خودی اور علوم مروجہ
انسان اور کائنات کے بعض حقائق جن کی وضاحت اوپر کی گئی ہے ہمیں اس ناگزیر نتیجہ تک پہنچاتے ہیں کہ کائنات کی حقیقت خدا ہے اور انسان کی خودی جو اصل انسان ہے خدا کی محبت کا ایک طاقتورجذبہ ہے جو ایک جسم میں جسے جسم انسانی کہتے ہیں نمودار ہوا ہے اور انسان اپنی تمام ظاہری اور باطنی قوتوں کو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق صحیح یا غلط طور پر اس جذبہ کی تشفی پر صرف کرنے کے لئے مجبور ہے۔ خدا اور خودی کا یہ تصور کائنات کی مرکزی حقیقت اور فلسفہ خودی کی جان ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک انسان اور کائنات کے علوم یعنی طبیعیاتی، حیاتیاتی اور انسانی علم کو کائنات کی اس مرکزی حقیقت کی روشنی میں نہ لکھا جائے ان کی تدوین اس اہم حقیقت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے عقلی اور علمی اعتبار سے درست نہیں ہو سکتی اور ضروری ہے کہ اس میں کئی غلطیاں پیدا ہو جائیں اور وہ کئی پہلوؤں سے بے ربط اور خام اور ناتمام رہ جائے۔ بدقسمتی سے یہ علوم مغرب میں اس حقیقت کی روشنی میں نہیں لکھے گئے۔ لہٰذا ان کی تدوین درست طور پر نہیں ہوئی۔ وہ علم جو خدا اور خودی کے اس تصور سے جو کائنات میں اور تمام علوم میں کلیدی اور مرکزی مقام رکھتا ہے بے تعلق ہو وہ بے ربط اور بے معنی افکار کے ایک کھیل یا تماشہ خانے کے سوائے اور کیا ہو سکتا ہے۔
علم کو از عشق بر خوردار نیست
جز تماشہ خانہ افکار نیست!
مغربی سائنس دان کا علم مظاہر قدرت کے مشاہدات پر مبنی ہے لیکن اس کے مشاہدات اس بصیرت سے محروم ہیں کہ یہ مظاہر قدرت خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات اور دلائل ہیں۔ لہٰذا اس کی سائنس ایک طرح کی بے بصری ہے اگر وہ اس بصیرت سے محروم نہ ہوں تو اس کو ہر مظہر قدرت میں موسیٰ کلیم اللہ کی طرح خدا کا جلوہ نظر آتا اور اس طرح اس کے مشاہدات اس کی تجلیات سے ہمکنار ہو جاتے۔
وہ علم بے بصری جس میں ہمکنار نہیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم
جس علم کے ساتھ خدا کی محبت شریک کار نہ ہو وہ اس سپاہی کی طرح ہے جو کار زار حق و باطل میں لڑنے کے لئے نکلا ہو لیکن اس کے ہاتھ میں بجائے تلوار کے فقط ایک خالی نیام ہو۔ ایسا علم شیطان کے خلاف کوئی کارگر حربہ نہیں بن سکتا۔ بلکہ شیطان اسے اپنے لئے ایک کارگر حربہ کے طور پر کام میں لاتا ہے۔
عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
لیکن یہ بات افسوسناک ہے کہ اس کے باوجود ان علوم کی درسی کتابیں جو ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے کالجوں میں نافذ ہیں اس وقت تک سب کی سب ان علوم کی مغربی تدوین اور کائنات اور انسان اور علم کے غلط مغربی نقطہ نظر پر مبنی ہیں بلکہ یہ کتابیں بالعموم وہی ہیں جو مغرب کے علماء کے ہاتھوں سے مغرب میں لکھی گئی ہیں اور مغرب کے کالجوں اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں نافذ ہیں۔ لہٰذا یہ کتابیں ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہنی اور علمی نشوونما کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور ان کی وجہ سے ہماری قوم کی روح مردہ ہوتی جا رہی ہے لیکن ہم نے ان کو فقط مغرب کی کورانہ تقلید کرتے ہوئے اور ہر بات میں ان کو فوقیت کے وہم میں مبتلا ہو کر اپنے ہاں نافذ کر رکھا ہے اقبال ہماری اس غلطی پر تنبیہہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
مشو ایمن ازاں علمے کہ خوانی
کہ ازوے روح قومے راتواں کشت