جو غیر فطری ہے اور انسان کی خودی جس کی خاصیت آزادی ہے تادیر غلامی کو برداشت نہیں کر سکتی لہٰذا روسی نظام کی خرابی اس کی تعمیر میں مضمر ہے اور اسی لئے وہ ناپائیدار ہے اور دنیا کا وہ آخری انقلاب (فتنہ) نہیں بن سکتا جس سے شیطان ڈر رہا ہے۔ معاشرہ کی تمام خرابیوں کا پہلا بنیادی اور فطری علاج یہ ہے کہ انسان کی اس آرزو کو جو بھٹک کر یہ خرابیاں پیدا کرتی ہے۔ یعنی خدا کی آرزو کو تعلیم و تربیت سے اس کے اصل مقصود کی طرف لوٹایا جائے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دانائی کی ابتداء خدا کے خوف سے ہوتی ہے۔
راس الحکمہ مخافۃ اللہ
مہلک راہ نمائی

نوع انسانی کی سب سے بڑی بد خدمتی جو کارل مارکس سے سرزد ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی وہی آرزو جو اصل انسان ہے جس کا مقصود انسان کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے جو انسان کے لئے زندگی ہے آب حیات ہے جس کے بھٹکنے سے اور دوبارہ راہ راست پر آنے کے بغیر انسانی معاشرہ کے اندر ساری خرابیاں پیدا ہوتی ہیں انسانیت ارتقا کے راستہ سے ہٹ جاتی ہے خودی کی نشوونما رک جاتی ہے اور اس کی آئندہ کی زندگی برباد ہو جاتی ہے اس نے خدا کی اسی آرزو کو اس کے اصل مقصود سے ہٹا کر عارضی جسم کی غیر محدود خواہشات میں الجھا دیا ہے اور اس طرح سے ان لوگوں کی آخری ناکامی اور نامرادی پر مہر لگا دی ہے جو اس کے پیچھے چلیں گے۔ کیا ہم خودی کے ابدی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کارل مارکس کے برپا کئے ہوئے روسی نظام کو تہذیب یا دانائی کی بات کہہ سکتے ہیں۔