امت مسلمہ کا عالمگیر غلبہ ارتقا کی ایک ضرورت ہے، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

امت مسلمہ کا عالمگیر غلبہ ارتقا کی ایک ضرورت ہے

ارتقا کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ضروری تھا کہ جب ایک مکمل جسم حیوانی یا انسان ظہور پذیر ہو جائے تو اس کی اولاد متواتر ترقی کرتی اور بڑھتی رہے یہاں تک کہ زمین کو بھر دے اور اس کے بعد تاقیامت موجود رہے۔ اسی طرح سے ارتقا کے مقاصد کے لئے ضروری ہے کہ جب ایک مکمل نبی یا رحمتہ للعالمینؐ ظہور پذیر ہو جائے تو اس کی روحانی اولاد یا امت متواتر بڑھتی اور پھیلتی رہے۔ یہاں تک کہ زمین کو بھر دے اور اس کے بعد تاقیامت موجود رہے۔ یہی سبب ہے کہ اقبال بار بار اس خیال کا اظہار کرتا ہے کہ تکمیل انسانیت کے قدرتی عمل میں رحمتہ للعالمین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ انسانیت کی تکمیل حضور کے نمونہ کے مطابق اور حضور کی امت کے ذریعہ سے ہو گی۔ عالمی ارتقا کے ناقابل مزاحمت اور ناقابل انسداد عمل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حضور کی امت دنیا میں پھیل جائے گی اور باقی رہے گی اور اس کے علاوہ دوسری تمام قومیں مٹ کر اس کی دائمی زندگی اور عظمت کے لئے راستہ ہموار کریں گی۔ یہ بات کبھی کبھی وہ دبی زبان سے اور لطیف اور بلیغ اشاروں میں کہتا ہے جس سے اس کی بات بہت زیادہ موثر اور زور دار ہو جاتی ہے۔ مثلاً آئندہ زمانہ میں اسلام کی عالمگیر اشاعت اور قبولیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتاہے کہ اس واقعہ کا علم کسی کو نہیں لیکن وہ اسے صاف طور پر دیکھ رہا ہے۔
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
٭٭٭
کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانے ہیں مدت سے خموش
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زمان ہمارا
٭٭٭
عروج آدم خاکی کے منظر ہیں تمام
یہ کہکشاں یہ ستارے یہ نیلگوں افلاک
٭٭٭
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
٭٭٭
آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
٭٭٭
تاریخ کے مختلف انقلابات اور ان کی پیش رو علامات کا ذکر کرنے کے بعد اقبال مستقبل کے عالمی اسلامی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
روح مسلمان میں ہے آج وی اضطراب
راز خدائی ہے یہ کہ نہیں سکتی زبان
دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
آب رواں کبیر ترے کنارے کوئی،
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
پھر اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ مستقبل کا انسان جو بندہ مومن اور رحمتہ للعالمین ؐ کا امتی ہو گا رات اور دن سے صورت پذیر ہونے والے وقت کے سیاہ اور سفید گھوڑے پر سوار ہو کر چلا آ رہا ہے۔ وقت ہی کی طرح ا س کی آمد کو کوئی نہیں روک سکتا۔ خدا کرے کہ وہ جلد آئے اور ہماری آنکھوں میں آباد ہو۔ کیونکہ وہی ہے جو آ کر اقوام عالم کو امن و اتحاد کی نعمتوں سے ہمکنار کرے گا۔ اس کی آمد سے پہلے مکمل اور مستقل عالمی امن اور اتحاد کا ظہور ناممکن ہے۔ وہی دیدہ امکان کا نور ہے کیونکہ وہی تخلیق کائنات کا اصل مقصود ہے۔ نوع انسان بے خدائیت کی خزاں سے چمن کائنات اجڑ گیا ہے۔ وہ آئے گا تو اس چمن میں بہار آئے گی۔
اے سوار اشب دوران بیا
اے فروغ دیدہ امکان بیا
رونق ہنگامہ ایجاد شو،
در سواد دید ہا آباد شو،
شورش اقوام را خاموش کن
نغمہ خود را بہشت گوش کن
ریخت از جور خزاں برگ شجر
چوں بہاراں بر ریاض ما گذر،
نوع انسان مزرع و تو حاصلی
کاروان زندگی را منزلی
جب مستقبل کا یہ انسان آئے گا تو اقبال بھی اپنے مقام کو پائے گا کیونکہ پھر دنیا میں ایسے لوگ موجود ہو جائیں گے جو ا س کی عظمت کے مقام کو پہچان سکیں گے اور اس کی قدر دانی کر سکیں گے۔ اقبال اس انسان کا منتظر ہے۔
انتظار صبح خیزاں مے کشم
اے خوش زردشتیان را آتشم
نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم
من نوائے شاعر فرواستم
عصر من دانندہ اسرار نیست
یوسف من بہر ایں بازار نیست
نا امید ستم زیاران قدیم
طور مے سوزد کہ مے آید کلیم،
نغمہ من از جہان دیگر است
ایں جرس را کاروانے دیگر است
قرآن حکیم کی شہادت
اگر ہم امام رازی کے طریق تفسیر یعنی منطقی تجزیہ اور استدلال سے الگ ہو کر قرآن حکیم کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ قرآن حکیم سچے خدا کی محبت اور اطاعت کی براہ راست اور بلاواسطہ دعوت ہے جو منطقی تجزیہ اور استدلال سے بے نیاز ہے اور جس میں قوموں کی تقدیر کا یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہی قوم دنیا میں ہمیشہ زندہ اور سلامت اور خوشحال فارغ البال رہے گی جو سچے خدا کی محبت اور اطاعت کو اپنا شعار بنائے گی یہ قوم امت مسلمہ ہے اور دوسری ہر قوم زود یا بدیر خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
چوں سرمہ رازی راز دیدہ فروشتم
تقدیر امم دیدم پنہاں بکتاب اندر
یہی قوم تاریخ کے عمل کا مقصود اور مطلوب ہے اور تاریخ کا عمل اور قوموں کو رفتہ رفتہ مٹا کر اسی قوم کے استحکام اور استقلال کے لئے راستہ صاف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس کے مٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا غلط نظریات وہ بت ہیں جو خدا کی جگہ لیتے ہیں۔ وہ زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتے جاتے ہیں۔ پرانے ترک کر دئیے جاتے ہیں اور ان کی بجائے نئے گھڑ لئے جاتے ہیں۔ لیکن سچا نظریہ حیات یعنی اسلام جس کی بنیاد خدا کے اس صحیح اور کامل تصور پر ہے جو رحمتہ للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہے لازوال اور پائیدار ہے اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔
زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست
من از حرم نگنشتم کہ پختہ بنیاد است
یہاں بت غلط نصب العین سے اور حرم اسلام سے استعارہ ہے۔
زور دار پیش گوئی
تاہم کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اقبال اشاروں پر قناعت نہیں کرتا بلکہ نہایت ہی کھلے اور زوردار الفاظ میں اسلام کے عروج اور امت مسلمہ کے عالمگیر غلبہ کی پیش گوئی کرتا ہے اور مسلمانوں کو یقین دلاتا ہے کہ ان کے سوائے دنیا میں کوئی دوسری قوم موجود نہیں اور اگر ہے تو مٹ جانے کے لئے ہے اور اس کا وجود عارضی ہے۔
حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا
تو ہے تجھے جو کچھ نظر آتا ہے نہیں ہے
٭٭٭
قدم بیباک تر نہ در رہ زیست
بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست
٭٭٭
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہ
٭٭٭
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
٭٭٭
وہ علی الاعلان کہتا ہے کہ امت مسلمہ عمل تاریخ کے اس قاعدہ کی زد میں نہیں آتی جو قوموں کو اجل سے ہمکنار کرتا ہے۔ کیونکہ یہ قاعدہ صرف ان قوموں پر اثر انداز ہوتا ہے جو غلط اور ناقص تصورات حقیقت پر مبنی ہوں مسلمان قوم کے ساتھ خدا نے وعدہ کر رکھا ہے۔
انا نحن نزلنا الذکرو انا لہ لحافظون
(ہم نے ہی ذکریا قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں)
ذکر کی حفاظت ذکر کرنے والے کی حفاظت کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا قرآن کی حفاظت کے وعدہ کے اندر مسلمان قوم کی حفاظت کا وعدہ بھی موجود ہے جو قرآن کی حامل ہے پھر اس سے زیادہ واضح الفاظ میں قرآن حکیم کا وعدہ ان آیات میں ہے۔
یریدون ان یطفوا نور اللہ بافواہم ویابی اللہ الا ان یتم نور ولو کرہ الکفرون۔ ہو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق یظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون۔
’’ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ سے پھونک مار کر بجھا دیں اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام ادیان اور نظریات زندگی پر غالب کر دے اگرچہ کافر ناخوش ہوں"
یہی سبب ہے کہ زمانہ کے بڑے بڑے حادثات مسلمان قوم کو مٹا نہیں سکے۔ ہر بڑا حادثہ جو اس قوم کو نیست و نابود کرنے کے لئے کافی تھا اس کے لئے زندگی کا سامان بن گیا۔ ہر آگ جو کسی نمرود نے اس کے لئے روشن کی وہ ایک گلزار بن گئی۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے خدا کا عشق وہ قانون ہے جس پر کائنات کے وجود کا دار و مدار ہے لیکن خدا کا عشق کلمہ توحید کی صورت میں ایک امانت کے طور پر مسلمان قوم کے پاس ہے۔ اگر یہ قوم مٹ جائے تو خود کائنات باقی نہیں رہتی۔ اقبال ان آیات کا حوالہ دے کر کہتا ہے:
از اجل ایں قوم بے پرواستے،
استوار از نحن نزلناستے
ذکر قائم از قیام ذاکر است
از دوام او دوام ذاکر است
تا خدا ان یطفو فرمودہ است
از فسردن ایں چراغ آسودہ است
زانکہ مارا فطرت ابراہیمی است
ہم بہ مولیٰ نسبت ابراہیم است
از تہ آتش بر اندازیم گل،
نار ہر نمرود را سازیم گل،
شعلہ ہائے انقلاب روزگار
چوں بباغ مارسد گرد و بہار
آتش تا تادیاں گلزار کیست
شعلہ ہائے او گل دستار کیست
رومیاں را گرم بازاری نماند،
آن جہاں گیری جہاں داری نماند،
شیشہ سا سانیاں در خوں نشست
رونق خمخانہ یوناں شکست
مصر ہم در امتحان ناکام ماند،
استخوان ادتہ اہرام ماند،
در جہاں بانگ اذاں بودوست و ہست
ملت اسلامیان بود است و ہست
عشق آئین حیات عالم است
امتزاج سالمات عالم است
گرچہ مثل غنچہ دیگریم ما،

گلستان میرو اگر میریم ما