اسلام کے غلط اندیش، مصلحین
اس زمانہ میں مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا پیدا ہو گیا ہے جن کی رغبت اسلام سے کم اور مغرب کے ناقص، غلط اور غیر اسلامی نظریات سے زیادہ ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے کالجوں کی تعلیم و تربیت لادینی اور بے خدا ہے اور انسانی زندگی کے متعلق لادینی اور بے خدا نقطہ نظر پیدا کرتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مغرب کے غیر اسلامی نظریات غلط اور نامعقول ہونے کے باوجود ایک ظاہری شان و شوکت اور چمک دمک رکھتے ہیں۔ ایسے غلط نظریات کے پرستار اور اسلام سے بیزار مسلمانوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسلام کی ایسی توجیہہ کریں جو اسلام کو ان کے غلط مگر پسندیدہ نظریات کے مطابق بنا دے یا قریب لے آئے۔
لہٰذا وہ کسی استاد کی راہ نمائی کے بغیر اسلام سے سطحی اور جزوی واقفیت پیدا کرنے کے بعد اسلام کے مصلحین اور ریفارمز کے لباس میں ظاہر ہوتے ہیں اور اجتہاد کے نام پر اسلام میں رد و بدل کرتے ہیں او رامید رکھتے ہیں کہ عام مسلمان ان کی مذہبی قیادت کو قبول کریں گے۔ اپنے آپ کو یوں بلاوجہ غیر معمولی سمجھ بوجھ کا مالک قرار دے لینے کے بعد وہ ایک طرف سے تو دیندار اور پرہیز گار مسلمانوں کو کوستے ہیں کہ وہ ملا اور متحجر اور جامد ہیں اور زمانہ کے ساتھ نہیں بدلتے اور دوسری طرف اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ قرآن حکیم پر ان کے تشریحی اور تفسیری نقاط نہایت ہی جدید اور اچھوتے ہیں۔ اسلام مٹ چکا تھا لیکن ان کے قلم کی جدت طرازیوں نے اسے پھر زندہ کر دیا ہے۔
اجتہاد کی شرائط
حالانکہ اجتہاد صرف ایسے مسائل میں ہو سکتا ہے جن کے بارہ میں خدا اور رسول کے ارشادات کے اندر پہلے کوئی راہ نمائی موجود نہ ہو اور بعض نئے غیر متوقع حالات کے اندر اسلام کے مطابق عمل کرنے کے لئے خود اسلام ہی کی تعلیمات کی روشنی میں اور اس کی روح کے مطابق نئے اصول اور قواعد وضع کرنے کی ضرورت پیش آئے ظاہر ہے کہ صحیح اور بے خطا اجتہاد کے لئے ضروری ہے کہ اجتہاد کرنے والا نہ صرف اسلام کی پوری تعلیمات سے اور اس کے احکام کی ساری علتوں اور حکمتوں سے باخبر اور اس کی روح سے آشنا ہو بلکہ اس کے دل میں خدا اور اس کے رسول اور اسلام کی محبت بھی درجہ کمال پر ہو۔ اگر اس کی محبت کامل نہ ہو گی تو جس حد تک وہ کامل نہ ہو گی اس حد تک اس کے دل میں غلط اور غیر اسلامی نظریات اور تصورات کی محبت سمائی ہوئی ہو گی جو اس کی بصیرت اسلامی کو خطا سے ملوث کرے گی اور اس کے اجتہاد کو غلط اور ناقص بنائیگی۔ لیکن خدا کی محبت کو وہی شخص درجہ کمال پر پہنچا سکتا اور قائم رکھ سکتا ہے جو عبادت اور ریاضت اور تقویٰ اور پرہیز گاری اور استغفار اور توبہ کو اپنا شعار بنائے۔
اجتہاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنی کو ذوقی کو مطمئن کرنے کے لئے ہم ان احکام کو ہی بدل ڈالیں جو بارگاہ ایزدی یا دربار رسالت سے صادر ہو چکے ہوں۔ ایسا کرنا اجتہاد کی اجازت کا نہایت ہی غلط استعمال ہے جو انکار نبوت یا دعویٰ نبوت سے کم مذموم نہیں اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک خوبصورت شہر کے رہنے والے کسی شخص کو اجازت دے دی گئی ہو کہ جہاں کہیں کھلی زمین پائے عمارتیں بنائے لیکن وہ اس اجازت کا استعمال یوں کرے کہ کھلی زمین میں تعمیر کرنے کی بجائے شہر کی ایسی خوبصورت عمارتوں کو جو اس کے بگڑے ہوئے ذوق کے مطابق نہ ہوں گرا کر نئی بدصورت عمارتیں بنانے لگے ایسے اشخاص کے متعلق ہی اقبال نے کہا ہے۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
٭٭٭
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند
٭٭٭
حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز
زمانہ باتو نسازو تو با زمانہ ستیز
٭٭٭
قرآن کے ارشاد کو تاویل سے بدلنا اور قرآن کے ارشادات کی گہرائیوں میں جا کر ان کی معقولیت اور صداقت کے نئے دلائل اور براہین کو دریافت کرنا ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ ہماری تحقیق اور تفسیر کا مدعا اول الذکر نہیں بلکہ ثانی الذکر ہونا چاہئے۔