خودی اور سائنس
سائنسی تحقیق کا اصل ماخذ
مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ تمام سائنسی علوم کی بنیاد ہے۔ مشاہدہ قدرت کے لئے دنیا میں سب سے پہلی موثر آواز جو بلند ہوئی وہ قرآن حکیم کی آواز تھی جس کا ارشاد یہ تھا کہ مظاہر قدرت خدا کی ہستی اور صفات کے نشانات ہیں۔ کیونکہ ان میں خدا کی صفات جلوہ گر ہیں۔ انسان کے لئے ضروری ہے کہ مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اپنے خالق کو پہچانے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے پہلے سائنس دان جنہوں نے سائنسی طریق تحقیق ایجاد کیا تھا اور سائنسی علوم کی بنیاد رکھی تھی۔ مسلمان تھے ان کا مشاہدہ اور مطالعہ قدرت خدا کی معرفت کے لئے تھا۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ ان کی سائنس کا مدار اور محور تھا۔ علم و حکمت کے میدان میں قدیم اہل یونان کے کمالات مسلم ہیں لیکن یونانی حکماء مشاہدہ قدرت کو نظر انداز کر کے اپنا سارا زور فقط خیالات اور تصورات پر صرف کرتے تھے۔ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سائنسی طریق تحقیق کے موجود بن سکتے۔ اس سلسلہ میں اقبال لکھتا ہے:
’’ یہ بات قطعاً غلط ہے کہ تجرباتی طریق تحقیق یورپ کی ایجاد ہے۔۔۔۔ یورپ نے اس بات کا اعتراف کرنے میں بڑی دیر کی ہے کہ اس کے ہاں کے مروج سائنسی طریق تحقیق کا اصل ماخذ اسلام ہے۔ تاہم اس بات کا مکمل اعتراف ہو کر رہا ہے۔‘‘
اس کے بعد اقبال برفال (Briffoult) کی کتاب ’’ تعمیر انسانیت‘‘ (The Making of Humanity) سے کچھ عبارتیں اس بات کے ثبوت میں نقل کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یونانی فلسفہ کے اثر سے مسلمان عرصہ دراز تک روح قرآن سے غافل رہے۔ لیکن بالاخر انہوں نے اس کے خلاف بغاوت کی۔ اقبال لکھتا ہے:
’’ سقراط کے صحیح شاگرد کی حیثیت سے افلاطون حسی تجربات سے جو اس کے خیال میں سچے علم کی طرف نہیں بلکہ فقط کسی رائے کی طرف راہنمائی کرتے تھے، نفرت کرتا تھا۔ کسی قدر مختلف ہے۔ یہ نقطہ نظر قرآن سے جو سننے اور دیکھنے کی قوتوں کو خدا کے نہایت ہی قیمتی انعامات سمجھتا ہے اور ان کو اس دنیا میں اپنی اپنی کارکردگی کے لئے خدا کے سامنے جوابدہ قرار دیتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے قرآن کا مطالعہ کرنے والے مسلمانوں نے یونانی فلسفہ کے اثر کی وجہ سے شروع میں بالکل نہیں سمجھا۔ وہ قرآن کو یونانی فکر کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ انہیں یہ حقیقت سمجھنے کے لئے (اور وہ بھی پوری وضاحت سے نہیں) کہ قرآن کی روح دراصل یونانی فلسفہ سے متعارض ہے، دو سو سال سے بھی اوپر لگ گئے اور پھر اس حقیقت سے روشناس ہونے کا نتیجہ ایک قسم کی ذہنی اور علمی بغاوت میں رونما ہوا جس کی پوری اہمیت آج تک نہیں سمجھی گئی۔‘‘
’’ لیکن قلبی واردات انسانی علم کا فقط ایک ذریعہ ہے قرآن کے نقطہ نظر سے علم کے دواور ذرائع بھی ہیں یعنی قدرت اور تاریخ (آگے چل کر اقبال تاریخ کو بھی قدرت میں شمار کر لیتے ہیں کیونکہ تاریخی واقعات بھی انسانی دنیا میں قدرت کے مظاہر ہیں۔ مصنف) اور جب قرآن علم کے ان سرچشموں سے کام لیتا ہے تو اس کی حقیقی روح پوری شان و شوکت سے بے نقاب ہوتی ہے۔ قرآن سورج اور چاند میں، سایوں کے دراز ہونے میں، رات اور دن کے تغیرات میں، انسان کے الوان اور السنہ کے اختلافات میں، دولت مندی اور مفلسی کے ایام کی گردش میں، غرضیکہ قدرت کے ان تمام مظاہر میں جو انسان کے حواس کے روبرو جلوہ افروز ہیں۔ حقیقت مطلقہ کے نشانات کا مشاہدہ کرتا ہے اور مسلمان کا یہ فرض ہے کہ ان نشانات پر غور و فکر کرے اور ان سے اس طرح سے نہ گزر جائے کہ گویا وہ بہرا اور اندھا ہے کیونکہ جو شخص اس دنیا میں ان چیزوں کو نہیں دیکھتا وہ اگلی زندگی کے حقائق کی طرف سے بھی اندھا رہے گا۔ مطالعہ قدرت کی یہ دعوت اس حقیقت کے تدریجی انکشافات کے ساتھ مل کر کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق کائنات اپنی اصل کے اعتبار سے متحرک اور محدود اور ترقی پذیر ہے۔ آخر کار یونانی فلسفہ کے ساتھ (جس کا مطالعہ مسلمانوں نے اپنے دور کی ابتدائی منزلوں میں نہایت ذوق و شوق سے کیا تھا) مسلمان مفکرین کے تصادم کے باعث ہوئی۔ یہ نہ جاننے کی وجہ سے کہ قرآن کی روح دراصل فلسفہ یونان سے متصادم ہوتی ہے اور یونانی فلسفہ پر اعتماد کرنے کی وجہ سے ان کا پہلا رد عمل یہ تھا کہ وہ فلسفہ یونان کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں۔ روح قرآن کی حقائق پسندی کے پیش نظر اور یونانی فلسفہ کی خیال پرستی کی وجہ سے جو تصورات سے شغف رکھتا تھااور حقائق کو نظر انداز کرتا تھا۔ اس قسم کی کوشش کا نتیجہ ناکامی کے سوائے اور کیا ہو سکتا تھا۔ اس ناکامی کے بعد جو کچھ ہوا وہی ہے جس نے اسلامی تہذیب کی حقیقی روح کو آشکار کیا اور تہذیب حاضر کے بعض نہایت اہم عناصر کی بنیاد قائم کی۔‘‘
مسلمان سائنس کے موجد اس لئے بنے تھے کہ ان کے سامنے قرآن حکیم کا یہ ارشاد تھا کہ خدا کی معرفت کے لئے قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ ان کی سائنس کا مرکزی یا بنیادی تصور تھا۔
عیسائیت کا نقطہ نظر
جب اندلسی مسلمانوں کے سیاسی حالات نے پلٹا کھایا اور وہ اندلس سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو سائنس یورپ کے ان لوگوں کے ہاتھ آئی جو۔۔۔۔ جدید عیسائیت کے پیروکار تھے۔ چونکہ ان لوگوں نے نادانی سے فرض کر لیا تھا کہ دین او ردنیا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایک پاک اور مقدس اور دوسری ناپاک اور غیر مقدس۔ لہٰذا انہوں نے سمجھا کہ کائنات کے مشاہداتی علم کو جسے سائنس کہا جاتا ہے، خدا سے کوئی تعلق نہیں۔ سائنس اور سائنس دانوں سے کلیسا کی گہری اور آشکار دشمنی نے اس فرضی عقیدہ کے لئے مزید ثبوت بہم پہنچایا اور کلیسا اور ریاست کے افتراق نے جو دونوں کے شدید اور طویل جھگڑوں کے بعد ایک اٹل حقیقت کے طور پر رونما ہوا تھا۔ اس عقیدہ کو مزید تقویت پہنچائی اور اس کے لئے راستہ صاف کیا۔ لہٰذا اس عقیدہ نے جامہ عمل پہنا اور سائنس سے خدا کا نام خارج کر دیا گیا یہ کلیت وجود میں تفریق پیدا کرنے اور حقیقت کائنات کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی ایک نا معقول اور افسوسناک جسارت تھی جس کے پیچھے کوئی عقلی، علمی یا سائنسی دلیل یا شہادت موجود نہ تھی۔ تاہم سائنس کی بے خدائیت کا عقیدہ جو اس طرح عیسائیت کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ عیسائی مغرب کی دنیا میں جڑ پکڑ گیا۔ ظاہر بات ہے کہ سائنس میں اس عقیدہ کے جاگزیں ہونے کے بعد کوئی ایسے سائنسی نظریات پیدا نہ ہو سکتے تھے جو اس سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ لہٰذا ایسے سائنسی نظریات وجود میں آنے لگے۔ جو دراصل اسی کی پیداوار تھے لیکن جن کو آسانی سے اس کا ثبوت سمجھا جا سکتا تھا۔ ایسے سائنسی نظریات میں ہم انیسویں صدی کی طبقاتی مادیت اور میکانیت اور ڈارون کے مادی اور میکانکی نظریہ ارتقا کو شمار کر سکتے ہیں جنہوں نے اس خیال کو بظاہر ایک سائنسی حقیقت کا درجہ دیا کہ قدرت میں کوئی تخلیق یا راہ نما قوت کار فرما نہیں اور خدا کا عقیدہ مظاہر قدرت کی تشریح کے لئے غیر ضروری ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ لوگ رفتہ رفتہ بھول گئے کہ سائنس کی بے خدائیت در حقیقت ایک مذہبی عقیدہ ہے جس کو عیسائیت نے جنم دیا تھا اور یہ سمجھنے لگے کہ یہ خود سائنس ہی کی ایک ضرورت ہے۔ اب بھی عیسائی مغرب کے سائنس دان یہ کوششیں کرتے رہتے ہیں کہ اپنی سائنس کو ہر حالت میں اس راستہ سے بچائیں جو خدا کے عقیدہ کی طرف جاتا ہے۔ اور خواہ کچھ ہو جائے اس کو سختی کے ساتھ اس چار دیواری میں بند رکھیں۔ جو سائنس کی بے خدائیت کی نامعقول عقیدہ نے اس کے ارد گرد بنا رکھی ہے۔
مظاہر قدرت آیات اللہ ہیں
ان کی روشن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا انہوں نے خدا اور مذہب کے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ ایسے حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں جو قدرت میں کسی ذہنی یا تخلیقیق وت کے عمل کا ثبوت بہم پہنچاتے ہوں۔ خواہ وہ ثبوت کیسا ہی بین اور آشکار کیوں نہ ہو مثلاً وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ قدرت میں وہ سب چیزیں موجود ہیں جو کسی ذہن کی تخلیقی کارروائی کا پتہ دیتی ہیں مثلاً ترتیب، تنظیم، تجویز، تعمیر، تکمیل، وحدت، یکسانیت، تسلسل، مقصدیت، تطابق، توافق، ریاضیاتی فکر، زندہ حیوانات کی خود کارانہ نشوونما جو ان کو برتر اور بلند تر مدارج حیات کی طرف خود بے خود لے جاتی ہے۔ اگر یہ اوصاف قدرت کے اندر موجود نہ ہوتے تو قدرت میں کسی چیز کا وجود ہی نہ ہوتا اور طبیعیاتی اور حیاتیاتی علوم ممکن نہ ہوتے۔ اس کے باوجود مغرب کے سائنس دان ان کے وجود سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور ان کی کوئی تشریح کر ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ بعض وقت ان میں سے بعض حقائق کی تشریح کے لئے سخت مجبور ہو جائیں تو پھر بھی ان کی تشریح کے لئے خدا کے تصور کو کسی حالت میں بھی استعمال نہیں کرتے بلکہ کچھ من گھڑت فرضی مابعد الطبیعیاتی تصورات کو کام میں لاتے ہیں۔ مثلاً ان میں سے کچھ حقائق کی تشریح کے لیے جیمز جینز کسی ریاضیاتی ذہن کو فرض کرتا ہے۔ برگساں کسی قوت حیات کا نام لیتا ہے۔ اور ڈویش کسی عالمی اسکیم یا انٹی لیچی کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام فرضی ہونے کے علاوہ ناکافی اور نا تسلی بخش ہیں۔ مثلاً کیا یہ ممکن ہے کہ کائنات میں کوئی اعلیٰ درجہ کا ریاضیاتی ذہن تو کار فرما ہو لیکن اس میں شخصیت کے اور اوصاف جو جذبات اور اخلاق سے تعلق رکھتے ہوں موجود نہ ہوں یا قدرت میں کوئی ایسی قوت اجسام حیوانات کی تخلیق اور تکمیل کے کاموں میں مصروف ہو جو سوچتی سمجھتی ہو۔ اپنے مقاصد سے آگاہ ہو اور ان کو حاصل کرنے کی قدرت رکھتی ہو۔ لیکن ایک کامل شخصیت نہ ہو۔ ہمارا تجربہ اس قسم کے ادھورے تصورات کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاضیاتی فکر یا مقصدیت کے اوصاف جس وجود میں پائے جاتے ہوں وہ شخصیت کے باقی ماندہ جذباتی اور اخلاقی اوصاف سے بے بہرہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا معقولیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ قدرت میں جو ریاضیاتی ذہن یا قوت حیات کار فرما ہے وہ خودی عالم یا خدا ہی ہے لیکن سائنس کی بے خدائیت کا غیر عقلی عقیدہ مغرب کے سائنس دانوں کو یہ بات سمجھنے سے مانع ہے۔
علم کی نیام بے شمشیر
سائنس کی بے خدائیت پر اقبال بڑے افسوس کا اظہار کرتا ہے اور پر درد الفاظ میں کہتا ہے:
عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
اس شعر میں اور اس قسم کے دوسرے اشعار میں علم سے اقبال کی مراد سائنس ہے اور دوسرا کوئی علم نہیں۔ چنانچہ وہ خود اپنے ایک خط میں لکھتا ہے:
’’ علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دار و مدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ ان ہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے۔ جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو شیطنت ہے یہ علم۔ علم حق کی ابتداء ہے۔‘‘
اقبال کے اس شعر سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب عشق الٰہی کی تیغ جگر دار سائنس کی نیام کے اندر اپنی جگہ پر موجود تھی اور بعد میں یہ افسوسناک حادثہ پیش آیا کہ کسی نے اس تلوار کو جو دنیا بھر کے تمام باطل تصورات اور نظریات کاٹ کر رکھ سکتی تھی اس نیام سے اڑا لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ نیام اب تک خالی پڑی ہے۔ یہ تیغ جگر دار کیسے اڑ گئی اور کس نے اڑائی؟ اقبال اس سوال کا جواب اپنے اشارہ کو بلیغ اور موثر بنانے کے لئے سننے والوں پر چھوڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں اقبال سائنس کی بے خدائیت کے اس تاریخی پس منظر کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس کی تشریح اوپر کی گئی ہے۔ اس تیغ جگر دار کو اڑانے کی ساری ذمہ داری مغرب کی کوتاہ اندیشی اور مسلمان سائنس دانوں کی کورانہ تقلید پر عائد ہوتی ہے۔
علم حق کا پہلا مرحلہ
اگرچہ بے خدا سائنس الفاظ میں نہیں کہتی کہ خدا موجود نہیں۔ لیکن انسان اور کائنات کے متعلق اس کا نکتہ نگاہ اور اس کا طریق فکر و عمل ایسا ہے کہ گویا خدا موجود نہیں۔ وہ تمام طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا ان کا کوئی خالق نہیں اور اگر ہے تو ان کے ساتھ اب اس کا کوئی تعلق نہیں اور اس کی صفات کا کوئی نشان ان کے اندر موجود نہیں۔ اس طرح سے مغربی سائنس اس ایک ہی دروازہ کو بند کر دیتی ہے۔ جس کی راہ سے خدا کی معرفت کا نور سب سے پہلے حضرت انسان تک پہنچتا ہے۔ اقبال کا یہ خیال قرآن حکیم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے کہ خدا کی معرفت اور محبت کو بیدار کرنے کا پہلا ذریعہ انسان کے حواس ہیں جن کی مدد سے وہ مظاہر قدرت میں خدا کی صفات کا مشاہدہ کرتا جو قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بغیر ہم خالق، رب، رحیم، کریم، عادل، حفیظ، علیم، سمیع اور بصیر، مومن، مہیمن ایسے الفاظ کے معنی نہیں سمجھ سکتے جو اوصاف باری تعالیٰ کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کو سمجھنے کے بغیر خدا کی معرفت یا محبت یا اطاعت یا عبادت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان سے قرآن حکیم کا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان لانے کے لئے مظاہر قدرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرے۔ حواس کے بعد خدا کی معرفت کا دوسرا ذریعہ ذکر ہے جس کی مدد سے ہر انسان قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بغیر اور مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر بھی خدا کی صفات پر غور و فکر کر سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ قدرت کے مشاہدہ سے ان الفاظ کے معنی سمجھ چکا ہوتا ہے جو خدا کی صفات پر دلالت کرتے ہیں۔ اس ذکر کی کثرت سے خدا کے حضور یا قرب کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس قلب کی ایک کیفیت ہے جو عشق یا محبت سے تعلق رکھتی ہے اور شعور اور ادراک سے بالا ہے اقبال نے اس مطلب کو ایک شعر میں ادا کیا ہے۔
علم حق اول حواس آخر حضور
آخر اوے نگنجد در شعور
ایک اور جگہ اقبال ذکر اور فکر کی حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے۔
یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام
وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسما
مقام ذکر کمالات رومی و عطار
مقام فکر مقالات بو علی سیناء
مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکان
مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ