خودی کی تربیت اور ترقی کا ذریعہ، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی کی تربیت اور ترقی کا ذریعہ
خودی کے جذبہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خدا کے حسن کا مشاہدہ کرے اور اس مشاہدے سے اطمینان اور سرور حاصل کرے تاکہ اپنے جذبہ محبت کو اور تیز کرے اور حسن کی نامعلوم گہرائیوں اور وسعتوں سے پوری طرح آشنا اور پوری طرح سے لذت اندوز ہو۔ فطرت کا حسن خودی کی اس کوشش کو آسان بناتا ہے۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، زمین اور آسمان، سمندر، جھیلیں، بادل، ندیاں، ہوائیں، سحر کانور، شام کی شفق، باغ و راغ، رات اور دن کا تغیر، موسموں کا انقلاب، حیوانات اور نباتات کی زندگی اپنی تمام رنگا رنگی اور ثروت اور شوکت کے سمیت مختصراً قدرت کے تمام مظاہر جو قدرت کے مسلسل عمل تخلیق اور تربیت اور تعمیر اور ترتیب اور تنظیم اور تجویز اور تحفظ اور تحسن اور تجمیل اور تزئین کے آئینہ دار ہیں خالق کائنات کے حسن و کمال کا عکس ایسی ہی وضاحت اور صفائی سے پیش کرتے ہیں جیسے کہ کسی پاکمال فنکار کا شاہکاراس کے ذہنی، جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی کمالات کا عکس پیش کرتا ہے اور خودی جس قدر کارخانہ قدرت پر خدا کی صفات کے مظہر کے طور پر غور و فکر کرتی ہے۔ جس قدر مظاہر قدرت کی باریکیوں میں جاتی ہے۔ اور ان کے عوامل اور اسباب کا ان کی تفصیلات اور جزئیات کا اور ان کے نتائج اور حاصلات کا جائزہ لیتی ہے۔ اسی قدر زیادہ وہ خدا کی صفات کے حسن سے آشنا ہوتی ہے اور اس قدر زیادہ اپنی آرزوئے حسن کی تشفی پا کر مسرت اور اطمینان حاصل کرتی ہے اور اسی قدر خدا کی محبت کو اس کے درجہ کمال کے قریب لاتی ہے اور اسی قدر اپنی تربیت اور ترقی کا اہتمام کرتی ہے۔ قدرت گویا انسان کو خدا کی معرفت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تختی کا کام دیتی ہے۔
کوہ و صحرا دشت و دریا بحر و بر
تختہ تعلیم ارباب نظر،
قرآن حکیم میں مشاہدہ حسن کی اس شکل کو تفکر فی الخلق کہا گیا ہے اور مومن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے مظاہر قدرت پر غور و فکر کرے اقبال شاید قرآن حکیم کے اسی ارشاد کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ مومن قدرت کے مشاہدہ اور مطالعہ میں غرق رہتا ہے۔
علم ترساں از جلال کائنات
عشق غرق اندر جمال کائنات
مشاہدہ قدرت سے اقبال کا شغف
جہاں موقعہ ملتا ہے اقبال خود مزے لے لے کر مظاہر قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں خدا کے حسن کو بے حجاب دیکھتا ہے۔ جو بڑی بے پرواہی کے ساتھ دشت و راغ میں اپنا جلوہ دکھا رہا ہے۔
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور اس موتی کو چمکاتی ہے سورج کی کرن
حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لئے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن
مومن کے دل کی آنکھ کائنات کے مشاہدہ سے روشن ہوتی ہے کیونکہ وہ کائنات میں جو فقط خدا کی صفات کی مظہر ہے۔ خدا کی قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے۔
چشم او روشن شود از کائنات
تابہ بیز ذات را اندر صفات
قدرت کا حسن قلب و نظر کی زندگی ہے کیونکہ وہ حسن ازل کی نمود ہے اور اس میں خود حقیقت وجود بے پردہ نظر آتی ہے۔
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں،
حسن ازل کی ہے نمود چاک ہے بے پردہ وجود
دل کے لئے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں
سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلسان
ہمیں زندگی کا راستہ اندھوں کی طرح سر نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے ارد گرد کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اپنی معرفت کے نور کو چمکانا چاہئے اور قرآن حکیم کا ارشاد بھی جو ہمیں انظر کہہ کر خطاب کرتا ہے یہی ہے۔
تو کہ مقصود خطاب انظری
پس چرا ایں را چوں کوراں میری
خدا نے ہمیں آنکھیں اس لئے دی ہیں کہ ہم ان کے نور سے قدرت کا مشاہدہ کریں اور اس مشاہدہ کے ذریعہ سے خالق قدرت کی محبت (نگاہ) پیدا کریں۔
بیا با شاہد فطرت نظر باز
چرا ور گوشہ خلوت نشینی
ترا حق داد چشمے پاک بینے،
کہ از نورش نگاہے آفرینی،
کائنات کے حسن کا احساس
کائنات کا حسن ہمارے جذبہ حسن کا راہنما ہے۔ اسے اکساتا اور تیز کرتا ہے۔ اگر کائنات میں حسن نہ ہوتا تو ہماری خودی کی آرزوئے حسن نہ بیدار ہوتی نہ اپنے مقصود کو پا سکتی۔
حسن خلاق بہار آرزوست
جلوہ اش پروردگار آرزوست
لیکن اس کے برعکس یہ بھی درست ہے کہ اگر ہمارے دل میں حسن کی آرزو نہ ہوتی تو کائنات کا حسن حسن نہ ہوتا کیونکہ ہمارے پاس کوئی معیار ہی نہ ہوتا۔ جس پر پرکھ کر ہم اسے حسن قرار دے سکتے پھر نہ ہم کائنات کے حسن کی ستائش کر سکتے نہ اس کے مشاہدہ اور مطالعہ سے اس کے خالق کا کوئی تصور قائم کر سکتے۔ حقیقت کا سارا علم ہمارے اندر ہے ہم سے باہر نہیں۔ قدرت کا مشاہدہ فقط اسے بیدار کرتا ہے اور ا سکی حفاظت کرتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ خدا کا عرفان اپنا عرفان ہے اور خدا پر ایمان لانا اپنے آپ پر ایمان لانا ہے اگر قدرت حسن فروش ہے تو خودی خریدار حسن ہے اور ایک کے بغیر دوسرا اپنا مدعا نہیں پا سکتا۔ ایک طرف سے خدا کا حسن کائنات میں پیدا اور ظاہر ہے اور دوسری طرف سے انسان کی آنکھوں میں مخفی اور مستور بھی ہے اگر خدا کا حسن ظہور پائے اور انسان کے دل کی آنکھوں میں مستور نہ ہو یعنی انسان کے دل میں اپنا وہ اثر یا احساس پیدا نہ کر سکے جو وہ انسان کی مخفی آرزوئے حسن کی وجہ سے پیدا کرتا ہے تو اس کا ظہور بھی بے معنی رہے لہٰذا حسن کا اصل مقام انسان کے دل کے اندر ہے اور یہ انسان کا دل ہی ہے جو حسن کامل کا صحیح محک و معیار ہے اور خارجی اشیاء میں سے کوئی شے بھی ایسی نہیں جو مکمل طور پر اس کے معیار کے مطابق ہو۔
حسن را از خود بروں جتن خطاست
آنچہ مے بایست پیش ما کجا است
اس سے ظاہر ہے کہ تجلی یا معرفت کاملہ کادار ومدار اسی حسن کے کامل احساس پر ہے جو انسان کے دل کے اندر مخفی ہے۔
وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی
میری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسباب مستوری
٭٭٭
حکیم و صوفی و عارف تمام مست ظہور،
کسے خبر کہ تجلی ہے عین مستوری،

خارجی کائنات کے مشاہدہ کا کام فقط یہ ہے کہ وہ اس احساس حسن کو بیدار کرتا ہے جو انسان کے دل کے اندر ہے اور مشاہدہ کائنات کا یہ کام نہایت ہی اہم ہے کیونکہ انسان کی معرفت کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔
ہر خودی نظروں سے مخفی رہتی ہے
ہر خودی مخفی بھی ہے اور آشکار بھی واحد بھی ہے اور کثیر بھی گویا میرا دوست میرے لئے ایک پہلو سے مخفی ہے اور دوسرے پہلو سے آشکار ہے وہ ایک ہے تاہم اس لحاظ سے کثیر ہے کہ بہت سے اعمال و افعال میں اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ میں اس کو جو ایک ہے اور مخفی ہے اس لئے جانتا ہوں کہ وہ آشکار بھی ہے اور کثیر بھی۔ اس طرح سے خدا ایک ہے اور مخفی ہے لیکن کائنات کے اندر اپنے تخلیقی اعمال و افعال کی وجہ سے کثیر بھی ہے اور آشکار بھی۔ اقبال نے اس سارے مضمون کو صرف دو شعروں میں خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔ خدا یک ہے اور مخفی ہے اس کے باوجود وہ کائنات کی کثرت میں آشکار ہے اور خدا کا عاشق کائنات کو دیکھ کر خدا کو پہچانتا ہے۔ یہ کائنات اپنی بے اندازہ وسعت کے باوجود عاشق کے دل میں سما جاتی ہے کیونکہ وہ اس کے محبوب کے حسن کا مرقع ہے اگر تو تخلیق عالم کے اسرار کو جاننا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو دیکھ تو ایک بھی ہے اور مخفی بھی ہے۔ لیکن اپنے تخلیقی اعمال و افعال کی کثرت سے جانا جاتا ہے۔
ایں پستی و بالائی ایں گنبد مینائی
گنجد بدل عاشق با ایں ہمہ پہنائی،
اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن
یکتائی و بسیاری پنہانی و پیدائی
اقبال لکھتا ہے:
’’ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قدرت خالص مادیت کا ایک ڈھیر نہیں جو کسی خلا میں پڑا ہوا ہو یہ واقعات کی ایک تعمیر ہے اور کردار کی ایک منظم صورت ہے اور اس لحاظ سے وجود مطلق کے ساتھ ایک عضویاتی تعلق رکھتی ہے۔ قدرت خدا کی شخصیت کے ساتھ وہی تعلق رکھتی ہے جو کریکٹر انسانی شخصیت کے ساتھ رکھتا ہے۔ قرآن کے خوبصورت الفاظ میں یہ اللہ کی عادت ہے۔ انسانی نقطہ نظر سے یہ وجود مطلق کی تخلیق فعلیت کی ایک توجیہہ ہے جو ہم اپنے موجودہ حالات میں اس پر عائد کرتے ہیں۔۔۔ قدرت کا علم خدا کے کردار کا علم ہے۔ جب ہم قدرت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دراصل خودی مطلق سے ایک طرح کی واقفیت پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور یہ عبادت ہی کی ایک اور شکل ہے۔‘‘ (صفحہ 57-56 تشکیل الہیات جدید)

٭٭٭