خودی کی ایک اہم خصوصیت، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی کی ایک اہم خصوصیت
اطاعت رسولؐ اور اقتدائے رفتگاں پر زور دینے کی وجہ سے اقبال کے بعض نادان نکتہ چین اسے ملائیت اور تحجر اور جمود کا طعنہ دیتے ہیں دراصل ایسے لوگ اقبال کی حکیمانہ بصیرت سے بے خبر اور اس کے فکر کی گہرائیوں سے نا آشنا ہیں۔ خودی یا زندگی کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اپنی ترقی کے کسی مرحلہ کے آغاز میں ج وبھی نئی شکل وہ اختیار کرتی ہے خواہ وہ ظاہری اسباب اور حالات جنہوں نے اس شکل کا اختیار کرنا اس کے لئے ممکن بنایا ہو۔ کچھ ہوں وہ شکل ہمیشہ کے لئے طے پا جاتی ہے اور آئندہ کے لئے اس میں کسی قسم کا رد و بدل ممکن نہیں ہوتا اور زندگی خواہ حیاتیاتی سطح ارتقا پر کار پرداز ہو یا نظریاتی سطح ارتقا پر یہ بات ہر حالت میں درست رہتی ہے۔
مثلاً ایک نومولود بچہ کی شکل و صورت اور خد و خال کی جو تفصیلات آغاز حیات میں مقرر ہو جاتی ہیں وہی زندگی کے آخری لمحہ تک چلی جاتی ہیں اور نشوونما سے حجم اور وضاحت کے سوائے ان میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح سے جب کسی حیاتیاتی تقلیب کے نتیجہ کے طور پر ایک نئی نوع حیوانات کا جد اول یا پہلا فرد وجود میں آتا ہے تو اس کی شکل و صورت اور اعضاء و جوارع کی جو خصوصیات اس کے جسم میں ظہور پذیر ہوتی ہیں وہ اس کی نوع میں نسلاً بعد نسلاً جب تک کہ نوع باقی رہے ہمیشہ موجود رہتی ہیں۔ زندگی کے عمل کی ان خصوصیات کی وجہ سے ایک نوع حیوانی یا تو اپنی ابتدائی اور اصلی صورت پر ہمیشہ قائم رہتی ہے اور یا پھر کلیتاً مٹ جاتی ہے لیکن بدلتی نہیں۔
اسی طرح سے جب کسی نظریاتی تقلیب کے نتیجہ کے طور پر ایک نئی قدرتی (یعنی نبوتی) نظریاتی جماعت کا جد اول یا پہلا فرد ظہور پذیر ہوتا ہے تو عمل کے وہ قواعد اور رسوم اور قوانین اور طریقے جو اس کے نظریہ کے خصائص ہوتے ہیں اور جن کو مجموعی طور پر اس کا قانون شریعت کہا جاتاہے۔ اس کی نظریاتی جماعت یا امت میں نسلاً بعد نسلاً جب تک کہ وہ امت باقی رہے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ زندگی کی خصوصیات کی وجہ سے ایک نوع حیوانی کی طرح ایک نبی کی نظریاتی جماعت بھی یا تو اپنی ابتدائی اور اصلی صورت پر ہمیشہ باقی رہتی ہے یا اگر اس میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہ ہو تو کلیتاً مٹ جاتی ہے لیکن بدلتی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ایک مذہب زندہ رہتا ہے اس کے پیرو اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنے اندر الحاد اور بدعت کے نمودار ہوئے کو روکتے رہتے ہیں۔ جس طرح سے حیاتیاتی وراثت کا قانون ایک نوع حیوانی کی اصلی شکل و صورت کی حفاظت ایک ایسے انتظام سے کرتا جو جسم حیوانی کے اندر موجود ہوتی ہے۔ا سی طرح سے نظریاتی وراثت کا قانون بھی ایک نبوتی نظریاتی جماعت کی شریعت کی حفاظت ایک ایسے انتظام سے کرتا ہے جو انسان کی فطرت کے اندر موجود ہوتا ہے۔ جسم حیوانی کے اندر کام کرنے والے وہی حیاتیاتی قوانین جو اس کے لئے توالد کو ممکن بناتے ہیں۔ حیوان کی آئندہ نسلوں کو ان کے جد اول کی شکل و صورت سے ذرہ بھر انحراف کرنے نہیں دیتے۔ اسی طرح سے فطرت انسانی کے وہی نفسیاتی قوانین جو کسی انسان کے لئے ممکن بناتے ہیں کہ وہ کسی نبی پر ایمان لائے اور اس کی روحانی اولاد قرار پائے۔ نبی پر ایمان لانے والوں کی آئندہ نسلوں کو اس کی شریعت سے سر مو انحراف کرنے نہیں دیتے۔ قرآن حکیم نے ذیل کی آیات مبارکہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (4:64)
(اور ہم نے جو بھی پیغمبربھیجا اسی لئے بھیجا کہ خدا کے حکم کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے)
فلا وریک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوانی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما
(تمہارے پروردگار کی قسم جب تک یہ لوگ اپنے تنازعات میں تمہیں حکم نہ بنائیں اور حکم بنانے کے بعد آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ خوشی سے سر تسلیم خم کر دیں۔ اس وقت تک ایمان دار شمار نہیں ہوں گے)
خودی کی اس خصوصیت کا نتیجہ
زندگی کی اس خصوصیت کی وجہ سے انسان کی نظریاتی زندگی سے قریب کا تعلق رکھنے والا کوئی قول یا فعل جو نبی سے سر زد ہوتا ہے خواہ وہ کسی اتفاق کا یا سلسلہ اتفاقات کا نتیجہ ہو یا اس کے فوری اسباب اور حالات کچھ ہوں۔ وہ اس کی امت کے لئے تا قیامت شریعت کا ایک قانون بن جاتا ہے۔ جس کی دیدہ و دانستہ نافرمانی انسان کو ارتقا کی شاہراہ سے ہٹا دیتی ہے اور اس شاہراہ سے ہٹے ہوئے غلط راستوں پر پڑی ہوئی نظریاتی جماعتوں میں شامل کر دیتی ہے جن کے لئے مٹ جانا مقدر ہے۔ قرآن حکیم نے اس شاہراہ ارتقا کو جو صرف ایک ہی ہے صراط مستقیم کہا ہے اور اس سے ہٹے ہوئے غلط راستوں کو جو بہت سے ہیں سبل کہا ہے۔
ان ھذا صراطی مستقیما ماتبعو۔ ولا تتبعو السبل فتفرق لکم عن سبیلہ
(بے شک یہ میرا راستہ سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو اور چھوٹے چھوٹے بہت سے راستوں کی پیروی نہ کرو جو تمہیں خدا کے راستہ سے ہٹا دیں)
یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے صحابہ کو منع فرمایا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کی امت کی طرح اپنے رسولؐ سے زیادہ سوالات کر کے اپنے دین کو پیچیدہ اور مشکل نہ بنائیں۔
اتریدن ان تسئلو ارسولکم کما سئل موسی من قبل
(کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے بے ضرورت ایسے سوالات کرو جیسے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کئے تھے)
اور یہی سبب ہے کہ حضور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ایسے اقوال اور افعال سے احتیاط فرماتے تھے جو امت کے لئے دین کو مشکل بنا دیں کیونکہ ضروری تھا کہ ان کو نظر انداز کرنے سے رسول کی نافرمانی لازم آئے۔
خودی کی اس خصوصیت کے بغیر ارتقا ممکن نہ ہوتا

زندگی کی اس بنیادی خصوصیت کی روشنی میں یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ کیوں رحمتہ للعالمین کے عطا کئے ہوئے نظریہ حیات کے اندر اس بات کی ایک طاقتور اور ناقابل انسداد صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہمیشہ اسی حالت پر باقی رہے جس پر اس کے بانیؐ نے اسے چھوڑا تھا۔ زندگی کی یہ خصوصیت دراصل ارتقا کی ضروریات کے تابع وجود میں آئی ہے۔ اگر زندگی میں یہ خصوصیت نہ ہوتی تو جب اس کی انتھک کوششوں سے کروڑوں برس کے حیاتیاتی ارتقا کے بعد انسان کی صورت میں جسمانی اور دماغی لحاظ سے ایک حیرت انگیز طور پر مکمل جسم حیوانی وجود میں آیا تھا۔ تو اس بات کی کوئی ضمانت نہ ہوتی کہ وہ آئندہ کے لئے نہایت ہی مشکل اور بدلتے ہوئے حالات کے باوجود اپنے حیاتیاتی کمالات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قائم رکھ سکے گا اور اس طرح سے آئندہ کے پورے ارتقا کا ایک قابل اعتماد راستہ بن سکے گا۔ پھر اسی طرح سے اگر زندگی میں یہ خصوصیت نہ ہوتی تو جب لاکھوں برس کے نظریاتی ارتقا کے بعد ایک رحمتہ للعالمین کی مقدس زندگی کی صورت میں ایک حیرت انگیز طور پر مکمل نظریہ حیات وجود میں آیا تھا تو اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہ ہوتی کہ وہ نظریہ حیات آئندہ کے نہایت ہی مشکلا ور بدلتے ہوئے حالات کے باوجود اپنے نظریاتی محاسن اور کمالات کو تاقیامت قائم رکھ سکے گا اور اس طرح سے بعد کے پورے ارتقائے انسانیت کا ایک قابل اعتماد ذریعہ بن سکے گا قدرت کا قانون وراثت خواہ حیاتیاتی ہو یا نظریاتی وہ نہ صرف ارتقا کے منافی نہیں بلکہ ارتقا کے لئے از بس ضروری ہے اس کے بغیر زندگی نہ تو اپنی گزشتہ حاصلات کو محفوظ کر سکتی تھی اور نہ ہی ان کی بنیادوں پر آئندہ کے حاصلات کی تعمیر کر سکتی تھی یہ قانون اس بات کا ضامن ہے کہ کوئی تغیر یا تو مقاصد ارتقا کے لئے مفید ہو گا اور اس راستہ پر ظہور پذیر ہو گا جو صحیح ہے اور ارتقا کی بلند تر منزلوں کی طرف جاتا ہے اور یا پھر اس کو فنا کی قوتوں کے سپرد کر دیا جائے گا تاکہ وہ اسے زود یا بدیر مٹا کر رہیں۔