کچھ غلط فہمیاں
ہمارے جو بھائی سوشلسٹ کہلاتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ روس میں جو نظام کارل مارکس کے بے خدا فلسفہ پر قائم کیا گیا ہے وہ کمیونزم ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ روس میں جو نظام اس وقت رائج ہے وہ سوشلزم ہے کمیونزم نہیں۔ کمیونزم سوشلزم کی انتہائی ترقی یافتہ صورت ہے۔ جو ابھی تک روس میں ظہور پذیر نہیں ہو سکی۔ لیکن بعض وقت لوگ سوشلزم کو ہی اس کے عزائم اور مقاصد کے پیش نظر کمیونزم کہتے ہیں اور بعض وقت کمیونزم کو اس کی ابتدائی عملی صورت کو ذہن رکھتے ہوئے سوشلزم کا نام دیتے ہیں۔ لہٰذا دونوں میںکوئی زیادہ فرق نہیں۔ فرق ہے تو صرف یہ ہے کہ کمیونزم کا مقصد یہ تھا کہ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق کام کرے لیکن جو دولت اس طرح سے پیدا ہو گی وہ سب افراد کی مشترکہ ملکیت ہو گی اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ میں نے زیادہ کام کیا تھا اس لئے میں زیادہ لوں گا بلکہ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا خواہ یہ ضرورت اس کے کام سے کم ہو یا زیادہ۔ لیکن جب روس میں دنیا کی پہلی اشتراکی ریاست وجود میں آئی تو یہ دیکھا گیا کہ یہ اصول فی الحال قابل عمل نہیں کیونکہ ابھی اخوت اور مساوات کی وہ روح موجود نہیں جو اسے قابل عمل بنا سکتی ہے اور توقع یہ کی گئی کہ یہ روح رفتہ رفتہ خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال ہر شخص کو اس کے کام کے مطابق دیا جائے اور اپنی سوسائٹی کو کمیونسٹ نہیں بلکہ سوشلسٹ سوسائٹی کہا جائے۔ یہی سبب ہے کہ روس کی حکومت کو یونین آف سوویٹ سوشلسٹ ری پبلک کہا جاتا ہے۔ روس کی اشتراکی ریاست کے وجود میں آنے سے پہلے بھی کارل مارکس کو سوشلسٹ فلاسفر اور اس کے فلسفہ کو سائنٹفک سوشلزم کہا جاتا تھا اور اب بھی یہی کہا جاتا ہے۔
خود روس کے سارے لوگ اپنے ملک کے رائج الوقت نظام کو سوشلزم کہتے ہیں۔ 21 اگست 1928ء کو روس نے چیکو سلواکیہ پر جو حملہ کیا تھا اس کی مذمت کرتے ہوئے روس کے سولہ دانشوروں نے 21 اگست 1969ء کو ایک بیان جاری کیا جو 22اگست1969ء کے پاکستان ٹائمز کی ایک خبر میں شائع ہوا ہے اس میں انہوں نے اپنے ملک کے نظام کے لئے کمیونزم نہیں بلکہ سوشلزم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ذیل میں اس خبر کے ایک اقتباس کا ترجمہ درج ہے۔
’’ ماسکو۔ 12اگست ماسکو کے دانشوروں کے ایک اختلافی گروہ کے سولہ اراکین نے کل گذشتہ اگست کے چیکو سلواکیہ کے وارسا پیکٹ والے حملہ کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے سوشلزم کا مستقبل خطرہ میں پڑ گیا تھا۔ ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس حملہ کا مقصد چیکو سلواکیہ میں ایک بڑھتی اور پھولتی ہوئی جمہوریت کو ختم کرنا تھا۔ اس افسوسناک سالانہ تقریب پر ہم اعلان کرتے ہیں کہ پہلے کی طرح ہم پھر اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہیں جس نے سوشلزم کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔‘‘ (پاکستان ٹائمز۔22اگست1969ئ)
پھر ہمارے اسلامی سوشلسٹ بھائی سمجھتے ہیں کہ اسلامی سوشلزم سے ان کی مراد اسلام ہی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر ان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ ان میں سے بعض کو لفظ سوشلزم پر، سرخ جھنڈے پر اور سوشلزم کے اخلاقی ضابطہ پر (جس کی رو سے سوشلسٹ انقلاب کو برپا کرنے کے لئے ایسے اشغال اور اعمال بھی جائز بلکہ ضروری ہیں جو اسلام کے نزدیک سخت ممنوع ہیں ) اصرار کیوں ہے۔ بالخصوص جب کہ اس اصرار کی وجہ سے ان کے متعلق بدظنی پیدا ہوتی ہے۔ ان کی ہر دلعزیزی میں فرق آتا ہے اور قوم کی وحدت پارہ پارہ ہوتی ہے۔ کیونکہ جہاں تک نیشنلائزیشن کا تعلق ہے اسلام میں کوئی بات اس کے خلاف نہیں اور اگر تمام اسلامی تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی عدل اور عبادت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے بعض صنعتی اداروں کو قومیانے کی ضرورت محسوس کی جائے تویقینا پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت اس سے سوشلزم کے ایک تقاضا کے طور پر ہرگز نہیں بلکہ اسلام کے ایک تقاضا کے طور پر اتفاق کر سکتی ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر اسلامی سوشلزم سے ان کی مراد اسلام ہی ہے تو وہ اسلام کی تعلیمات کے صرف ایک پہلو یعنی معاشی عدل پر کیوں زور دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے اسلامی معاشرے کی خرابیوں کو مثلاً فسق و فجود کو، جھوٹ اور فریب کاری کو، ترک نماد کی عادت کو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی کمی کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے اور معاشی عدل پر زور دیتے ہوئے بھی وہ معاشی ناہمواریوں کو دور کرنے والے اسلامی احکام مثلاً زکوۃ، ممانعت سود وغیرہ کو کیوں بروئے کار لانا نہیں چاہتے۔ ان باتوں سے اگر دوسرے مسلمانوں کو یہ شک ہو کہ اسلامی سوشلزم سے ان کی مراد اسلام نہیں بلکہ سوشلزم ہے تو اس میں ان کا کوئی زیادہ قصور نہ ہو گا۔
سوشلزم ترک مذہب اور دہریت سے الگ ہو سکتا ہے
ہمارے یہ بھائی اپنی سادہ لوحی سے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹوں کی بے خدا دہریت پرور فلسفہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ فقط سوشلزم کے عملی اقتصادی نظام کو اپنانا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر سوشلزم کا فلسفہ غلط ہے تو جو نظام اس فلسفہ کی روشنی میں (بلکہ کہنا چاہئے تاریکی میں) پیدا کیا گیا ہے ضروری ہے کہ وہ بھی غلط ہو اور یقینا غلط ہے۔ اس لئے کہ وہ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ دنیا میں نہ خدا ہے نہ خودی اور فرد انسانی از سر تاپا اور اپنے ظاہر اور باطن کے لحاظ سے فقط مادہ کا ایک پتلا ہے جس میں اعلیٰ اخلاق اور روحانی اقدار کی محبت کا کوئی بیج نہ موجود ہے نہ نشوونما پا سکتا ہے۔ جس کا کام فقط مادی منفعت کو جلب اور جذب کرنا ہے جو حریص پیدا ہوا ہے اور حریص ہی مرے گا۔ جو ذرائع پیداوار کی ملکیت ایسے عظیم ذمہ دارانہ منصب کے لئے نہ بنا ہے اور نہ اسے سنبھال سکتا ہے (اگرچہ بعض افراد جو اتفاق سے یا کوشش سے سوشلسٹوں کے لیڈر بن جائیں وہ مادی پتلے ہونے کے باوجود بھی اس منصب کے اہل ہوتے ہیں۔ دلیل ندارد!) حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ انسان کی اصل یہ خاکی پتلا نہیں بلکہ انسان کی خودی ہے جس کا مقصود خود اپنی تربیت اور تعمیر کی خاطر خدا کی محبت عبادت اور اطاعت کے ذریعہ سے حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف کا اپنانا اور جذب کرنا ہے اور جو اس خاکی پتلے کو اپنے اس مقصد کے لئے عارضی طور پر بحیثیت ایک خادم کے استعمال کرتی ہے۔ ہمارے سوشلسٹ بھائی سوشلسٹ فلسفہ کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ سوشلسٹ نظام کی صورت میں ان کی ساری عملی زندگی کو دبا کر اور سکیڑ کر ان کے مادی پتلے کی عارضی ضروریات کے تنگ دائرہ کے اندر محدود کر دے اور ان کی اپنی یعنی ان کی خودی کی ضروریات کو بالکل نظر انداز کر دے۔ تعجب ہے کہ اس کے باوجود بھی وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سوشلسٹوں کے فلسفہ کو قبول نہیں کیا۔ جب انہوں نے اس فلسفہ کے عملی نتیجہ کو جو اس کا حاصل یا نچوڑ ہے قبول کر لیا ہے تو وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اس فلسفہ کو ترک کر دیا ہے۔ خودی کا اقرار کرنا اور خودی کی تعمیر اور تربیت کی ضروریات کا اہتمام نہ کرنا خودی کے انکار کے برابر ہے۔ اسی حقیقت کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ خدا کا اقرار کرنا اور خدا کی عبادت اور اس کے رسول کی موبمو اطاعت کے ذریعہ سے خدا کی صفات کے حسن کو دل میں بسانے سے انکار کرنا بلکہ اپنے آپ کو بے خدا سوشلسٹ نظام کی بندشوں کے متضاد اثرات کے حسن کو دل میں بسانے سے انکار کرنا بلکہ اپنے آپ کو بے خدا سوشلسٹ نظام کی بندشوں کے متضاد اثرات کے سپرد کرنا خدا کے انکار کے مترادف ہے۔ خدا کا انکار کسی بے خدا فلسفہ کو علی الاعلان قبول کرنے پر ہی موقوف نہیں بلکہ یہ انسان کے دل میں زبان کو چھوڑ کر اور راستوں سے بھی گھس جاتا ہے۔