قومیت کا اسلامی تصور
اپنی ایک تقریر میں نظریہ قومیت کے متعلق اسلام کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال کہتا ہے:
’’مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں ایک اصولی فرق ہے کہ قومیت کااسلامی تصور دوسری اقوام سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان ہے نہ اشتراک وطن نہ اشتراک اغراض اقتصادی۔ بلکہ ہم لوگ اس برادری سے ہیں جو جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی اس لیے شریک ہیں کہ مطاہر کائنات (جن میں انسان بھی شامل ہے ۔ مولف) کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے (یعنی قرآن حکیم جس کے مطابق مظاہر قدرت کا خالق خدا ہے اورانسان اپنی فطرت کے لحاظ سے خدا کا چاہنے والا ہے مولف) اور جو تاریخٰ روایات ہم سب کو ترکہ میں پہنچتی ہیں وہ بھی ہم سب کے لیے یکساں ہیں۔ اسلام تمام مادی قیود سے بیزاری ظاہر کرتاہے اور اس کی قومیت کا دارومدار ایک خاص تہذیبی تصور پر ہے جس کی تجسیمی شکل وہ جماعت اشخاص ہے جس میں بڑھتے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت طبعاً موجود ہے۔ اسلام زندگی کا انحصار کسی خاص قوم کے خصائل مخصوصہ اور شمال مختصہ پر نہیں ہے۔ غرض اسلام زمان و مکان کی قیود سے مبرا ہے…لہٰذا کیونکر ممکن تھا کہ وہ قومیت کو کسی خارجی یا حسی اصو ل مثلاً وطن پرستی پر مبنی قرار دینا جائز تصور کرے۔ قومیت کا ملکی تصور جس پر زمانہ حال میں بہت کچھ حاشیے چڑھائے گئے ہیں۔ اپنی آستین میں اپنی تباہی کے جراثیم خود پرورش کر رہا ہے۔ بڑی خرابی اس تصور میں یہ ہے کہ اس میں غلو اور افراط کے جراثیم خود پرورش کر رہے یں۔ بڑی خرابی اس تصور میں ٰہ ہے کہ کہ اس میں غلو اور افراط کا شاخسانہ نکل آتا ہے۔ اس نے بین الاقوامی نیتوں کے متعلق غلط فہمی پھیلا رکھی ہے۔ اس نے پولیٹکل سازشوں اور منصوبہ بازیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس نے فنون لطیفہ اور علوم عربیہ کو خاص خاص قوموں کی خصوصیات کی میراث قرار دے کر عام انسانی عنصر کو اس میں سے نکال دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وطن پرستی کا خیال جو قومیت کے تصور سے پیدا ہوتا ہے…سراسر اصول اسلام کے خلاف ہے اس لیے اسلام دنیا میں ہر طرح سے شرک خفی و جلی کا قلع قمع کرنے کے لیے نمودا ر ہوا تھا‘‘۔
مغربی قومیت کے خطرناک نتائج
افسوس ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ نظریہ قومیت اسلام سے صریحاً مغائرت رکھتا ہے اور مغربی اقوام کی مادی ترقی سے مرعوب ہو کر اور ان کی کورانہ تقلید کرتے ہوئے وہ بھی نظریہ قومیت کو اپنی ریاستوں کی بنیاد بنا رہے ہیں۔ ا س وقت صورتحال یہ ہے کہ اول تو ایک پرانی مصری‘ ترکی عراقی یا شامی مسلمان یہ کہے گا کہ میں پہلے ایرانی‘ مصری‘ عراقی‘ ترکی یا شامی ہوں بعد مٰں مسلمان لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کہے تو پھر بھی عملی طور پر وہ پہلے ملکی ثابت ہوتاہے اور بعد میں مسلمان۔ اس ذہنیت کی وجہ سے دوسری نظریاتی قوموں کی طرف سے شدید قسم کے فوجی اور تبلیغی خطرات کو محسوس کرنے کے باوجود مسلمانان عالم آپس میں کوئی موثر اتحاد پیدا ہیں کر سکے۔ کیونکہ ان کے لیے اس قسم کا موثر اتحاد فقط اسلام کی بنیادوں پر ہی ممکن تھا۔ عربوںنے اپنی نسلی قومیت کو ایک نئے مذہب کی شکل دے دی ہے جسے وہ عروبہ یا عرب ازم کہتے ہیں اوراس طرح سے انہوںنے سچے مذہب اسلام کے بالمقابل غلط ازموں کی تعداد میںایک اور ازم کا اضافہ کر دیا ہے۔ عرب ازم کی رو سے عرب نسلیت وہ ’’مقدس‘‘ جوہر یا اصل ہے جس سے اسلام پیدا ہوا ہے اور اسلام کی اہمیت یہ ہے کہ وہ عرب نسلیت کا ایک ممدومعاون تصور ہے۔ بعض عرب ممالک میں اس نظریاتی تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے لوگ علی الاعلان اسلام سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور مارکسی اشتراکیت کو اسلام پر ترجیح دیتے ہیں۔ عربوں کے موجودہ باہمی تفرقوں اور اسرائیل کے مقابلہ میں ان کی پیہم شکستوں اور ذلتوں کا سبب یہی ہے کہ وہ نسل کو اسلام پر مقدم سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کے مقابلہ میں عربوں میں شکست اسلام کی شکست نہیں بلکہ عرب نسل پرستی کی شکست ہے اور جو خود ایک کفر ہے۔ اقبال نے اس صورت حال کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ڈرایا تھا۔
نسل مسلم کی اگر دیں پر مقدم ہو گئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگزر
دشمنان اسلام کی حیلہ گیری
دراصل اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی دین سے بیگانگی اور وطنیت پرستی یورپ کی استعمار پسند قوموں کی حیلہ گری کا نتیجہ ہے ۔ جنہوں نے امت مسلمہ کو ٹکڑوں میں بانٹ کر کمزور کرنے کے لیے ہر طرح سے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان کے اندر فریب کاری سے نسلی ‘ قومی‘ اور وطنی عصبیت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس کوشش میںان کی ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوںنے عربوں کو عرب نسلیت کے نام پر ترکوں سے لڑایا اور دوسری بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوںنے ترکوں کے ہاتھوں سے ہی ترکوں کی قبائے خلافت کو چاک کروایا۔ ترک محض اپنی سادگی کی وجہ سے ان کے دام میں آ گئے اور اس بات کو ملحوظ رنہیں رکھ سکے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی سرداری اور سرپرستی کا یہ مقام جو ان کو مفت حاصل ہے ایک ایسا مقا م ہے جسے خود یہ قومیں اپنی عیاری سے اور مسلمانوں کو فریب دے کر حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اقبال اس پر افسوس کرتا ہے۔
چاک کر دی ترک ناداںنے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
اقبال عربوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ فرنگیوں کے مکرسے ہوشیار رہیں اور نسل کو دین پر فوقیت دے کر ان کے دام میں گرفتار نہ ہوں۔
امتے بودی امم گرویدہ
بزم خود را خود زہم پاشیدہ
ہر کہ از بند خودی و ارست مرد
ہر کہ با بیگانگاں پیوست مرد
آنچہ تو باخویش کردی کس نکرد
روح پاک مصطفیؐ آمد بدرد
اے زا فسون فرنگی بے خبر
فتنہ ہا در آستین او نگر
از فریب او اگر خواہی اماں
اشترانش راز حوض خود بران
حکمتش ہر قوم را بے چارہ کرد
وحدت اعرابیان صد پارہ کرد
تا عرب در حلقہ دامش فتاد
آسماں یک دم اماں او را نداد
جاوید نامہ میں زندہ رود جمال افغانی سے کہتا ہے کہ مسلمانوں میں دین اور وطن کی کشمکش دیکھ رہا ہوں افغانی جواب دیتا ہے کہ مغربی حکمرانوں نے مسلمانوں کو وطنیت کی تعلیم دی ہے تاکہ ان کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے۔ مسلمان اگرنیک و بد میں تمیز کریں تو اس سنگ و خشت کے سلسلہ میں جسے وطن کا نام دیا گیا ہے دل نہ لگائیں۔ دین کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو مادی علائق سے بلند کرے اور خدا سے محبت کرے تاکہ اپنے آپ کو جانے اور پہچانے جس کے دل میں خدا بس جائے اس کا فکر و عمل بھی وطن کے تنگ دائرہ میں محدود نہیںرہ سکتا بلکہ پوری کائنات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اہل وطن کو وطن سے نسبت ہوتی ہے لیکن اس نسبت کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی محبت وطن کے تنگ دائرہ کے اندر سکڑ کر رہ جائے ۔ آفتاب مشرق سے نکلتا ہے لیکن اس کی روشنی تمام دنیا پر پھیلی ہوئی ہے۔
کرو مغرب آن سراپا مکر و فن
اہل دیں را داد تعلیم وطن
تو اگر واری تمیز خوب و زشت
دل نہ بندی در کلوخ سنگ و خشت
چیت دیں برخاستن ازروئے خاک
تاز خود آگاہ گردد جان پاک
با وطن اہل وطن رابشتے است
زانکہ از خاکش طلوع ملتے است
گرچہ از مشرق برآید آفتاب
با تجلی ہائے شوخ و بے حجاب
برد مد از مشرق خود جلوہ مست
تاہمہ آفاق را آرد بدست
بت شکنی کی تجدید کی ضرورت
اقبال نظریہ وطنیت کی طرف مسلمانوں کے موجود رجحان کی پوری شدت سے مخالفت ہی نہیں کرتا بلکہ ان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی بت شکنی کی روایات کو پھر زندہ کر کے اس بت کو توڑیں اور دنیا بھر میں اس کی پرستش کا خاتمہ کردیں۔
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خدائوں میں سب سے بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارتگر کاشانہ دین نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانہ کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
اقبال ایک اور مقام پر اس سے بھی زیادہ زور دار الفاظ میں اس دعوت کا اعادہ کرتا ہے۔
فکر انسان بت پرستے بت گرے
ہر زمان در جستجوئے پیکرے
باز طرح آذری انداخت است
تازہ تر پروردگارے ساخت است
کاید از خوں ریختن اندر طرب
نام اور رنگ است و ہم ملک و نسب
آدمیت کشتہ شد چون گوسفند
پیش پائے ایں بت نا ارجمند
اے کہ حور و استی ز مینائے خلیل
گرمئی خونت ز صہبائے خلیل
بر سر ایں باطل حق پیرہن‘
تیغ لا موجود الا ہو بزن
امت مسلمہ کی بنیاد دین ہے
مسلمان قوم ایک دینی یا نظریاتی قوم ہے جو مختلف ملکوں‘ رنگوں زبانوں اور نسلوں کے لوگوں سے بنی ہے۔ ان کی وحدت کا دارومدار ان کے دین پر ہے اور قرآن حکیم میں ہے کہ یہ دین ان کے باپ حضرت ابراہیم کا دین ہے جنہوںنے اس کا نام مسلمان رکھا تھا
(ملتہ ابیکم ابراھیم ھوسمکم المسلمین)
گویا مسلمان حضرت ابراہیم کی روحانی اولاد ہیں اور وہ ان کے روحانی باپ۔ مسلمانوں کی نسل یا وطن کا جس پر ان کی قومیت کی اساس ہے ان کا دین ہے نہ کہ کوئی جسمانی نسلی یا جغرافیائی ون۔ قوم کی اساس کسی جغرافیائی یا ارضی وطن کو قرار دینا‘ ہوا‘ پانی ‘مٹی کی پرسش کرنا ہے۔ نسل پر فخر کرنا جیسا کہ ہمارے عرب بھائی کرتے ہیں دانائی کی بات نہیں کیونکہ نسل کا تعلق جسم سے ہے اور جسم فانی ہے۔ ہماری قومیت کی اساس ہمارے دل کے اندر ہمارے مشترک بنیادی عقائد میں چھپی ہوئی ہے۔
ما مسلمانیم و اولاد خلیل
ازا بیکم گیر اگر خدا ہی دلیل
اصل ملت در وطن دیدن کہ چہ
باد و آب گل پرستیدن کہ چہ
ہر نسب نازاں شدن نادانی است
حکم او اندرتن و تن فانی است
ملت مارا اساس دیگر است
ایں اساس اندر دل ما مضمر است
موجودہ زمانہ میں نظریہ وطنیت اس قدر رواج پا چکا ہے اور اس کے ماننے والے اپنے اعتقاد میں اس قدر پختہ ہیں کہ اس کا استیصال کرنا اور اس کی جگہ دین کے اعتقاد کو واپس لانا خیبر فتح کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ لہٰذا اس زمانہ میں ایک ایسے حیدر کرار کی ضرورت ہے جو دین و وطن کے اس معرکہ کو سر کر سکے۔
بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہ دین و وطن
اس زمانہ میں کوئی حیدر کرار بھی ہے
مسلمان کو چاہیے کہ نسل پر فخر نہ کرے بلکہ فقط اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرے۔ جس طرح حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا تھا کہ میں اسلام کی اولاد ہوں۔
فارغ از باب دام و اعمام باش
ہمچو سلمان زادہ اسلام باش
وہ مسلمان جو اس بات پر فخر کرتا ہے کہ وہ رومی یا افغانی ہے ابھی کیچڑ کی محبت میں گرفتارہے حالانکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اسے چاہیے تھا کہ اپنے آپ کو مادی اور ارضی رشتوں سے آزاد کر کے خدا کی محبت اپنے دل میں بساتا اور اپنی خودی کو پہچانتا۔
ہنوز از بند آب و گل نہ رستی
تو گوئی رومی و افغانیم من
خدا کی محبت ہی انسان بننا سکھاتی ہے۔ کوئی انسان کس رنگ‘ نسل یا وطن سے تعلق رکھتا ہے یہ سوال تو بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ انسان مطلق یا آدم بے رنگ و بو بنتا ہماری پہلی ضرورت ہے جو خدا کی محبت کو فروغ دے کر درجہ کمال پر پہنچانے کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔