سیاسی انقلاب کی حقیقت
جس طرح سے حیاتیاتی ارتقا کے ادوار میں ایک جسم حیوانی کی جسمانی شکل و صورت کے انر اس مظہر قدرت کی وجہ سے جسے تقلیب کہا جاتاہے ایک فوری تبدیلی رونما ہو جاتی تھی اسی طرح سے نظریاتی ارتقا کے اس دور میں ایک نظریاتی جماعت کی نظریاتی شکل و صورت کے اندر بھی ایک نظریات تقلیب کی وجہ سے جسے بالعموم ایک انقلاب کہتے ہیں ایک فوری ترقی رونما ہو جاتی ہے۔ قریب کی تاریخ میں ایسی نظریاتی تقلیبات کی مثالیں‘ فرانسسیی انقلاب‘ روسی انقلاب‘ نازی انقلاب اور فسطائی انقلاب ہیں جنہوں نے فرانس‘ روس‘ جرمنی ‘ اٹلی کے نظریات کو بالترتیب فرانسیسی بادشاہت سے جمہوریت میں‘ روسی بادشاہت سے اشتراکیت میں جرمنی و طنیت سے جرمن نیشنل سوشلزم میں اور اطالوی وطنیت سے فسطائیت میں تبدیل کر دیا تھا۔
تعلیم اور تبلیغ کی حقیقت
پھر ایک جسم حیوانی کی طرح ایک نظریاتی جماعت بھی ایک اندرونی بیماری کی وجہ سے جو اس صورت میں جماعتی نصب العین کے نقائص یا اس کے محاسن کی نافہمی کی صورت اختیار کرتی ہے۔
موت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ جس طرح سے ایک جسم حیوانی تناسل اورتعالد کے ایک عمل سے جس میں نر اور مادہ اپنے جنسی وظائف ادا کرتے ہیں اپنی ہی شکل و صورت کے دوسرے افراد پیدا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے افراد کی نسل ترقی کر کے ایک بہتر بڑی نو ع حیوانات کی صورت اختیار کر لیتی ہے اسی طرح یہ نظریہ کا پرستارتعلیم اور تبلیغ کے ایک عمل سے جس سے قائد اور مقتدی یا استاد اور شاگرد اپنے تعلیمی وظائف ادا کرتے ہیں۔ اپنے نظریہ کے دوسرے پرستا ر پیدا کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نظریہ کے پرستاروں کی تعداد ترقی کر کے ایک بہت بڑی نظریاتی جماعت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ جس طرح سے ہر طرح حیوانی پہلے ایک مولود ہوتاہے اور پھرایک والد اور ا س طرح سے نظری کو چاہنے والا یک انسانی فرد پہلے ایک پروشاگرد ہوتاہے اور پھر ایک قائد یا استاد بن جاتا ہے پہلے اس کے راہنما یا استاد والدین ہوتے ہیں پھر وہ اپنی اولاد کا راہ نما استاد بنتا ہے۔ جس طرح سے ایک جسم حیوانی کی زندگی اس کی اس خواہش کے گرد گھومتی ہے کہ وہ ایک جسم حیوانی کی حیثیت سے زند ہ رہے۔ اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت کی زندگی اس خواہش کے گرد گھومتی ہے کہ وہ ایک نظریاتی جماعت کی حیثیت سے زندہ رہے۔ جس طرح سے جسم حیوانی اپنے اندر ایک عضو (دل) رکھتا ہے جو اس کی قوت حیات کی تقسیم کا مرکز ہوتا ہے اور اس کے سارے جسم کے سارے اعضا ء و جوارح کے لیے خون بہم پہنچاتاہے۔ اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت اپنے اندر ایک ایساادارہ (نظام تعلیم) رکھتی ہے جو اس کے نصب العین کی محبت کی تقسیم کا مرکز ہوتا ہے اور جماعت کے تمام افرادکے دلوں کے لیے نصب العین کی محبت کا آب حیات بہم پہنچاتاہے جس طرح سے ایک جسم حیوانی دوسرے مخالف جسم حیوانی کے مرکز حیات کو تباہ کر کے اسے ہلاک کر سکتا ہے اسی طرح سے ایک جسم حیوانی دوسری مخالف نظریاتیجماعت کے مرکز حیات کو تباہ کر کے اسے ہلا ک کر سکتاہے۔ اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت دوسر ی مخالف نظریاتی جماعت کے مرکز حیات یعنی نظام تعلیم کو تباہ کر کے اسے ختم کر سکتی ہے۔ مثلاً دوسری جنگ عظیم کے فاتحین نے جرمنی ‘ جاپان اور اٹلی پر قبضہ کیا توانہوںنے نازی ازم ‘ میکاڈو ازم‘ فاشزم کے نظریات کو ختم کرنے کے لیے جو قدم اٹھایا تھا وہ یہ تھا کہ انہوںنے ملکوں میںنظام ہائے تعلیم کو ختم کر کے ان کی جگہ اپنے نظام تعلیم کو جاری کیا اور اس طرح سے ان کو اپنی نظریاتی جماعت میں شامل کر لیا ۔ جب ایک جسم حیوانی کے اعضاء و جوارح کے اندر مکمل اتحاد اور اشتراک عمل موجود ہو تو وہ تندرست و توانا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے جب ایک نظریاتی جماعت کے تمام افراد کے اندر مکمل تحاد اور اشتراک عمل ہوتو وہ اخلاقی لحاظ سے تندرست اور استعداد عمل کے لحاظ سے طاقت ور ہوتا ہے ۔ ایک نظریاتی جماعت بھی ایک جسم حیوانی کی طرح ان چیزوں کی طرف کشش محسوس کرتی ہے جو اس کی زندگی اور نشوونما کے لے ممد ومعاون ہوں اور ان چیزوں سے گریز کرتی ہے جو اس کی زندگی ور نشونما کے لیے مضر ہوں۔ جس طرح سے ایک جسم حیوانی کے اعمال کی راہ نمائی اس کا دماغ کرتاہے۔ اور اسی طرح سے ایک نظریاتی جماعت کے اعمال کی راہ نمائی اس کا قائد کرتا ہے۔
ایک نظریاتی جماعت ایک فرد کی طرح زندہ ہوتی ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد کی طرح ایک نظریاتی جماعت بھی اپنی ایک زندگی رکھتی ہے اور اس کی زندگی ا س کے ہر فرد کی زندگی سے جدا ہوتی ہے۔ فرد کی طرح وہ بھی نشوونما پا کر اپنے کمال کو پہنچتی ہے اور جیسا کہ ہم شہد کی مکھیوں کے چھتہ میں دیکھتے ہیں فرد جماعت کے لیے ہوتاہے اور جماعت کے لیے ہی جیتا اور مرتا ہے اور جماعت کے لیے ہونا اور جماعت کے لیے جینا اور مرنا ہی ایک فرد کی حیثیت سے اس کا کمال ہے۔
وجود افراد کا مجازی ہے ہستی قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت یہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا
اقبال لکھتا ہے:
’’فرد فی نفسہ ایک ہستی اعتباری ہے۔ یا یوں کہیے کہ اس کا نام ان مجردات عقلیہ کی قبیل سے ہے جس کا حوالہ دے کر عمرانیات کے مباحث کے سمجھنے میں آسانی پیدا کر دی جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر فرد اس جماعت کی زندگی میں جس کے ساتھ اس کا تعلق ہے بمنزلہ ایک عارضی اور آنی لمحہ کے ہے۔ اس کے خیالات اس کی تمنائیں‘ اس کا طرز ماند و بود‘ اس کے جملہ قوائے دماغی و جسمانی بلکہ اس کے ایام زندگی کی تعداد تک اس جماعت کی ضروریات و حوائج کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہے۔ جس کی حیات اجتماعی کا وہ محض ایک جزوی مظہر ہوتا ہے ۔ فرد کے افعال کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ برسبیل اضطرار اور بلا ارادہ کسی خاص کام کو جو جماعت کے نظام نے اس کے سپرد کر رکھا ہے انجام دیتا ہے اور اس لحاظ سے اس کے مقاصد کو جماعت کے مقاصد سے تخالف کلی بلکہ تضاد مطلق ہوتا ہے اور جماعت کی زندگی بلا لحاظ اپنے اجزائے ترکیبی یعنی افراد کی زندگی کے بالکل جداگانہ ہوتی ہے‘‘۔
(مقالات اقبال ص 116)
ہر نظریاتی جماعت ایک انا یا نفس ناطقہ رکھتی ہے
ایک فرد کی طرح ایک قوم یا نظریاتی جماعت بھی ایک انا یا نفس ناطقہ رکھتی ہے اور فرد ہی کی طرح وہ ذوالعقل اور ذوالارادہ ہوتی ہے۔ فرد کی طرح اس کا بھی ایک مقصد یا مدعا ہوتا ہے اور وہ بھی ایک ماضی ‘ ایک حال اور ایک مستقبل رکھتی ہے اس کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے وہ اپنے کل کی فکر کرے اور اپنے حال کو اپنے مستقبل کے تابع رکھے یعنی اپنے حال کے ذریعہ سے اپنے مستقبل کی تعمیر کرے۔
اقبال لکھتا ہے:
’’اگرچہ قوم کی ذہنی اور دماغی قابلیت کا دھارا افراد ہی کے دماغ سے ہو کر بہتا ہے۔ لیکن پھر بھی قوم کا اجتماعی نفس ناطقہ جو مدرک کلیات و جزئیات ہے اور خیبر اور مرید ہے بجائے خود ضرور موجود ہوتا ہے۔ ’’جمہوری رائے‘‘ اور ’’قومی فطنت‘‘ وہ جملے ہیں جن کی وساطت سے ہم موہوم اور مبہم طور پر اس نہایت ہی اہم حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ قومی ہستی ذوالعقل اور ذوالارادہ ہے۔ ازوحام خلائق‘ جلسہ عام ‘جماعت انتظامی‘ فرقہ مذہبی اور مجلس مشاورت وہ مختلف ذرائع ہیں جن سے قوم اپنی تدوین اور تنظیم کا کام لے کر وحدت ادراک کی غایت کو حاصل کرتی ہے۔ …قوم ایک جداگانہ زندگی رکھتی ہے۔ یہ خیال کہ اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ اپنے موجودہ افراد کا محض ایک مجموعہ ہے اصولاً غلط ہے اور اس لیے تمدنی اور سیاسی اصلاح کی وہ تمام تجاویز جو اس مفروضہ پر مبنی ہوں بہت احتیا ط کے ساتھ نظرثانی کی محتاج ہیں۔ قوم اپنے موجودہ افراد کامجموعہ نہیں بلکہ اس سے بہت کچھ بڑھ کر ہے اس کی ماہیت پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ غیر محدود لامتناہی ہے۔ اس لیے کہ اس ک اجزائے ترکیبی میں وہ کثیر التعداد آنے والی نسلیں بھی شامل ہیں جو اگرچہ عمرانی حد نظر کے فوری منتہا کے پرلی طرف واقع ہیں لیکن ایک زندہ جماعتوں کا حال ہمیشہ استقبال کے تابع ہوتا ہے۔ مجموعی حیثیت سے اگر نوع پر نظر ڈالی جائے تو اس کے وہ افراد جو ابھی پیدا نہیںہوئے ا س کے موجودہ افراد کے مقابلہ میں شاید زیادہ بدیہی الوجود ہیں موجودہ افراد کی فوری اغراض ان غیر محدود اور نامشہود افراد کی اغراض کے تابع ہوتی ہیں بلکہ جن پر نثار کر دی جاتی ہیں جو نسلاً بعد نسل بتدریج ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور علم الحیات کی اس حیرت انگیز حقیقت کو وہ محض بنگاہ استغنا نہیں دیکھ سکتا جس کے پیش نظر سیاسی یا متمدنی اصلاح ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اقوا م کے لیے سب سے زیادہ مہتمم بالشان عقدہ فقط یہ عقدہ ہے (خواہ اس کی نوعیت تمدنی قرار دی جائے خواہ اقتصادی خواہ سیاسی) قومی ہستی کا سلسلہ بلا انقطاع کس طرح قائم رکھا جائے۔ مٹنے یا معدوم ہونے کے خیال سے قومیں بھی ویسی ہی خائدف ہیں جیسے افراد۔ کسی قوم کی مختلف عقلی یا غیر عقلی قابلیتوں اور استعدادوں کے محاسن کا اندازہ ہمیشہ اسی غایت الغایات سے کرنا چاہیے ۔ ہم کو لازم ہے کہ اپنے محاسن کو جانچیں اور پرکھیں اور اگر ضرورت آپڑے تو نئے محاسن پیدا کریں‘‘۔
(مقالات اقبال صفحہ 117,118,119)