ہمارے فکر و عمل میں آئندہ کا ارتقائی تغیر
انسانی شاہراہ ارتقا کی منزل مقصود مغرب کے غلط نظریات نہیں بلکہ نظریہ حیات کی وہ صورت ہے جو رحمتہ للعالمین کی عملی زندگی میں آشکار ہوئی تھی۔ لہٰذا مسلمان قوم کے اندر مستقبل میں جو تغیر رونما ہونے والا ہے وہ یہ نہیں کہ وہ مغرب کے کسی غلط نظریہ حیات کے پیرو بن جائیں گے بلکہ قرائن سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلمان قوم میں ارتقا کی منزل مقصود کی طرف آئندہ کا تغیر یہ ہونے والا ہے کہ وہ اپنے لئے ایک جدید اسلامی نظام تعلیم نافذ کرے گی جس کے ذریعہ سے وہ طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی یا انسانی علوم میں سائنسی حقائق کو عقیدہ توحید کی روشنی میں منظم کر کے عقیدہ توحید کو ایک ایسی زبردست علمی اور عقلی قوت بنائے گی جو مخالفوں کے دلوں کو بھی مسخر کرے گی اور جس کی وجہ سے عالم انسانی امن اور اتحاد کی نعمتوں سے ہمکنار ہو گا اور ایسا نظر آتا ہے کہ اس پر امن عالمگیر علمی انقلاب کا آغاز پاکستان سے ہو گا۔
آخری قوم کے اعزاز کی شرط
زندگی کے ان حقائق سے ظاہر ہے کہ اگر ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہم فی الواقع دنیا کی وہ آخری قوم ہونے کا اعزاز حاصل کریں جو کائنات کی حرکت ارتقا کا مقصود اور مدعا ہے اور جو اقوام عالم کی راہ نما اور زمین کی وارث ہونے والی ہے تو ہم کو چاہئے کہ رحمتہ للعالمین کے ہر قول اور فعل کو جو تاریخ کے معیاروں کے مطابق حضور کا قول اور فعل ثابت ہو چکا ہے یا تواتر اور توارث سے ہم تک پہنچا ہے۔ نہایت ہی گہرے عاشقانہ احترام کے ساتھ اپنی نظریاتی زندگی کا راہ نما بنائیں۔ اسی لئے اقبال کا یہ شعر
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
کسی بے بنیاد خوش فہمی پر مبنی نہیں بلکہ خودی کی لازوال فطرت کے ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔
اگر ہم رحمتہ للعالمین کی مکمل اطاعت بجا نہ لا سکیں تو پھر ایسا تو نہیں ہو سکتاکہ ارتقائے انسانیت اپنی منزل مقصود کی طرف آگے نہ بڑھے۔ زندگی کی غیر مبدل خصوصیات کی وجہ سے اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہ ہو گا کہ ارتقا کی قوتیں ہمیں مٹا کر ایک اور قوم کو ہماری جگہ پر لائیں گی۔ جو ہماری طرح نہیں ہو گی بلکہ رحمتہ للعالمین کی سچی اور عاشقانہ اطاعت کی وجہ سے در حقیقت اس قابل ہو گی کہ حرکت ارتقا کا مقصود اور مدعا اور اقوام عالم کی راہ نما اور زمین کی وارث قرار پائے۔ قرآن حکیم میں اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں ہوا ہے۔
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحبکم
(اے پیغمبران لوگوں سے کہئے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو۔ پھر خدا بھی تم سے محبت کرے گا)
انتم الاعلون ان کنتم مومنین
(اگر تم ایمان دار ثابت ہوئے تو تم ہی غالب رہو گے)
اقبال نے گویا اس آیت کریمہ کا ترجمہ کر دیا ہے۔
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ
اگرچہ یہ حقیقت زندگی کی خصوصیات اور ارتقائے عالم کی ضروریات سے صاف ظاہر ہے تاہم قرآن حکیم نے خود بھی اس کا اعلان فرمایا ہے۔
وان تتولو یستبدل قوماً غیر کم ثم یکونوا امثالکم (47:38)
(اگر تم خدا سے منہ نہ پھیر لو گے تو وہ تمہاری جگہ اور قوم لے آئے گا اور پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے
یاایھا الذین امنو من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبھم ویحبونہ ذلہ علی المومنین اعزۃ علی الکفرین یجاھدون فی سبے اللہ ولا یخافون لامہ لائم ذالک فضل اللہ یوتیہ میں یشاء واللہ واسع علیم (5:5)
(اے ایمان والو۔ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب خدا ایک ایسی قوم کو پیدا کر دے گا جو خدا سے محبت کرے گی اور جس سے خدا محبت کرے گا۔ وہ مومنوں کے لئے نرم اور کافروں کے لئے سخت ہوں گے۔ وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ تمہارا ایمان اور عمل خدا پر تمہارا احسان نہیں بلکہ تم پر خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل عطا کرتا ہے اور خدا کا علم وسیع ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس فضل کا حقدار ہے)