محبت کی تشفی کا عمل
محبت ہمیشہ اپنے اظہار اور اپنی تسکین اور تشفی سے ترقی پاتی ہے جس طرح سے ذکر خدا کی محبت سے پیدا ہوتاہی اور خدا کی محبت کی تشفی کا ایک عمل ہے اور خدا کی محبت کو ترقی دیتا ہے۔ اسی طرح سے فعل جمیل بھی خدا کی محبت کی تشفی کا ایک عمل ہے اور خدا کی محبت کو ترقی دیتا ہے دراصل ذکر اور فعل جمیل دونوں خودی کو ترقی دے کر نکتہ کمال تک پہنچانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کیونکہ دونوں خدا کی محبت کے اظہار اور اس کی تسکین اور تشفی کے طریقے ہیں اگر کوئی شخص اچھے عمل سے بے پرواہ ہو جائے اور فقط ذکر ہی سے اپنی محبت کو ترقی دینا چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت میں اسے ذکر سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کا ذکر اخلاص سے عاری ہو گا۔ اس کے برعکس وہ محبت کی منزل کمال سے ہر روز اور دور ہوتا جائے گا۔ اس کی مثال اس مسافر کی طرح ہو گی جو د وگھنٹہ کے لئے تو اپنی منزل کی طرف چلے اور پھر سارا دن اس سے عین مخالف سمت چلتا رہے ایسا شخص منزل پر کیسے پہنچ سکتا ہے محبت کی ابتداء میں فعل جمیل ممکن نہیں ہوتا کیونکہ محبت کمزور ہوتی ہے اور غلط جبلی خواہشات اور ان کے ماتحت راسخ شدہ عادات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن جب ذکر سے محبت کچھ ترقی کر جاتی ہے تو مومن اپنی محبت کی قوت سے اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس کی خاطر اپنی غلط خواہشات کو کسی قدر روک کر صحیح قسم کے عمل کی طرف مائل ہو اور پھر اس صحیح عمل سے اس کی محبت اور ترقی کرتی ہے جس کی وجہ سے اسے ذکر کے اندر زیادہ گہری توجہ اور زیادہ لذت نصیب ہوتی ہے اور ذکر محبت کو ترقی دینے کے لئے اور بھی مفید اور موثر ہو جاتا ہے اور پھر یہ ترقی یافتہ محبت فعل جمیل کو اور آسان کرتی ہے اور ذکر اور فعل جمیل کا یہ تعاون جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ خودی کی محبت اپنی بلندیوں کی انتہا تک پہنچ جاتی ہے۔ جہاں وہ فعل جمیل کا اکتساب کسی مجبوری سے یا کسی مشکل جدوجہد سے نہیں کرتی بلکہ اس لئے کرتی ہے کہ یہ اس کی محبت کا ایک تقاضا بن جاتا ہے۔ جو اس کے دل کی گہرائیوں سے خود بخود ابھرتا ہے اور جسے روکنا اس کے بس کی بات نہیں رہتی محبت کے درجہ کمال پر پہنچ کر خودی کے لئے فعل جمیل سے رکنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا کہ محبت کی ابتدائی منزل میں فعل قبیح سے رکنا۔ اس حالت میں مومن دین کے اوامر اور نواہی کو فقط دوسروں کی سند کی بنا پر ہی نہیں جانتا بلکہ ان کو اپنے دل کی گہرائیوں کے اندر محسوس کرتا ہے۔ اب وہ ان پر کسی مجبوری سے نہیں بلکہ ایک ایسی خواہش سے عمل کرتا ہے جس سے رکنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
فاش مے خواہی اگر اسرار دین
جز بہ اعماق ضمیر خود مبین
گر نہ بینی دین تو مجبوری است
ایں چنیں دیں از خدا مہجوری است
ظاہر ہے کہ اس مقام پر مومن کو کسی راہ نما کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ راہ نما کی عین مرضی کے مطابق وہ خود اپنی راہ نمائی کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
کہے نہ راہ نما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو
یہ بات راہ رو نکتہ داں سے دور نہیں
ایک مشکل کا حل
اب یہ بات غور طلب ہے کہ ایک طرف سے تو جب تک انسان کچھ عرصہ کے لئے متواتر فعل قبیح سے اجتناب اور فصل جمیل کا اکتساب نہ کرتا رہے اس کی محبت ذکر و فکر میں مشغول رہنے کے باوجود ترقی کر کے درجہ کمال پر نہیں پہنچ سکتی اور دوسری طرف سے جب تک اس کی محبت درجہ کمال پر نہ ہو اس وقت تک فعل قبیح سے متواتر اجتناب اور فعل جمیل سے متواتر اکتساب تو درکنار وہ اپنے دل سے اور اپنے پورے احساس اور یقین سے یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکتا کہ فعل جمیل کیا ہے اور فعل قبیح کیا ہے۔ اور کیوں اس کی وجہ یہ ہے کہ خودی کی محبت جب تک کمزور رہتی ہے۔ متضاد قسم کے تصورات میں بٹی رہتی ہے اور یہ تصورات خودی کے صحیح اخلاقی فیصلوں کو غلط کرتے رہتے ہیں۔ پھر اس مشکل کا حل کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کے لئے ارتقا کرنا اور محبت کے درجہ کمال پر پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی یا نفسیاتی زندگی پر ارتقا ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ۔ خدا نے انسان کو ارتقا کر کے اپنی حالت کمال پر پہنچنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ہو نہیں سکتا کہ اس مشکل کا حل کارخانہ قدرت میں موجود نہ ہو۔
دراصل یہ مشکل انسانی اور نفسیاتی مرحلہ ارتقا کے ساتھ خاص نہیں۔ زندگی کو اس سے پہلے حیاتیاتی سطح ارتقا پر بھی ایسی ہی مشکل پیش آ چکی ہے اور زندگی نے وہاں اس کا حل پیدا کر لیا تھا یہ مشکل ایسی ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ ایک طرف سے جب تک ایک جسم حیوانی مکمل طور پر تندرست اور توانا نہ ہو وہ امراض کے جراثیم کی کامیاب مزاحمت نہیں کر سکتا اور جب تک وہ کچھ عرصہ کے لئے امراض کے جراثیم کی کامیاب مزاحمت نہ کرتا رہے وہ تندرست اور توانا نہیں ہو سکتا۔ اس حیاتیاتی مشکل کا حل زندگی نے عمدہ اور صحت بخش قدرتی خوراک مہیا کر کے خود پیدا کیا ہے۔ا گر جسم عمدہ غذا جس میں مناسب مقدار میں حیاتین اور فلزات موجود ہوں کچھ عرصہ کے لئے استعمال کرتا رہے تو یہ ایک طرف سے صحت اور توانائی اور دوسری طرف سے امراض کے جراثیم سے حفاظت دونوں کی ضمانت ہے۔ اسی طرح سے انسانی اور نفسیاتی سطح ارتقا کی مشکل کا حل کرنے کے لئے زندگی ’’ نبوت‘‘ کی صورت میں روحانی غذا کے طور پر ایک ایسی قدرتی تعلیم مہیا کرتی ہے جسے قبول کرنے کے لئے انسانی خودی فعل قبیح اور فعل جمیل میں فرق معلوم کر کے فعل قبیح سے اجتناب اور فعل جمیل کا اکتساب کر سکتی ہے اور اس طرح سے اپنی محبت کو فروغ دے سکتی ہے۔ نبوت زندگی کا اپنا انتظام ہے کیونکہ وہ انسان کے اختیار سے باہر ایک مظہر قدرت ہے۔ جس سے زندگی اپنے اسرار کو خود منکشف کرتی ہے اور عمل خوب و ناخوب کی گرہ کھولتی ہے۔
خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیوں کر
گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات
کامل طور پر توانا اور تندرست خودی وہی ہے جس کی محبت درجہ کمال پر ہو۔ ایسی خودی فعل ناخوب کے مرض پرور جراثیم سے محفوظ رہتی ہے اور اس کی توانائی کا باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ نبوت کے علم سے جو نبی کی شریعت کی صورت میں اسے میسر آتا ہو بالالتزام صحت بخش روحانی غذا حاصل کرتی رہتی ہے۔ خودی کی غذا حسن ہے۔ اگر نبی کامل ہو تو اس کی تعلیم کامل ہوتی ہے اور جس طرح سے کامل غذا کے اندر تمام حیاتین اور فلزات جن کی جسم کو ضرورت ہے موجود ہوتی ہیں۔ اسی طرح سے کامل نبی کی تعلیم ایسے تصور حسن کی نشاندہی کرتی ہے جس میں حسن و کمال کی وہ تمام صفات جن کی آرزو خودی کر سکتی ہے موجود ہوتی ہے اور پھر اس کی تعلیم خوب و ناخوب اعمال میں فرق کر کے اس روحانی غذا کے استعمال کے طریقے اور مواقع بھی بتاتی ہے۔