نقل اور عقل کی موافقت
اقبال کا یہ خیال کہ مرد مومن اپنی خودی کے مقام کمال پر خدا کی تقدیر بن جاتاہے نہ مذہبی طور پر ناقابل فہم ہے اورنہ عقلی طور پر بلکہ نقل اور عقل دونوں کے اعتبار سے درست ہے۔
قرآن حکیم میں خدا نے رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر میرے بندے میرے متعلق آپ سے سوال کریں تو انہیںکہیے کہ میں قریب ہوں۔ جب کوئی دعا کرنے والا مجھ سے دعا کرتا ہے تومیں اس کی دعا قبول کرتاہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بھی میری دعوت کو قبول کریں اور مجھ پر کامل ایمان لائیں۔
(واذا سئلک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع ذادعان فلیستجیبوا لی ولیومنوا بی)
اور خدا کی دعوت کیا ہے یہی کہ خدا سے ایسی دلی محبت کرو اور خدا کی ایسی مخلصانہ عبادت اور اطاعت کرو کہ جس سے تم زندہ ہو جائو۔
یا ایھا الذین امنوا استجیبو اللہ وللر سول اذا دعا کم لما یحییکم
(اے ایمان والو خدا اور رسول کی دعوت کو قبول کرو۔ جب وہ تمہیں ایسے کام کے لیے بلائے جو تمہیں زندہ کرنے والا ہو) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی مومن کا کوئی ایسا مقام نہیں جو اسے ایمان لانے کے بعد خدا اور رسول کی اطاعت سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی مقام کو اقبال خودی کی زندگی یا بیداری یا خودی کا انقلاب کہتا ہے اور خدا پر سچے اور کامل ایمان کا مقام بھی یہی ہے۔ اوپر کی آیت کے مطابق زندگی کے اس مقام کو پانے کی دعوت قبول کرنا اور اس کے نتیجہ کے طورپر خدا پر سچا اور کامل ایمان اور لانا قبولیت دعا کی شرط ہے۔
اقبال کے نزدیک ایسا ایمان کامل مومن کو خودی کے درجہ کمال پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ خودی کے اس درجہ کمال پر مومن مستجاب الدعوات ہو جاتاہے یا یہ کہنا کہ وہ خدا کی تقدیر بن جاتا ہے۔ دونوں باتوں میں معناً کوئی فرق نہیں۔ آیت میں یہ نہیںکہا گیا کہ خدا تمہاری کوئی دعا قبول کرے گااور کوئی نہیں کرے گا۔ بلکہ اس بات کا قطعی وعدہ ہے کہ جب تم مانگو گے تو دعا قبول کی جائے گی۔ لیکن اس کے لیے ایمان کامل کی شرط کا پورا کرنا ضروری ہے۔ گویا اگر ہماری کوئی دعا کسی وقت قبول نہیں ہوتی تو اس کی وجہ یہ ہو گی کہ ہم نے خدا کی دعوت زندگی کو پوری طرح سے قبول نہیںکیا۔ اور ہم خودی کی زندگی کے مقام یا ایمان کامل کے مقام پرنہیں پہنچے۔ مومن خدا کی تقدیر ان معنوںمیں بھی ہے کہ جب وہ دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدلنا چاہتا ہے تو خدا اس کی مد د کرتا ہے اور دنیا در حقیقت اس کی مرضی کے مطابق بدل جاتی ہے۔ اس طرح سے مومن خدا کے عمل کا ذریعہ اور اس کی تقدیر کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا (ان تنصر واللہ ینصر کم) حدیث میں ہے کہ جب مومن کثرت عبادات و نوافل سے خدا کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو خدا اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اورپائوں بن جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے اور کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔ حضورؐ نے جب احد کی جنگ میں مٹھی بھر ریت پھینکی تو وہ دشمنوں کی آنکھوں میں پڑ کر ان کی شکست کا باعث بنی۔ اس پر خدا نے فرمایا کہ جب آپ نے ریت پھینکی تو ااپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی ۔
(ومارمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی)
ارتقائی حرکت کا ہمہ گیر قانون
عقلی طور پر یہ حقیقت قدرت کے جس قانون کی مظہر ہے کائنات کی ساری ارتقائی حرکت اسی پر مبنی ہے ۔ جب زندگی کی کوئی مخفی قوت ارتقا کے کسی مرحلہ پرایک حد تک آشکار ہو جاتی ہے۔ تو پھر زندگی ارتقا کے مقاصد کی پیش برو کے لیے اس حد تک اپنی کسی مخفی قوت پر نہیں بلکہ اپنی اس آشکار قوت پر انحصار کرتی ہے۔ اسی کو اپنا آلہ کار بناتی ہے۔ اور اسی کے ذریعہ سے ارتقا کے عمل کو آگے بڑھاتی ہے۔ گویا زندگی کن کے عمل کو جاری رکھنے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ہر قدم پر کن کے حاصلات ہی سے کام لیتی ہے۔ اور اس کے موجودہ حاصلات آئندہ حاصلات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مثلاً زندگی نے مادی مرحلہ ارتقا کے اندر مادہ کی ابتدائی حالت کی شکل میں برقی قوت کے مثبت اورمنفی باروں (Charges) کو آشکار کیا ہے۔ مادہ کی ابتدائی حالت ان ہی باروں سے عبارت تھی۔ پھر ان باروں کے عمل کے ذریعہ سے زندگی نے مادہ کو مزید ترقی دینے کا مقصد حاصل کیا جس سے مادہ کو نئی قوتیں حاصل ہوئیں۔ پھر ان نئی قوتوں کو مادہ کی مزید ترقی کا ذریعہ بنایا اور یہ عمل جاری رہا یہاں تک کہ مادہ کی وہ تمام خصوصیتیں جن کو آج ہم مادی قوانین قدرت کہتے ہیں ظہور پذیر ہو گئیں۔ اسی طرح سے جب پہلا حیوا ن وجود میں آیا تھا تو وہ ضبط ایک ہی خلیہ پر مشتمل تھا۔ اس خلیہ میں زندگی نے نقل و حرکت کی استعدادکے علاوہ اخذ غذا اور توالد کی دو جبلتیں بھی پیدا کیں جو ابتدائی حالت میں تھیں۔ زندگی نے ان دو جبلتوں کے فطری عمل کو حیوان کی مزید ترقی کا ذریعہ بنایا جس کے نتیجہ کے طور پر بہتر سے بہتر قسم کی انواع و حیوانات وجودمیں آتی رہیں یہاںتک کہ حضرت انسان نمودار ہوا۔ انسان کی تمام فطری قوتوں میں سب سے زیادہ اہم اور مرکزی اور بنیادی قو ت خدا کی محبت یا آرزوئے حسن ہے۔ اس قوت کے عمل کے ذریعہ سے ہی زندگی انسان کو ہزاروں سال سے متواتر ارتقا کے مدارج طے کروا رہی ہے جس کی وجہ سے انسان کو ہر مرحلہ پر نئی نئی قوتیں حاصل ہو رہی ہیں۔ علوم کا سارا ذخیرہ اور زندگی کے مشاغل کی تحسین تزئین اور تسہیل کے سارے ذرائع اور طریقے جو انسان آج تک پیدا کر سکا ہے اسی قوت کے بعض پہلوئوں کے عمل کا نتیجہ ہیں۔ تاہم ابھتک نسل انسانی نے مجموعی طور پر اس قوت سے صحیح طورپر کام لینا نہیں سیکھا۔ جب انسان اپنی آرزوئے حسن کو صحیح تصور حسن کی محبت سے مطمئن کرتا ہے تو اس کی شخصیت اس قوت کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے جو کائنات کے تخلیقی اور ارتقائی عمل کو حرکت دے رہی ہے اور یہ خدا کے قول کن کی قوت ہے لہٰذا جس حد تک کہ مومن کی شخصیت اس قوت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ اس حد تک مومن کا اپنا قول کن بھی کائنات کے ارتقائی عمل پر اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے جس طرح سے کہ خدا کا قول کن پر اثر انداز ہو رہاہے کیونکہ اس حد تک خدا کا قول کن مومن کے قول کن کی صورت اختیار کرتاہے ۔ خدا انسان کے اندر کائنات کے ارتقاء کے آخر ی مرحلہ میں قول کن کی قوت کو آشکار کرتاہے۔ لہٰذااگر وہ کائنات میںاپنے آخری تخلیقی اور ارتقائی مقاصد کے حصول کے لیے اپنی اس آشکار قوت سے کام لے جس سے انسان کی مرضی اور اس کی تقدیر کا آلہ کار بن جائے تو اس میں ٹعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ خدا کے سابق دستور اور طریق عمل کے عین مطابق ہے ۔ جب مرد مومن خدا کاہاتھ یا پائو ں یا کان یا آنکھ بن جائے تو تعجب کیا ہے کہ خدا اس کے ان اعضا سے پکڑنے ریت پھینکنے چلنے سننے یا دیکھنے کا کام لے۔ خدا بننے یا خدائی کا رازدان بننے سے اقبا ل کا مطلب بس اتنا ہی ہے اور اس میںغلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اقبال کے جو نکتہ چین غلطی سے سمجھتے ہیں کہ اقبال خودی اور خدا میں فرق نہیں کرتا وہ اس گزارش کو نوٹ فرمائیں۔
یک رنگی اور بیباکی
خودی کے انقلاب کے بعد مومن یک رنگ یک دل اور یک زبان ہو جاتاہے اسے مکاری ‘ منافقت اور ڈپلومیسی کی ضرورت نہیںرہتی۔ چونکہ مومن کے دل میں خدا کی نہایت گہری اور شدید محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے خیالات ایک مرکز پر جمع ہو جاتے ہیں اور وہ مرکز خدا کی ذات ہوتا ہے۔ پھر وہ مخالف افکار و آرا اور متضاد اعمال وافعال کا شکار نہیںرہتا۔ خودی کی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات اور اعمال کو خد ا کے مرکز پر جمع کرے لہٰذا جب اس کے خیالات اور عمال ایک مرکز پر جمع ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی فطرت کو پا لیتی ہے۔ اور اس کی زندگی کی قوت بھی ایک مرکز پر آ جانے کی وجہ سے ممکن حد تک بڑھ جاتی ہے۔
حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں
مومن کی شخصیت میںایک مکمل وحدت اور ہم رنگی کے ساتھ ہی ایک مکمل خود اعتمادی کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے اپنے طے کیے ہوئے اعتقاد و عمل کی صحت پر اتنا بھروسہ ہوتاہے کہ وہ اپنے موقف کو کسی خوف سے بدلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ اگر زمانہ اس کے ساتھ موافقت نہ کرے تو وہ زمانہ سے موافقت نہیں کرتا بلکہ زمانہ کو بدل کر اپنے ساتھ موافق کرنے کے لیے جدوجہد کرتاہے۔
حدیث بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز
زمانہ با تونسازو تو با زمانہ ستیز‘
لہٰذ ا اسے جھوٹ یا فریب یا روباہی سے جسے اقبال حیلہ افرنگی کہتا ہے کام لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ صاف صاف بات کہتا ہے خواہ نتائج کچھ ہوں۔
آئیں جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
محبت کے اندر یکسوئی اور بے باکی اس کی محبت کو درجہ کمال پرقائم رکھتی ہے۔ اخلاص کے بغیر محبت کی کامیابی ممکن نہیںہوتی لیکن اخلاص کو قائم رکھنا ذرا ہمت کاکام ہے۔
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ
یک رنگی و بے باکی اے ہمت مردانہ
زندگی جاوید
خودی کے انقلاب کے بعد مومن زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور موت اس پر حرام ہو جاتی ہے۔
یہ حقیقت کہ ہماری خودی ہمہ تن خدا کی محبت ہے جو حی و قیوم ہے اور خود بخود زندگی اور حیات ہے اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ہم خدا کی محبت کی نشوونما کر کے درجہ کمال پر پہنچا دیں تو ہم خود بھی خدا کی طرح جاوداں بن سکتے ہیں۔ کیونکہ ضروری ہے کہ خدا کا کامیاب عشق بھی خدا کی صفات کو جذب کر کے جن میں وہ ہمیشہ کی زندگی ہے ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جائے۔ ہمارا او ر خدا کا تعلق اگرچہ ایک راز سربستہ ہے لیکن ہمارے دوام کا گواہ ہے۔
من داد چیست اسرار الٰہی است
من داد بر دوام ما گواہی است
جب ہم زندگی پر عاشق ہیں اور ہمارے عشق میں پوری طرح سے کامیاب ہونے کی صلاحیت ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم زندگی بن جائیں۔ ہمارا قدرتی مستقبل جو ہماری غیر مبدل فطرت میں پوشیدہ ہے۔ زندگی ہے موت نہیں ورنہ ہم سراسر زندگی کا کامیاب عشق نہ سن سکتے۔ زندگی سانس کا یہ آنا جانا نہیںبلکہ اس کا منبع خدا ہے جو حی و قیوم ہے اور جس کی محبت ہماری فطرت میں ہے۔
زندگانی نیست تکرار نفس
اصل و از حی و قیوم است و بس
ضرور ی ہے کہ زندگی کا عشق بھی ایک ایسی چیز ہو جو زندگی کے اصل مرکزیا منبع سے کھو چکی ہو اور پھر اپنی اصل کی طرف لوٹنے کی خواہش رکھتی ہو اور اسی خواہش کی وجہ سے وہ عشق بن گئی ہو۔ عشق کا اصل زندگی کی طرف لوٹنے کی تمنا کرنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ زندگی کو پا سکے گا جس کے بعد موت اس پر حرام ہو جائے گی کیونکہ عشق حقیقی کی تمنا ناکام نہیںہوتی۔
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات و موت ہے اس پر حرام
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود‘
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود