مسلمان کا وطن اسلام ہے
اقبال نے وضاحت کی ہے کہ کیوںمسلمانوں کو چاہیے کہ اسلام ہی کو اپنا وطن سمجھیں وہ کہتا ہے:
’’اسلام کی حقیقت ہمارے لیے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہے ۔ اسلام میں قومیت کا مفہوم خصوصیات کے ساتھ بھی چھپا ہوا ہے اورہماری قومی زندگی کا تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو نسب انگلستان کو انگریزوں سے اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے۔ جہاں اسلامی اصول یا ہماری مقدس روایات کی اصطلاح میں خدا کی رسی ہمارے ہاتھ سے چھوٹی اور ہماری جماعت کا شیرازہ بکھرا‘‘۔
(مقالات اقبال ص 124)
اسی مضمون کو اقبال نے مختصر کر کے ایک شعر میں بیان کیا ہے۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تو بھی نہیں
ربط باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
مسلمان قوم اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ نوع انسانی میں ہوس کی بجائے خدا کی محبت کو بروئے کار لائے اور ہوس نے جو نوع انسانی کے کئی ٹکڑے کر رکھے ہیں ان کو عقیدہ توحید پر جمع کر کے باہمی اخوت اور محبت کے اوصاف سے بہرور کرے۔ یہی اس کی زندگی کی منزل مقصود ہے۔ لیکن اگر وہ خود مختلف قسم کی نسلوں کے تنگ دائروں میں محدود ہو کر رہ جائے تو اپنا یہ رول کیسے ادا کر سکتی ہے اسے چاہیے کہ ہر نسلی امتیاز کے ساحل سے اچھل کر باہر آئے اور پوری انسانیت کے بحر بیکراں سے ہمکنار ہو۔ جب تک اس مرغ حرم کے پر رنگ و نسب کے غبار سے آلودہ رہیں گے وہ اپنی زندگی کی منزل مقصود کی طرف پرواز نہیں کر سکے گا‘ اسے چاہیے کہ اس غبار کو اپنے پروں سے جھاڑ دے تاکہ باسانی پرواز کر سکے۔
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انسان کو
اخوت کا بیان ہو جا محبت کی زبان ہو جا
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
اسی مضمون کو اقبال نے ایک اور مقام پر اس طرح سے دہرایا ہے۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
اقبال کہتا ہے کہ اگرچہ میں خاک کا ایک پتلا ہوں۔ لیکن ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے خاکی اور مادی رشتوں سے بے تعلق ہو ں جس درویش صفت انسان کے دل میں خدا کی محبت موجود ہو جائے وہ کسی خاص مقام کو اپنا وطن نہیں سمجھ سکتا۔ اسے ہم نہ مشرقی کہہ سکتے ہیں نہ مغربی اور اس کا گھر کہیں بھی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود ہر جگہ ہوتا ہے۔
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمرقند
مسلمان قوم کا دامن وطن کے گردوغبار سے آلودہ نہیں کیا گیا۔ دنیا کا ہر ملک اس کا وطن ہے۔ وطنیت کے پرستا ر مٹ جاتے ہیں لیکن چونکہ مسلمان قوم کی ساری متاع ہی کلمہ توحید ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے مسلمان قوم کبھی فنا نہیں ہو سکتی۔
پاک ہے گرد وطن سے سر دامان تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعان تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویران تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں سامان تیرا