خدا ہستی غائب نہیں، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خدا ہستی غائب نہیں
ایک نظم میں اقبال کہتا ہے کہ فلسفہ مغرب کے قائلین کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی جستجو کرنا نادانی ہے اور ان کی بڑی دلیل یہ ہے کہ خدا ہستی غائب ہے اور جدید سائنسی علوم کی بنیاد ان حقائق پر ہے۔ جو محسوس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی حواس خمسہ کے ذریعہ سے معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا خدا کو ماننا علم اور عقل کی کوئی بات نہیں۔ اس زمانہ میں محض عقائد کو کوئی علمی حیثیت حاصل نہیں۔ مذہب ایک جنون ہے جس سے آدمی کے تخیل پر ناحق ایک لرزہ سا طاری رہتا ہے۔ لیکن اگر ہم فلسفہ زندگی پر غور کریں تو کچھ اور ہی قسم کے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ مغرب کے فلسفیوں کا یہ خیال درست نہیں کہ خدا ہستی غائب ہے اور خدا کو جاننے کا پہلا ذریعہ حواس خمسہ کے سوائے کوئی اور بھی ہے۔ خدا کو جاننے کا بنیادی ذریعہ حواس خمسہ ہی ہیں۔ کیونکہ خدا کی ہستی اور اس کی صفات مظاہر قدرت میں آشکار ہیں اور مظاہر قدر ت کا علم حواس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ اقبال نے اپنے خط میں لکھا ہے۔ وہ علم جس کا دارومدار حواس پر ہے۔ ’’علم حق کی ابتداء ہے۔‘‘
علم حق اول حواس آخر حضور
چونکہ خدا کی صفات محسوس کائنات میں آشکار ہیں لہٰذا خدا محسوس کائنات سے الگ نہیں اور خدا کا علم بھی محسوس کائنات ہی کا علم ہے۔ یہ بات کہ خد اہماری جسمانی آنکھوں سے مخفی ہے۔ اس صداقت میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتی۔ بعض وقت ہم کسی چیز کی ہستی کو اس کے محسوس آثار اور نتائج سے جانتے اور پہچانتے ہیں اور پھر اس چیز کا علم بھی ایسا ہی معتبر اور یقینی ہوتا ہے جیسا کہ کسی اور محسوس چیز کا علم مثلاً ہم دور سے دھواں دیکھیں تو اس سے آگ کی موجودگی کا یقین کرتے ہیں حالانکہ آگ ہمیں نظر نہیں آتی۔ اسی طرح سے ہم اپنے کسی دوست کی شخصیت یا خودی کو اس کے آثار و نتائج سے جو اس کے اعمال، افعال اور اقوال کی صورت اختیار کرتے ہیں اچھی طرح سے جان لیتے ہیں حالانکہ اس کی شخصیت یا خودی سے بھی ہیروشیما کے دھماکہ کے بعد ہی دیکھا ہے اس کے باوجود اس دھماکہ کے وقت سائنس دانوں کو اس کے محسوس آثار و نتائج کی بنا پر اس کا پورا علم تھا۔ جو یہاں تک یقینی اور موثر تھا کہ اس کی مدد سے ہیروشیما ایسے ایک بڑے شہر کو لمحہ بھر میں تباہ کر دیا گیا۔ ایٹم کی طرح ہم خدا کو بھی اس کے آثار و نتائج یا اعمال و افعال کے ذریعہ سے جو مظاہر قدرت کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اوپر کی مثالوں میں اگر اپنے آثار و نتائج کے ذریعہ سے جانی ہوئی چیزوں یعنی آگ اور دوست کی شخصیت اور ایٹم میں سے کوئی چیز بھی کسی شخص کے نزدیک ہستی غائب یا مافوق الفطرت ( Super-Natural) نہیں تو خدا بھی ہستی غائب یا مافوق الفطرت نہیں۔ تمام طبیعاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی مظاہر قدرت میں جو چیز ہمیں واضح طور پر نظر آتی ہے وہ نظم یا آرڈر(Order) کی موجودگی ہے جو سانس دان کو کشش کرتا ہے اور جسے سائنس دان اپنے مشاہدات اور تجربات کے ذریعہ سے دریافت کر کے ضبط تحریر میں لاتا ہے جہاں نظم دریافت نہ ہو سکے۔ وہاں سائنس کی تحقیق ناکام رہتی ہے اور رک جاتی ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ یہ نظم ایک جوہر میں، ایک سالمہ میں، ایک قلم یا کرسٹل میں، ایک نظام شمسی میں، برف کے ایک گالہ میں، ایک خلیہ میں، ایک جسم حیوانی میں اور ایک انسانی شخصیت میں موجود ہے۔ اور پھر جہاں تک ہمیں علم ہے یہ نظم جب سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ آج تک ہر زمانہ میں اور جہاں تک کائنات پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ہر جگہ ایک ہی رہتا ہے اور اس کی یکسانیت کبھی او رکہیں نہیں ٹوٹتی۔ اب یہ بات بالکل ظاہر ہے اور اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ کہ نظم ہمیشہ کسی ذہن کی کارفرمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر ہم گندم کے کچھ دانے ایک فٹ پاتھ پر بکھرے ہوئے دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اتفاقاً گر گئے ہوں گے لیکن اگر وہی دانے ایک باقاعدہ ہشت پہلو ریاضیاتی شکل میں آراستہ ہوں تو ہم سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکیں گے کہ کسی زندہ باشعور ہستی نے ان کو یہ شکل دی ہے۔ طبیعاتی مظاہر قدرت کے اندر جو نظم پایا جاتا ہے وہ اس قدر جچا تلا ہے کہ ہم اسے ریاضیاتی اصطلاحات یا ریاضیاتی اصولوں میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ ایک بلند عمارت کی چھت سے نیچے گرائی ہوئی چھوٹی سی کنکری کی بڑھتی ہوئی رفتار یا حرارت سے پھیلنے والی لوہے کی ایک سلاخ کی بڑھتی ہوئی طوالت بھی ریاضیاتی قوانین کی پابند ہے۔ جو کائنات میں اس وقت بھی جاری تھے جب اس میں انسان جوان قوانین کو سمجھنے کی ذہنی استعداد رکھ سکتا ہے۔ موجود نہیں تھا۔ا گرچہ نظم خود ایک مقصد کا مظہر ہوتا ہے۔ تاہم جب ہم طبیعیاتی مظاہر قدرت سے ذرا اوپر آ کر حیاتیاتی مظاہر قدرت پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں ہر چھوٹے یا بڑے جاندار کے جسمانی نظم کے اندر کسی مقصد کی کارفرمائی براہ راست نظر آتی ہے۔ حالانکہ کسی جاندار نے اپنے آپ کو خود نہیں بنایا اور نہ وہ مقصد جو اس کے جسمانہ کارخانہ کے کونے کونے میں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے، اس کا اپنا مقصد ہوتا ہے۔ لہٰذا جدید سائنسی علوم مظاہر قدرت کے اندر نظم اور مقصد کی جستجو اور دریافت کی کٹھن منزلیں طے کر کے یہ سوال بار بار پیدا کرتے رہتے ہیں کہ جب نظم اور مقصد ذہن کی کارفرمائی کے بغیر ممکن نہیں تو پھر یہ کس کا ذہن ہے جو قدرت کے ذرہ ذرہ میں کار فرما ہے۔ اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ اس کا ذہن ہے جس نے قدرت کے ذرہ ذرہ کو پیدا کیا ہے اور جسے خالق کائنات یا خدا کہا جاتا ہے۔ لہٰذا خدا کا عقیدہ جدید سائنسی علوم کا ایک قدرتی جزو اور جزو لانیفک ہے۔ اگر مغرب کے علماء نے علوم جدیدہ سے خدا کے عقیدہ کو الگ کر دیا ہے۔ تو ایسا کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی علمی اور عقلی وجہ جواز موجود نہیں اور نہ ان کا ایسا کرنا اس کا ثبوت بن سکتا ہے کہ خدا ایک علمی تصور نہیں یا ہمیں خدا کو ایک غیر محسوس ہستی سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہئے۔ خدا کی ہستی ہستی غائب یا ماورائے علم ہستی نہیں بلکہ وہ ہستی ہے جس کی شہادت خود علوم جدیدہ بہم پہنچا رہے ہیں۔ اگر خدا غائب ہے تو ان معنوں میں کہ آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات ہماری جسمانی آنکھوں سے مخفی ہے۔ لیکن ان معنوں میں دنیا کی ہر وہ چیز بھی جسے ہم ان آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، غائب ہے۔ کیونکہ ہم دنیا کی کسی چیز کو بھی جسے ہم مرئی کہتے ہیں پوری طرح سے نہیں جان سکتے۔ ان ہی معنوں میں قرآن حکیم نے خدا کو ظاہر بھی کہا ہے اور باطن بھی۔ قرآن کی آیت لیومنون بالغیب میں لفظ غیب میں خدا کو شامل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا ہم سے کلیتاً مخفی ہے۔ بلکہ فقط یہ ہے کہ ظاہر اور آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات ہماری آنکھوں سے نہاں ہے۔ خدا مظاہر قدرت میں اپنی صفات کی آشکارائی کی وجہ سے آشکار ہے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کا ارشاد ہے کہ مظاہر قدرت خدا کی آیات یا خدا کے نشانات ہیں۔ اور خدا کو جاننے کے لئے ان کا مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ کچھ مظاہر قدرت کا ذکر کرنے کے بعد قرآن حکیم کا ارشاد ہے۔
ذالکم اللہ ربکم فانی توفکون
(یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار۔ تم کہاں بھٹکتے پھر رہے ہو)
یہ اشارہ صرف ایک ایسی ہستی کی طرف ہی کیا جا سکتا ہے جو صاف طور پر سامنے نظر آ رہی ہو۔ اسلام میں مشاہدہ و مطالعہ قدرت ایمان باللہ کے لئے ضروری ہے۔ مغرب کی موجودہ عیسائیت میں مشاہدہ و مطالعہ قدرت ایمان باللہ کے منافی یا کم از کم اس سے بے تعلق ہے۔ لہٰذا جس طرح سے فلسفہ مغرب میں نامشہور(Unseen) اور فوق الفطرت(Super Natural) کے الفاظ خدا کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اسلام میں جو فلسفہ زندگی ہے استعمال نہیں کئے جا سکتے اگر فلسفہ مغرب کے قائلین نے علوم جدیدہ سے خدا کے عقیدہ کو الگ کر دیا ہے تو ہمارے لئے ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں اور پھر خودی کی فطرت اس بات کی گواہ ہے کہ انسان آرزوئے حسن کے سوائے اور کچھ نہیں اور انسان کی یہ آرزوئے حسن خدا کے سوائے اور کسی نصب العین سے مطمئن نہیں ہوتی۔ اگر خدا کی جستجو کو نادانی سمجھا جائے تو انسان اپنی اس ایک ہی آرزو کی تشفی کیسے کرے گا۔ جس پر اس کی پوری فطرت مشتمل ہے۔ انسان کو عقل ہی کی نہیں بلکہ جنون یعنی خدا کی محبت کی بھی ضرورت ہے۔ اگر وہ عقل کل ہو جائے تو پھر بھی خدا کی محبت کے جنون سے بے نیاز اور بے پرواہ نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ سچے خدا سے بے نیاز ہو گا تو اسے زندہ رہنے کے لئے کسی جھوٹے اور ناحقدار خدا کی محبت اور اطاعت کا پھندا اپنے گلے میں ڈالنا پڑے گا۔ لہٰذا اقبال فلسفہ مغرب کے قائلین پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے:
تعلیم پیر فلسفہ مغربی ہے یہ،
نادان ہیں جن کو ہستی غائب کی ہے تلاش
محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقائد کا پاش پاش
مذہب ہے جس کا نام، وہ ہے اک جنون خام
ہے جس سے آدمی کے تخیل کو ارتعاش
کہتا ہے مگر ہے فلسفہ زندگی کچھ اور
مجھ پر کیا یہ مرشد کامل نے راز فاش
باہر کمال اند کے آشفتگی خوش است
ہر چند عقل کل شدہ رای بے جنوں مباش
سائنس محبت کی خانہ زاد ہے
اوپر ہم نے دیکھا ہے کہ اقبال کا خیال یہ ہے کہ نصب العین کی محبت انسان کے تمام اعمال کو پیدا کرتی ہے اور ان کو اپنی غرض کے لئے کام میں لاتی ہے۔ ہمارا نصب العین ہی ہمارے لئے درست و نا درست صحیح اور غلط، نیک او ربد اور زشت و زیبا میں فرق پیدا کرتا ہے۔ مشاہدہ قدرت اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا عمل جس سے سائنس کی تعمیر ہوتی ہے۔ اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ خواہ ہمارا نصب العین صحیح ہو یا غلط، کامل ہو یا ناقص ہر حالت میں ہمارے مشاہدات کے نتائج ہمارے نصب العین کی روشنی میں ہی مرتب ہوتے ہیں اور اس کے تائیدی اور تشریحی حقائق کے طور پر بر وقت ضرورت کام آنے کے لئے ہمارے پاس محفوظ رہتے ہیں اگر ہمارا نصب العین غلط اور ناقص ہو گا تو ہمیں قدرت ایک خاص رنگ میں دکھائی دے گی۔ جو ا س نصب العین کا رنگ ہو گا اور ہمارے سائنسی مشاہدات اور سائنسی نتائج ایک خاص نقطہ نظر کے حامل ہوں گے جو اس نصب العین کے مطابق ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس حالت میں ہم قدرت کے مشاہدہ سے صحیح نتائج اخذ نہ کر سکیں گے اور وہ اسی نسبت سے غلط ہوں گے جس نسبت سے ہمارا نصب العین غلط ہو گا اور ہمارا نصب العین صحیح ہو گا تو ہم قدرت کا مشاہدہ اس حقیقت کی روشنی میں کریں گے کہ قدرت خدا کی تخلیق اور خدا کے حسن کا مظہر ہے۔ پھر قدرت بھی اور طرح سے نظر آئے گی اور اس کے مشاہدہ سے ہمارے نتائج بھی اور طرح سے مرتب ہوں گے۔
کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں
نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی
اگر سائنس خدا کے تصور پر قائم ہو تو جوں جوں وہ ترقی کرتی ہے اپنے غلط نتائج کو خود بخود درست کرتی چلی جاتی ہے۔ بے خدا سائنس میں یہ خاصیت نہیں ہوتی کیونکہ وہ حقیقت الحقائق یعنی خدا کے تصور کی روشنی اور راہ نمائی سے محروم ہوتی ہے۔
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم
کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم
وہ علم بے بصری جس میں ہمکنار نہیں
تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم
خد اکے عقیدہ کی روشنی میں کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے سے جو سائنس تعمیر ہوتی ہے۔ وہ نہ صرف اغلاط سے پاک ہوتی ہے اور علم رنگ و بود کی صحیح تشریح اور تفسیر ہوتی ہے۔ بلکہ وہ ہمارے ذوق حسن (دیدہ) کی پرورش اور ہماری محبت (دل) کی تربیت کرتی ہے یہاں تک کہ ہمیں جذب و شوق یعنی معرفت حق تعالیٰ کی انتہائی منزلوں تک پہنچا دیتی ہے اور خود جبرائیل کی طرح خدا کا راز دار بنا دیتی ہے۔
علم تفسیر جہان رنگ و بو
دیدہ و دل پرورش گیر دازو
بر مقام جذب و شوق آرد ترا
باز جوں جبریلؑ بگذارد ترا
اقبال کے اس خط کے مطابق جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے لفظ’’ علم‘‘ سے یہاں اقبال کی مراد پھر سائنس ہے۔ اقبال نے سائنسی تحقیق و تعلیم پر بڑا زور دیا ہے اور اس کی وجہ سے اس کا یہ خیال ہے کہ سائنس کے ذریعہ سے مسلمان نظام عالم کی قوتوں کو مسخر کرنے کے لئے جدوجہد کر کے اپنی ممکنات کو آشکار کر سکتا ہے اور اپنی قوتوں کی توسیع کرسکتا ہے اور ہر لحاظ سے طاقتو رہو کر اپنے مقصد زندگی یعنی کلمہ توحید کی نشر و اشاعت کو زیادہ آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ یہ کائنات پیدا ہی اس لئے کی گئی ہے کہ مومن کی خودی اس کی تسخیر کر کے ترقی پائے اور اپنے کمال کو پہنچے۔
ماسوا از بہر تسخیر است و بس
سینہ او عمرضہ تیراست و بس
از کن حق ماسوا شد آشکار
تا شود پیکان تو سنداں گداز
٭٭٭
خیزد دا کن دیدہ مخمورا
دون مخوان ایں عالم مجبور را
غامتیش توسیع ذات مسلم است
امتحان ممکنات مسلم است
جستجو را محکم از تدبیر کن
انفس و آفاق را تسخیر کن
تو کہ مقصود خطاب انظری
پس چرا ایں راہ چوں کوران بری
چوں صبا بر صورت گلہا متن،
غوطہ اندر معنی گلزار زن،
آنکہ بر اشیا کمندا مذاخت است
مرکب از برق و حرارت ساخت است
علم اسما اعتبار آدم است

حکمت اشیا حصار آدم است