مظاہر قدرت کے علم کی اہمیت
یہ جہان رنگ و بو کوئی راز نہیں بلکہ اس کی آفرینش کی غرض و غایت آشکار ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اسے مسخر کر کے خدا کے ایک سپاہی یا خادم کی حیثیت سے اپنی قوتوں میں اضافہ کرے اور خدا کی صفات حسن و کمال کو آشکار کرے۔ گویا کائنات ایک ساز ہے جس سے ایک دلکش نغمہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے تاروں کو جنبش دینے والا مرد مومن ہو۔ ذرا مرد مومن اس کے تاروں کو ہلا کر تو دیکھے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔
جہاں رنگ و بو پیدا تو مے گوئی کہ راز است ایں
یکے خود را بتارش زن کہ تو مضراب و ساز است ایں
قرآن حکیم نے مظاہر قدرت کو آیات اللہ یا خدا کے نشانات اس لئے قرار دیا ہے کہ ان میں خدا کی صفات کا جلوہ اور اس کی قدرتوں اور حکمتوں کا نور روشن ہے۔ لہٰذا اشیاء کے خواص و اوصاف یا سائنسی حقائق خدا کے اسرار میں سے ہیں۔
ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل والنھار لایت لا ولی الالباب
(بے شک آسمانوں اور زمین کے اندر جو کچھ پیدا کیا گیا ہے اور رات اور دن کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں)
لہٰذا جو شخص خدا کی آیت کا مشاہدہ اور مطالعہ خدا کی آیات سمجھ کر کرتا ہے وہ مومن ہے۔ سائنس کی بنیاد ہی خدا کا یہ حکم ہے کہ نظام فطرت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرو۔ قرآن میں ہے۔
انظروا ما ذا فی السموات والارض
(جو کچھ زمین اور آسمان میں پیدا کیا گیا ہے اسے دیکھو)
اقبال لکھتا ہے:
ہر چہ مے بینی ز انوار حق است
حکمت اشیا از اسرار حق است
ہر کہ آیات خدا بیند حراست
اصل ایں حکمت ز حکم انظر است
بندہ مومن پر حکمت اشیاء یا سائنس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کی حالت دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے بہتر ہو جاتی ہے اور خدا کی محبت اور معرفت کے ترقی پا جانے سے دوسرے انسانوں کے لئے اس کی محبت اور ہمدردی اور دلسوزی بڑھ جاتی ہے۔ جب خدا کی تخلیق کا علم اس کے آب و گل کو روشن کرتا ہے تو اس کا دل خدا سے اور زیادہ ڈرنے لگتا ہے۔
بندہ مومن ازو بہروز تر
ہم بہ حال دیگراں دل سوز تر،
علم چوں روشن کند آب و گلشن
از خدا شرمندہ تر گردو دلس
ظاہر ہے کہ ایسی سائنس ہماری خاک کے لئے کیمیا کا حکم رکھتی ہے کہ اس کو کندن بنا دیتی ہے لیکن خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے سے جو سائنس تعمیر ہوتی ہے چونکہ وہ خوب و زشت کے صحیح معیار سے عاری ہوتی ہے اور ظلم اور انصاف کے درمیان فرق نہیں کر سکتی۔ اس کی تاثیر دہریت پرستی، مادیت پرستی، قومی خود غرضی، کمزور اقوام پر ظلم اور سفاکی اور ان کو غلام بنانے اور لوٹنے کی کوشش بد اخلاقی اور بے حیائی، بین الاقوامی مناقشات اور ہولناک عالمگیر لڑائیوں اور ان کے دوران میں ہیروشیما اور ناگاساکی ایسے پر امن شہروں کی تباہی کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم مغرب میں بے خدا سائنس کی اس تاثیر کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ افرنگیوں کی سائنس ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے نوع انسانی کی ہلاکت کے در پے ہے۔ یورپ کا گرا ہوا قانون اخلاق اور اس کی بے خدا سائنس افسوسناک ہیں۔ عقل جب خدا کی محبت کے تابع رہے تو ایک بلند پایہ روحانی فعلیت ہوتی ہے اور جب خدا کی محبت سے آزاد ہو جائے تو شطنیت بن جاتی ہے۔ مسلمان جو روح اور جسم کی ضرورتوں میں امتیاز کر سکتا ہے اس کا فرض ہے کہ مغرب کی اس بے خدا تہذیب کے طلسم کو توڑ ڈالے۔
علم اشیاء خاک ما را کیمیا است
آہ در افرنگ تاثیرش جداست
عقل و فکرش بے عیار خوب و زشت
چشم او بے نم دل او سنگ و خشت
دانش افرنگیاں تیغے بدوش،
در ہلاک نوع انسان سخت کوش،
آہ از افرنگ و از آئین او!
آہ از اندیشہ لا دین او!
اے کہ جان را باز مے وانی ز تن
سحر ایں تہذیب لا دینی شکن
عقل اندر حکم دل یزدانی است
چوں زول آزاد شد شیطانی است
اہل مغرب نے مادی علوم میں یہاں تک ترقی کی ہے کہ اب وہ ماہ و پروین پر کمندیں ڈال رہے ہیں اور وہ وقت بھی آ پہنچا ہے جب انسان چاند کی سطح پر نازل ہو گیا ہے لیکن جب تک انسان کی یہ ترقی یافتہ عقل خد اکی محبت کے ولولہ کے ساتھ شریک کار نہیں بنتی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
یہ عقل جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
شریک شوزش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
صحرا نشینوں کی دانہ کاری
سائنس فرنگیوں کے گھر پیدا نہیں ہوئی اس کی ا صل کائنات کے متعلق نئے نئے حقائق کو دریافت کرنے کا ذوق ہے جوہر انسان کی فطرت میں ہے۔ جو شخص بھی مشاہدہ اور مطالعہ قدرت سے اس ذوق کی تشفی کا اہتمام کرے گا وہی سائنس دان بن جائے گا خواہ وہ مغرب کا رہنے والا ہو یا مشرق کا۔ اور پھر تاریخ کے حقائق بتا رہے ہیں کہ سائنس تو ایجاد ہی مسلمانوں کی ہے۔ جن کے ذوق دریافت کو قرآن نے معرفت حق تعالیٰ کے ایک ذریعہ کے طور پر اکسایا اور یہ کہہ کر اس کی راہ نمائی کی کہ اس کے نتیجہ کے طور پر تمہیں خدا کا عرفان حاصل ہو گا۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم پھر اپنی ایجاد کے ساتھ شغف پیدا کریں لیکن اس کو خدا کے عقیدہ سے الگ رکھنے کا جرم کر کے مغرب کی لادینی تہذیب کے فروغ کا سبب نہ بنیں کیونکہ یہی لادینی تہذیب ہے جس نے مسلمانوں کے لئے بحیثیت مسلمان کے زندہ رہنا محال کر دیا ہے۔ اس نے کئی فتنے پیدا کئے ہیں اور مسلمانوں کو خدا سے بیگانہ کر کے پھر نیشنل ازم، عرب ازم، کمیونزم اور ایسے ہی دوسرے نو تراشیدہ بتوں کی پرستش پر مائل کر دیا ہے۔ گویا حرم کعبہ میں پھر لات اور عزی کو لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اس تہذیب کی بے خدا سائنس نے دلوں کی آنکھوں سے نور زائل کر دیا ہے۔ اور روحوں کو خدا کی محبت کے آب حیات سے محروم کر کے تشنگی سے مار ڈالا ہے۔ اس نے دلوں سے خدا کی محبت کا سوز ہی رخصت نہیں کیا۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ خود دلوں کو ہی جن میں خدا اور انسان کی محبت رہتی ہے۔ پیکران گل سے غائب کر دیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ دور حاضر کا انسان محض حیوانات کی سطح پر آ گیا ہے اور نیک و بد اور زشت و زیبا میں فرق نہیں کر سکتا۔
حکمت اشیا فرنگی زاد نیست
اصل او جز لذت ایجاد نیست
چوں عرب اندر اروپا پر کشاد
علم و حکمت را بنا دیگر نہاد
دانہ آن صحرا نشیناں کاشتند
حاصلش افرنگیاں برداشتند
ایں پری از شیشہ اسلاف ماست
باز صیدش کن کہ اواز قاف ماست
لیکن از تہذیب لادینی گریز،
زانہ او با اہل حق و ارد ستیز
فتنہ ہا ایں فتنہ پرداز آورد،
لات و عزی در حرم باز آورد
از فسونش دیدہ دل نا بصیر
روح از بے آبیے او تشنہ میر
لذت بے تابی از دل مے برد
بلکہ دل از پیکر گل مے برد،