مکیاولی کی غلط تعلیم
وطنیت کے مشرکانہ نظریہ کا مبلغ اٹلی کا فلسفی مکیاولی ہے جو فلارنس کا رہنے والا تھا ارو جس نے بادشاہوں کی رہ نمائی کے لیے دی پرنس نامی کتاب لھی ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ وطنی اور قومی ریاست کی حفاظت اور ترقی انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ لہٰذا ضرور ی ہے کہ مذہب اور اخلاق کے ماتحت اس کے خدمت گزار بن کر رہیں۔ جب ریاست کے مفاد اس بات کا تقاضا کریں تو حکمران کے لیے ضرور ی ہے کہ دغا‘ مکرو ‘ فریب ‘ جھوٹ اور ظلم سے جس قدر چاہے کا م کرے۔ مکیاولی کے نزدیک مذہب کی اہمیت فقط یہ ہے کہ ریاست کے ارباب اختیار اپنے خیال خام کے مطابق ریاست کے استحکام کے لیے جو بداعمالیاں کریں ان کی جذباتی حمایت کو ان کو مذہب پر عمل کرنے کے بغیر بلکہ مذہب کی موثر مخالفت رنے کے باوجود فقط مذہب کا نام لیتے رہنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ میکاولی لکھتا ہے:
’’ایک عقل مند احکمران کو چاہیے کہ جب دیکھے کہ عہد کی پابندی اسے نقصان دے گی تو عہد کو توڑ دے…ضرور ی نہیںکہ حکمران میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوںجن کا ذکر میں نے پہلے اوپر کیا ہے۔ لیکن یہ نہایت ضرور ی ہے کہ دوسروں کو ایسا ہی نظر آئے کہ اس میں یہ خوبیاں موجود ہیں اور میں یہ کہوں گا کہ ان اوصاف کامالک ہونا اور انہیں ہمیشہ کام میں لانا ضرر رساںہے اور ان کی نمائش کرنا مفید ہے… جب ریاست کے مفاد کا خطرہ میں ہوں تو پھر ا س بات کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ انصاف و ظلم اور رحم اور بے رحمی اور قابل ستائش اور شرمناک کے الفاظ کیا معنی رکھتے ہیں‘‘۔
مکیاولی کے ایسے ہی مذموم خیالات کی وجہ سے اقبال اس کے متعلق لکھتا ہے :
آل فلارلساوی باطل پرست
سرمہ او دیدہ مردم شکست
نسخہ بہر شہنشاہاں نوشت
در دل مادانہ پیکار کشت
فطرت او سوئے ظلمت بردہ رخت
حق ز تیغ خامہ او لخت لخت
بت گری مانند آذر پیشہ اش
بست نقش تازہ اندیشہ اش
مملکت را دین او معبود ساخت
فکر او مذموم را محمود ساخت
بوسہ تا برپائے این محبوب زد
نقد حق را بر عیار سود زر
باطن از تعلیم او بالیدہ است
حیلہ اندازی فنے گرویدہ است
طرح تدبیر زبون فرجام ریخت
ایں خسک در جادہ ایام ریخت
اقبال نے 1935ء میں سال نو کے موقعہ پر ایک بیان آل انڈیا ریڈیو پر نشر کیا تھا جس میں اس نے کہا تھا:
’’جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے امتیازات کو نہ مٹایا جائے گا۔ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے۔ اور اخوت اور حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی نہ ہوں گے‘‘۔
٭٭٭