جسم حیوانی اور شخصیت انسانی کی مماثلت
ایک جسم انسانی کی صحت کا دارومدار اس پر ہوتاہے کہ اس کے اندر زندگی کی رو کس قدر قوی ہے اگر جسم انسانی میں زندگی کی رو قوی ہو تو وہ موت لانے والے عوامل یعنی بیماریوں اور جراثیمی سرایتوں پرباسانی غالب آ جاتا ہے۔ بیمار ‘ کمزور اور نحیف جسم حیوانی کے اندر زندگی کی رو کمزور ہوتی ہے۔ اور وہ بیماریوں اور جراثیمی سرایتوں کو قبول کرنے کے لیے اور بھی مستعد ہو جاتا ہے۔ جسم حیوانی کی صحت اور زندگی کی رو کی قوت کا دارومدار اس کی خوراک کی عمدی پر اور صحت کو قائم رکھنے والے دوسرے حالات کی موجودگی پر اور نیز ا س بات پر ہوتا ہے کہ اس کی جسمانی نشوونما اور پرورش کیسے ہوئی ہے۔
اسی طرح انسان کی روح یا خودی کی صحت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے اندر زندگی کی رو جو خدا کی محبت کی صورت اختیار کرتی ہے کہ کس قدر قوی ہے اور پھر اس رو کی قوت کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کا تصور حسن جس سے اس کی خودی حسن کی غذا جذب کرتی ہے عمدہ اور حسین ہے یا نہیں اور اس کی زندگی کے تجربات اور اعمال اور افعال خدا کی محبت سے سرزد ہوتے ہیں یا نہیں اور اس نے خدا کی محبت کی نشوونما اور پرورش کس حد تک کی ہے۔ اس زندگی میں بھی اگر روح یاخودی میں زندگی کی رو یا خدا کی محبت قوی ہو تو وہ روحانی موت لانے والے عوامل یعنی گناہوں اور اخلاقی کمزوریوں اور بیماریوںپر غالب آ جاتی ہے ۔ خدا کی محبت سے دور اور اخلاقی کمزوریوں اور بیماریوں پر غالب آ جاتی ہے۔ خدا کی محبت سے دور اور اخلاقی کمزوریوں سے گھری ہوئی خودی خدا اور دور ہونے اور اخلاقی کمزوریوں اور بیماریوں میںغرق ہونے کے لیے مستعد ہوتی ہے۔ اگر ایک قوی اور توانا جسم کچھ عرصہ کے لیے خوراک اور حفظان صحت کے لوازمات کو ترک کر دے تو وہ کمزور اور ناتواں ہو جاتا ہے اسی طرح سے اگر ایک قوی اور توانا خودی جس میں زندگی یا خدا کی محبت کی رو طاقت ور ہو کچھ عرصہ کے لیے خدا کی مخلصانہ عبادت اور حسن عمل کوترک کر دے تو وہ کمزور اور ناتواں ہو جاتا ہے ان حقائق کی روشنی میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جس طرح سے جسم کی صحت اور زندگی کی حالت کئی درجوں کی ہوتی ہے اسی طرح سے خودی کی صحت اور زندگی کی حالت میں بھی کئی درجوں کی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کا عشق بھی اپنی قوت اور شدت کے لحاظ سے کئی درجو کا ہوتاہے جس قدرزیادہ کوئی انسان خدا کی محبت سے بہرہ ور ہو گا اسی قدر زیادہ زندگی سے بہرہ ور ہو گا۔
زندگی کے مدارج اور حیات مطلق
زبور عجم میںاقبال نے زندگی کے درجوں کے متعلق اپنے نقطہ نظر کو ذر ا وضاحت سے بیان کیاہے ۔ وہ کہتا ہیکہ زندگی اور موت اعتباری اوصاف ہیں۔ جن کا دارومدار حالات پر ہے۔ جہاں تک نوا کے سوز اور اثر کا تعلق ہے ہم کہیںگے کہ ایک بہرہ مردہ ہے۔ اسی طرح سے ایک اندھا جو بہرحال نواسے مست اور مسرور ہو جاتا ہے ۔رنگ کی طرف سے مردہ ہے روح خدا سے زندہ اور پائندہ ہوتی ہے۔ اور خدا سے ہٹ جائے تو خدا کی طرف سے مردہ اور غیر خدا کی طرف سے زندہ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حیات مطلق کیا ہے؟ اقبال کہتا ہے کہ حیات مطلق یہ ہے کہ انسان خدا کے ساتھ زندہ رہے کیونکہ خدا وہ زندہ ہستی ہے جو خود بخود زندہ ہے اور مرتی نہیں۔ جو خدا کے بغیر زندہ ہے وہ موت مطلق سے مرا ہوا ہے اگرچہ وہ بظاہر زندہ نظر آ رہا ہو اور لوگ اس کا ماتم نہ کر رہے ہوں۔
مردن و ہم زیستن اے نکتہ رس
ایں ہمہ از اعتبارات است و بس
مرد کر سوز نوا را مردہ
لذت صوت و صدا را مردہ
پیش چنگے مست و مسرور است کور
پیش رنگے زندہ درگور است کور
روح با حق زندہ و پائندہ است
ورنہ ایں را مردہ آں را زندہ است
آنکہ جی لا یموت آمد حق است
زیستن یا حق حیات مطلق است
ہر کہ بے حق زست جز مردار نیست
گرچہ کس در ماتم او زار نیست
کامل زندگی اس شخص کی قسمت میں ہوتی ہے جو خدا کی محبت کو عبادت اور حسن عمل سے ترقی دے کر کمال کے اس درجہ تک پہنچا دے جہا ں وہ خدا کو دیکھ لے اور زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہو جائے۔ خدا کا دیدار زندگی ہے اور زندگی خدا کادیدار ہے۔ قرآن حکیم میں ۃے کہ خدا احسان والوں کو پسند کرتاہے (واللہ یحب المحسنین) اور حدیث شریف میں ۃے کہ احسان کا مقا م یہ ہے کہ انسان خدا کی عبادت اس طرح سے کرے کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے (الاحسان ان تعبداللہ کانک تراہ) یہی وہ مقام ہے جہاں انسان بند زمان و مکان سے آزاد ہو جاتا ہے۔ انبیاء جو خدا کی مخلصانہ عبادت کی دعوت دیتے ہیں وہ دراصل احسا ن یا دیدار حق کے مقام کو پانے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اس دعوت کا نتیجہ احسان ہی نہیں بلکہ کمال زندگی بھی ہے ۔ لہٰذا دیدار حق اور کمال زندگی کے ایک ہی مقام کے دو نام ہیں۔ قرآن کا ارشادہے کہ ایمان والو خدا اور رسول کی پکار کو سنو جب وہ تم کو اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندہ کرنے والی ہے
یایھا الذین امنوا استجیبو اللہ وللرسول اذا دعا کم لما یحییکم
اقبال قرآن و حدیث کے ان مضامین کو ایک شعر میں جمع کرتا ہے۔
کمال زندگی دیدار ذات است
طریقش رستن از بند جہات است
ایسے زندہ دل باکمال عاشق صادق کو ہی خطاب کر کے اقبال کہتا ہے۔
لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے
اگر ہو دل زندہ تو ناصبور رہتا ہے
مہ و ستارہ مثال شرارہ یک دو نفس
مے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
زندہ رہنے کی شرط
زندہ رہنے کی شرط یہ ہے کہ انسان خودی کے اس کمال تک پہنچے کہ جہاں وہ زمان و مکان (جس سے یہ جہاں بنا ہے) کی حدود کو عبور کر جائے اور اس طرح سے خود زمان و مکان سے آزاد ہو کر زمان و مکان (جہان) کو خودی کے دام میں لے آئے۔ اس کے برعکس اگر انسان کی خودی زمان و مکان کے دائرہ میں مقید رہے گی تو وہ موت کے بعد زندہ نہیں رہ سکے گا۔ حیات تو یہی ہے کہ جہاں خودی کا قیدی بنایا جائے۔ جو شخص خود جہاںکا قیدی ہے وہ جہاں کو اپنا قیدی کیسے بنا سکتاہے ۔
حیات چیست؟ جہاں را اسیر جان کردن
تو خود اسیر جہانی کجا توانی کرد‘
خدا سے دور ہونا موت ہے۔ جو انسان زندہ ہو وہ خدا سے دور نہیں ہوتا اور جو دور ہوتا ہے وہ زندہ نہیں ہوتا۔
بے حضوری ہے تری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں‘
ابدیت کے ابتدائی شرط عشق ہے اگر اس کے کچھ اور اصول اور لوازمات بھی ہیں تو وہ سب عشق کے ماتحت ہیں ۔ جس حد تک عقل مادی عناصر کی ترتیب کا نتیجہ ہے ار مادی دنیا کے اندر تصرف کرنے کے کام آتی ہے وہ جسم کی موت سے فنا ہو جاتی ہے۔ لیکن عشق کسی حالت میں فنا نہیں ہوتا۔ اگر موت ایک شام ہے تو عشق ایک سورج ہے۔ سورج کے سامنے شام کہاں رہ جاتی ہے۔ عشق خود زندگی کا ہی سوزہے جہاں یہ سوز ہو گا وہاں زندگی ضرور ہو گی اور جہاں زندگی ہو گی وہاں موت کیسے ہو سکتی ہے۔ عشق کامرنا زندگی کا مرنا ہے جو محال ہے۔
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق
عشق کے خورشید سے شام اجل شرمندہ ہے
عشق سوز زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے
انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ اس کی خودی کمال تک پہنچے۔ اگر زندگی کا مقصد صرف خودی کے قطرہ نیسان کو بہر بنا کر حالت کمال تک نہیںپنہنچا سکتا تو بے سود ہے۔ خودی کے کمال کے معنی یہ ہیں کہ خودی خود نگر ہو جائے یعنی خدا کا دیدار پا کر اپنے آپ کو دیکھ لے خود گر ہو جائے یعنی خدا کے عشق سے اپنی تعمیر اور تربیت مکمل کر لے اور خودگیر ہو جائے یعنی اپنے آپ کو غیر اللہ سے ہٹا کر پوری طرح سے اپنی گرفت میں یعنی اپنے اصلی محبوب کی محبت کی گرفت میں دے دے۔ جب یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے تو پھر خودی جسم کی موت سے بھی مرنہیں سکتی۔
زندگانی ہے صدف قطرہ نیسان ہے خودی
وہ صدت کیا کہ جو قطرہ کو گہر کر نہ سکے‘
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے تو موت سے بھی مر نہ سکے
عاشق کامل کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ زندہ اور زندہ رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی یعنی خدا کے عشق سے بہرہ ور ہے۔ حالت عشق سے پہلے انسان کو شک رہتا ہے کہ وہ بعد از مرگ زندہ رہے گا یا نہیں۔
در بود و نبود من اندیشہ گماں ہاداشت
از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من